یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نا صرف ایک ضابطہ حیات ہے بلکہ ایک قانون اور منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔جہاں تک احکامات کا تعلق ہے اسلام اوامر کی ادائیگی اور نواہی سے منع کرتا ہے۔وعد و وعید ،سزا اور جزاء کا تصور پیش کرتا ہے۔
مثالیں دے کر بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ،اور وعظ ونصیحت کر کے حیات مستعار کی بے ثباتی بیان کرتا ہے۔آپﷺ چونکہ جامع الکلم تھے اس لیے مختصر انداز میں پوری زندگی کا نچوڑ بیان فرماتے تھے،مختصر اور پراثر الفاظ کا انتخاب فرماتے اور پوری طرح بات سمجھاتے تھے۔
فرمان نبویﷺ۔۔۔
اپنی جوانی کو بڑھاپے سے ،پہلےاپنی صحت کو بیماری سے پہلے،اپنی مالداری کوغربت سے پہلے،اپنی فراغت کو مصروفیت سے پہلے،اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
۔۔۔1۔۔۔شبابک قبل ھرمک۔۔۔جوانی بڑھاپے سے پہلے۔
آپﷺ نے پوری زندگی میں پیش آنے والے حالات بیان فرمائے ہیں۔سب سے پہلے فرمایا کہ جوانی کو غنیمت جانو تا وقت ایں کہ بڑھاپا دروازے پر دستک دے،چونکہ انسان جوانی میں پوری طاقت میں ہوتاہے،جذبات بھی جوبن پر ،خواہشات کی بھی بھر مار،ضروریات بھی بے شمار۔اس لیے ان تمام تر صلاحیتوں کو اللہ کی فرمان برداری میں استعمال کرنا کمال ہے۔جب بڑھاپا آتا ہے تو صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں،قوت جواب دے جاتی ہے،جذبات کی طغیانی رک جاتی ہے،احساسات مر جاتے ہیں ۔پھر اس وقت نہ عبادت میں دل لگتا ہے اور نہ خلوت میں سرور ہوتا ہے۔لھذا جوانی میں اللہ میاں سے صلح کرنا ضروری اور لازم ہے کیا پتا بڑھاپے تک ہم پہنچ بھی جاتے ہیں یا نہیں۔
۔۔۔2۔۔۔صحتک قبل سقمک۔۔۔صحت بیماری سے پہلے۔
دوسری چیز آپﷺ نے بیان فرمائی کہ صحت کے لمحات کو بیماری آنے سے پہلے غنیمت جانو۔کیونکہ سینکڑوں نیکیاں ،اور ہزاروں کام ہم صحت میں انجام دے سکتے ہیں جو بیماری میں ہم نہیں کر پاتے۔صحت اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے،اس وجہ سے اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔انسان ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر کام کر سکتا ہے۔لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب انسانی جسم میں قوت اور طاقت ہو۔جب بیماری آتی ہے سب سے پہلے جسم کی طاقت سلب ہوتی ہے،سالم جسم کام نہیں کرپاتا،صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی کام انجام نہیں دے سکتا۔کبھی تو بیماری ایسی آتی ہے جو موت تک پیچھا نہیں چھوڑتی،اور اسی بیماری میں انسان دار فانی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ہم اکثر نیکی اس لیے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں کر لیں گے لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمیں بعد میں کتنا وقت ملے گا۔
۔۔۔3۔۔۔غناک قبل فقرک۔۔۔غربت مالداری سے پہلے۔
اللہ تعالی نے انسان کو مال اور دولت کی نعمت سے نوازا ہے۔اور انسان سے مطالبہ کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔زکوة،یا نفلی صدقات کا حکم در
اصل اس لیے دیا گیا ہے تاکہ انسان کی محبت مال سے ہٹ جائے۔رشتہ داروں پر خرچ،اہل و عیال پر خرچ،ضرورتمندوں پر خرچ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
حدیث میں یہ ترغیب دی ہے ۔کہ مال اوردولت کو غنیمت جانو اور اس کا حق ادا کرو کیونکہ غریب ہونے میں دیر نہیں لگتی کچھ معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے؟اس لیے مال کو آگے بھیجنا چاہیے۔کیونکہ صدقات سے مصیبتیں بھی ختم ہوتی ہیں، اور مال بھی پاک ہوجاتا ہے اس لیے کل کا انتظار کئے بغیر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے ورنہ پھر کف آفسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
۔۔4۔۔۔فراغک قبل شغلک۔۔۔فراغت مشغولیت سے پہلے۔
چوتھی بات جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ وہ فراغت کے لمحات کو کار آمد بنانا ہے۔انسان ہر کام اس وقت کر سکتا ہے جب وہ فارغ ہو۔لیکن جب مصروفیات حد سے بڑھ جائے تو کوشش کے باوجود کام پورے نہیں ہوتے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان وقت کی قدر کریں ،جب بھی موقع ملے انسان کوئی نیکی کریں۔ علماء نے لکھا ہیں کہ نیکی میں دیر مت کیجئے کیونکہ جو ایک لمحہ فارغ ملا ہے اسے غنیمت سمجھو۔کیا پتاکل کو ایک لمحہ بھی نہ ملے۔ہم سے بہت ساری نیکیاں اس لیے بھی ضائع ہوجاتی ہیں کہ ہم یہ کہہ کر چھوڑتے ہیں کہ پھر دیکھا جاۓ گا۔لیکن پھر کب آئے گا ؟کچھ معلوم نہیں۔لھذا فراغت کے لمحات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ورنہ مصروفیت سے ہمیں موقع نہیں ملے گا۔
۔۔۔5۔۔۔حیاتک قبل موتک۔۔۔زندگی موت سے پہلے۔
پانچویں بات جو انتہائی اہم ہے ۔وہ زندگی کی قدت جاننا ہے۔چونکہ دنیا دارالعمل ہے جو بھی ہم یہاں کاشت کریں گے۔ کل قیامت کو اسی مناسبت سے ہمیں پھل بھی ملے گا ۔اس لیے ہمیں آج دیکھنا ہوگا کہ دنیا میں کیا کاشت کریں۔قیامت میں زندگی تو ہوگی لیکن عمل کی اجازت نہیں،قبر میں زندگی مل جاتی ہے لیکن عمل نہیں۔ بس جو کیا ہے اس کا حساب دینا پڑتا ہے۔اس لیے ضرری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو غنیمت جان کرجئیے۔
ہمیں زندگی ایک بار ملتی ہے اور بار بار عمل کا موقع دیتی ہے۔اب یہ ہم پر ہے کہ ہم زندگی کے اس احسان کا بدلہ کیسے دیتے ہیں۔اگر ہم آج کو ضائع کرتے ہیں تو کل ہم خود ضائع ہو چکے ہوتے ہیں لیکن ہمیں موت سے پہلے احساس نہیں ہوتا اور موت کے بعد احساس ہونے کا فائدہ نہیں۔
اگر ہم ان پانچ باتوں کو واقعی غنیمت جان کر زندگی بسر کریں تو دنیا بھی ہماری ہوگی اور آخرت بھی۔ورنہ ہم نہ یہاں کے رہے گےاور نہ وہاں کے۔
شاہ حسین سواتی