اسلام
January 08, 2021

صلہ رحمی

صلہ رحمی خاندانی اور سسرالی تعلق داروں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہئے کہ جس سے رشتہ داری کا تعلق مضبوط ہو. اس طرح کرنے سے بہت بڑی خوشحالی نصیب ہو جاتی ہے. رشتے داروںسے مراد سگے رشتے دار ہیں۔ ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ بعض علماء نے اس سبب کو رزق کے حصول میں پہلا نمبر قرار دیا ہے۔ رشتے داروں سے مراد خالہ، ماموں، چچا ،تایا اور پھوپھی وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ صلہ رحمی سے مراد برابری کا معاملہ کرنا ہرگز اس میں شامل نہیں ہے یعنی اگر انہوں نے ہدیہ پیش کیا تو آپ نے بھی پیش کر دیا اگر کسی رشتے دار نے آپ کو دعوت دی تو آپ نے بھی بدلہ اتارنے کی غرض سے اسے بلا لیا اس طرح کرنا تو لین دین کہلاتا ہے نہ کہ صلہ رحمی۔ اس کی مثال تو ایسی ہوگئی کہ جیسے ھم نے کسی دکاندار کو کچھ پیسے دیئے اور اس نے پیسوں کے عوض میں کچھ سامان دے دیا اور بس۔ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی تمہیں نہ دے تم اس کو دو کوئی رشتہ دار تو میں نہ پوچھے تم اس کودو۔ وہ تم سے سلام و کلام تک کرنا پسند نہ کرے مگر تمہیں جب موقع مل جائے تم اسے سلام بھی کرو، خیریت بھی دریافت کرو، ضرورت پڑنے پر اس کے کام بھی آؤ ۔ اس کی برکت سے تمہارے رزق اور مال میں بے پناہ برکت نصیب ہو جائے گی۔ صلہ رحمی کرتے ہوئے شرعی حدود پامال کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ہرگز صلہ رحمی میں داخل نہیں ہوگا بلکہ الٹا گناہ ہوگا کیونکہ شرعی پردہ مرد عورت دونوں پر فرض عین ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں احکامات الہیہ کو توڑ کر حقوق العباد کی ادائیگی نہیں سکھائی گئی ہے اور نہ ایسا کرکے عملی طور پر دکھایا گیا ہے۔ یہ ھمیں دھوکا لگ گیا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کرحقوق العباد کر ادا کرنا۔

اسلام
January 08, 2021

حقیقی بادشاہ اور اس کا ورلڈ آرڈر۔۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم قارئین کرام اللہ رب العالمین نے نے قرآن پاک میں میں متعدد یار متکبرین کا تذکرہ کیا ہے ہے جنہوں نے اپنے ادوار میں اللہ رب العالمین کے مقابلے میں میں خدا ہونے کا دعوی تھک کر دیا یا اللہ رب العالمین کے مقابلے میں میں لوگوں کو اپنے سجدے کی دعوت دے دی فرعون کا تذکرہ اٹھائے ہم ان کا تذکرہ اٹھائے آئیے اسی طرح طرح بڑے بڑے متکبرین ین جنہوں نے اللہ کی دی ہوئی اس زندگی میں میں اپنے آپ کو اللہ ہی کے مقابلے میں میں کھڑا کر لیا اور تکبر کر کے زندگی گزاری گزاری لیکن بالآخر ہر ایک ازلی حقیقت جو اللہ نے موت کی شکل میں بنائی ہے جو ہر انسان کو کو آ آ کے رہے گی اس کے آگے جھکنا پڑا اور اور ذلت کی موت ان کو نصیب ہوئی اللہ رب العالمین نے نے ملک برین کو ان کے انجام تک پہنچا کر کے ایک سبق دیا ہے ہے کہ لوگوں کو اس کائنات کا حقیقی بادشاہ ایک اللہ ہے اس کے علاوہ وہ سب اس کے ماتحت ہیں ہیں اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہیں ہیں اور وہی سب کے نفع نقصان کا مالک ہے ہے حال ہی میں میں کرونا وائرس آپ سب کے سامنے نے اس کی تفصیلات موجود ہیں کہ کیسے ایک ایک ننھا سا وائرس اس کی انسانوں کو نگل گیا یا اور اور موت تک اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ بیمار ہیں ہیں اور اب بھی کئی ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہیں ہے دنیا کی تجارتی بند ہوگی یدنیا کے فلائٹ آپریشن بند ہوگئے گئے دنیا کی گاڑیاں بند ہوگئی دنیا کا ملنا بند ہوگیا یا کاروبار ٹھپ ہو گئے تجارتی بند ہوگی گی اور ایک ورلڈ آرڈر کی شکل میں اللہ رب العالمین نے انسانوں کو جھنجوڑا نہ دیکھو تم دنیا میں جتنی بھی ترقی کر لو جتنی بھی سائنسی ایجاد کر لو یہ سب آپ نے تمہیں اللہ نے عطا کی ہیں اور اللہ ہی ہے جس نے تمہیں اور جس سے تم نے اتنی ایجادات کرتے ہو ہو اور ایجادات کرنے کے بعد تم یہ سمجھتے ہو کہ میں قرآن کی ضرورت نہیں رہی اب ہمارے لئے بے معنی ہے اللہ یا تم اپنی اللہ کے قانون کی ضرورت نہیں یہی انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو سے بالاتر سمجھتا ہے اور یہ سمجھ بیٹھتا ہے بڑی عقل ہے میں ہی اپنی زندگی کے سارے فیصلے خود کر سکتا ہوں ہو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہوں میرے اوپر کوئی روک ٹوک نہ ہو کوئی قدغن نہ ہو قرآن پاک میں بڑا واضح طور پر ارشاد فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے ہے اللہ نے ایسے شخص کو گمراہ کر دیا ہےاور اس کو اللہ رب العالمین نے اس کے دل پر مہر لگا دی ہے یاد رکھیے اللہ رب العالمین کے سامنے ایک مسلمان ہر حال میں جواب دے ہے ہے اس کی زندگی چاہے ایک سو سال سے بھی زیادہ ہو جائے وہ اپنے ایک ایک لمحے کا اللہ کے ہاں جواب دے ہے اور اپنی زندگی کا حساب دینا پڑے گا لیکن وہ اللہ کی تابعداری میں گزرے اپنے آپ کو عقل نہ سمجھے عقل نہ سمجھے اللہ کے احکامات کی تابعداری کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دے اور کتاب و سنت پر عمل کر کے اللہ رب العالمین کو راضی کر لے وہ اللہ ہی ہے جو حقیقی بادشاہ ہے دنیا کی بادشاہت ختم ہونے والی ہیں وہ اللہ ہے جو ازل سے لے کر اب تک ہے اس کی ذات ہمیشہ زندہ رہنازندگی کی شکل میں بہترین زندگی عطا کرتا ہےاللہ انسانوں کو عقل شعور سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے جب انسان کچھ نہیں ہوتا اللہ اسے بہترین تخلیق فراہم کرتا ہے اور جب انسان تھوڑا سا چلنے پھرنے لگتا ہے تو یہ سمجھتا ہے مجھے اللہ کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ یہ سمجھتا ہے اب میں اپنی من مرضی کروں گا اور اللہ چاہتا ہے ناراض ہو جائے اپنی خواہشات کا تابعدار بن کر زندگی گزاروں گا جب یہ سوچ پیدا ہوجائے تو محترم قارئین کرام پر انسان کو گمراہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا یاد رکھیے انسان مسلمان ہو تو جب وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کے لیے یہ فرض ہے کہ ہر حکم میں وہ اللہ کی تابعداری کرے کتاب و سنت پر عمل کرکے زندگی گزارے اپنی اصلاح کرے اپنے آپ کو اللہ کا محتاج سمجھے نہیں تو وہی حال ہوگا جو ہوا اور لاکھوں کروڑوں لوگ جو اس سے متاثر ہوئے جن کو سانس لینا دشوار ہو گیا اور اللہ اپنا ورلڈ آرڈر تو جاری کرتا ہے ہونے کا ثبوت تو پھر انسانوں کو دیتا ہے پھر اللہ اپنے خالق و مالک ہونے کا جو اللہ کا دعوی ہے اللہ اسے تو پھر پورا کرتا ہے اس لیے توجہ کے ساتھ اطاعت گزاری کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے

اسلام
January 07, 2021

عصاءموسی

یہ موسی علیہ السلام کی مقدس لاٹھی ہے۔اس کےذریعے آپ کےبہت سے معجزات کاظہورہواجن کوقرآن مجید نےمختلف عنوانات کے ساتھ بار بار بیان فرمایا۔ اس مقدس لاٹھی کی تاریخ بیت قدیم ہے۔یہ لاٹھی حضرت موسی علیہ السلام کے قد کےبرابر دس ہاتھ لمبی تھی۔اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو کہ رات کو مشعل کی طرح روشن ہوجایا کرتی تھیں۔ یہ لاٹھی جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام جنت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ حضرت آدم کےبعد یہ مقدس اعصاءانبیاء کرام کو یکے بعد دیگرے بطور میراث ملتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ملا جو کہ قوم مدین کے نبی تھے۔حضرت موسی علیہ السلام مصر سے ہجرت کرکے مدین آگئے تو یہیں پر حضرت شعیب کی صاحبزادی کا نکاح آپ سے ہو گیا۔آپ دس سال تک حضرت شعیب کی خدمت میں رہے اور ان کی بکریاں چراتے رہے۔حضرت شعب علیہ السلام نے حکم خداوندی کے مطابق آپ کو یہ عصا عطا فرمادیا۔ عصا اژدھا بن گیا۔ فرعون نے موسی علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے میلہ لگایااپنے دربا میں جادو گر جمع کیے۔ اس میلے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنے جادو کے کرتب دکھانے کے لیے جمع ہوگیاتو دوسری طرف موسی علیہ السلام ان کا مقابلہ کرنے کےلیےتن تنہا ڈت گئے۔جادوگروں نے اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو پھینکا تووہ ایک دم سانپ بن کر پورے میدان میں پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں۔فرعون اور اس کے جادوگر اس کرتب کو دیکھ کراپنی فتح کے غرور میں بدنمست ہو گئے۔اور تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے۔ موسی علیہ السلام نےاللہ کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کوان سانپوں کے ہجوم میً پھینک دیاتو یہ لاتھی بہت بڑااژدھا بن گئی اور تمام سانپوں کو نگل لیا۔یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گرپڑے بلند آواز میں یہ اعلان کرنا شروع کردیاہم سب ہارون اور موسی کے رب پر ایمان لائے۔ بارہ چشمےجاری ہوگئے۔ جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا تو اللہ نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ قوم عمالقہ سے جہاد کرکے ملک شام کو ان کے قبضہ سے آذاد کرائیں چنانچہ آپ چھ لاکھ کی فوج لےکر جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔شام کی سرحد کے قریب پہنچ کر بنی اسرائیل پر قوم عمالقہ کا ایسا خوف پیدا ہوا کہ وہ ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیرلیا۔اس نافرمانی پر اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو یہ سزا دی کہ یہ لوگ چالیس برس تک میدان تیہ میں بھٹکتے پھرتے رہے اور اس میدان سے باھر نہ نکل سکے۔جب یہ لوگ بھوک اور پیاس سے بےقرار ہو گئے تو موسی علیہ السلام نے ان کےلیے دعا فرمائی تو اللہ نے ان کے لیے آسمان سے من سلوی اتارا۔جب کھانے کے بعد پیاس سے بےتاب ہونے لگے اور پانی مانگنے لگے حضرت موسی علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا ماردیا تو اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور بنی اسرئیل کے بارہ خاندان اپنے اپنے چشمے سے خود بھی پانی پینے لگےاوراپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے۔اور یہ سلسلہ پورے چالیس سال تک جاری رہا۔ یہ حضرت موسی علیہ السلام کا ایک عظیم معجزہ تھا جو کہ عصا کی وجہ سے ظہور میں آیا۔

اسلام
January 07, 2021

طاغوتی جال

اسلام و علیکم دوستو! ہر وہ سرکش قوت جو عبادت الٰہی کی راہ میں رکاوٹ ہو طاغوت کہلاتی ہے۔ ہمارے ارد گرد بھرپور طاغوتی قوت کا جال پھیلا ہوا ہے۔ دوستو ہم لوگ اسلام اور نیکی سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ درحقیققت یہی طاغوتی قوتیں ہمیں نیکی کرنے سے روکتی ہیں اور جب بھی ہم کوئی نیکی کا کام کرنے لگتے ہیں یہ ہمارے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ یہ ہمارا دل برائی کی جانب اس طرح مائل کر دیتی ہیں اور ہم ان میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ ہم نیکی کو بھول ہی جاتے ہیں اگر ہم اپنی روزمرہ کی ذندگی کا جائزہ لیں تو ہم دن میں کئی نیکیاں ان کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ اکثر اوقات نماز کا وقت ہوتا ہے اور ہم ٹی وی ڈراموں میں محو ہوتے ہیں، تو یہ ڈرامے بھی اس وقت طاغوت کا کام کر رہے ہوتے ہیں جو ہمارے نیکی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ہم نماز کو بھول کر ڈراموں میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ نماذ کا وقت کب نکل جاتا ہے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم اپنی فجر کی نماز کو محض نیند کا مزہ لینے کیلئے ترک کر دیتے ہیں۔ وہ نیند بھی اس وقت طاغوت ہوتی ہے جو ہماری نیکی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ ہم لوگ دن بھر اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ ہماری کئی نماذیں قضا ہو جاتی ہیں، اللہ ہمیں بار بار نیکی اور کامیابی کی طرف بولا رہا ہوتا ہے لیکن ہم اپنے کاموں میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ ہم اس کی پکار سن ہی نہیں پاتے۔ ہمارے وہ دن بھر کے کام کاج محض طاغوت ہوتے ہیں جو ہمیں نیکی کرنے سے روک رہے ہوتے ہیں۔ اصل کامیابی کی طرف تو ہمیں اللہ بولا رہا ہوتا ہے اور ہم اس کی پکار کو نظر انداذ کر کے اپنے کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں۔ بعد میں ہم اسی رب کی ذات سے اپنی کامیابی کیلئے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں…….. اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم کس چیز سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کس طرح اُنھیں چیزوں کو اپنے لیے طاغوت بننے سے روک سکتے ہیں۔ آج سے اپنے روزمرہ کے کاموں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایسی کون کون سی چیزیں ہیں جو ہماری نیکی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور ہمیں کامیابی سے دور کر رہی ہیں۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ الله مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں بانٹنے کا موقع دے۔(آمین)

اسلام
January 07, 2021

مسجدِاقصٰی

مسجدِاقصٰی مکہ اور مدینہ کے بعداس امت کے ہاں وہ تیسرامبارک مقام جوانبیاء کی سرزمین ہےاس کانام بیت المقدس ہے۔اس کرہ ارض پر مسلمانوں کاتیسرہ مقدس مقام مسجدِ اقصٰی ہے۔مسجدِ اقصٰی جس شہرکے اندرواقع ہےاُسےاحادیث اورتاریخ میں”بیت المقدس”کہا جاتاہے۔اسی طرح انجیل میں اس شہر کو”یروشلم”کہاجاتاہے۔مسجدِ اقصٰی قدیم شہر کےجنوب مشرق کی طرف ایک نہایت وسیع رقبےپرمشتمل احاطہ ہے۔اس احاطےکےگردایک مستطیل شکل کی شکوہ فصیل پائی جاتی ہے۔مسجد کے احاطے کی وسعت کا اندازہ اس سےہوتاہےکہ اس کارقبہ144دونم(1دونمبربرابرہے1000مربع میٹرکے)ہے۔اس احاطےمیں گنبدِ سخریٰ پایاجاتاہے۔ اس مسجد کو”قبلہ والی مسجد”کےنام سےبھی جاناجاتاہے۔مسجدِاقصٰی کایہ پورااحاطہ ایک ٹیلےنماجگہ پرواقع ہے۔جسے”موریا”کہاجاتا ہے۔مسجدِ اقصٰی فلسطین میں واقع ہے۔ صخریٰ مشرفہ(وہ چٹان جہاںمعراج کی رات رسولﷺنےاپنےقدم مبارک رکھےتھے)اس پورےاحاطےکی بلندترین جگہ ہے۔اسےمسجدِ اقصٰی کے مرکزی احاطےکی حیثیت سےجاناجاتاہے۔ مسجدِاقصٰی کی پیمائش: جنوب کی طرف281میٹر،شمال کی طرف310میٹر،مشرق کی طرف462میٹراورمغرب کی طرف491میٹرواقع ہے۔اس مسجد کی خاص بات یہ ہےکہ یہ مسجد آج بھی ویسی ہےجیسی پہلےتھی۔یعنی اسےمسجدِالحرام(مکہ مکرمہ)اورمسجدِنبوی(مدینہ شریف)کی طرح باربارتعمیرنہیں کیاگیاہے۔مسجدِ اقصٰی کی حدودآج بھی ویسی کی ویسی ہیں۔احاطہ اقصٰی کے14دروازےہیں۔ مسجدِ اقصٰی کرہ ارض کی ایک نہایت قدیم نماز گاہ ہے۔عبدالمالک بن مروان نے نہ ہی گنبدِصخریٰ کی بنیادرکھی اورنہ ہی اسےتعمیرکیا۔ مسجدِ اقصٰی کی بنیاد کس نے رکھی؟تاریخ میں یہی لکھاہےکہ بیت الحرام کی تعمیر کے چالیس سال بعد اللہ کےاس دوسرےگھرکی بنیادرکھی گئی۔یہ کام اللہ تعالٰی کےحکم سےکیاگیا۔یہاں پرنہ ہی کوئی ہیکل اور نہ ہی کوئی کلیساتعمیرہواتھا۔ایک مدت بعدحضرت ابراہیمؑ کی ہجرت اس طرف ہوئی جوانہوں نےبت پرستوں کے علاقے عراق سےکی تھی۔یہ علاقہ 1800سے2000قبلِ مسیح کاہے۔حضرت ابراہیمؑ نے بیت الحرام کی تعمیر کی اوراسے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر آباد کیا۔بعدمیں ان کے دوسرے فرزنداسحاقؑ اور پھران کےفرزندارجمندیعقوبؑ خطہ اقصٰی کی آبادی پر مامورہوے۔پھر سلیمانؑ کے ہاتھوں مسجدِاقصٰی کی تعمیر ایک ہزارسال قبل ِ مسیح ہوئی۔ سن15ھ،بمطابق636ءمیں حضرت عمرفاروقؓ جو کےمسلمانوں کےخلیفہ دوم تھے،اُنہوں نےمسجدِاقصٰی کو فتح کیا۔جو کے اُس وقت یہودیوں کے قبضےمیں تھی۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ایک عظیم فتح تھی۔جو لڑائی جھگڑے کے بغیر حاصل کی گئی تھی۔ اس دورمیں بیتُ المقدس کی تعمیر ہوئی۔پھر اموی دور میں گنبدِصخریٰ کی تعمیر ہوئی۔اموی دور میں یہ تعمیری منصوبہ تقریباََ 30سالوں میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔یعنی66ھ بمطابق685ء سےلےکر96ھ بمطابق715ءتک۔تب سے اب تک مسجدِاقصٰی اسی نقشےپرقائم ہے۔ فلسطین آج پھر یہودیوں کے قبضےمیں ہے۔آج پھراُسےعمربن خطابؓ جیسے حکمران کا انتظارہے۔آج پھر اُسے صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران کاانتظارہے۔

اسلام
January 07, 2021

جنت میں اللہ تعالی کا دیدار

اللہ تعالی کا دیدار کرتے وقت اہل جنت کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گےاس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اپنی رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے سورۃ قیامہ آیت نمبر 22 23جنت میں جنتی لوگ اس قدر واضح طور پر اللہ تعالی کا دیدار کریں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو واضح اور مکمل شکل میں دیکھا جاتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہ قیامت کے روز ہم اپنے رب کو دیکھے گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بادل نہ ہو تو کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت پیش آتی ہے لوگوں نے عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر اسی طرح بغیر کسی دقت اور مشقت کے تم کیا مت کے روز اپنے رب کا دیدار کروگے اسے مسلم نے روایت کی ہے حضرت صہیب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں چلے جائیں گے تو اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرمائیں گے تمہیں کوئی اور چیز چاہیے وہ عرض کریں گے یااللہ کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا کیا تو نے ہمیں آگ سے نجات نہیں دلائی پھر اچانک جلدی جنتیوں اور اللہ تعالی کے درمیان حائل پردہ اٹھ جائے گا اور جنتیوں کو اپنے رب کی طرف سے دیکھنا ہر اس چیز سے زیادہ محبوب لگے گا جو باغ میں محل اللہ تعالی جنت میں جنتیوں کو دے گے اسے مسلم نے روایت کیا ہے Also Read: https://newzflex.com/34906 اللہ کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ مسلم اللہ تبارک تعالی آپ کو اور مجھے قیامت کے دن اپنا دیدار نصیب فرمائے آمین ثمہ آمین

اسلام
January 07, 2021

حضرت ابو دجانہ رضی اللّٰہ عنہ کی شجاعت

حضرت ابو دجانہ رضی اللّٰہ عنہ بڑے بہادر،دلیر اور لڑائی کے میدان میں اگلی صفوں میں لڑنے والے مرد مجاہد تھے۔ غزوہ احد کی جنگ ان کی بہادری کے کارنامے اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں۔انہوں نے بدرواحد کے علاوہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت فرمائی۔احد کے دن رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٫٫اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا،، لوگ اس کے لئے آگے بڑھے لین آپ نے انہیں تلوار نہیں دی۔اتنے میں ابو دجانہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور پوچھا:اس کا حق کیا ہے، رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٫٫اس کا حق یہ ہے کہ اس سے دشمن کو اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے (اور دشمن دم دبا کر بھاگ جائے) چنانچہ ابو دجانہ رضی اللّٰہ عنہ نے آگے بڑھ کر رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے تلوار لی اور لال پٹی سر پر باندھ کر اکڑتے ہوئے دشمن کی صفوں میں جا گھسے۔رسول اکرم نے ان کی چال دیکھ کر فرمایا: ٫٫یہ ایسی چال ہے جو اللّٰہ تعالٰی کو سخت ناپسند ہے،مگر اس مقام پر نہیں۔،، رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی قبائل اسلام سے مرتد ہو گئے اور مسیلمہ کذاب ان کا لیڈر بن گیا،چنانچہ ان مرتدین نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔حضرت ابوبکر صدیق نے ان کے خلاف اعلان جہاد کیا۔مرتدین کی سر کوبی کے لئے جو لشکر روانہ ہو،اس میں حضرت ابو دجانہ بھی شامل تھے۔ یمامہ کی جگہ پر بنو حنیفہ کے مرتدین سے جو لڑائی ہوئی تھی،اس میں ابو دجانہ نے بہادری کے وہی جوہر دکھائے جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور میں دکھائے تھے۔ یمامہ میں ایک بڑے باغ کے درمیان قلعہ تھا جس میں مرتدین کافی تعداد میں جمع تھے،وہ قلعہ بند ہو کر لڑائی لڑ رہے تھے اور مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا رہے تھے۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی شخص قلعہ کے اندر کود جائے اور قلعے کا اندر سے دروازہ کھول دے تاکہ مجاہدین قلعے میں داخل ہو سکیں۔ حضرت ابو دجانہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: کسی طرح مجھے اٹھا کر قلعہ کے اندر اتار دو تاکہ میں اندر سےدروازہ کھول سکوں۔ساتھیوں نے انکار کیاابو دجانہ نے بڑے زور سے اپنے مطالبے کو دہرایا۔جب ادھر سے انکار ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور ساتھیوں کو مجبور کیا کہ انہیں لازماً قلعہ کے اندر اتارا جائے۔ چنانچہ ساتھیوں نے ان کو اٹھا کر قلعے میں اتارا۔جب انہوں نے دیوار سے چھلانگ لگائی تو ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ابو دجانہ نے ٹانگ کی قطعاً پرواہ نہ کی۔اپنی تلوار اٹھائی اور مرتدین سے اکیلے ہی قلعے کے اندر لڑائی شروع کر دی۔ وہ لڑتے ہوئے دشمنوں کو دروازے کی طرف لے آئے اور اچانک دروازہ کھول دیا۔ مسلمان بھی ادھر دروازہ کھلنے کا انتظار کررہے تھے۔وہ تیزی سے اندر داخل ہوئے۔ادھر ابو دجانہ اپنی ٹانگ کے درد کو چھپائے مسلسل لڑتے رہے۔ لڑائی کے دوران ان کی ٹانگ کثرت حرکت کی وجہ سے اور زیادہ خراب ہو گئی اور درد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ادھر مرتدین ان کی تاک میں تھے۔بلآخر یہ بہادر مجاہد زمین پر گر پڑے۔ کثرت سے خون بہنے کی وجہ سے وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہو گئے ۔

اسلام
January 07, 2021

فتح مکہ کا (ایک منظر)

فتح مکہ کا (ایک منظر) آج وہ دن آگیا تھا جس دن کے بارے میں الُٰلہ تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے نوید سنائی تھی۔مسلمانوں کے مختلف دستے مختلف راستوں سے فاتح کی حثیت سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ہر دستے کاایک سردار ہاتھ میں جھنڈا اٹھاۓ ہوئے تھا۔ان میں ایک انصاری سردار حضرت سعد رضی الُٰلہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ان کی ملاقات حضرت ابو سفیان سے ہو گئی۔حضرت نےان کو للکار کہا آج کا دن قتل اور خون ریزی کا ہے۔ یہ سن کر حضرت اب سفیان حواص باختہ ہو گئے۔اور بھا گتے ہوئے آقا دو عالمﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کرنے لگےیا ﷺ رسول اللہ کیا آپ نے اپنے ہی قبیلہ قریش کے بارے میں قتل کا حکم دے دیا ہے۔ آقا دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ہرگز نیں۔اس پر ابو سفیان نے حضرت سعد کے بارے عرض کیا ۔اور رحم کی اپیل کی۔جواب میں آقا دو عالمﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایامعافی اس کیلیے جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے اس کیلئے بھی معافی ہے جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے۔اس کیلئے بھی معافی ہےجو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے.مزید آپﷺ نے فرمایا قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔جو زخمی ہیں ان کو قتل نہ کیا جائےجو بھاگ جائے اس کا تعاقب نہ کیا جائےبچوں کو اور بوڑھے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے.عو رتوں کو قتل نہ کیا جائےغر ض کہ آپﷺ نے تما م دشمنان اسلام کو معان فرما دیا.اس عظیم فتح کے موقع پر ابو سفیان جس نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہ اُ ٹھا رکھی تھی۔معاف کردیا گیا۔ عکرمہ بین ابو جحل کو معاف کردیا گیا۔ زوجہ ابوسفیان جس نے آقا ﷺ کے چچا حضرت میر حمزہ رضی الُٰلہ تعالیٰ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا اس کو بھی معاف کردیا گیا.وحشی جس نے آقا ﷺ کی پیاری بیٹی حضرت زینب رضی الُٰلہ تعالیٰ عنہا کو اونٹنی سے گرادیا تھا جو اسی صدمے وصال فرما گئی تھیں معاف فرمادیا.قبیلہ حوازن کے 6 سردار آقا دو عالمﷺ کی خدمت میں رحم کی اپیل لے کر حاضر ہوئے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھےجنھوں نے آقا دو عالمﷺ کو وادئی طائف میں پتھر مار کر زخمی کیا تھا۔آپ ﷺ نے ان کو بھی معاف فرما دیا۔یہ وہ دشمنوں کیساتھ عظیم حسن سلوک تھا جس کی مثال دنیا پیش نہیں کرسکتی۔یہ صرف اور صرف اسی ہستی کا کمال ہو سکتا ہے جس کے بارے میں الُٰلہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کیلیے رحمت بنا کر بھیجا.دعا کہ الُٰلہ تعالیٰ ہمیں آقا دو عالمﷺ کے اسوہ کامل و حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق دے. (آمین)

اسلام
January 07, 2021

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لانے کا واقعہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جن کے پاک نام پر آج مسلمانوں کو فخر ہے اور جن کے جوش ایمان سے آج تیرہ سو سال بعد تک کافروں کے دل میں خوف ہے اسلام لانے سے قبل مسلمانوں کے مقابلہ اور تقابلی پہنچانے میں بھی ممتاز تھے نبی علیہ السلام کے قتل کے درپے رہتے تھے ایک روز کفار نے مشورہ کمیٹی قائم کی کوئی ہے جو محمد صل وسلم کو قتل کر دے عمر رضی اللہ انہوں نے کہا کہ میں کروں گا لوگوں نے کہا کہ بے شک تم کر سکتے ہو حضرت عمر رضی اللہ عنہ و تلوار لٹکائے ہوئے اٹھے اور چلیے اسی فکر میں جارہے تھے کہ ایک صاحب قبیلہ زہر کے جن کا نام سعد بن ابی وقاص ہے اور بعض نے اور صاحب بتایا ہے راستے میں ملا انہوں نے پوچھا کہ عمر کہاں جا رہے ہو کہنے لگا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی فکر میں ہو (نعوذ باللہ )سعد رضی اللہ انہوں نے کہا کہ بنو ہاشم اور بنو زہرہ اور بنو عبدالمناف سے کیسے بے فکر ہو گئے کہ وہ تم کو بدلے میں قتل کر دیں گے یہ جواب سن کر غصے سے لال ہو گئے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی بے دن ہو گئے مسلمان ہو گئے پہلے تم کو نمٹا دو حضرت سعد رضی اللہ انہوں نے بولا ہاں میں مسلمان ہوا ہو دونوں طرف سے تلوار سے چلنے والے تھے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے اپنے گھر کا خبر لو تیری بہن اور بیوی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کر غصہ اور بڑھ گیا اور سیدھا بہن کے گھر چلا گیا وہاں حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ زیادہ نہ ہو ان دونوں میاں بیوی کو قرآن پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بہت زور سے دروازے پر دستک دی ان کی آواز سے حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ تو جلدی سے اندر چھپ گئے مگر جلدی میں صحیفہ باہر رہ گیا جس پر قرآن پاک کی آیات لکھی ہوئے تھے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے اندر آئے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس سے بہن کی سر مارا تو اس سے خون بہنے لگا پھر اپنی بیوی کو داڑھی سے پکڑ کر پوچھنے لگا لگتا ہے تم بھی بےدین ہو گئے ہو تم کیا کر رہے تھے بہنوئی نے جواب دیا کہ ہم قرآن پاک پڑھ رہے تھے اپنی بہن کو بھی خوب مارا جب اس کی بہن چھڑا نے آگئی تو اپنی بہن کے منہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے خون آنے لگا بہن نے کہا صرف اس وجہ سے ہم لوگ مارے جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو گئے ہم مسلمان ہو گئے آپ سے جو ہو سکتے ہیں کرو اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نظر اس صحیفہ پر پڑی جو جلدی میں باہر رہ گیا تھا اور غصے کا زور بھی مار پیٹ سے کم ہو گیا تھا پھر بولنے لگا کہ اچھا مجھے دکھاؤ کیا ہے بہن نے جواب دیا کہ آپ ناپاک ہو اور نہ پاک اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بہت اصرار کیا مگر اس کی بہن نے اس کو ہاتھ لگانے نہیں دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے غسل کیا اور اس کو پڑھنے لگا جس میں سورہ سورہ طہ کے آیات لکھے ہوئے تھے اس کو پڑھتے پڑھتے اس کا دل نرم ہو گیا اور کہنے لگا کہ میرے کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کروں حضور علیہ السلام کی خدمت جا کے جمعے کو مسلمان ہوگئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے سے کافروں کے حوصلے پست ہونے لگے مگر پھر بھی کافروں کا زور بہت تھا .حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لانے کے بعد نماز کھولے عام پڑھنے لگی .حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا مسلمانوں کی فتح تھی اور ان کے ہجرت مدد تھی اور ان کی خلافت رحمت تھی

اسلام
January 07, 2021

دعا کی قبولیت

قرآن مجید میں فرمان الہی ھے:ترجمہ “اور تمہارے رب نے فرمایا ہے _مجھ سے دعا مانگا:: کرومیں تمہاری دعا قبول کروں گا _(المومن 60) ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ھیں “دعا عبادت کا مغزاور روح ھے”اور فرماتے ھیں _کہ”خداوند تقدیر کو لوٹانے کی کسی چیز میں سوائے دعا کے طاقت نہیں ھے_” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “دعا ہی عبادت ھے”_اور ارشاد فرمایا _”جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے نا خوش ھوتا ھے_ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے”_اے اللہ جو علم آپ نےمجھے عطا فرمایا اس سے نفع بھی دیجیئے اور مجھے ایسے علوم سے نواز دیجیئے جو میرے لیے نافع اور مفید ھوں _اور میرے علم میں خوب اضافہ فرما دیجئے اور ہر حال میں تمام تعریفیں آپ ہی کے لیے ھیں _” دعا کی قبولیت :دعا کی قبولیت کے لیے اول یہ کہ انسان کا کھانا ،پینا، پہننا وغیرہ سب حلال ھو_اگر حرام کا ایک لقمہ بھی ھو گا تو دعا قبول نہیں ھوتی_رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے_”مسافر کی دعا سفر کہ حالت میں بہت زیادہ قبول ھوتی ھے_ “دوم دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ خلوص دل سے دعا کی جائے_سوئم دعا کی قبولیت کے لیے ہمیں صبر کرنا چاہیے دعا کی قبولیت کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے”تم میں سے ہر ایک کو قبولیت دعا حاصل ھوتی ھے_ جب تک جلدی نہ کرےاور یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی مگر قبول نہیں ھوئ”چہارم دعا کی قبولیت کے لیے پختہ یقین سے دل سے دعا مانگی جائے_اگر پختہ یقین سے دعا مانگیں تو انشاءاللہ پوری ھو گئ_بندے پر فرض ھے کہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی حاجتوں کو ہمیشہ خدا سے مانگا کریں اللہ تعالی ہم سب کی دلی خواہشات اور دعاوں کو پورا کرے_آمین

اسلام
January 07, 2021

مجاہدینِ غزوہ ہند (پانچواں حصہ)

دوسرا راستہ چین سے لیکر قراقرم کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا،دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں داخل ہوتا تھا۔ہندوستان میں دریائے سندھ کی بندرگاہوں سے بازنطینی سلطنت،عرب تاجر اور دنیا کے دیگرعلاقوں کے بحری جہازسامان اٹھایا کرتے تھے۔مسلمان سلطنت،کہ جس نے اب شام کی فتح کے بعد بازنطینیوں کو بحیرہ روم میں مقید کر دیا تھا،کی ایک خواہش یہ بھی تھی کہ شاہراہ ریشم پر بھی مسلمانوں کا تسلط قائم ہو جائے۔اگرچہ مسلمانوں نے اپنی بندرگاہیں ہند کے جنوب میں سلیون،مالدیپ اور چین میں بنا لی تھیں،لیکن ابھی تک مسلمانوں کو پوری طرح شاہراہ ریشم کی تجارت پر اختیار حاصل نہیں ہوا تھا۔ ہندوستان کے بارے میں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ اس دور میں پورے ہندوستان پر کوئی واحد حکمران حکومت نہیں کرتا تھا۔پورا ہندوستان سینکڑوں راجوں اور مہا راجوں میں تقسیم تھا۔اس وقت جنوبی ہند یا سندھ کے علاقے کہ جہاں پر آج پاکستان قائم ہے،طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔یہاں چھوٹے موٹے راجے مہا راجے تھے کہ جو بنیادی طور پر بحری قزاق تھے۔طوائف الملوکی اور بے راہ روی کی وجہ سرے قزاقوں نے مسلمانوں کے بحری جہازوں اور تجارتی قافلوں کیلے مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دی تھیں۔ محمد بن قاسم محمد بن قاسم کی مہم بیھجنے سے قبل بھی حجاج بن یوسف نے سندھ کی طرف دو مہمات بیھجی تھیں کہ جن کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ایرانی سلطنت کے بچے کچے عناصر کہ جو سندھ کے ہندوحکمرانوں سے رابطے کر رہے تھے،کو روکا جا سکے۔ساتھ ہی ان کے خارجیوں کا بھی خاتمہ کیا جا سکےکہ جو ہند کے راجوں سے مدد کیلے یہاں پہنچ رھے تھے،اور ساتھ ہی ساتھ بحری قزاقوں کے خطرے سے بھی نمٹا جا سکے۔ان مہمات کیلے تمام مسلمان سلطنت سے مدد لی گئی تھی۔اس سلسلے میں عمان اور مکران کی مسلمانوں نے بھی مدد کی۔ مگر دونوں مہمات ہی کامیاب نہ ہو سکیں۔

اسلام
January 07, 2021

سب کچھ اللہ کےحکم سے چلتا ہے

رات آنے سے پہلے اندھیرا شروع ہوتا ہے اسلۓ آہستہ آہستہ دن کی روشنی ختم ہوتے ہے اور پھر مکمل اندھیرا آتا ہے ، اسمان میں چاند ستارے چمکتا ہوا نظر آتے ہیں اسلیۓ رات ختم ہونے کی بعد ایک بار پھر روشنی کا سلسلہ شروع ہوتا ہےاور دن کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سلسہ آتے جاتے ہے ہم روزانہ اللہ پاک کی بنائ ہوئ کائنات سے لطف اندوز ہوتے ہیں کبھی قدرتی روشنی تو کبھی قدرتی اندھیرا، کبھی اسمان میں بادل کی بنی ہوئ نظارہ تو کبھی بادل سے بنی ہوئ بارش ہم پر برساتی ہیں اس دونیا میں اللہ کی سو ا کوئ ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ نظام چلاسکے۔ معزز خواتین وحضرات اگر ہم اس بات پرغور کیجے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی حکم سے چلتے ہیں اور ہم اپنی آپ کی طرف دیکھ کر تو ہم کوئ چیز پیدا نہیں کرسکتے، اگر ہم چلتے ہیں تو اللہ کی حکم سے ، پیدا ہوتے ہیں اللہ کی حکم سے ، مرجاتے ہیں تو اللہ کی حکم سے حتی یہ کہ ہر چیز اللہ پاک کی حکم سے چلتے پھرتے ہیں ۔ ایک دن یہ دونیا بھی اللہ کی حکم سے ختم ہوگا اور ایک نئ زندگی شروع ہوگا جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔ ہمارا سارا عمل اس وقت کام میں آۓ گا اگر برا عمل ہم نے کیا ہوا تھا تو اسکا نتیجہ برا ہوگا اور اگر اچھا عمل کیا تھا تو نتیجہ بھی اچھا ہو گا، تو پھر ہم کیوں اپنی زندگی اللہ کی حکم کی مطابق گزار نہیں کرسکتے۔ ہم سب اس بات پر یقین کرتے ہے کہ بد کا انجام بد ہے تو ہم کیوں اچھے کام نہیں کرتے، ہم اس بات کا بھی دعوہ کرتے ہے کہ جنت مومنوں کیلۓ بنا ہوا ہے تو ہم سب کیوں مومن نہیں بنتے، اگر کوئ وقت کا بات کرے کہ قیمتی ہے تو ہم وقت کا قدر کیوں نہیں کرتے اور اپنا سارا زندگی فضول کاموں میں گزارتے ہیں ۔ کہنا کا مطلب یہ ہے کہ یہ سارا نظام اللہ کی حکم سے چلتے ہے بشک ہم سب ایک دن اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں اسلیۓ اللہ کی وحدانیت سے انکار مت کرے۔

اسلام
January 07, 2021

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غزوہ احد میں شہادت

حمزہ (رہ) 570 میں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سال قبل پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد عبد المطلب ہیں ، اور ان کی والدہ ہالہ بنت ووہیب ہیں ، جو رسول اللہ (ص) کی والدہ کی پھوپھی زاد بھائی تھیں۔ اسی وجہ سے ، حمزہ اپنی والدہ اور والد کے دونوں طرف سے رسول خدا (ص) کا رشتہ دار تھا۔ حمزہ پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ہونے کے علاوہ ان کا دودھ بھائی بھی تھا ، چونکہ ان دونوں کو ابو لہب کی نوکرانی نوکر سویبہ نے دودھ پلایا تھا۔ ایک ہی عمر کے گروپ میں ہونے کی وجہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حمزہ نے اپنے بچپن اور نوعمر دور ایک ساتھ گزارے تھے۔ احد کی جنگ سے پہلے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی کہ مکہ کے لوگ مدینہ کی طرف متحرک ہوگئے ہیں ، اور آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک میٹنگ کا اہتمام کیا تاکہ آنے والے مکہ والوں کے خلاف چلنے کے لئے مناسب ترین حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ حمزہ سمیت ایک گروپ نے استدلال کیا کہ بہتر تدبیر یہ ہوگی کہ شہر سے باہر جاکر کھلی جنگ میں حصہ لیا جائے ، جیسا کہ انہوں نے جنگ بدر میں کیا تھا۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور پر سوچا تھا کہ شہر کو اندر سے دفاع کرنا بہتر ہوگا ، لیکن انہوں نے حمزہ سمیت اپنے سرکردہ صحابہ کی مشاورت کے نتائج کا احترام کیا اور وہاں دشمن سے ملنے کے لئے مدینہ سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ احد کی جنگ کے دوران ، حکمت عملی کے مقام پر رکھے گئے تیراندازوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے احکامات کو نظرانداز کیا اور قبل از وقت اپنے عہدے چھوڑ دیئے۔ انتشار اور اعتکاف کے نتیجے میں حمزہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے دشمن کے حملے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہادری سے دفاع کیا۔ جب اس نے مسلمانوں کو بکھرتے ہوئے دیکھا تو حمزہ نے کہا: “میں اللہ اور اس کے نبی کا شیر ہوں۔ اے اللہ ، میں ابو سفیان اور اس کے آدمیوں کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں مسلمانوں کی غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں۔ ان الفاظ کے ساتھ ، اس نے مسلم فوجیوں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کی اور خود ہی لڑتے رہے۔ ادھر ہند کے ذریعہ کرایہ پر لیا گیا قاتل حمزہ کو قتل کرنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔ جب حمزہ جنگ سے مشغول تھا ، تو وہشی نے اپنا نیزہ پھینک دیا اور اسے مار ڈالا۔ جنگ کے دوران ، مکہ مشرکین نے مسلمانوں کی لاشوں کو توڑ ڈالا تھا کہ وہ آئے تھے۔ اس تخریبی کارروائی کو مسلہ کہا جاتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ حمزہ بھی اس کا شکار تھا اور مشرکین نے اس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کو اسی حالت میں دیکھا تو انھوں نے ان الفاظ پر اپنے غم کا اظہار کیا: ”آپ جتنی آفات کسی نے نہیں اٹھائی ، اور نہ کبھی ہوگا۔ کبھی بھی مجھے اتنا ناراض نہیں کیا۔ اگر ماتم جیسی کوئی بات ہوتی تو میں آپ کے لئے ماتم کروں گا۔ اس وقت خدا کی طرف سے ایک آیت نازل ہوئی ، جس نے رسول اللہ (ص) اور حمزہ کے کنبہ کو تسلی دی: “اور ان لوگوں کے بارے میں کبھی مت سوچو جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے پروردگار کے ساتھ زندہ ہیں ، ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے بخشا ہے ، اور ان کے بعد جو ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے ہیں ان کے بارے میں خوشخبری سناتے ہیں۔ نہ ان کے بارے میں کوئی خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (الغی عمران ، 169-170) حمزہ کی اسلام کے لئے سب سے بڑی خدمت اس کا بہادر اور بہادر کام تھا۔ اس کی زندگی اتنی دیر تک نہ چل سکی کہ اسے دوسرے مذہبی یا علمی تعاون میں حصہ ڈال سکے۔ اسی وجہ سے ، ہمارے پاس بہت ساری احادیث اس سے منتقل نہیں ہوئیں۔ ذرائع کا ذکر ہے کہ حمزہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل دعا کی منتقلی کی: “اے اللہ ، میں آپ کے سب سے بڑے نام اور آپ کی سب سے بڑی نیک خواہش کی خاطر دعا کررہا ہوں۔”

اسلام
January 07, 2021

نوجوان طبقہ کے مسائل کا حل

نوجوان طبقہ کے مسائل کا حل اسلای نقطہ نگاہ سے نوجوان نسل کو درپیش مسائل کی دلدل سے نکال کر جاره حق پر لا کھڑا کرنے کا بہترین حل ان کو بروقت مناسب رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیتا ہے۔ بشرطیکہ ان کو وہ تمام اسباب میسر آجائیں جن کو بروئے کار لا کر وہ شادی کے موقع پر نمبر وغیرہ کی شکل میں اٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں ارشاد نبوی ہے: اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جس کسی کو شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ نکاح آنکھوں میں شرم و حیا کے پیدا کرنے اور ستر کی صیانت و حفاظت کا اہم وسیلہ ہے۔ اور جو شخض شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمت نہ پا رہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ ان حالات میں اس کے لئے حیوانی خواہشات و جذبات پر قابو پانے کا بہترین ذریه ثابت ہو سکتا ہے اور بعض لوگ محض تعلیم کے منقطع ہو جانے کے خوف کے پیش نظر شادی کرنے میں تاخیر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ شادی تعلیم کے جاری رکھنے میں قطعا کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ کیونکہ اگر نوجوان کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے ہو گا اور اس کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرنے کی زمہ داری اس کے والد نے اٹھا رکھی ہو گی تو پھر بھلا اس صورت میں شادی تعلیم کے مسئلے کو جاری رکھنے میں کیونکہ رکاوٹ بن کی ہے۔ ای طرح اگر وہ بذات خود صاحب حیثیت یا اس کے بر سر روزگار ہونے کی وہہ سے اسے معقول آمدنی حاصل ہو رہی ہو تو بی شادی اس کی علمی ترقی کی راہ میں ہرگز حائل نہیں ہو سکتی۔ لہذا صاحب حیثیت اور خوش حال والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے سن بلوغت کو پہنچتے ہی بلا تاخیر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس کی شادی کر دیں کیونکہ اس کو شادی کے مقدس اور زمہ وارانہ بندھن میں باندھ کر اس کے اوقات کو مصروف کر دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ بوجہ تجرد فحاشی و بے حیائی کے اڈوں پر منہ کالا کر کے والدین کی نیک نامی شرافت اور شہرت کو زمانے بھر میں داغ دار کرتا پھرے۔ پس ایسے والدین جو مالدار ہونے کے باوجود بھی ان کی شادی کی طرف دھیان نہیں دیتے وہ اس صورت میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہی زیادتی کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے آپ پر بھی ظلم ڈھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اگر والدین کی یہ حالت ہو کہ وہ خوش حالی و فرائی کے باوجود بھی بچوں کی بروقت شادی کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں تو اس صورت میں اگر بچوں کی طرف سے حسن طلب کے ساتھ والدین کی توجہ اس جانب مبذول کرا دی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ اظهار مقصد کے لئے نہایت شائستہ اور مہذب پیرایہ انداز اختیار کیا جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاو کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ہر اس بات سے گریز کرنے کی کوشش کی جائے جو ان کے لئے دلی صدمہ اور زہنی اذیت کا باعث بن سکتی ہو۔ اور بے اصولی بات تو ہر شخص کو اپنے ذھن میں اچھی طرح جاگزیں کر لینی چاہیے کہ رب کائنات نے اس وقت تک کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جب تک کہ اس کی جگہ کسی دوسری چیز کو اس کے متبادل کے طور پر جائز قرار نہ دے دیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر دیکھئے کہ اللہ تعالی نے جہاں سود کو ناجائز قرار دیا ہے وہاں اس کی جگہ اس کے متبادل کے طور پر تجارت کو جائز و مباح ٹھڑایا ہے۔ اسی طرح حیوانی جذبوں کی تسکین کے لئے اگر بدکاری کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کے لئے نکاح کے جائز ذرایعہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ نکاح ہی ہے جس میں نوجوان طبقہ کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

اسلام
January 07, 2021

63 کلو کا قرآن مجید

دوستوں میں آپ کو ایک ایسی عورت کے بارے میں بتاؤں گا جو اپنی زندگی میں کچھ بڑا کام کرنا چاہتی تھی تو انہوں نے سوچا کہ میں کیا کروں تو ان کو وہ بڑا کام مل گیا جس سے انہیں دونوں جہانوں کی فلاح نصیب ہو گی کیوں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے 63 کلو کا قرآن مجید اردو ترجمہ کے ساتھ تیار کیا یہ عورت زمردخان جوکہ بلال کالونی کورنگی میں رہتی ہے انہوں نے اس قرآن کو بڑے دلکش انداز سے بنایا اس کو سفید کاٹن کے کپڑوں میں تحریر کیا اور اس کے کناروں میں ہرے رنگ کی خوبصورت بارڈر لگائیں اس قرآن مجید کو تیار کرنے میں انہیں سخت لیبان ساڑھے سات سال لگیں اس کام کو کرنے کے بعد زمردخان اپنے آپ کو بہت زیادہ خوش قسمت عورت سمجھتی ہیں کہ انہوں نے اس جہان میں دونوں جہانوں کی بھلائیاں حاصل کر لی کیونکہ انہوں نے ایسا کام کرلیا جو کہ ہمیشہ کے لیے ان کے لیے صدقہ جاریہ کا کام کرے گی تو دوستو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی رضاۓ الہی کی خاطر اس دنیا میں کچھ ایسا کام کر جائیں کہ اس سے لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ہو ہمیں بھی فائدہ ملتا ہے زمرد خان کے اس کارنامے سے ان کے گھر والے بہت خوش ہیں بالخصوص ان کے بھائی ثناءاللہ خان دو بہت ہی زیادہ خوش ہیں ثناء اللہ خان صاحب کا کہنا تھا کہ زمرد کو یہ کام بہت زیادہ پسند تھا وہ رات بھر جاگ کر اس قرآن مجید کو تیار کرنے میں لگی رہتی تھیں اور بل آخر شب و روز جاگ کر میری بہن نے قرآن مجید کواپنےہاتھوں تیار کرہی لیا ہے اس سے نہ صرف میں بلکہ ہمارے تمام گھر والے اور تمام لوگ متاثر ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ دور دور سے اس قرآن کو دیکھنے آتے ہیں اور اسے پڑھتے بھی ہیں اللہ پاک ہم سب کو قرآن پڑھنے اور اس کو پڑھ کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

اسلام
January 07, 2021

<<{ تحفظِ ناموسِ رسالت ہم سب کی ذمہ داری}<<

»(تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ ہم سب کی ذمہ داری)» تمام تعریفیں اس رب العالمین کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے. جس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی کامل.درجات کے لحاظ سے بعض انبیائے کرام علیہ السلام کو بعض پر فضیلت حاصل ہے. اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ ہیں.. تاجدارِ دوعالم سرورِ کونین محمدِ مصطفٰے ﷺ کی ناموس کی خاطر پاکستان میں بہت کام ہورہا ہے یہ ہمارے نبی ﷺ کا حق ہے ہم پر زمےداری ہے ہماری کہ جو بھی ہماری بساط کے مطابق زبان سے مال سے جان سے جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں ادا کرکے اس میں کمی نہ کریں اور تاجدارِ دوعالم سرورِ کونین محمدِ مصطفٰے ﷺ کی شفاعت کے امیدوار رہیں. ہمیں نبیﷺ کی شفاعت کی ضرورت ہوگی میدان حشر میں میدان حساب میں بھی اور جنت میں داخلے کے وقت بھی ہمیں ہر جگہ نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کی ضرورت ہے. حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے یہاں ایک اور بھی بات قابلِ ذکر ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی کسی بھی ایک سنت کو زندہ کرنے کا ثواب سو شہیدوں کے برابر ہے. نبی اکرم ﷺ کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے والدین اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں. اس سے واضح ہوا کہ حضور ﷺ کہ حضور ﷺ اگر کسی شخص کو حکم دیں کہ وہ اپنے کافر والدین یا کافر اولاد کو قتل کردے تو اس پر لازم ہوگا کہ وہ آپ کے حکم کو ترجیح دے اگرچہ بظاہر اس کی طبعیت نہ بھی چاہے.اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کفار کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ شہید ہوتا ہے. »( تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ ہم سب کی ذمہ داری)» آپ ﷺ سے محبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کہ محبت ایمانی ہو اور یہ محبت توقیر احسان اور رحمت سے حاصل ہوتی ہے. جس شخص کا ایمان کامل ہوگا وہ نبیﷺ کی محبت کو ترجیح دے گا اگرچہ اس پر غفلت کے پردے ہی کیوں نہ چھائے رہیں. مغربی معاشرہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتا. وہ سمجھتا ہے کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے دلوں سے ان کے پیغمبر ﷺ کی عظمت اور محبت کو نکال دے گا.. لیکن یہ اس کی بھول ہے مسلمان ہزار گناہ گار سہی سیاہ کار سہی دنیا دار سہی لیکن جب دل کا سودہ کرنے کی باری آئے تو مدینے کی گلی میں کرتے ہیں اور سب کچھ لٹانے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ حق تو یہ تھا کہ حق ادا نہ ہوا…. »( تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ ہم سب کی ذمہ داری)» ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں کہ محبت رسولﷺ رکھنے والوں نے آپ کی ظاہری حیات میں بھی آپ ﷺ کے دیدار کو اولاد پر ترجیح دی.اور اپنی جان کو ہلاکت کا خوف بھی ہو تو پھر بھی محبت رسولﷺ کا متوالا یہی کہتا ہے کہ کاش مجھے ایک مرتبہ اپنی زندگی میں حضورﷺ کے روضہ مطہرہ کی زیارت نصیب ہوجائے پھر موت آتی ہے تو آتی رہے کیونکہ مقصد حیات حاصل ہوگیا- یہ مقام نبی کریم ﷺ کی قدرومنزلت جاننے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے. ہماری جانیں ہمارے ماں باپ ہماری نسلیں ہماری زندگی کا ایک ایک گوشہ حضورﷺ کے نام پر قربان ہے. میرے نبیﷺ کا نام کل بھی اونچا تھا اور آج بھی اونچا ہے رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہوجائیں گے جلنے والے

اسلام
January 07, 2021

اسلام کا سیاسی نظریہ اور اہلِ سنت و جماعت

*#اسلام کا سیاسی نظریہ اور اہلِ سنت و جماعت#* *سلطنتِ عباسیہ* ہو ، یا *سلطنتِ سلجوقی* ، یا *سلطنتِ ایوبی* ، یا *سلطنتِ عثمانیہ* ، یا *سلطنتِ مغلیہ* ، سب اہلِ سنت و جماعت نے چلائیں ۔ پھر پچھلے تین سو سال سے سنی لوگوں میں سیاست سے دور رہنے کا منجن بیچا گیا جس کے پیچھے کئی سازشیں تھیں ۔ اسلام دشمن جانتے تھے کہ جس طرح مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نیچے گرنے کے بعد پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ایک نئی سلطنت قائم کردیتی ہے ، اس طرح تو ہم اسلام کو دبا نہیں سکیں گے ۔ اس بار انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی نظریات پر وار کیا اور دین کو اپنے گھر تک پھر اپنی ذات اور بعد میں اپنی ذات سے بھی دور نکال دیا ۔ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کو ختم کیا اور مسلمانوں کو سیاست میں آنے سے ہی ڈرا دیا ۔ لیکن اللّٰہ کا شکر کہ ایک مرد مجاہد اہلِ سنت و جماعت میں سے پھر اٹھا اور سنیوں کو سیاست کے نظریہ پر ایک بار پھر اکٹھا کیا ۔ اس نے کہا کہ بغیر طاقت کے اسلام کا تصور نہیں ۔ آپ کے پاس طاقت ہو گی تو آپ اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کر سکیں گے اور تب ہی مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد ہو سکتی ہے ۔ صرف ذبانی یہ کہ دینے سے کہ سود حرام ہے اور اللّٰہ و رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے ، سے سود نہیں رکتا جب تک آپ کے پاس قوت و طاقت نہ ہو سود کو روکنے کی ۔ اس مرد مجاہد کو دنیا *خادم حسین رضوی* کے نام سے یاد کرتی ہے اور اللّٰہ کے کرم سے یاد کرتی رہے گی ۔ آمین ۔

اسلام
January 07, 2021

مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق

مسلمانوں کے مسلمانوں پر حقوق حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں کے مسلمانوں پر پانچ حقوق ہیں پہلا حقوق سلام کا جواب دینا, دوسرا حقوق مریض کی عیادت کرنا ، دعوت کو قبول کرنا، جنازے میں شریک ہونا اور چھینک کا جواب یر حمک اللّٰہ کہہ کر دینا۔ سلام کا جواب دینا مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کریں ۔ مصافحہ کریں ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے ان کے مصافحہ کرنے کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے ہیں تو ان کے بچھڑتے ہی ان کےگناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ سلام میں پہل کرنی چاہیے اس سے دوسرے کے دل میں آپ کے لیے عزت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہنے سے نیکیاں بھی ملتی ہیں۔ ہر لفظ پر 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ جب ہم کسی کو اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتے ہیں تو جواب میں مسلمان بھائی آپ کو بھی وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتا ہے۔ آپ اس کو سلامتی رحمت اور برکت کی دعا دیتے ہیں وہ بھی آپ کو یہی دعا دیتا ہے۔ مریض کی عیادت کرنی چاہیے جب کوئی بیمار ہو تو ہمیں اس کی عیادت کے لیے جانا چاہیے ہمیں مریض کے لیے دعا کرنی چاہیے اللّٰہ تعالی آپ کو شِفاء کاملہ عطا کریں اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ بنائیں۔ ہمیں مریض کو تسلی دینی چاہیے۔ مریض کے سامنے کوئی بھی ایسی بات نہ کریں جو اس کے ذہہن میں طرح طرح ہے خیالات پیدا کریں۔ جو شخص نیک نیت سے مریض کی عیادت کرنے جاتا ہے 70 ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ ہمیں مریضوں کا ہر طرح سے خیال رکھنا چاہیے ان کے آرام کا ان کی خوراک کا۔ جنازے میں شریک ہونا مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں شرکت کریں۔ اور عبرت حاصل کریں کہ کل کو ہمارا وقت آئے گا ہمیں نیک کام کرنا چاہیے جو کل کو ہماری نجات و بخشش کا ذریعہ بنے۔ اپنے عزیز واقارب اور بالخصوص ان لوگوں کے لیے دعا کریں جن کے پیچھے کوئی ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہے۔ اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کریں جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دعوت پر بلائیں تو اس کی دعوت کو قبول کرنا چاہیے اور کوئی تحفہ بھی پیش کر دیں ۔ چھینک کا جواب یر حمک اللّٰہ کہہ کر دینا چاہیے جب کوئی مسلمان کو چھینک آئے تو اسے چاہیے جواب میں الحمد اللّٰه کہے اور سننے والا اس کے جواب میں یر حمک اللّٰہ کہے۔ اگر کسی انجان عورت کو چھینک آئی اس نے الحمدللہ کہا جوابا اسے دل میں یر حمک اللّٰہ کہنا چاہیے۔ اسی طرح عورت کو بھی مرد کی چھینک کا جواب دل میں دینا چاہیے۔

اسلام
January 07, 2021

سوال وہ کونسا عمل ہے جو انسان کو معلوم نہیں ہےاور فرشتوں نے بھی نہیں لکھا ہے اور مسلمان اسی عمل سے جنت جائیگا ؟

سوال وہ کونسا عمل ہے جو انسان کو معلوم نہیں ہےاور فرشتوں نے بھی نہیں لکھا ہے اور مسلمان اسی عمل سے جنت جائیگا ؟ الجواب۔ایک روایت میں ہے کہ ایک بندہ قیامت کے دن اللہ ربّ العزت کے حضور پیش کیا جائے گا اس کے حق لینے والے بہت ہوگے جب ان کو ان کاحق دیا جائے گا تو اس بندے کے سارے عمل ہی ختم ہو جائے گےدیکھنے والے یہ سمجھے گے کہ یہ بندہ اب ضرور جہنم میں جائے گا مگر پروردگار عالم فرمائیں گے اس کا نامہ اعمال اگر چہ لوگوں میں تقسیم ہوگے لیکن یہ بھی لکھا ہواہےکہ اس بندے کی نیت سب کیلئے ہمیشہ بھلائی کی ہوتی اس بندے کے بھلائی کی نیت مجھے اتنی پسند آئی کہ اس پر میں نے اس بندے کی بخشش فرمادی ایک اور روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص نامہ اعمال میں حج کا عمرے کا اور نہ معلوم کتنی تہجد کا ثواب لکھا ہوگا وہ بڑا حیران ہوگا کہ ربّ کریم میں نے تو حج کیا ہی نہیں عمرہ بھی نہیں کیا یا تو نے جتنے لکھے ہوئے ہیں یا میری عمر تو کم تھی اور حجوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے اس کے جوا ب میں اس کو کہا جائے گا کہ تم نے عمل تھوڑا ہی کیا تھا لیکن تمہارے دل کے اندر ہر سال اللہ کے دربار پر حاضری دینے کی نیت ہوتی تھی یا ہر رات تہجدپڑھنےکی نیت ہوتی وہ جو تم کہتے تھے اے کاش اگر میرے بس میں ہوتا اگر وسائل ہوتے اگر میرے حالات موافق ہو تے تو میں حج اور عمرہ کرتا وہ فرشتے تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دیا کرتے تھے(حوالہ اصلاح دل ص ۴۱) اسلئے مناسب ہے کہ ہر مسلمان خیر کی نیت کرے مگر کھبی وقت آیا ہے پر عمل کرنا ہے۔ (اِنّماَ الْاَ عْمَالُ بِالنِّيَّاتِ)سارے اعمال نیت سے ہیں ایک دوسری حدیث میں فرمایا)نِيَۃُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِّنْ عَمَلِهِ) ترجمہ۔مومن کی نیت اس کے عمل سے بھی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔

اسلام
January 07, 2021

فرعون کی لاش عبرت کا نشان کیسے بنی

جب بھی اللہ کی زمین پر کسی انسان نے تکبر کیا، ظلم کیا۔ تو اللہ نے اسے نشان عبرت بنا دیا۔ تو ویسے ہی حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں، جو مصر کا بادشاہ بنا۔ اس کا نام ولید تھا۔ جس کو پوری دنیا فرعون کے نام سے جانتی ہے۔ وہ انسانوں پر ظلم کرتا تھا۔ اور جو لوگ غریب تھے۔ ان کا حق کھاتا تھا۔ ان سے سخت مزدوریاں کرواتا تھا۔ اور کم اجرت دیتا تھا۔ اور جو انسان اس کا غلام نہیں بنتا تھا وہ اس کو قتل کر دیتا تھا۔ فرعون کو اللہ کا حکم پھر اللہ نے اپنے نبی حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا۔ کہ اے موسیٰ! فرعون تک میرا پیغام پہنچاؤ۔ کہ وہ انسانوں پر ظلم نہ کرے۔ ورنہ اللہ کا عذاب اس کو لے ڈوبے گا۔ جب اللہ کے نبی نے فرعون کو اللہ کا پیغام دیا۔ تو وہ اس کا مذاق بنانے لگا۔ اور کہتا کہ یہاں کا خدا تو میں ہوں۔ اور میں کسی کے حکم کو نہیں مانتا۔پھر اللہ اپنی نشانیاں حضرت موسیٰؑ کے ذریعے دکھاتا رہا۔ اور پورا مصر حضرت موسیٰؑ کے معجزات کو دیکھ کر حیران ہوتا گیا۔ کچھ ایمان لے آئے۔ اور کچھ فرعون سے سوالات کرنے لگے۔ بالآخر فرعون موسیٰؑ کے معجزات کو دیکھ کر اس بات تک آپہنچا۔ کہ آج میں موسیٰؑ اور اس کی قوم بنی اسرائیل کو قتل کر دوں گا۔ حضرت موسیٰؑ کو اللہ کا حکم اللہ نے اپنے نبی موسیٰؑ تک پیغام پہنچایا۔ کہ اے موسیٰ! رات میں اپنی قوم کو لے کر اس شہر سے نکل جا۔ تو یوں حضرت موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر وہاں سے جانے لگے۔اس بات کا علم جب فرعون کو ہوا۔ تو وہ غضب ناک ہو کر کہنے لگا۔ کچھ بھی ہوجائے۔ میں موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر کے چھوڑوں گا۔ وہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ بنی اسرائیل کو ڈھونڈنے لگا۔ پس آگے آگے اللہ کا نبی موسیٰؑ اپنی قوم کے ساتھ اور پیچھے پیچھے فرعون کا لشکر اس کو مارنے کے لیے آتا رہا۔ بالآخر بنی اسرائیل دریا تک پہنچے۔ اور فرعون کا لشکر پیچھا کرتے کرتے ان کو دیکھنے لگا۔ جب بنی اسرائیل نے فرعون کے لشکر کو دیکھا۔ تو حضرت موسیٰؑ سے کہنے لگے۔ اے موسیٰ تو نے ہمیں کہاں پھنسا دیا۔ اب پیچھے فرعون کا لشکر ہمیں مارنا چاہتا ہے۔ اور آگے یہ دریا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت موسیٰؑ فرمانے لگے۔ اے لوگو! گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ فرعون اور اس کا لشکر ہمیں پکڑ لے۔ سب کہنے لگے اے موسیٰ اب ہم آگے جائیں گے کیسے؟ بس اتنی دیر میں آواز غیب آئی۔ اے موسیٰ اپنی عصا سمندر میں دے مار۔ جیسے ہی موسیٰؑ نے اپنی عصا سمندر میں دے ماری۔ تو آدھا پانی اُس طرف اور آدھا پانی اس طرح ہوگیا۔ اللہ نے بیچ میں راستے کو واضح کردیا۔ فرعون کی تباہی جیسے ہی یہ منظر فرعون اور اس کے لشکر نے دیکھا۔ تو وہ بھی ان راستوں پر حضرت موسیٰؑ اور اس کی قوم کے پیچھے آ گئے۔ جیسے ہی موسیٰؑ نے اسرائیل کے ساتھ دریا کے دوسری طرف پہنچے۔ اور دریا کے بیچ و بیچ فرعون اور اس کا لشکر موجود تھا۔ تو اللہ نے پانی کو پھر سے حکم دیا۔ کہ اب ویسے ھو جا، جیسے پہلے تھا۔ پس پانی پھر سے مل گیا۔ فرعون اور اس کا لشکر ڈوب کر مرنے لگا۔ یہ سارا منظر حضرت موسیٰؑ اور اس کی قوم دیکھ رہے تھے۔ اور اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ اتنی دیر میں فرعون چیخ کر کہنے لگا۔ میں بھی موسیٰ اور اس کے اللہ کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں بھی ایمان لاتا ہوں۔ کہ موسیٰ کا اللہ بڑی قدرت والا ہے۔ اتنی دیر میں آواز غیب آئی۔ اے فرعون! اب ایمان لاتا ہے۔ جب تو دوزخ کی دہلیز تک پہنچا ہے۔ اے فرعون! ہم تیرے تکبر اور تیری لاش کو آنے والے لوگوں کے لئے نشان عبرت بنائیں گے۔ تاکہ ہر انسان یہ جان لے۔ کہ زمین پر انسان کو تکبر راس نہیں۔ آج بھی اللہ نے فرعون کی لاش کو نشان عبرت بنا کے رکھا ہے۔

اسلام
January 07, 2021

کوئی بھی حاجت ہو تو یہ عمل کر لیں

کوئی بھی حاجت ہو تو یہ عمل کرلیں گھر میں رزق آتا ہو اور پتہ نہ چلتا ہو کہ کدھر گیاگھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا ہو گھر میں نحوست ہو بچے نا فرمان ہوں کوئی بات نہ مانتے ہوں گھر میں سکون نہ ہو گھر آنے کو دل نہ چاہتا ہو مزاج ہر وقت چڑچڑا رہتا ہو تو یہ عمل کریں انشااللہ یہ عمل کرنے سے انشااللہ آپ دیکھں گے کہ تمام نحوست کا خاتمہ ہو جاے گا ہر روز سات مرتبہ سورہ یٰس پڑھ کر پانی پر پھونک کر مکان میں چاروں طرف اور ہر کمرے میں جاکر کمرے کے چاروں کونوں اور چاروں اطراف پانی چھڑک دیں یہ عمل 21دن کریں انشااللہ آپ لوگ خود واضع فرق محسوس کریں گے انشااللہ نحوست ختم ہو جاے گی انتہائی مجرب اور بے ضرر عمل ہے اور اس کے ساتھ روزانہ درود پاک اور استغفار کو بھی اپنی روز مرہ زندگی میں شامل کر لیں کامیاب زندگی اور آخرت کے لیے

اسلام
January 07, 2021

کیا آپ جانتے ہیں نمستے کا مطلب کیا ہے ؟

نمستے کا کیا مطلب ہے ۔آج میں آپ کو بتانے جارہا ہوں انڈیا میں بولا جانے والا سب سے مشہور الفاظ نمستے معاف کرنا انڈیا والے تو اسے سلام سمجھتے ہیں ۔ مگر اس کا اصل مطلب بہت سے ہندوؤں کو بھی نہیں پتا ہوتا ۔چلو کوئی بات نہیں میں بتاتا ہوں ۔نمستے ہم فلموں ڈراموں اور پروگرامز میں بہت سنتے ہیں ۔ اور ہم میں سے بھی کچھ غلطی سے اس کو اپنی زبان میں شامل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر جیسے ہی پاکستان میں مشہور ڈائیلاگ ہے نمستے ہم سب سمجھتے ۔ اگر آپ کو نمستے کا معنی معلوم ہوجائے آپ سوچیں گے بھی نہیں اس کو مثال کے طور پر جس طر ح ہیلو ہیل سے نکلا ہے جس کے معنی جہنمی کے ہیں ۔ اسی طرح اسلام میں اسلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو ۔یعنی سلامتی اور ہندوؤں نے تو شرک کی حد ہی کر دی ہے ۔ نمستے کے معنی ہے میں آپ کے سامنے جھکتا ہوں اس کا مطلب ہے اگر انسان جیسا بھی ہو نمستے کہنے والا اس کا غلام اور وه آقا ہمیں ایسے شرک سے محفوظ رکھے ۔ ہندو زناکاری کے آگے جھکتا ہے شرابی کے آگے جهكتا ہے وہ ہر برے انسان کے آگے جھکتا ہے ۔مگر میرا پیارا مذہب اسلام کیا بات ہے اسلام میں ہر کام بڑی اچھی طرح کا ہے ۔ ہم ہر کسی کے وہ جیسا بھی ہو وہ اسلام علیکم کہتے ہیں ۔اور اس سے ہم شرک نہیں کرتے بلکہ اگلے بندے پر سلامتی کا پیغام دیتے ہیں کہ اللہ کی سلامتی ہو تم پر ۔ لہذا سوچ لیں اور شکر کریں کے ہم مسلمان ہیں اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ دوسروں کے مذہب میں دلچسپی رکھنے والوں یہ سوچوں تم ایک عظیم نبی کے امتی ہو۔اور تم سب امتوں سے اعلی ہو ۔تمہارا دن اعلی تمہارے کتابالا تمہارا نبی سب نبیوں سے اعلی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتی گناہوں میں حد سے بڑھ گے تو آپ نے دعا کی ۔اے اللہ تو جان اور تیرے بندے جانے یہ میری نہیں سنتے ۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ایسی ہی دعا کی اور ان کی امت پر عذاب آیا اور وہ تباہ ہو گئی لیکن میرے نبی نے ایسا نہیں کیا ۔ ہمارے نبی نے پہلے ہماری بات کی امت کی بخشش کی بات کی ہے ۔لہذا میں بات ختم کرنا چاہوں گا ۔ اے اللہ پاک ہم سب کو قرآن و حدیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما آمین ۔ شکریہ۔

اسلام
January 07, 2021

کیسےایک مسلمان سردار کو جنت میں داخِل ہونے سے روک دیا گیا?????

کہتے ہیں کہ بصرہ میں ایک سید زادی آئی.جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور اُس کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے.اُن کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ وغیرہ بھی نہیں تھی جہاں وہ رہتے.اُن کے اوپر صرف صاف آسمان تھا.جہاں وہ رہ سکتے تھے. بصرہ کے جس قبیلے میں وہ آئیں تھیں وہ ایک مسلمان سردار تھا.وہ سید زادی پناہ کے لیے اُس مسلمان سردار کے پاس گئی اور اُس سے پناہ مانگی کہ میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں ہمارے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو اُس مسلمان سردار نے کہا کہ تُو کون ہے?تو اُس سید زادی نے کہا کہ میں ایک سید زادی ہوں میرا خاوند فوت ہو چکا ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں ہمارے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ہمیں رہنے کے لیے جگہ چاہیے اسی لیے آپ کے پاس آئے ہیں. تو اُس مسلمان سردار نے کہا کہ تیرے پاس سید زادی ہونے کا ثبوت ہے کہ تُو واقعہ میں ہی سید زادی ہے تو اُس سید زادی نے کہا کہ میرا رب گواہ ہے کہ میں ایک سید زادی ہوں اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے. تو اُس سردار نے کہا کہ تیرے پاس سیدزادی ہونے کا ثبوت نہیں ہے تو میں تمہیں رہنے کے لیے جگہ نہیں دے سکتا.تو وہ سیدزادی وہاں سے غمگین لہجے سے چلی گئی. کسی نے اُسے بتایا کہ تھوڑی دور ایک یہودی رہتا ہے، ہے تو وہ یہودی لیکن ہے بہت سخی.تو وہ سیدزادی سیدھا اُس یہودی کے پاس چلی گئی.جب سیدزادی یہودی کے دروازے پر گئی تو نوکرانی نے اُس یہودی کو بتایا کہ ایک سیدزادی آئی ہے اور رہنے کے لیے مکان مانگ رہی ہے تو اُس یہودی نے نوکرانی سے کہا کہ جلدی جاو اور اُس کو اندر لے آو،اور ساتھ یہ بھی کہا کہ فلاں کمرہ اچھی طرح صاف کر دو کیونکہ وہ ایک سیدزادی ہے اور ہمارے کمرے ناپاک ہیں.اُس نے سیدزادی کو اندر بُلا لیا اور بڑے پیار سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کھانا کھا یا ہے یا نہیں?تو سیدزادی نے جواب دیا کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا.تو یہودی نے کہا کہ آپ کمرے میں بیٹھیں میں کھانا لیکر آتا ہوں،تھوڑی دیر بعد وہ کھانا لیکر کمرے میں آ گیا تو آکر کہنے لگا کہ یہ کھانا میں نے اپنی بالکل حلال روزی سے بنایا ہے اور کہا کہ آپ میرے لیے بھی اپنے نبی سے سفارش کر دینا کہ اس گنہگار پر بھی اپنا کرم کر دیں. جب رات ہوئی تو اُس مسلمان سردار نے خواب میں دیکھا کہ قیامت نرپا ہو گئی ہے اور تمام مسلمان جنت میں داخِل ہو رہے ہیں تو اُس نے بھی جنت میں داخِل ہونے کی کوشش کی تو فرشتوں نے روک دیا کہ تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور کہا کہ تیرے پاس مسلمان ہونے کا ثبوت ہے? اتنی دیر میں اُس کی آنکھ کُھل جاتی ہے اور اُس سیدزادی کو ڈھونڈنے نِکل جاتا ہے جب اُسے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک یہودی کے گھر ہے تو وہ یہودی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے جو کچھ لینا ہے لے لو اور وہ سیدزادی مجھے دے دو. تو یہودی نے کہا کہ جس جنت میں تمہیں رات کو داخل نہیں ہونے دیا گیا وہ جنت نبی کریم صلی للہ علیہ واسلم نے مجھے عطا کر دی اب میں جنت کو گنوانا نہیں چاہتا.اس لیے میں تمہیں سیدزادی نہیں دے سکتا.

اسلام
January 07, 2021

کامیابی کا دوسرا نقشہ

مجھے قبر میں لٹا دیا گیا. میرے اوپر پہلے پتھر کی بڑی بڑی سلیں رکھی گئیں اور اس کے بعد میرے اوپر مٹی ڈالی جانے لگی اور سب لوگ مجھے اکیلا چھوڑ کر واپس چلے گئے. میں گھبرا گیا، میں نے چیخ کر ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن میری آواز ہی نہ نکلی. میں خوفزدہ تھا، میرے سب گھر والے جانتے بھی تھے کہ مجھے اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی، اس کے باوجود بھی وہ مجھے اکیلا اس اندھیری کوٹھڑی میں کیوں چھوڑ گئے؟؟ اب میں ان کے بغیر اور وہ میرے بغیر کیسے رہیں گے؟؟ لیکن میرے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالات کے جوابات مجھے کہاں سے ملتے؟؟ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دو انتہائ خوفناک دیو قبر میں میرے سامنے آ گئے. ان کے قد اور بال بہت لمبے تھے اور آواز جیسے بجلی کی کڑک. انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں مجھ سے تین سوالات پوچھے، تمہارا رب کون ہے، تمہارا نبی کون ہے اور تمہارا دین کون سا ہے؟ مجھے یاد آیا کہ یہ چیزیں دنیا میں علماء بتاتے تھے کہ ان سوالات کی تیاری کر کے قبر میں جانا. مجھے یاد آیا کہ میں ان باتوں کو مولویوں کی باتیں کہہ کر ہنس کر ٹال دیتا تھا. آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی لیکن اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا تھا. مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ میں نے کیسے ان کے سوالات کے جوابات دیے. خیر وہ چلے تو گئے لیکن میری حالت قابل رحم تھی، مجھے خوف سے اتنا پسینہ آیا تھا کہ میں کفن سمیت گویا اپنے پسینے میں تیر رہا تھا اور آنے دنوں کے بارے میں سوچ رہا تھا. دھیرے دھیرے وقت گزر رہا تھا، یہاں تو دن اور رات برابر تھے کہ تھا جو گھپ اندھیرا. کبھی گرمیاں آتیں تو کبھی سردیاں، کبھی کیڑے نظر آتے تو کبھی سانپ، بچھو اور آگ. میں بہت نفیس طبع تھا لیکن اب کیڑوں کو اپنے اوپر چلتے دیکھتا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا. ادھر میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچوں نے دو چار دن سوگ منایا اور پھر وہ اپنی زندگیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ میرا خیال تک بھول گئے. میری قبر پر آ کر فاتحہ پڑھنا تو دور کی بات، مجھے یاد تک بھی کوئ نہیں کر رہا تھا. دھیرے دھیرے وہ مجھے ایسے بھول گئے کہ جیسے میں ان کی زندگی میں آیا ہی نہیں تھا. میں نے ان کےلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن… اتنا بےوفائ اور اتنا بڑا دھوکہ؟ میں رو پڑا لیکن وہاں میرا رونا کون دیکھ رہا تھا. ایک دن مجھے یاد آیا کہ کسی عالم نے بتایا تھا کہ قبر میں قیامت تک رہنا ہے. اتنی لمبی مدت؟؟ اسی بےبسی کے عالم میں اچانک میرے ذہن میں کامیابی کا تصور اور نقشہ پھر آ گیا. میں چلا اٹھا: ہاں ہاں، قبر کی تیاری کر کے آنا، اس اندھیری کوٹھڑی میں روشنی کا انتظام کر کے آنا، یہاں کے سانپ، بچھووں اور آگ سے بچنے کا سامان کر کے آنا ہی تو کامیابی تھی.

اسلام
January 07, 2021

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہجرت

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہجرت کی طرف نکلے تو کفار مکہ کے ظلم وستم حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ آخر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہجرت کا فیصلہ فرمایا تو کفار مکہ کو اس کی خبر مل گئی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو رات کو سوتے ہوئے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن اللہ کے حکم سے آپ کو علم ہو گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مکہ والوں کی تمام امانتیں حضرت علی کو سپرد کین اور اپنے بستر پر حضرت علی کو آرام کرنے کو کہا اور اور خود حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوئے۔ جب کفار نے سویرے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بجائے بستر پر حضرت علی ابن ابو طالب ہیں تو ہیران رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تلاش میں نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر نے مکہ کے قریب ہی ثور نامی پہاڑ کی غار میں تین دن قیام فرمایا۔ دوسری جانب مکہ والوں نے اعلان کیا کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر کو گرفتار کر کے آے گا تو اسے ایک سو اونٹ ???? انعام دیے جائیں گے۔ اس انعام کی لالچ میں مکہ کا ایک خوبصورت سپاہی سراقہ بن جعشم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لیے مکہ سے روانہ ہوا۔ اس نے کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معافی مانگی۔ مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے روانہ ہونے کی خبر مل گئی تھی۔ سب مسلمان بڑی بے چینی سے شہر کے باہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے استقبال کے لئے جمع ہوئے سارا سارا دن انتظار کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک دن یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی خبر دی تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر چھا گئی اور سارا شہر تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔

اسلام
January 07, 2021

محنت و صبر کی عادت نہیں اب

انسان شور تب مچاتا ہے۔ جب برداشت کرنے کی طاقت اور ہمت ختم ہو جاتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے ۔ جب انسان صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے ۔ تو پھر اللہ تعالی بھی اس انسان کا ساتھ نہیں دیتا ۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ صبر ختم ہونے کی وجہ سے تمام انسانوں کا سکون برباد ہو کر رہ گیا ہے ۔ ہر انسان ھرف شور اور واویلا ہی مچاتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ صبر کے ساتھ محنت کی عادت بھی ختم ہو رہی ہے ۔ ہر اشرف المخلوکات پیٹھ کر کھانا چاہتا ہے ۔ پہلے زمانے کے مقابلے میں اب زیادہ ترقی ہو رہی ہے ۔ پھر بھی انسان سکون میں نہیں ہے ۔ کیونکہ اب انسان کو محنت کرنے کی عادت نہیں رہی ۔ محنت سے جو بھی کام کیا جاتا ہے اس کے بعد بہت سکون ملتا ہے ۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس محنت و صبر کا پھل اچھا ہوگا ۔ آج کے دور میں ہم جتنا مشینوں پر انحصار کر رہے ہیں اتنا ہی سست اور لاپروا ہو گۓ ہیں ۔ اور اس وجہ سے بہت سی بیماریوں نے جنم لیا ہے ۔ آج کل بیماریوں میں بڑا مسلۂ موٹاپا ہے ۔ جس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہے ۔ اگر ہم کچھ سال پیچھے جاۓ تو ہمیں معلوم ہو گا کہ تب سب لوگ صحت مند تھے ۔ کیونکہ وہ ہر کام ہاتھ سے کرتے تھے ۔ اور خوب محنت کرتے تھے اب صبرومحنت کی جگہ حوس ولالچ نے لے لی ہے ۔ اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسروں سے زیادہ مال و دولت ہو اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی زیادہ کی تلاش میں ہے ۔ اس لیے ہر کام میں ایمانداری ختم ہو گئ ہے ۔ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ سب مال و دولت اس جہاں میں رہ جانا ہے ۔ آخرت میں صرف اعمال جانے ہیں ۔ اب وہ کسان بھی نہیں رہے ۔ مشینری سے ہر کام ہوتا ہے ۔ ایک کسان محنت کرتا تھا تو اس کے بیوی بچے ساتھ محنت کرتے تھے ۔ اب کسانوں کے بچوں کے ہاتھ میں بھی موباۂل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر آگئے ہیں ۔ اس وجہ سے اب کسانوں نے بھی محنت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ یہ تو کہاوت بھی ہے کہ : “محنت کا پھل ضرور ملتا ہے ” جب محنت نہیں کرنی تو پھل کیسا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ آنے والی نسلیں کیا کر پائں گی ۔ لگتا ہے عنقریب ایسا وقت آئے گا جب اس نئی ایجادات کی وجہ سے انسان چلنا پھرنا بھی چھوڑ دے گے ۔ انسانوں کی جگہ روبوٹ لے لے گے اگر ہم نہیں چاہتے کہ ایسا ہو تو ہمیں محنت کرنی چاہیے اگر انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرے اوروہ چیز نہ ملے تو انسان ہمت ہار جاتا ہے ۔ بلکہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے اسے صبر سے کام لینا چاہیے ۔ ہر چیز ملنے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ۔ نہ وہ چیز وقت سے پہلے مل سکتی ہے نہ بعد میں اس لیے صبر کے ساتھ اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے ۔ مسلہ اب صرف اس بات کا ہے کہ : لوگ محنت کرنا سیکھ جائیں ۔ پھر صبر کرنے کی عادت بھی ہوجائے گی ۔ جب صبر کرنا آجائے گا تو پھر بس اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اور جس کے ساتھ اللہ تعالی ہو وہ کبھی بھی کمزور نہیں ہوسکتا ۔ پھر چاہے کوئی بھی ہو اگر پھل میٹھا چاہیے تو صبر اور برداشت کی عادت ڈالنی ہوگی ۔

اسلام
January 07, 2021

نماز کے بعد حدیث پڑھنے کی فضیلت

سوال ہماری مسجد میں نماز کے بعد حدیث کی کتاب پڑھی جائے؟ نماز کے بعد حدیث پڑھنے کی فضیلت الجواب۔اللہ تعالیٰ نے عرش معلٰی کے نیچے ایک نور کا شہر پیدا کیا ہے اور وہ اس دنیا کی مثل ہےاس میں موتی زمرد اور یاقوت کے ہزار درخت ہیں اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے پتوں کو کھولا جائے تو ندا کرنے والا ندادے گاکہاں کہاں ہیں وہ لوگ جو پانچ وقت کی نماز ادا کرتے تھےاور اس کے بعد حلقہ علم میں بیٹھتے تھے تو ٓا ج وہ ان درختوں کے نیچے ٓائیں پس وہ لوگ ان درختوں کے نیچھے بیٹھیں گے اور ان کے سامنے نور کے دستر خوان رکھے جائیں گے اور اس میں وہ چیزیں ہوگی جس چیز کے بارے مین ان کا دل کرے گااور اس سے ان کی انکھیں خوش ہوگی پھر ان سے کہا جائے گا کہ اس میں کھاو افس زافس ز آج الحمد للہ اکثر مساجد القران اور حدیث کے درس ملتا ہے مگر ہم اس نعمت سے محروم ہے کیوں جب مسلمان سے گناہ ہوتا ہے اللہ خیر کے کام سے محروم کر دیتا ہے۔ایک مرتبہ دار العلوم دیوبند میں مولوی صاحب نماز کے لئے تشریف لایا شاگرد پچ آیا تھاشاگردواپس ہوگیا نماز باجماعت پڑھا استاد نے پوچھا آپ کیوں واپس ہوگیا شاگرد نے کہا ہمارا ناک سے خون آیا استاد نے کہا جب مسلمان سے گناہ ہوتا ہے سرزد ہوجا تا ہے اللہ تعالیٰ اپنا خیر سے محروم کر دیتا ہے (احیا ءالعلوم)ہم توبہ جہان علم القرآن یا حدیث یا خیر مذاکرہ یا خیر مشہورہ ہو ھم ضرور بیٹھے جائے کیوںھم کو بھی یہ فضیلۃ ملاجائےجو حدیث میں گزر گئے(قرات الواعظین ۴۵ص) ۔

اسلام
January 07, 2021

گناہوں کا کفارہ

بسمہ تعالیٰ گناہوں کا کفارہ امید ہے آپ سب قارئین بحکم خدا تندرست ہوں گے اور خصوصاہم جیسے حقیر بندوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہونگے اگر نہیں رکھتے تو برائے کرم ضرور یاد رکھا کریں جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ہماری آج کی گفتگو کیا ہے جی قارئین حضرات ھماری گناہوں کی کثرت نیں ہمیں اللہ سے غافل کر دیا اور ہمیں اللہ نے ڈھیل دی اور ہم مزید سرکشی میں مبتلا ہو گئے اور اللہ جو کہ غفور اور رحیم تھا ہم نیں اسکی طرف رجوع نہیں کیا البتہ وہ ہماری انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرے بھٹکے بندے میرے پاس لوٹ کے آئیں گے اور میں انکو معاف کروں گا یعنی اللہ بہانے اور طریقے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے ایک دفعہ ایک دشمن امام جعفر صادق کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ کا چاہنے والا کوئی گناہ کرے تو اسکی عاقبت کیا ہوگی تو امام نیں اسکے جواب میں فرمایا کہ خدا وند عالم اسکو ایک بیماری دے گا تاکہ بیماری کی تکلیف اسکے گناہوں کا کفارہ بنے گا اس شخص نیں دوبارہ پوچھا اگر بیمار نہ ہوا پھر امام نے فرمایا پروردگار عالم اسے برا پڑوسی دے گا تاکہ اسکو تکلیف پہنچائے اور پڑوسی کا ازارو تکلیف اسکے گناہوں کا کفارہ بنے تو اسنے پھر کہا کہ اگر برا پڑوسی بھی نہ ملے تو پھر امام نے فرمایا کہ اسکو ایک برا دوست دے گا جو اسے تکلیف پہنچائے اور وہ تکلیف اسکے گناہوں کا کفارہ بنے تو اسنے پھر کہا کہ اگر برا دوست بھی نہ ملے تو پھر امام نے فرمایا بری بیوی جواسے تکلیف دے اور اسکے گناہوں کا کفارہ بنے تو اسنے کہا کہ اگر بری بیوی نہ ملے تو پھر امام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موت سے پہلے اسکو توبہ کی تو فیق عطا کرے گا تو اس آدمی نے بغض اور عناد کے با عث پھر کہااگر موت سے پہلے توبہ نہ کرسکا تو تو امام عالی مقام نیں پھر فرمایا تیری آنکھوں میں خاک ہم اسکی شفا عت کریں گے تو ائیں تھوڑی سی کوشش کرتے ہیں کہ جو بندہ حقیر کی عقل سمجھ سکی کہ برے پڑوسی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہیں اور اسی طرح برے دوست اور بری بیوی اور تکلیف اور پریشانی بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کی تمام نعمتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے وسلام آپ کا بھای نجیب اللہ نجیب

اسلام
January 07, 2021

ایک غریب مگر ہنر مند مسلمان ۔

غریب آدمی میں ہنر بہت ہوتا ہے چلو آج بات کرتے ہیں ایک غریب مسلمان کی جو ایک یہودی کے پاس کام کرتا تھا ۔اور یہودی کی ہیرے کی دکان تھی اور مسلمان بہت ہی ایماندار اور اپنے کام میں مگن اور بہت ہی بڑا کاریگر تھا وه سارا دن ہیرے تراشتا اور اسے اپنی محنت کے پورے پیسے بھی نہی ملتے تھے جو ملتے انسے اسکا گھر بڑی مشکل سے چلتا وه بیچارہ بہت بار یہودیکو اپنی امدنی بڑھانے کا کہے چکا مگر اسنے کچھ نہ کیا ۔لہذا ایسے ہی دن گزرتے گے اور اس مسلمان کی بیٹی جوان ہو گئی اسکی شادی کی عمر ہو گئی تھی اب تو کاریگر اور بھی زیادہ پریشان ہو گیا آخر کار اسنے پھر اپنے مالک کو امدنی میں اضافہ کرنے کا کہا مگر وه پھر بھی کہتا کام میں نقصان ہو رہا ہے بچت نہیں آ رہی ایسے کر کے اسے ٹال دیتا ۔مگر مسلمان جب بھی گھر جاتا تو اسکی بیوی خوب سناتی اسے اور پھر انکی بیٹی کی شادی کا وقت قریب آ گیا اسنے سوچا شادی کا خرچ کھا سے لوں بیوی نے اسے کھا جس کے پاس اتنے سالوں سے کام کر رہا ہے اسے بولو اب تو ہماری مدد کر دے آخر کار بیوی نے اسے بھیج ہی دیا وه گیا مگر خالی ہاتھ لوٹا روتا روتا گھر پوھنچا گھر والوں نے بھی خوب سنائی ۔ اگلی صبح جب وه دکان پے پوھنچا تو اسکے ہاتھ میں ایک نیهايت خوبصورت ہیرا تھا جب وه ہیرا اسکے مالک نے دیکھا تو حیران رہ گیا کچھ دیر بعد مسلمان بولا یہ ہیرا ہمارا خاندانی ہیرا ہے آپ اسے رکھ لے اور اس کے بدلے میں مجھے کچھ پیسے دے دیں پھر میں آپکے پیسے واپس کر کے اپنا ہیرا لے جاؤنگا وه مان گیا اور اسنے پیسے دے دیے ۔ان پیسوں سے اسنے اپنی بیٹی کی شادی کی اور پھر کام پے آنا سٹارٹ کر دیا آہستہ آہستہ اسنے اپنا سارا قرض اتار دیا اور کہا میرا ہیرا مجھے واپس دو اسکا مالک ہیرا لے آیا مسلمان نے وه ہیرا پکڑا اور پانی میں ڈال دیا دیکھتے ہی دیکھتے وه پانی میں گھل گیا یہ منظر دیکھ کر اسکا مالک پریشان ہو گیا مسلمان نے کھا یہ ہیرا نہیں بلکہ مصری کی ڈلی ہے جسے مینے اپنی مهارت سے ہیرے کی شکل دی تھی جسے تم بھی نا پہچان سکے تم نے مجھے ایسے پیسے نہیں دینے تھے اس لیے مجھے ایسا کرنا پڑا اب تمہارے سارے پیسے مینے دے دیے ہیں لہذا میں یہ کام چھوڑ رہا ہوں وه یہ بول کے ہمیشہ ک لیے چلا گیا بعد میں یھودی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔میرے مسلمان بھائیوں ہمیں ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے اللّه پاک ہم سب کو اسکی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ شکریہ ۔

اسلام
January 07, 2021

اپنے اخلاق درست کیجئے

*اپنے اخلاق درست کیجئے* ہم کو چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ الفت، محبت اور اتفاق سے رہیں آپس کی دوریوں کو ختم کر دینا چاہیے ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم تو اس دنیا میں عارضی ہیں ایک نہ ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے تو پھر یہ نفرتیں یہ دوریاں یہ بے اتفاقیاں کیوں ہیں یہ بے لذت سی زندگی اس سے نہ ہم کو کوئی نفع ہے نہ نقصان دنیا کے اعتبار سے لیکن آخرت کے اعتبار سے ہم دیکھیں تو بہت نقصان ہے آپ نے دیکھا ہو گا جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں وہ ہی اس دنیا میں زندہ رہتے ہیں زندہ رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو موت نہیں بلکہ زندہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انکا نام زندہ رہتا ہے جیسے سنیار جب کسی دھات کو پگھلاتا ہے تو جو چیز نفع دیتی ہے وہ نیچے رہ جاتی (سونا وغیرہ) اور جو چیز فائدہ مند نہیں ہوتی جیسے جھاگ وغیرہ تو وہ اوپر سے ختم ہو جاتی ہے یہ ہی مثال ہے ان لوگوں کی جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں انکا نام باقی رہتا ہے ہم اچھا بنیں تاکہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا کریں اور اس دنیا میں اپنا نام اپنے اپنے اچھے کردار کی وجہ سے زندہ رکھ سکیں اپنے اخلاق اچھے ہوں گے تو لوگ ہمارے قریب ہوں گے اور لوگ قریب ہوں گے تو ہی ہم لوگوں سے دین کی بات کر سکے گے ہم کو چاہیے کہ ہم اپنی زبان پر جتنا ہو سکے قابو پائیں کیوں کہ زبان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ یا تو شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے اور یا پھر تلوار سے زیادہ تیز ہے دراصل آجکل ہم لوگ ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور ہو گئے ہیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی بہت زیادہ دور ہیں وہ اس وجہ سے آجکل ہماری زندگی بلاوجہ بہت مصروف ہو گئی ہے ہم ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں لیکن بظاہر تو پاس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دور ہوتے ہیں اگر مثال کے طور پر ہم تین آدمی بیٹھے ہیں تو تینوں اپنے اپنے سیل فون میں لگے ہوئے نظر آئیں گے ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بہت کم نظر آئیں گے ہم کو چاہیے کہ جب ہم دوست احباب میں بیٹھیں ہوں یا گھر میں ہوں تو مکمل طور پر انکی طرف متوجہ ہوں اور دوسری بات کے ہم اپنی زبان پر کنٹرول رکھیں حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں وہ دو چیزیں یہ ہیں ایک تو دونوں جبڑوں کے کے درمیان میں جو ہے یعنی زبان اور دوسری چیز جو دونوں رانوں کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ تو ہم کو چاہیے کہ جب بھی ہم گفتگو کریں تو پہلے سوچیں پھر تولیں اور پھر بولیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو مکارم اخلاق کا پیکر بنائے آمین ثم آمین تحریر :حافظ سیف الرحمن چاند

