حضرت عمر رضی اللہ عنہ جن کے پاک نام پر آج مسلمانوں کو فخر ہے اور جن کے جوش ایمان سے آج تیرہ سو سال بعد تک کافروں کے دل میں خوف ہے اسلام لانے سے قبل مسلمانوں کے مقابلہ اور تقابلی پہنچانے میں بھی ممتاز تھے نبی علیہ السلام کے قتل کے درپے رہتے تھے ایک روز کفار نے مشورہ کمیٹی قائم کی کوئی ہے جو محمد صل وسلم کو قتل کر دے
عمر رضی اللہ انہوں نے کہا کہ میں کروں گا لوگوں نے کہا کہ بے شک تم کر سکتے ہو حضرت عمر رضی اللہ عنہ و تلوار لٹکائے ہوئے اٹھے اور چلیے اسی فکر میں جارہے تھے کہ ایک صاحب قبیلہ زہر کے جن کا نام سعد بن ابی وقاص ہے اور بعض نے اور صاحب بتایا ہے راستے میں ملا انہوں نے پوچھا کہ عمر کہاں جا رہے ہو کہنے لگا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی فکر میں ہو (نعوذ باللہ )سعد رضی اللہ انہوں نے کہا کہ بنو ہاشم اور بنو زہرہ اور بنو عبدالمناف سے کیسے بے فکر ہو گئے کہ وہ تم کو بدلے میں قتل کر دیں گے یہ جواب سن کر غصے سے لال ہو گئے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی بے دن ہو گئے مسلمان ہو گئے پہلے تم کو نمٹا دو حضرت سعد رضی اللہ انہوں نے بولا ہاں میں مسلمان ہوا ہو دونوں طرف سے تلوار سے چلنے والے تھے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے اپنے گھر کا خبر لو تیری بہن اور بیوی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کر غصہ اور بڑھ گیا اور سیدھا بہن کے گھر چلا گیا
وہاں حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ زیادہ نہ ہو ان دونوں میاں بیوی کو قرآن پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بہت زور سے دروازے پر دستک دی ان کی آواز سے حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ تو جلدی سے اندر چھپ گئے مگر جلدی میں صحیفہ باہر رہ گیا جس پر قرآن پاک کی آیات لکھی ہوئے تھے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے اندر آئے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس سے بہن کی سر مارا تو اس سے خون بہنے لگا پھر اپنی بیوی کو داڑھی سے پکڑ کر پوچھنے لگا لگتا ہے تم بھی بےدین ہو گئے ہو تم کیا کر رہے تھے بہنوئی نے جواب دیا کہ ہم قرآن پاک پڑھ رہے تھے اپنی بہن کو بھی خوب مارا جب اس کی بہن چھڑا نے آگئی تو اپنی بہن کے منہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے خون آنے لگا بہن نے کہا صرف اس وجہ سے ہم لوگ مارے جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو گئے ہم مسلمان ہو گئے آپ سے جو ہو سکتے ہیں کرو
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نظر اس صحیفہ پر پڑی جو جلدی میں باہر رہ گیا تھا اور غصے کا زور بھی مار پیٹ سے کم ہو گیا تھا پھر بولنے لگا کہ اچھا مجھے دکھاؤ کیا ہے بہن نے جواب دیا کہ آپ ناپاک ہو اور نہ پاک اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بہت اصرار کیا مگر اس کی بہن نے اس کو ہاتھ لگانے نہیں دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے غسل کیا اور اس کو پڑھنے لگا جس میں سورہ سورہ طہ کے آیات لکھے ہوئے تھے اس کو پڑھتے پڑھتے اس کا دل نرم ہو گیا اور کہنے لگا کہ میرے کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کروں حضور علیہ السلام کی خدمت جا کے جمعے کو مسلمان ہوگئے
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے سے کافروں کے حوصلے پست ہونے لگے مگر پھر بھی کافروں کا زور بہت تھا .حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لانے کے بعد نماز کھولے عام پڑھنے لگی .حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا مسلمانوں کی فتح تھی اور ان کے ہجرت مدد تھی اور ان کی خلافت رحمت تھی