Skip to content

پر امن معاشرہ کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔

معاشرہ کی بنیاد۔۔۔۔۔
بحیثیت قوم اگر ہم اپنا معاشرہ دیکھے تو چند بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں جو پر امن معاشرے کو جنم دیتی ہیں۔ابتدائی طور پر معاشرہ امن،انصاف،خیر خواہی،خدمت،مساوات،اور حقوق العباد کی ادائیگی پر قائم ہوتا ہے۔انہی افعال میں ترقی معاشرے کی ترقی کا ضامن ہیں۔

قرآن مجید اور معاشرہ

۔۔۔۔
قرآن جو ایک انقلابی کلام ہے ہمیں معاشرے کی تشکیل کا درس دیتے ہوئے ابراھیمؑ کی دعا بیان کرتا ہے۔ابراھیمؑ دعا کرتے ہیں ۔رب اجعل ھذاالبلد امنا ورزق اھلہ من الثمرات اے اللہ اس بستی کو امن کا گہوارہ بنا اور اس کے باشندوں کو رزق کی فراوانی عطاء فرما۔ایک نرالا انداز اپنایا گیا معیشت کی بات بعد میں کرتے ہیں اور امن کا درس پہلے دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امن معاشرے کے تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

Also Read:

https://newzflex.com/57146


جب معاملات کی بات آتی ہے تو قرآن حسن معاشرت کا درس دیتا ہے ،انصاف کی بات ہو تو مساوات کا پیغام دیا جاتا ہے اور جب حقوق کی باری آتی ہے تو قرآن ہمیں لوگوں سے نرم لہجے میں بات کا درس دیتا ہے بلکہ والدین کے سامنے اف تک کہنے سے بھی منع فرماتا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرے میں امن اور سکون ان ہی باتوں سے آسکتا ہے۔

سیرت النبیﷺاور معاشرہ

۔۔۔
آپﷺ اہک بگڑے معاشرے میں تشریف لائیں،ایسا معاشرہ جہاں انسانہت آخری سانس لے رہی تھی،ظلم کا راج اور نا انصافی کا رواج تھا۔لیکن قرآنی تعلیمات آپﷺ کے سامنے تھیں چند ہی دنوں میں اس بگڑے معاشرے کو آپﷺ نے امن کا گہوارہ بنایا،تعلیمات نبویﷺ کی بدولت نفرت زمیں بوس ہوگئی،دشمنیاں محبت میں بدل گئی،اور ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو رہتی دنیا کے لیۓ ایک مثال بن کہ رہ گیا۔
آپﷺ نے پر امن معاشرے کے لئے مساوات ،اور اخلاق کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی گواہی اللہ نے خود دی۔مکہ اور مدینہ کی فضاء آپﷺ نے امن اور مساوات سے بدل دیا اور ایک نئی دنیا قوم کے سامنے کیا۔

صحابہ ؓ اورمعاشرہ

۔۔۔
آپﷺ کے نقش قدم پر چل کر صحابہؓ نے اس معاشرہ کے امن اور سکون کو نا صرف برقرار رکھا بلکہ اس ترقی اور وسعت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔جب بھی بات اسلام کی آتی صحابہؓ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ،حقوق کی ادائیگی میں یہ حال ہوتا تھا جب کسی کا حق ادا نہ ہونے کی بات آتی تو بڑے جلیل القدر صحابہؓ بھی سر زمین پر رکھ اتنے روتے کہ رخسار مبارک تر ہوجاتا،بھائی چارے کی بات ہوئی تو انصار مدینہ نے خود بھوکے رہہ کر مہاجرین کو کھلایا،خود پیاسے ہو کر مہاجرین کو پلایا ،اپنی جائیداد میں مہاجرین کو شامل کر کے بے مثال ہمدردی کا درس دیا۔

ہماری ذمہ داری۔

۔۔۔
آج ہر طرف آگ ہی آگ ہے،خون،قتل،چوری،اور بے عزتی کا بازار گرم ہے،نہ امن ،نہ سکون ہر طرف نفرت کی فضاء قائم ہے ۔اگر ہم بھی پر امن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف،ہمدردی،مساوات،حقوق کی ادائیگی،اور احترام نفس کو عام کرنا ہوگا،بچوں کی تربیت ،بھلائی کی حوصلہ افزائی،برائی کی حوصلہ شکنی وہ ستون ہیں جن پر ایک بہترین معاشرے کی بنیاد کھڑی رہتی ہے ،جہاں سکون،اور امن ہوتا ہے ،جہاں خوشیاں اور محبتیں بانٹی جاتی ہیں۔جو واقعی ایک معاشرہ بن جاتا ہے۔
شاہ حسین سواتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *