Home > Articles posted by Fayaz Muhammad khan
FEATURE
on Jan 27, 2021

انسان  کی بہترین کارکردگی اس کی صحت پر مبنی ہے انسان کی ذہنی صحت اس کی سوچ بوج اور ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کونسا نسخہ بتایا ہے کہ جس سے انسان کا قوت یاداشت تیز ہو سکے اور سائنس وٹیکنالوجی کے ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان بڑھاپے میں جاکر اس کی یاداشت کمزور ہو جاتی ہے یہ سب آپ کو اس تحریر میں مل جائے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر کہتے تھے کہ کوئی ہے سوال کرنے والا بہت سے لوگ آپ کے پاس سوالات لے کر آتے تھے حضرت علی رضی اللہ ان کو تمام سوالوں کا جواب دیتے تھے کہا جاتا ہے کہ کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو حضرت علی رض اللہ کی بارگاہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹتا ۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ اگر میں علم کا شہر ہوں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ اس شہر کا دروازہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے ایک شخص آیا اور ارض کیا کہ یا امیرالمومنین کہ میں اکثر باتوں کو بھول جاتا ہوں میرا دماغ تیزگام نہیں ہے یہاں تک کہ قرآن پاک یاد کرنا مشکل ہے کوئی ایسا عمل یا دعا بتائیں جس سے میرا قوت حافظ تیز ہو جائے اس آدمی کا یہ سوال سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے صاحب یاد رکھنا آپ جو بھی کھانا کھانے لگےتو ایک مرتبہ یا علیم اور ایک مرتبہ یا اللہ کا ورد کریں ۔ اس بعد دم کریں اور اس کے بعد کھاؤ اللہ کے کرم سے یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا اور فجر کی نماز کے بعد آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنااور یا علیم اور یا اللہ کا ورد کر کے دعا کرو انشاء اللہ تم باتوں کو نہیں بھولا کرو گے۔ دوستو صحت کے حوالے سے یاداشت کی کمزوری میں اردگرد کے ماحول بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے یہ مسائل عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتے ہیں عام طور پر یہ علامات تیس سال کے بعد ظاہر ہوتے ہیں خوراک اور عادات میں تبدیلی کرکے اس بیماری کا علاج ممکن ہے کہ قوت یاداشت کمزور ہونے میں سے ایک بنیادی وجہ کوئی بڑا حادثہ یا موروثی طور پر واقع ہونے والی ذہنی کمزوری بھی ہے ۔ ماہرین کے نزدیک نوجوان کے مثبت اور منفی انداز اور زیادہ سونا اور دیر تک جاگنا اوزیادہ مباشرت ، مٹھی اور چکنائی اور بےکار غذاؤں کا استعمال بڑھاپے میں قوت یاداشت کے کمزوری کا سبب بنتی بےخوابی اور سر میں درد ہونا سارا دن جسم بوجھل رہنا، سوتے ٹائم میں سانس پھول جانا اور خراٹے لینا قوت یاداشت کی کمزوری ہے اور وجوھات بھی ہو سکتی ہیں۔ مستقل ا مایوسی افسردگی تنہائی اورذہنی تناؤ کا شکار افراد کی قوت یاداشت جلد ہی کم ہوتے ہیں ۔ بلڈ پریشر ہائی رہنے سے بھی اور سر پر گہری چوٹ لگ جانے سے بھی قوت یاداشت کمزور ہوتے ہیں ۔ خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے بھی قوت یاداشت متاثر ہوتے ہیں ۔ تو یہاں پر آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ کیا احتیاط کرنی چاہیے اور اس کا علاج کس طرح سے ممکن ہےجن لوگوں کا دماغ اور اعصاب کمزوری ہوتے ہیں انہیں نہار منہ کچھ دیر سیب چبا کر کھانا چاہیے سر پر گرم گھی کی مالش کرنا چاہے ۔ گلاب کا قلند بھی کھانے میں استعمال کرنا چاہے ۔ جس طرح انسان کی جسم کے لیے ورزش کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح دماغ کو چاک و چوبند رکھنے کے لیے بھی ورزش کی ضرورت ہے جسمانی ورزش بھی دماغ کو بہت زیادہ تقویت دیتی ہے ۔