اسلام
January 06, 2021

روح کی غذا آخر کیا؟

روح کی غذا آخر کیا؟ آج کے اس دور میں جہاں جاہلیت عروج پر ہے اس طرح مسلمانوں میں یہ بات مشہور ہے کہ روح کی غذا موسیقی ہے جوکہ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ غیر مسلم تو غیر مسلم ہیں لیکن مسلمان بھی اس کو درست سمجھتے ہیں۔قرآن اور حدیث میں موسیقی سننے اور بجانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔جو آج کا مسلمان اس کو معمولی سمجھ کر بے انتہا سنتا ہے اور بجاتا بھی ہے ۔یہ وہ مسلمان ہیں جو دوسرے غیر مسلموں کو سمجھانے آئے تھے جس کو بہترین امت کہا گیا ہےوہ آج اس سنگین جرم میں خود مبتلا ہیں ۔ روح کی غذا ایک ہی چیز ہے وہ ہے ذکرِ الٰہی ۔اللہ کا ذکر ہی روح کو اطمینان دیتا ہے ۔اللہ کی طرف سے نازل کردہ قرآن روح کی اصل غذا ہے ۔جس کو اللہ کے آخری رسول نے خود شفا ء اور ہر مسئلےکا حل قراردیا ہے ۔اللہ کے قرآن میں جو روح کی غذا رکھی گئی ہے وہ کسی گانے یہ موسیقی میں نہیں ہے۔گانے اور موسیقی بجانے والے اور سننے والے کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور ان کے دل کو پھر قرآن سننےسے اطمینان حاصل نہیں ہوتا ہےاس لیے وہ قرآن کو پڑھنا چھوڑ دیتا ہےاور اللہ کا نا پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے اور فتنوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ کے فرمان کے مطابق جو اللہ کے ذکر سے منہ پیر لیتا ہے تو پھر اللہ اس کی زندگی کو تنگ کردیتا ہے اور اْس کی معیشت کو بھی تنگ کر دیتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر ہی روح کی غذا ہے جو اللہ کے ذکر کو مضبوتی سے اپنی زندگی میں لے آتا ہے اللہ اس کےدل کو جو سکون دیتا ہے وہ دنیا کا کوئی گانا اور میوزک نہیں دے سکتا۔آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو اللہ کا ذکر صرف اپنی روح کی غذا کے لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں سکون حاصل کر سکیں۔ یقین جانے آج کے اس دور میں موسیقی اور گانا اتنا عام ہو چکا ہے کہ مسلمانوں نے اس کو گنا ہ سمجھنا چو ڑ دیا ہے او ر آج کا نو جوان گانے کے بغیر اپنی زندگی کو بے رونق سمجھتا ہے جب مسلمانوں کا حا ل ایسا ہو جائے تو ان پر عذاب کیوں نہ آئے۔عورتیں بے پردہ ہو کر ناچ رہی ہیں اور ہم اس کو معمولی سمجھتے ہیں اس لیے ہمیں آج کے اس دور میں اللہ کے قرآن کو اور اس کے ذکر کو اپنی زندگی میں اطمینان اور سکون حاصل کر نے لیے اور روح کی غذا کے لیے استعمال کرنا چاہئے ۔مجھے امید ہے کہ آپ اس پر ضرور عمل کریں گے۔

اسلام
January 06, 2021

چیونٹیاں ، جدید سائنس اور ہم

چیونٹی کو عربی زبان میں ” نمل ” کہتے ہیں قرآن حکیم میں اک مکمل سورہ چیونٹیوں کے نام سے ‘ سورہ نمل ‘ ہے جس کی آیت نمبر 17,18 میں حضرت سیلمان علیہ السلام اور ان کے فوج کے بارے میں بتایا گیا ہے.حضرت سیلمان علیہ السلام کی فوج میں جن و انس شامل تھے جب جناب سیلمانؑ کا لشکر کا گزر ادھر سے سے ہوا جہاں چیونٹیاں رہتی تھیں تو جناب سیلمانؑ کا لشکر ابھی بہت دور تھا لیکن چیونٹیوں کی سردار چیونٹی نے تمام چیونٹوں کو اپنی اپنی بِلوں میں جانے کا حکم دیا تاکہ کہی لشکر کے پاوں کے نیچے آکر ماری نہ جائیں اللہ کے نبیؑ نے چیونٹی کا یہ خطاب سن کر اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیری اور لشکر کا رخ موڑ لیا اللہ نے حضرت سیلمانؑ کو چیونٹوں کے ساتھ بات کرنے اور اُن کی بات سمجھنے کی قدرت دے رکھی تھی جدید دور کی سائنسی تحقیق جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق چیونٹوں میں بولنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے منہ سے ایسا مواد باہر نکالتیں ہیں جو دوسری چیونٹیوں تک باآسانی پہنچ جاتا ہے جس کو وہ ڈی کوڈ کرکے اس کا پیغام سمجھ جاتیں ہیں یعنی ان میں اک پورا سسٹم ہے جس کے اندر رہتے ہوئے وہ زندگی گزارتیں ہیں اور ہمیں غور فکر کرنا چاہیے.جدید سائنسی تجربات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چیونٹیوں کے اندر قدرتی طور پر ‘ہائیڈروفولک’ نامی سنسر موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے جب بارش برسنے کا وقت ہوتا ہے تو یہ پہلے ہی ہوا میں نمی کے تناسب کو بانپ لیتی ہیں اور اپنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہیں اور اپنی بلوں کے اردگرد گھومتی اور مٹی کی دیواریں قائم کر لیتی ہیں تاکہ بارش کے پانی سے بچ سکیں ” جدید سائنس بھی موسم کا حال ہوا میں نمی کا تناسب دیکھ کر ہی بتاتی ہے “ موجودہ دور اور ہم تاریخ کے اوراق گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے قرآن پر غور فکر کیا وہ کرہ ارض پر انسانی ترقی میں اہم کردار ادا کیا بلا شک و شبہ جنہوں نے قرآن پر غور و فکر کیا انہوں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر زمین کا حجم بتا دیا، پرندوں کی پرواز دیکھ کر انسان ہوا میں کیسے پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے بتا دیا مطلب کہ ہوائی جہاز بھی قرآن پاک پر غور فکر کرکے بنا ، کیمیاء کی ابتداء بھی قرآن پر غور فکر کرنے والوں نے کی ۔کیا ہم موجودہ دور میں قرآن پاک پر غور فکر کرتے ہیں یا صرف باعثِ برکت سمجھ کر گھروں میں الماریوں کی زینت بنا رکھا ہے؟

اسلام
January 06, 2021

مرد خدا

ایک مرتبہ حضرت حسن بصری وعظ کر رہے تھے۔تو دوران وعظ حجاج بن یوسف برہنہ تلوار لئے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ وہاں آ گیا۔اس محفل میں ایک بزرگ نے یہ خیال کیا کہ آج حضرت حسن بصری کا امتحان ہے۔کہ وہ تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے ہیں یا وعظ میں مشغول رہتے ہیں۔چنانچہ آپ نے حجاج کی آمد پر کوئی توجہ نہیں کی اور اپنے وعظ میں مشغول رہے۔چنانچہ اس بزرگ نے یہ تسلیم کر لیا کہ آپ واقعی آپ اپنی خصلتوں کے اعتبار سے اسم مسمی ہیں کیونکہ احکام خداوندی بیان کرتے وقت آپ کسی کی پرواہ نہیں کرتے اختتام وعظ کے بعد حجاج نے دست بوسی کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ اگر تم مرد خدا سے ملنا چاہتے ہو تو حضرت حسن بصری کو دیکھ لو بعض لوگوں نے انتقال کے بعد حجاج بن یوسف کو خواب میں دیکھا کہ میدان حشر میں کسی کو تلاش کر رہا ہے اور جب اس سے پوچھا گیا کہ کس کو تلاش کر رہے ہو تو کہنے لگا میں اس جلوہ خدا وندی کا متلاشی ہوں جس کو موحدین تلاش کیا کرتے ہیں لوگ کہتے ہیں وقت مرگ حجاج کی زبان پر یہ کلمات تھے کہ اللّٰہ تو غفار ہے اور تجھ سے بر تر اور دوسرا کوئی نہیں ہے تو اپنی غفاری کم حوصلہ مشت خاک پر بھی ظاہر کر کے اپنے فضل سے میری مغفرت فرما دے کیونکہ پورا عالم یہی کہتا ہے کہ اس کی بخشش ہرگز نہیں ہو سکتی اور یہ عذاب میں گرفتار رہے گا لیکن اگر تو نے مجھے بخش دیا تو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ یقینا تیری شان فعال لما یرید ہے

اسلام
January 06, 2021

ابنِ آدم کی فطرت

ابنِ آدم کی فطرت ابنِ آدم یعنی حضرتِ آدمؑ کی اولادجس کو انسان کی پہچان ملی ہے۔اللہ تعالٰی نے انسان کو مٹی سے پیداکیااور آخراس انسان نےمٹی میں ہی جاناہے۔اس انسان کی اوقات صرف مٹی تک کی ہے۔لیکن انسان اپنی اوقات بھول بیٹھاہے۔ابنِ آدم کی یہ فطرت ہے کہ وہ ایک لالچ اور حسد کا ڈانچاہوتاہے۔یہ سوچنااس کی فطرت ہےکہ وہ ہمیشہ کے لیےدنیا میں رہے گا۔دوسروں کی چیزوں کالالچ رکھنااس کی فطرت ہے۔دوسروں سےحسدرکھنااس کی فطرت ہے۔انسان کالالچ ہی اُسےمصیبتوں کی طرف دھکیلتاہے۔ لیکن ہر انسان ایک جیسانہیں ہوتاکچھ انسان اچھے بھی ہوتے ہیں۔وہ انسان جو اچھےہوتےہیں وہ اپنی اچھائی کی وجہ سے اللہ کلی جنت میں جائیں گےاوربُرےاپنی بُرائی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔یہی قدرت کانظام ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی عبادت کےلیےپیداکیاہے۔لیکن انسان کی فطرت میں بھولنابھی شامل ہے۔اس لیے وہ دنیامیں آنےکا مقصدبھول گیاہے۔وہ بھول گیاہے کےاُسےکس لیےپیداکیاگیاہے۔ اُس نے اللہ کے دیےہوےمقصدکوچھوڑکراپنےمقصدپیداکر لیےہیں۔جس کی وجہ سے وہ راہِ راست سےدورجاچکاہےاوراللہ کی نافرمانی پرنافرمانی کیے جارہاہے۔اُس کےدل سے اللہ کا ڈر نکل چکاہے۔وہ پیغامِ محمدﷺکوبھول چکاہے۔انسان وہ کام ضرورکرتاہے جس سے اُسےروکاجائے۔دولت انسان کاسب سےبڑالالچ آج تک رہا ہے۔دولت کے پیچھےانسان سب رشتےبھول جاتاہے۔ایک دوسرےسےآگےبڑھنے کےلیےیہ کچھ بھی کرسکتاہے۔ہرکسی سےحسداور بغض اس کی فطرت ہے۔اس فطرت کی وجہ سےابنِ آدم انسان سےحیوان بن جاتاہے۔ اس انسان نامی مٹی کےڈانچےمیں ایک اور فطرت پائی جاتی ہے۔جو اسے انسان سےشیطان بناتی ہے۔وہ ہےہوس یعنی دوسروں کی ماں یابہن یابیٹی کےجسم کی ہوس یہی فطرت اسے انسان سے شیطان بناتی ہے۔کچھ انسان ہمیشہ سےہی اس بیماری کاشکار ہوتےہیں۔ انسان کی یہ فطرت معصوموں کےگھروں کواُجاڑ کےرکھ دیتی ہے۔انسان کی یہی فطرت انسان کی تباہی کاسبب بنتی ہے۔ایساانسان معاشرےکاسب سےبڑادشمن ہوتاہے۔وہ دوسروں کے گھروں کے لیےہی نہیں اپنے گھر کے لیے بھی خطرہ ہوتاہے۔ایسے انسان کومعاشرےمیں جینےکاکوئی حق نہیں ہے۔کیونکہ وہ معاشرےکی تباہی کا سبب بنتاہے۔ آج کل کے انسانوں میں سب سے بڑی اور بُری عادت جھوٹ اوردوسروں کی غیبت ہے۔یہ ایک ایسی عادت ہے جو معاشرے میں لڑائی جھگڑے کاسبب بنتی ہے۔جھوٹ ہی سب گناہوں کی جڑ ہے۔کسی کی غیبت کرنامطلب اپنے سگے بھائی کاگوشت کھاناہے۔یہ سب کچھ پتا ہونےکے باوجودانسان اپنی اس فطرت کو بدلنے کے لیے تیارہی نہیں ہوتاہے۔یہ دونوں گناہ انسان کو منافق بنا دیتے ہیں۔انہی کی وجہ سےانسان دوسروں سے الگ ہوتاہے۔سارہ معاشرہ اُس سے دورجاتاہے۔سب لوگ اُس سے نفرت کرتے ہیں۔ انسان کی فطرت ہی اُس کی کامیابی اور نکامی کاسبب بنتی ہے۔اچھی فطرت انسان کوکامیاب اوربُری فطرت ناکام کر دیتی ہے۔

اسلام
January 06, 2021

جب اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لئے اپنے پاس بلایا

جب اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لئے اپنے پاس بلایا اور پھر تم لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنا ڈالا اور یہ تم نے بہت بڑی زیادتی کر ڈالی جب اللہ تعالی نے فرعون سے نجات دلوانے کے بعد چالیس روز کے لیے کوہِ طور پر طلب فرمایا کیونکہ ان کو بتایا جائے قرآنی اور شریعت کے احکام ان تک پہنچائے جائیں گائے اور بچھڑے کے معبود ہونے کی مرض بنی اسرائیل کے تمام قریبی اقوام میں عام پھیلا ہوا تھا مصر اور قرعان میں اس کا عام رواج تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے لوگوں نے نے کتنی یوکے اقوام میں میں معبود کا یہ سلسلہ الہام تھا تو یہ وہاں سے انہوں نے لیا دیا تاکہ تم شکر ادا کرنے والوں میں بن جاؤں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب تم تم یہ یہ مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا تب ہم نے علی علیہ السلام کو کو کتاب فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعہ سے سیدھا راستہ پاسکو کوسرکار وہ چیز ھے جس کے ذریعہ سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے اردو میں اس کا جو مفہوم بنتا ہے وہ اس کا نام کسوٹی ہے فرقان سے مراد دین کا وہ ایم اور فہم ہے جس میں آدمی حق اور باطل میں تمیز کرتا ہے