Skip to content

کامیابی کا دوسرا نقشہ

مجھے قبر میں لٹا دیا گیا. میرے اوپر پہلے پتھر کی بڑی بڑی سلیں رکھی گئیں اور اس کے بعد میرے اوپر مٹی ڈالی جانے لگی اور سب لوگ مجھے اکیلا چھوڑ کر واپس چلے گئے. میں گھبرا گیا، میں نے چیخ کر ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن میری آواز ہی نہ نکلی. میں خوفزدہ تھا، میرے سب گھر والے جانتے بھی تھے کہ مجھے اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی، اس کے باوجود بھی وہ مجھے اکیلا اس اندھیری کوٹھڑی میں کیوں چھوڑ گئے؟؟ اب میں ان کے بغیر اور وہ میرے بغیر کیسے رہیں گے؟؟ لیکن میرے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالات کے جوابات مجھے کہاں سے ملتے؟؟ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دو انتہائ خوفناک دیو قبر میں میرے سامنے آ گئے. ان کے قد اور بال بہت لمبے تھے اور آواز جیسے بجلی کی کڑک. انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں مجھ سے تین سوالات پوچھے، تمہارا رب کون ہے، تمہارا نبی کون ہے اور تمہارا دین کون سا ہے؟ مجھے یاد آیا کہ یہ چیزیں دنیا میں علماء بتاتے تھے کہ ان سوالات کی تیاری کر کے قبر میں جانا. مجھے یاد آیا کہ میں ان باتوں کو مولویوں کی باتیں کہہ کر ہنس کر ٹال دیتا تھا. آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی لیکن اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا تھا. مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ میں نے کیسے ان کے سوالات کے جوابات دیے. خیر وہ چلے تو گئے لیکن میری حالت قابل رحم تھی، مجھے خوف سے اتنا پسینہ آیا تھا کہ میں کفن سمیت گویا اپنے پسینے میں تیر رہا تھا اور آنے دنوں کے بارے میں سوچ رہا تھا.
دھیرے دھیرے وقت گزر رہا تھا، یہاں تو دن اور رات برابر تھے کہ تھا جو گھپ اندھیرا. کبھی گرمیاں آتیں تو کبھی سردیاں، کبھی کیڑے نظر آتے تو کبھی سانپ، بچھو اور آگ. میں بہت نفیس طبع تھا لیکن اب کیڑوں کو اپنے اوپر چلتے دیکھتا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا.
ادھر میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچوں نے دو چار دن سوگ منایا اور پھر وہ اپنی زندگیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ میرا خیال تک بھول گئے. میری قبر پر آ کر فاتحہ پڑھنا تو دور کی بات، مجھے یاد تک بھی کوئ نہیں کر رہا تھا. دھیرے دھیرے وہ مجھے ایسے بھول گئے کہ جیسے میں ان کی زندگی میں آیا ہی نہیں تھا. میں نے ان کےلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن… اتنا بےوفائ اور اتنا بڑا دھوکہ؟ میں رو پڑا لیکن وہاں میرا رونا کون دیکھ رہا تھا.
ایک دن مجھے یاد آیا کہ کسی عالم نے بتایا تھا کہ قبر میں قیامت تک رہنا ہے. اتنی لمبی مدت؟؟ اسی بےبسی کے عالم میں اچانک میرے ذہن میں کامیابی کا تصور اور نقشہ پھر آ گیا. میں چلا اٹھا: ہاں ہاں، قبر کی تیاری کر کے آنا، اس اندھیری کوٹھڑی میں روشنی کا انتظام کر کے آنا، یہاں کے سانپ، بچھووں اور آگ سے بچنے کا سامان کر کے آنا ہی تو کامیابی تھی.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *