جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہجرت کی طرف نکلے تو کفار مکہ کے ظلم وستم حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ آخر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہجرت کا فیصلہ فرمایا تو کفار مکہ کو اس کی خبر مل گئی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو رات کو سوتے ہوئے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن اللہ کے حکم سے آپ کو علم ہو گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مکہ والوں کی تمام امانتیں حضرت علی کو سپرد کین اور اپنے بستر پر حضرت علی کو آرام کرنے کو کہا اور اور خود حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوئے۔ جب کفار نے سویرے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بجائے بستر پر حضرت علی ابن ابو طالب ہیں تو ہیران رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تلاش میں نکلے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر نے مکہ کے قریب ہی ثور نامی پہاڑ کی غار میں تین دن قیام فرمایا۔ دوسری جانب مکہ والوں نے اعلان کیا کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر کو گرفتار کر کے آے گا تو اسے ایک سو اونٹ ???? انعام دیے جائیں گے۔ اس انعام کی لالچ میں مکہ کا ایک خوبصورت سپاہی سراقہ بن جعشم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لیے مکہ سے روانہ ہوا۔ اس نے کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معافی مانگی۔
مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے روانہ ہونے کی خبر مل گئی تھی۔ سب مسلمان بڑی بے چینی سے شہر کے باہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے استقبال کے لئے جمع ہوئے سارا سارا دن انتظار کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک دن یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی خبر دی تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر چھا گئی اور سارا شہر تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