FEATURE
on Jan 25, 2021

سرد موسم میں انڈے کیوں استعمال کرتے ہیں ۔ان کے بہت زیادہ فوائد ہیں تو اس تحریر میں اہم آپ کو کچھ اہم معلوم دینگے انڈوں کے بارے میں اور بہت اچھے اور زبردست فوائد سامنے آگئے ، آپ انکو جان کر آپ حیران رہ جائیں گے ، سردیوں کے موسم میں انڈوں کا استعمال اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ہر گھر میں چاہے کھانا ہو ،ناشتہ ہو اور رات کو سونے سے پہلے سردی کے موسم سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے گرم سے گرم اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ سرد ہواؤں اور کم درجہ حرارت کا مقابلہ کرسکے۔ تاہم ، سردیوں میں ، اور موسموں سے کئی گنا گرم لباس پہنتے ہیں ،گرم ٹوپی، گرم جراب وغیرہ وغیرہ تو گرم لباس کے ساتھ ساتھ گرم غذا بھی کھایا جاتا ہے ۔ اور وہ اشیاء جو گرم موسم میں نہیں کھائے جاتے وہ غذا پھر لوگ سرد موسم میں کھاتے ہیں ۔ کئی چیزوں کا استعمال سردی کے موسم میں ہوتا یے ، جیسے سوپ ، خشک میوہ جات ، گری دار میوے اور انڈوں وغیرہ شامل ہیں ۔ غذائیت کے ماہرین کے مطابق ، سردیوں میں کچھ بنیادی بیماریوں سے بچنے کے لئے انڈوں کا استعمال ضروری ہوتا ہے ۔ ماہرین کا خیال یہ ہے کہ انڈے ایک صحت مند کھانا ہے جسے سردی میں کھایا جانا چاہئے کیونکہ بہت سارے جراثیم انسان کو سرد موسم میں بیمار کرتے ہیں۔ انڈوں میں قدرتی طور پر ایسے اجزا ہوتے ہیں جو بیکٹیریا سے لڑنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ، ایک عام انڈے میں چھ گرام پروٹین ہوتا ہے ، اور ایک انڈے میں ایک پروٹین ہوتا ہے جسے جسم اینٹی باڈیز بنانے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ انڈے انسان کو موٹاپا سے بچانے اور جسمانی حرارت کی مناسب مقدار مہیا کرنے کی خاصیت رکھتی ہے۔انڈے انسان کی فضول چربی ختم کرتی ہے اگر اس کو کچا پیا جائے ۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈے وٹامن ڈی سے بھر پور ہوتے ہیں ، جو سرد موسم میں سورج کی روشنی کی کمی کی وجہ سے کم ہوجاتا ہے ،کیوں کہ سردی میں سورج بہت کم نکلتا ہے ۔اور سورج کی روشنی سے انسان کو وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہڈیوں اور جوڑوں میں درد بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈوں سے انسان کی چہرہ کی داغ، دبے اور دانے بھی ختم ہوتے ہیں سردی کی وجہ سے جسم میں درد، سستی اور ہاتھ پاو کا ٹھنڈا پڑھ جانے کا بھی میسر غذا ہے ۔ اور زیادہ تر ٹی بی کی مریض کے لیے سردی میں انڈوں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ لہذا ، سردیوں میں انڈوں کا استعمال ضرور کرنا چاہے۔ یاد رہے کہ انڈے کو عملیٹ ،ابلی ہوئی، تلی ہوئی یا اس سے سالن بنا کر کھایا جاسکتا ہے ، وغیرہ وغیرہ ، ہر طرح سے یہ ایک ہی طرح کا فائدہ دیتا ہے۔

FEATURE
on Jan 20, 2021

*صرف جان پہچان یا اپنے لوگوں کو سلام کرنا، قیامت کی نشانی ہے * ایک صحابی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسجد کے پاس سے گذرے گا؛ لیکن مسجد میں نمازنہیں پڑھے گا اور وہ یہ کہ انسان صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا۔ تشریح :- اپ خود غور کریں ان دونوں علامتوں کے ظہور کا ٹائم اور زمانہ ہے یا نہیں کیا بعد میں آئے گا یا پھر آ ہی چکا ہے؟ دونوں قسم کے لوگ، آج معاشرہ میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، لوگ نماز سے بہت زیادہ غافل ہیں،یعنی %55 لوگ نماز سے غافل نظر آتے ہیں ۔ اور سلام پہلے تو کرتے ہی نہیں، اگر کرتے ہیں تو صرف ان لوگوں کو کرتے ہیں جن سے جان پہچان ہے ، یہ لمحۂ فکر یہ ہے، ایسے لوگوں کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی افسوس کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑرہا ہے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ عام مسلمانوں نے اپنی وضع قطع،شکل و شبہات ، رہن سہن اورحلیہ اس قدر ایسا بنالیا ہے کہ ظاہر دیکھ کر،آپ ان کے بارےمیں فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ مسلمان ہیں، یا پھر کوئ اور ہے اور وضع میں نصاری، تمدن میں ہنود اور انہیں دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی کے بارے میں کچھ بھی ایسے بات معلوم نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں اور ظاہری شکل وشبہات سے بھی مسلمان ہو نا معلوم نہ ہوتا ہو، تو سلام کا ترک، یعنی اس کو آپ کچھ اور نہیں کہہ سکتے کہ آپ اور مذہب کے ہو حدیث کا مصداق یہ نہیں؛ بلکہ آپ اس کو ہر حال میں سلام کر سکتے ہو ۔ اور کرنا چاہے ۔ لیکن اگر وضع قطع اسلامیہ نہ اور صورت مومنا نہ ہو؛ لیکن نام وشخصیت نامعلوم ہے، تب بھی سلام کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ سلام کرنا چاہے ہاں اگر آپ جانتے ہو کہ یہ فلاں فلاں ہیں تو پھر آپ کی مرضی ہے سلام کرے یا نہ کرئے امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں ایک باب باندھنا ہے حضرت فرما تے ہیں : *باب من کرہ تسلیم الخاصۃ* (یعنی اس باب کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو خاص کر کے سلام کہنے کو مکروہ کیا کہ صرف فلاں فلاں کو سلام کرونگا ) اور باب کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے، جو تفصیلی روایت ہے کہ ایک شخص نے انہیں یوں سلام کیا تھا: یعنی ایک شخص نے اسے یوں سلام کیا علیکم السلام یا أبا عبد الرحمن اس کے بعد حضرت نے حضورﷺ کا ارشاد سنایا، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے *بین یدي الساعۃ، تسلیم الخاصۃ* کہ عوام الناس قیامت کے قریب، خاص لوگوں کو سلام کرینگے ۔یعنی خاص لوگوں سے مراد ایسے لوگ ہیں جن سے تم ہر ٹائم ملتے ہو وہ تمہارے دوست ہیں تو ہر حال میں انسان ان سے سلام کرئے گا لیکن ایسا نہیں چاہے بلکہ راستے پر ہر ایک سلام کرنا چاہے ۔

FEATURE
on Jan 19, 2021

*صرف جان پہچان یا آپنے لوگوں کو سلام کرنا، قیامت کی نشانی ہے * حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسجد کے پاس سے گذرے گا؛ لیکن مسجد میں نمازنہیں پڑھے گا اور وہ یہ کہ انسان صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا۔ تشریح:- اپ خود غور کریں ان دونوں علامتوں کے ظہور کا ٹائم اور زمانہ ہے یا نہیں کیا بعد میں آئے گا یا پھر آ ہی چکا ہے؟ دونوں قسم کے لوگ، آج معاشرہ میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، لوگ نماز سے بہت زیادہ غافل ہیں،یعنی %55 لوگ نماز سے غافل نظر آتے ہیں ۔ اور سلام پہلے تو کرتے ہی نہیں، اگر کرتے ہیں تو صرف ان لوگوں کو کرتے ہیں جن سے جان پہچان ہے ، یہ لمحۂ فکر یہ ہے، ایسے لوگوں کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی افسوس کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑرہا ہےاور دکھ بھی ہورہا ہے ۔ کہ عام مسلمانوں نے اپنی وضع قطع،شکل و شبہات ، رہن سہن اورحلیہ اس قدر ایسا بنالیا ہے کہ ظاہر دیکھ کر،آپ ان کے بارےمیں فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ مسلمان ہیں، یا پھر کوئ اور ہے اور وضع میں نصاری، تمدن میں ہنود اور انہیں دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی کے بارے میں کچھ بھی ایسے بات معلوم نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں اور ظاہری شکل وشبہات سے بھی مسلمان ہو نا معلوم نہ ہوتا ہو، تو سلام کا ترک، یعنی اس کو آپ کچھ اور نہیں کہہ سکتے کہ آپ اور مذہب کے ہو حدیث کا مصداق یہ نہیں؛ بلکہ آپ اس کو ہر حال میں سلام کر سکتے ہو ۔ اور کرنا چاہے ۔ لیکن اگر وضع قطع اسلامیہ نہ اور صورت مومنا نہ ہو؛ لیکن نام وشخصیت نامعلوم ہے، تب بھی سلام کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ سلام کرنا چاہے ہاں اگر آپ جانتے ہو کہ یہ فلاں فلاں ہیں تو پھر آپ کی مرضی ہے سلام کرے یا نہ کرئے امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں ایک باب باندھنا ہے حضرت فرما تے ہیں : *باب من کرہ تسلیم الخاصۃ* (یعنی اس باب کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو خاص کر کے سلام کہنے کو مکروہ کیا کہ صرف فلاں فلاں کو سلام کرونگا ) اور باب کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے، جو تفصیلی روایت ہے کہ ایک شخص نے انہیں یوں سلام کیا تھا: یعنی ایک شخص نے اسے یوں سلام کیا ۔۔ علیکم السلام یا أبا عبد الرحمن اس کے بعد حضرت نے حضورﷺ کا ارشاد سنایا، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے *بین یدي الساعۃ، تسلیم الخاصۃ* کہ عوام الناس قیامت کے قریب، خاص لوگوں کو سلام کرینگے ۔یعنی خاص لوگوں سے مراد ایسے لوگ ہیں جن سے تم ہر ٹائم ملتے ہو وہ تمہارے دوست ہیں تو ہر حال میں انسان ان سے سلام کرئے گا لیکن ایسا نہیں چاہے بلکہ راستے پر ہر ایک سلام کرنا چاہے ۔

FEATURE
on Jan 13, 2021

???? *بِسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِيم​* ???? ❑ *29 جمادالاول 1442 ھِجْرِیْ* ​ ❑ *13جنوری2021 عِیسَوی* ◎ ─۔۔━ ???? *بروزبدھ * ???? ━۔۔─ ◎ ـــــــــــــــ ۔۔ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *کھانا کھانے والے کو سلام کرنا* جو شخص سلام کا جواب دینے پر حقیقتاً قادر نہ ہو یعنی وہ اس کے منہ میں کچھ ہو کچھ کھا رہا ہو ایسے آدمی کو سلام کرنا مکروہ ہے، مثلا کھانا کھانے والا،لیکن یہ کراہت اس ٹائم کے ساتھ خاص ہے کہ لقمہ اس ٹائم اس کے منھ میں ہواور وہ چبا رہا ہو اور اگر لقمہ منھ میں نہیں ہے تو ایسے شخص کو سلام کرنا مکروہ نہیں ہے۔ کھانا کھانے والے کو سلام کرنا مکروہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی قباحت یا بری بات ہے، کراہت کی علت اور وجہ یہاں بھی وہی ہے جو اس سے پہلے گذری ہے؛ یعنی کسی کو خلل اور تکلیف نہ ہو؛ اس سلسلے میں علماء و فقہاء نے جتنی بھی صورتیں لکھی ہیں ان کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ عموماً ان مواقعوں پر لوگوں میں سلام وجواب کا رواج ہوتا ہے، اور رواج کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کو، کوئی تکلیف نہیں ہوتی؛ اگرکہیں احوال وقرائن سے معلوم ہو جائے کہ کھانا کھانے والے کو سلام کریں گے تو اُسے ذہنی اور بدنی اذیت ہوگی تو اب سلام کرنا مکروہ ہو جائے گا علماء و فقہاء کا بیان کردہ یہ مسئلہ در حقیقت باب معاشرت کا ایک ادبی پہلو پر بنی ہے، جس نے اسے سمجھا، یا سمجھنے کی کوشش کی تو اس نے صحیح سمجھا اور جس نے اس علت کو نہیں سمجھا، اس نے اس مسئلہ کامذاق اڑایا، اور کسی چیر کا بغیر تحقیق کے مزاق اڑانا بہت ہی بڑی بات ہے علم الگ چیز ہوتا ہے اور تحقیقی علم الگ چیز ہوتا ہے۔ کسی شحص کا ایسے لوگوں پر گذر ہو، یا وہ شخص راستہ پر مسافر ہو اور اچانک ایسے جگہ پر آگیا کہ جو کھانا کھارہے ہوں اور اسے کھانے کی شدید حاجت بھی ہو رہی ہو اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں ان لوگوں کو سلام کرونگا یہ مجھے بولائنگے تو سلام کرے ورنہ نہیں۔ علماء حضرات نے کھانا کھانے والوں سلام کرنے کا علت یہ بیان کی ہیں کہ یہ لوگ جواب سے عاجز ہوتے ہیں اس لیے ان کو سلام نہ کیا جائے ۔ اور میرے نزدیک اس کی دوسری علت یہ بھی ہے کہ وہ تشویش میں مبتلا ہونے یا لقمہ کے حلق میں اٹک جانے کا احتمام بھی ہے پس جس جگہ یہ دونوں علتیں ہوں تو وہاں خیال کرنا ضروری ہے یعنی کراہت بھی جہاں یہ دو علتیں نہیں ہیں وہاں کراہت بی نہیں ہے اور یہ بات میں قواعد و ضوابط سے سمجھا ہوں اس کی کوئی نقل صریح میرے پاس نہیں ہے ۔

