“معرکہءِ یرموک اورمسلم مسیحی تہذیبی کشمکش”دورِحاضرکےتہذیبی تصادم کی جنگ کے بیج تبھی بودیئےگئےتھےجب عساکرِبلادِاسلام اور بازنطینی سلطنت کی مسیحی افواج کے درمیان 637ءمیں سرزمینِ شام پر”معرکہءِیرموک”لڑاگیا تھا۔چھے دنوں پرمحیط اِس جنگ نےآنے والی دُنیا کی تاریخ کاپانسہ پلٹ دیااورنوزائیدہ اِسلامی تہذیب وتمدن کومسیحی اثرات کی حامل لازوال سمجھی جانے والی رُومی تہذیب کے مدِمقابل لا کھڑاکیا۔
بازنطینی سلطنت نے اسلامی تہذیب کے عروج اوراسلام کےاندر پنہاں آفاقیت کے اُصولوں کودیکھتے ہی یہ خطرہ بھانپ لیاتھاکہ صحرائے عرب سے نمودارہونےوالا یہ توحیدی دین مسیحی تہذیب وتمدّن کی باقی دُنیاپرتاحال ناقابلِ شکست گرفت کوہمیشہ کے لیےختم کر دے گا۔لہٰذااسلام کو مسیحیت کاسب سے بڑا”دشمن”قراردے کرمعرکہءِ یرموک کی تیاری بالکل اُنہی اصولوں پرکی گئی، جو ہمیں بعد میں”صلیبی جنگوں”کےعہد میں مسیحی دُنیاکےاندرنمایاں طورپرکارِفرمانظر آتے ہیں۔قسطنطنیہ سےفرمانروائےبازنطین کی جانب سےیورپ بھرمیں یہ اعلانات کروائےگئےکہ یروشلم (بیت المقدس)پر”کافرعربوں”کےقبضےکاخطرہ منڈلا رہاہے،جس سے مسیحیت کاوجودشدیدخطرے میں ہے۔یہی وہ پہلا موقع تھاجب”کافر”کی اصطلاح مسلم مسیحی تناظرمیں ایک فریق نے دُوسرے کے لیےاستعمال کی،اور یُوں مسلمانوں کو یروشلم کی ارضِ مقدس پرقابض ناپاک کافراوریسوع مسیح کایہودیوں سے بھی بڑادشمن قراردیاگیا۔پس یورپ بھر کے”صلیبی مجاہدوں”کوبازنطینی پرچم تلےجمع کرنے کا مقدس مشن بھرپورانداز میں شروع کردیاگیا۔ یورپ کے طُول وعرض سے یسوع مسیح کےنام پر کٹ مرنے والے مجاہدین کاسمندراُمڈ پڑا،جن کی کثرتِ تعداد کے بل بوتے پربازنطینی تاریخ کاسب سے بڑالشکرتشکیل دیاگیا۔شہنشاہ ہرقل کے بھائی “تھیوڈور”کی سرکردگی میں دولاکھ سےزائد صلیبیوں پرمشتمل اپنے زمانے کےجدیدترین اسلحہ سے لیس ایک لشکرِعظیم تیار کرکےملکِ شام کی طرف روانہ کیا گیا،جہاں اِس کاسامنامیدانِ یرموک میں سپاہِ جانثارانِ مصطفےٰ(ﷺ)سے637ءمیں ہوا۔
مسیحی افواج کےبرعکس مسلمانوں کی تعداد صرف چالیس ہزار تھی،جس کی کمان سپہ سالار ابوعبیدہ بن جراح(رض)نےامانتاًخالد بن ولید (رض)کوسپردکردی تھی۔مسیحی دُنیا کے ساتھ یہ اسلامی تاریخ کاپہلا باقاعدہ تصادم تھا،جس کے حیران کن نتائج نے اسلام کاسکہ دُنیابھرمیں رائج کر دیا!نقذِ تاریخ پرمعلوم ہو گاکہ اِس پہلی باقاعدہ “صلیبی جنگ”اورملتِ اسلامیہ ومسیحی اقوام کے درمیان اُس زمانہ کےبعد باہمی معانقہ میں گہرا تعلق پایاجاتاہے،کیونکہ اِس معرکہ کےاثرات بعدکی تاریخ میں کبھی ختم نہیں ہو سکے۔اسلام سے مسیحی روابط کی ہرشکل اورہرمرحلے پراِس ایک جنگ کاانتقامی جذبہ ہمیشہ غالب رہا اورمسلمانوں کی جانب سے تہذیب وتمدن کی سُرخیلی مسیحیت سے چھین لیے جانے کا قُلق مسیحی دُنیااپنے دِل و دماغ سے کبھی نہیں نکال سکی۔اِس کے اثرات کئی صدیوں پر محیط صلیبی جنگوں کی صورت میں کھل کر تب سامنے آئے،جب مسیحیت کے صلیبی مجاہدوں کی جانب سے”عشقِ یسوع”کےجذبے کی سرشاری میں ظلم وستم کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ تاریخ اُن کی سنگینی کی کوئی اورمثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔1099ءمیں فتح بیت المقدس کے بعد صلیب کے مجاہدوں نےاِس حرمت والے شہر میں خُونِ مسلم کی ندیاں بہا دیں،
یہاں تک کہ خُون میں تیرتی عورتوں،بچوں اوربوڑھوں کی لاشوں کے انبارگھوڑوں کی رکابوں تک پہنچ گئے،لیکن صلیبی مجاہدوں کی خونی پیاس پھر بھی نہ بُجھی۔تاہم،”ظلم تو آخر ظلم ہے،بڑھتاہےتو مٹ جاتا ہے”کے مصداق مسیحی دُنیا کوصلیبی جنگوں میں من حیث المجموعی مُنہ کی ہی کھانا پڑی،کیونکہ مجاہدینِ اسلام نے مسیحیت کے وحشی گھوڑے کو لگام ڈال کر یہ سیلاب روک دیا۔ پس بیت المقدس اسلام کی ہی آغوش میں آن ٹھہرا۔
تاہم،تہذیبوں کی کشمکش اورتصادم کی اِس داستان میں دونوں طرف کےغالب رویوں کی ایک جھلک دیکھ کراندازہ کیاجاسکتا ہے کہ”منتقم المزاج”کون سافریق ہے اورحسنِ سلوک کاروادار کون ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عساکرِ محمدالرسول اللہ (ﷺ) نے نہ ہی مسیحی رعایا کاقتلِ عام معرکہءِ یرموک کے بعد کیااور نہ ہی1187ءمیں مجاہدِ اسلام صلاح الدّین ایوبی نے مسیحی دُنیا سے کوئی انتقام لیا۔مسلمانوں کی جانب سے خون کی ایک بُوند بھی بلاجواز یاکسی انتقامی جذبہ کے تحت حالتِ امن میں یا فتح کے بعد کی طوائف الملوکی میں نہیں بہائی گئی۔اِس کی تصدیق مسیحی دُنیا کے بڑے بڑے مؤرخین بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلام کے خلاف پراپیگنڈاکے لیے مسیحی اقوام کو اسلامی تاریخ سے کوئی ایسے قابلِ ذکر ثبوت میسر نہیں آتے،جو اسلام اورمسلمانوں کو ظالم ثابت کر سکیں،لہٰذا دیگر حربوں،جن میں مسلسل جھوٹ کے ذریعے نفسیاتی ذہن سازی اہم ترین ہے،پر انحصارکیاجاتاہے.