مسجدِاقصٰی
مکہ اور مدینہ کے بعداس امت کے ہاں وہ تیسرامبارک مقام جوانبیاء کی سرزمین ہےاس کانام بیت المقدس ہے۔اس کرہ ارض پر مسلمانوں کاتیسرہ مقدس مقام مسجدِ اقصٰی ہے۔مسجدِ اقصٰی جس شہرکے اندرواقع ہےاُسےاحادیث اورتاریخ میں”بیت المقدس”کہا
جاتاہے۔اسی طرح انجیل میں اس شہر کو”یروشلم”کہاجاتاہے۔مسجدِ اقصٰی قدیم شہر کےجنوب مشرق کی طرف ایک نہایت وسیع رقبےپرمشتمل احاطہ ہے۔اس احاطےکےگردایک مستطیل شکل کی شکوہ فصیل پائی جاتی ہے۔مسجد کے احاطے کی وسعت کا اندازہ
اس سےہوتاہےکہ اس کارقبہ144دونم(1دونمبربرابرہے1000مربع میٹرکے)ہے۔اس احاطےمیں گنبدِ سخریٰ پایاجاتاہے۔
اس مسجد کو”قبلہ والی مسجد”کےنام سےبھی جاناجاتاہے۔مسجدِاقصٰی کایہ پورااحاطہ ایک ٹیلےنماجگہ پرواقع ہے۔جسے”موریا”کہاجاتا
ہے۔مسجدِ اقصٰی فلسطین میں واقع ہے۔
صخریٰ مشرفہ(وہ چٹان جہاںمعراج کی رات رسولﷺنےاپنےقدم مبارک رکھےتھے)اس پورےاحاطےکی بلندترین جگہ ہے۔اسےمسجدِ اقصٰی کے مرکزی احاطےکی حیثیت سےجاناجاتاہے۔
مسجدِاقصٰی کی پیمائش:
جنوب کی طرف281میٹر،شمال کی طرف310میٹر،مشرق کی طرف462میٹراورمغرب کی طرف491میٹرواقع ہے۔اس مسجد کی خاص بات یہ ہےکہ یہ مسجد آج بھی ویسی ہےجیسی پہلےتھی۔یعنی اسےمسجدِالحرام(مکہ مکرمہ)اورمسجدِنبوی(مدینہ شریف)کی طرح باربارتعمیرنہیں کیاگیاہے۔مسجدِ اقصٰی کی حدودآج بھی ویسی کی ویسی ہیں۔احاطہ اقصٰی کے14دروازےہیں۔
مسجدِ اقصٰی کرہ ارض کی ایک نہایت قدیم نماز گاہ ہے۔عبدالمالک بن مروان نے نہ ہی گنبدِصخریٰ کی بنیادرکھی اورنہ ہی اسےتعمیرکیا۔
مسجدِ اقصٰی کی بنیاد کس نے رکھی؟تاریخ میں یہی لکھاہےکہ بیت الحرام کی تعمیر کے چالیس سال بعد اللہ کےاس دوسرےگھرکی بنیادرکھی گئی۔یہ کام اللہ تعالٰی کےحکم سےکیاگیا۔یہاں پرنہ ہی کوئی ہیکل اور نہ ہی کوئی کلیساتعمیرہواتھا۔ایک مدت بعدحضرت ابراہیمؑ کی ہجرت اس طرف ہوئی جوانہوں نےبت پرستوں کے علاقے عراق سےکی تھی۔یہ علاقہ 1800سے2000قبلِ مسیح کاہے۔حضرت ابراہیمؑ نے بیت الحرام کی تعمیر کی اوراسے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر آباد کیا۔بعدمیں ان کے دوسرے فرزنداسحاقؑ اور پھران کےفرزندارجمندیعقوبؑ خطہ اقصٰی کی آبادی پر مامورہوے۔پھر سلیمانؑ کے ہاتھوں مسجدِاقصٰی کی تعمیر ایک ہزارسال قبل ِ مسیح ہوئی۔
سن15ھ،بمطابق636ءمیں حضرت عمرفاروقؓ جو کےمسلمانوں کےخلیفہ دوم تھے،اُنہوں نےمسجدِاقصٰی کو فتح کیا۔جو کے اُس وقت یہودیوں کے قبضےمیں تھی۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ایک عظیم فتح تھی۔جو لڑائی جھگڑے کے بغیر حاصل کی گئی تھی۔
اس دورمیں بیتُ المقدس کی تعمیر ہوئی۔پھر اموی دور میں گنبدِصخریٰ کی تعمیر ہوئی۔اموی دور میں یہ تعمیری منصوبہ تقریباََ 30سالوں میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔یعنی66ھ بمطابق685ء سےلےکر96ھ بمطابق715ءتک۔تب سے اب تک مسجدِاقصٰی اسی نقشےپرقائم ہے۔ فلسطین آج پھر یہودیوں کے قبضےمیں ہے۔آج پھراُسےعمربن خطابؓ جیسے حکمران کا انتظارہے۔آج پھر اُسے صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران کاانتظارہے۔