FEATURE
on Jan 11, 2021

ناممکن کو ممکن کیسے بنائیں ۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو سی ایس ایس آفیسر، پی ایم ایس آفیسر، وکیل،پائلت،ڈاکٹر، پروفیسر،ٹیچر، سائنسدان یا بزنس میں بننا چاہتے ہیں لیکن خود اعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے شروع دن سے ان کے ارادے اور حوصلے کمزوروپست ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ زنگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ وہ خود اعتمادی کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں اور مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہوتے چلے جاتےہیں ۔ خود پر یقین :- خود اعتمادی کے ذریعے سے ناممکن دکھائی دینے والے کاموں کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ایک مفکر ڈیل اپنی کتاب ” جو چاہیں وہ کیسے پائیں ”میں لکھتا ہے ”اگر کامیابی کی کوئ کنجی ہوتی تو وہ کنجی خود اعتمادی ہوگی”اعتماد کے فقدان میں فتح نا ممکن ہے۔اعتماد کو مضبوط کریں کامیابی آپ کی قدموں میں لوٹے گی۔ فاتح شحص:- کسی بھی فاتح کی زندگی کا مطالعہ کریں اس کی فتح کا سب سے بڑا راز کا اٹل اعتماد ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا کرشمہ اعتماد ہے اعتماد کے بل بولتے پر آپ اس کام میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں جسے آپ ناممکن تسلیم کر چکے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا ”جو شخص اپنی قدر نہیں کرتا کوئی دوسرا شخص بھی اس کی قدر نہیں کرتا” جنگ میں بندوق نہیں لڑتی بلکہ اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے ”لہذا اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور اس کی قدر کریں ۔ اعتماد شخص :- خود اعتمادی کامرانی کی کلید ہے۔اعتماد کی صلاحیت بیدار کرنے والا شخص ہمیشہ فتح حاصل کرتا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی طاقت کئی گنا زیادہ کر لیتا ہے ۔اور اس کی خوابیدہ قوتیں اور صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں ۔اور خود اعتمادی والے شخص کے لئے کوئی کام مشکل یا ناممکن نہیں رہتا،اسکی زندگی کی گاڑی کامیابیوں کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔ بے اعتماد شخص:- بے اعتماد شخص کی زندگی ہمیشہ مایوسی شکست، قنوطیت اور ناکامی کی طرف لڑھکتی رہتی ہے وہ اپنے محدود خیالات و تصورات اور بے اعتمادی کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے اور اس بے اعتمادی کے ہاتھوں زندگی کے اہم عہدوں اور جگہوں پر نہیں پہنچ سکتا۔ ناموراورمشہورشخصیات:- کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے یا ناممکن کو ممکن بنا نے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر خود اعتمادی کی صلاحیت ہو،اس صلاحیت کی بدولت بہت غریب اور گمنام لڑکے نامور اور مشہور شخصیتوں کی شکل میں دنیا کے سامنے آئے ۔ نتیجہ:- اکثر نوجوانوں کے دلوں میں بڑے بڑے مقاصد، خیالات اور ارمان ہوتے ہیں لیکن وہ کوشش نہیں کرتے محض بلندیوں کے خواب دیکھتے ہیں پھر یہ سوچ کر صبر کر لیتے ہیں کہ قسمت میں ہوگا تومل جائے گا ۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قسمت انسان خود بناتا ہے اپنی جہد مسلسل سے ۔

FEATURE
on Jan 10, 2021

???? *بِسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِيم​* ???? ❑ * 24 جمادی الاول1442 ھِجْرِیْ* ​ ❑ *9 جنوری 2020 عِیسَوی* ◎ ─━ ???? *بروز ہفتہ* ???? ━─ ◎ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ***حصہ نمبر دوم*** *ذکر کرنے والے کو سلام کرنا* ذکرایک ایسی عبادت ہے جس سے دلوں کو سکون و اطمینان ہوتا ہے، لسان ذاکر اور قلبِ ذاکر و شاکر ، فلاحِ دارین کا سبب ہیں۔ لیکن ذکر کی یہ خاصیت من کل الوجوہ اسی وقت ظاہر ہوتی ہے۔ جب زبان وقلب، ذکر کرنے کےوقت ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں،اور اس ارتباط کے لیے استغراقی کیفیت بہت ہی ضروری ہوتا یے، ہاں اب اگر کوئی ایسی استغراقی کیفیت کے ساتھ مصروفِ ہے اور ذکر کر رہا ہے ، تو اسے سلام کر کے خواہ مخواہ اسکی توجہ دوسری جانب مبذول کرنا، مکروہ ہے، بعض ذاکرین آنکھیں بند کر کے ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بعض حضرات کے اذکار عددی ہوتے ہیں، اگر انہیں سلام کریں گے تو ڈرنے کا خطرہ اور عدد بھول جانے کا خطرہ ہے، اس لیے ان لوگوں کو سلام نہ کرنا مناسب ہے۔ عبادت کی اقسام عبادت خواہ وہ قران مجید کی تلاوت ہو یا ذکرواذکار یا نماز چاہے نفل ہو یا فرض ان اوقات و لمحات میں سلام کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئ شحص بادشاہ، بڑے بزرگ ، اپنے استاد اور آقا وغیرہ کے پاس بیٹھا ہوا ہو ، اس سے بات چیت کر رہا ہو اور ایک شخص اس کو اپنی طرف بولا رہا ہو یا پھر مشغول کر رہا ہو تو کیا یہ سب کچھ کرنا خلاف ادب نہ ہو گا ۔یقینا ایسا کرنا خلاف ادب ہے اور دونوں کو تکلیف پہنچانے کی طرف ہے اور تکلیف پہنچانا ویسے بھی اچھی بات نہیں ہے پھر اس طرح پہنچانا بالکل ٹھیک نہیں ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے ۔ اگر ایسا مواقع ہوں تو انسان کو چاہے کہ سکونت اختیار کریں ۔کیونکہ سلام کا جہاں جہاں حکم ہے وہاں وہاں سلام کرنا چاہے ۔ یہ صرف عبادت کے معاملے میں ہیں اگر کوئ شحص مسجد میں داخل ہوتا ہے اور کچھ لوگ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئ نوافل ادا کر رہے ہیں ،کوئ ذکر کر رہے ہیں اور کوئ ویسے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ۔ تو اگر کوئ سلام کرے تو اس کا جواب نہیں دینا چاہیے ۔ کیوںکہ یہ ویسے گپ شپ کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ نماز کے انتظار میں ہیں ۔اور نماز کی انتظار میں بیٹھنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔ جہاں تک مکروہ ہونے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ بعض سنت ادا کر رہے ہیں اور بعض نوافل میں مشغول ہیں ۔ اور بعض ویسے نماز کی انتظار میں ہیں تو ان اوقات میں اگر کوئ سلام نہیں کرتا تو تارک سنت نہیں کہلائے گا ۔اور مکروہ اس وقت ہوگا ۔جب سارے نماز میں مشغول ہوں تو اس وقت سلام کرنا مکروہ کہلائے گا۔ لیکن اگر مسجد میں کوئ نہیں ہے ،تو داخل ہوتے وقت اسلام علینا و علی عباد اللہ الصالیحین کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ یہ حکم ایسے گھروں میں ہیں جہاں اگر کوئ رہائشی گھر میں نہیں ہے تب بھی مذکورہ کلمات میں سلام کہنا چاہیے یہ حکم یے ۔تو خدا کے گھر میں بدرجہ اولی ہوگا۔کیونکہ مساجد میں فرشتوں کا ہونا ظاہر و اغلب ہے۔

FEATURE
on Jan 10, 2021

???? *بِسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِيم​* ???? ❑ * 24 جمادالاول1442 ھِجْرِیْ* ​ ❑ *9 جنوری 2020 عِیسَوی* ◎ ─━ ???? *بروز ہفتہ* ???? ━─ ◎ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ***حصہ نمبر دوم*** *ذکر کرنے والے کو سلام کرنا کا حکم* ذکرایک ایسی عبادت ہے جس سے دلوں کو سکون و اطمینان ہوتا ہے، لسان ذاکر اور قلبِ ذاکر و شاکر ، فلاحِ دارین کا سبب ہیں۔ لیکن ذکر کی یہ خاصیت من کل الوجوہ اسی وقت ظاہر ہوتی ہے۔ جب زبان وقلب، ذکر کرنے کےوقت ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں،اور اس ارتباط کے لیے استغراقی کیفیت بہت ہی ضروری ہوتا یے، ہاں اب اگر کوئی ایسی استغراقی کیفیت کے ساتھ مصروفِ ہے اور ذکر کر رہا ہے ، تو اسے سلام کر کے خواہ مخواہ اسکی توجہ دوسری جانب مبذول کرنا، مکروہ ہے، بعض ذاکرین آنکھیں بند کر کے ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بعض حضرات کے اذکار عددی ہوتے ہیں، اگر انہیں سلام کریں گے تو ڈرنے کا خطرہ اور عدد بھول جانے کا خطرہ ہے، اس لیے ان لوگوں کو سلام نہ کرنا مناسب ہے۔ عبادت کی اقسام :- عبادت خواہ وہ قران مجید کی تلاوت ہو یا ذکرواذکار یا نماز چاہے نفل ہو یا فرض ان اوقات و لمحات میں سلام کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئ شحص بادشاہ، بڑے بزرگ ، اپنے استاد اور آقا وغیرہ کے پاس بیٹھا ہوا ہو ، اس سے بات چیت کر رہا ہو اور ایک شخص اس کو اپنی طرف بولا رہا ہو یا پھر مشغول کر رہا ہو تو کیا یہ سب کچھ کرنا خلاف ادب نہ ہو گا ۔یقینا ایسا کرنا خلاف ادب ہے اور دونوں کو تکلیف پہنچانے کی طرف ہے اور تکلیف پہنچانا ویسے بھی اچھی بات نہیں ہے پھر اس طرح پہنچانا بالکل ٹھیک نہیں ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے ۔ اگر ایسا مواقع ہوں تو انسان کو چاہے کہ سکونت اختیار کریں ۔کیونکہ سلام کا جہاں جہاں حکم ہے وہاں وہاں سلام کرنا چاہے ۔ یہ صرف عبادت کے معاملے میں ہیں اگر کوئ شحص مسجد میں داخل ہوتا ہے اور کچھ لوگ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئ نوافل ادا کر رہے ہیں ،کوئ ذکر کر رہے ہیں اور کوئ ویسے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ۔ تو اگر کوئ سلام کرے تو اس کا جواب نہیں دینا چاہیے ۔ کیوںکہ یہ ویسے گپ شپ کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ نماز کے انتظار میں ہیں ۔اور نماز کی انتظار میں بیٹھنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔ جہاں تک مکروہ ہونے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ بعض سنت ادا کر رہے ہیں اور بعض نوافل میں مشغول ہیں ۔ اور بعض ویسے نماز کی انتظار میں ہیں تو ان اوقات میں اگر کوئ سلام نہیں کرتا تو تارک سنت نہیں کہلائے گا ۔اور مکروہ اس وقت ہوگا ۔جب سارے نماز میں مشغول ہوں تو اس وقت سلام کرنا مکروہ کہلائے گا۔ لیکن اگر مسجد میں کوئ نہیں ہے ،تو داخل ہوتے وقت اسلام علینا و علی عباد اللہ الصالیحین کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ یہ حکم ایسے گھروں میں ہیں جہاں اگر کوئ رہائشی گھر میں نہیں ہے تب بھی مذکورہ کلمات میں سلام کہنا چاہیے یہ حکم یے ۔تو خدا کے گھر میں بدرجہ اولی ہوگا۔کیونکہ مساجد میں فرشتوں کا ہونا ظاہر و اغلب ہے۔

FEATURE
on Jan 5, 2021

???? *بِسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِيم​* ???? ❑ *20 جماد الاول 1442 ھِجْرِیْ* ​ ❑ 5 جنوری 2021 عِیسَوی* ◎ ─━ ???? *سوموار* ???? ━─ ◎ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *واپسی میں سلام کے بجائے ’’خدا حافظ ‘‘یا ’’فی امان اللہ‘‘ کہنے کا حکم* اِس ٹائم ہمارے یہاں ایک نامناسب طریقہ رائج ہوچکا ہے اور وہ یہ ہے سلام چھوڑ کر خدا حافظ، اللہ حافظ یا فی امان اللہ کہا جاتا ہے، اِس طرح رخصتی یا جدائی کے وقت سلام کے بجائے دوسرے کلمات کا ادا کرنا بالکل صحیح نہیں؛اس لیے کہ اس میں سلام کی الفاظ فوت ہو جاتے ہیں ؛ کیوں کہ ہم نے سلام کو چھوڑ کر اُسے اختیار کر لیا ہے اور یہ شریعت کے اندر تبدیلی ہے، دین وسلام کے اندر ایسی تبدیلی کرنے کا کسی کو بھی اختیار و حق حاصل نہیں ہے اور ایسا کرنا غلط ہے اور بالکل ممنوع ہے، بلکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ، ہاں اگر آپ واپسی پر پہلے سلام کریں، بعد میں اللہ حافظ یا فی امان اللہ کہہ دیں تواِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔یعنی جو مقصد سلام کرنے کا ہے وہ تو حاصل ہو چکا ہے اب اگر آپ یہ الفاظ کہہ دے توکوئی بری بات نہیں ہے۔بہر حال واپسی میں سلام کی سنت کو زندہ کریں اور خوب پھیلائیں اور رخصتی کے وقت سلام کو چھوڑ کر ،اُس کی جگہ فی امان اللہ کو فروغ نہ دیںں ،کیوں کہ اس طرح کرنا صحیح نہیں ہے ، میں زیادہ تر ٹیلیفون پر یہی بات سنتا ہوں، لوگ ٹیلیفون بند کرتے وقت فی امان اللہ اور اللہ حافظ کہتے ہیں، کوئی سلام نہیں کرتا، ٹیلیفون ہو یا زبانی ملاقات، دونوں کاایک ہی حکم ہے، اس میں تیلیفوں یا زبانی ملاقات میں کوئ فرق نہیں ہے ،پہلے سلام کرنا چاہیے، جب ٹیلیفون بند کرنے لگیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر پھر ٹیلیفون بند کرلیں، کسی کا دل چاہے تو سلام کے بعد فی امان اللہ کہہ لے، فی امان اللہ کہنا سنت نہیں، صرف جائز ہے. اگر کوئی کہے تو گناہ بھی نہیں ہے لیکن فی امان اللہ، اللہ حافظ اس وقت گناہ ہو گا جب آپ سلام کرنے سے پہلے کہتے ہو، یعنی سلام کی جگہ ان الفاظ کو استعمال کرتے ہو، اور لیکن صرف فی امان اللہ اس وقت نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن اگر کوئ پہلی مرتبہ ایسا کرتا ہے، بھول کر یا اس وقت سلام کرنا یاد نہیں رہا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی عادت بھی نہیں ہے تو بھی کوئ بات نہیں ہے لیکن یہاں عادت کی بات ہے اگر کسی نے اپنا عادت بنا لیا ہے اور فی امان اللہ ،اللہ حافظ ایسے الفاظ کو اچھا تصور کرتا ہے ،تو اس سے اسلام نے منع کیا ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں ہے ۔اگر اس کو سنت سمجھ کر کرتا ہے تو یقینا اس شخص کو گناہ ملے گا ۔