جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئ کہکشاں (گلیکسی) دریافت کی ہے، جس کو GN-z11 کا نام دیا گیا ہے. اس کہکشاں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب سے قدیم اور فاصلے کے لحاظ سے زمین سے سب سے دور کہکشاں ہے. اس کہکشاں کا زمین سے فاصلہ 13.4 بلین لائیٹ ایئرز بتایا جا رہا ہے. یہ کتنا بڑا فاصلہ ہے، اس کو جاننے کےلئے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نوری سال یا لائیٹ ایئر کسے کہتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی رفتار تقریبا” تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے. اس زبردست رفتار سے روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے، اسے ایک لائیٹ ایئر کا نام دیا جاتا ہے. یہ جاننے کے بعد اب ذرا پھر دیکھیں کہ نئ دریافت شدہ کہکشاں کا زمین سے فاصلہ کتنا ہے، یقین کریں کہ کیلکولیٹر تو دور کی بات، بڑے بڑے کمپیوٹر بھی یہ فاصلہ نہ ماپ سکیں. 13.4 بلین لائیٹ ایئرز کو اگر لکھنا چاہیں تو 134 کے آگے 30 صفر لگانے پڑیں گے. اب آپ ہی بتائیں، اس اتنی بڑی ویلیو کو عام آدمی کیسے لکھ یا پڑھ سکتا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے خلائ تحقیق کے مایہ ناز ادارے ناسا کے سائنسدانوں نے بھی ایک کہکشاں دریافت کی تھی جس کو ایک بڑی دریافت مانا جا رہا تھا. اب ٹوکیو یونیورسٹی کے سائنسدان یہ دعوی کر رہے ہیں کہ نئی دریافت شدہ کہکشاں سب سے قدیم اور سب سے دور کہکشاں ہے. ایک اندازے کے مطابق اب تک ایک سو بلین کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ خلائ تحقیق کےلئے استعمال ہونے والے آلات جوں جوں بہتر ہوتے جائیں گے، اسی طرح نئی نئی کہکشائیں دریافت ہوتی چلی جائیں گی. سائنس کی خبر آپ نے پڑھ لی، اب ان سائنسدانوں سے میرا ایک سوال ہے کہ کیا یہ سب کچھ دریافت کرتے ہوئے آپ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی کہ اس اتنی بڑی کائنات کا کوئ خالق بھی ہے؟ کیا اربوں کی تعداد میں دریافت ہونے والی گلیکسیز اور ہر گلیکسی میں اربوں ستارے، سیارے، یہ سورج اور چاند یہ سب خود بخود ہی بن گئے؟ ہم آپ کی لیبارٹری میں پڑے ہوئے ایک کمپیوٹر کے بارے میں کہہ دیں کہ اس کا کوئ بنانے والا نہیں بلکہ یہ خود بخود بن گیا ہے تو آپ کہنے والے کو پاگل اور عقل سے خالی سمجھیں گے. لیکن آپ کتنے بڑے عقلمند ہیں کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کے اندر اتنی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی آپ اس اللہ پر ایمان نہیں لاتے، جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے. آئیے، یہ سب نشانیاں آپ کو دعوت دے رہی ہیں کہ اللہ، اس کے رسولوں، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور آخرت کی زندگی پر ایمان لے آئیے، آپ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے.
میرا نام مشتاق حسین ہے. میں انتہائ ہونہار طالب علم ہوں. میں نے 1053 نمبر لے کر بلوچستان بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے. لاک ڈاون میں تعلیمی ادارے بند ہو گئے اور دوسری طرف گھر میں غربت کے ڈیرے ہیں، لہذا میں نے مچھ کی کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے. میری آنکھوں میں ایک سنہرے مستقبل کے سہانے خواب ہیں اور مجھے امید ہے کہ میں اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر اپنی اور اپنے خاندان کی تقدیر بدل دوں گا. مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ بہت ہمدرد اور علم دوست لوگ ہیں. میرا تعارف پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے ملنے کےلئے کوئٹہ آ جائیں. اگر ایسا ہوا تو مجھے بڑی خوشی ہو گی. اگر آپ آئیں تو آپ کو میرے گھر کا پتہ پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے. میں آپ کو کوئٹہ بائ پاس روڈ ایک تابوت میں بند لیٹا ہوا مل جاوں گا.میری آنکھیں کھلی ہوئ ہیں اور گلا کٹا ہوا ہے. پچھلے پانچ دنوں سے میں منفی دس سنٹی گریڈ درجہ حرارت پر سڑک کے اوپر تابوت کے اندر لیٹا ہوا ہوں، اس تابوت کے اندر میرے جسم کے ساتھ ساتھ میرے خواب بھی اکڑ گئے ہیں. اگر آپ آئیں تو آپ مجھے صرف ایک سوال کا جواب دے جانا کہ میرا قصور کیا تھا؟ مجھ سے ملیے، میرا نام احمد شاہ ہے، میری عمر اٹھارہ سال ہے اور میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہوں. میں بھی اپنے دوست مشتاق حسین کی طرح کوئلے کی کان میں مزدوری کر رہا تھا. چھے دن پہلے کچھ لوگوں نے مجھ سمیت دس مزدوروں کو اغوا کیا اور کسی نامعلوم جگہ پر جا کر پہلے تو ہمارے ہاتھ پاوں باندھے اور پھر ہمیں ذبح کر دیا. ذبح کرنے والوں کے خنجر اتنے کند تھے کہ ان سے تو کوئ جانوروں کو بھی ذبح نہ کرے. میرا تابوت بھی میرے دوست مشتاق حسین کے تابوت کے ساتھ ہی کوئٹہ بائ پاس پر پڑا ہوا ہے. یہ ان دس بدنصیبوں میں سے دو نوجوانوں کی کہانی ہے، جن کو مچھ کے علاقے میں کوئلے کی ایک کان میں سے چھے دن پہلے اغوا کرنے کے بعد ذبح کر دیا گیا. ان مزدوروں کے لواحقین جن میں خواتین بھی شامل ہیں، ان کی لاشوں کو پانچ دن ہو گئے ، شاہراہ پر رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں. ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ریاست مدینہ کا دعوے دار وزیر اعظم ان کے پاس آئے تو اس کے بعد وہ لاشوں کو دفن کریں گے. ادھر وزیر اعظم نے ٹویٹ کر دیا ہے کہ میں جلد کوئٹہ آوں گا. مظاہرین کو نہیں پتہ کہ ہمارے وزیر اعظم کی اور بھی بہت سی مجبوریاں اور ترجیحات ہیں. سننے میں یہ آ رہا ہےکہ کوئٹہ جانے میں سیکیورٹی رسک ہے، اس کا حل یہ نکالا جائے گا کہ اب وزیر اعظم اچانک لواحقین کے پاس پہنچ جائیں گے. وہ ان سے ملیں گے، ان کو تسلی دیں گے اور مجرموں کو نشان عبرت بنا دینے کا اعلان فرمائیں گے. اس سے امید ہے کہ لواحقین مظاہرہ ختم کر دیں گے اور لاشوں کو دفن کر دیں گے. یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن میرے ذہن میں ایک خدشہ ہے کہ ان لواحقین سے ملاقات میں وزیر اعظم سے کوئ یہ نہ پوچھ لے کہ جناب ہم ہزارہ برادری والوں کو تو دہشت گردوں نے مارا ہے جن کو آپ نشان عبرت بنا دینے کا وعدہ کر رہے ہیں، لیکن کیا ساہیوال کے بےگناہ مقتولین اور اسلام آباد کے اسامہ کے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو وزیر اعظم کیا جواب دیں گے؟؟
مجھے قبر میں لٹا دیا گیا. میرے اوپر پہلے پتھر کی بڑی بڑی سلیں رکھی گئیں اور اس کے بعد میرے اوپر مٹی ڈالی جانے لگی اور سب لوگ مجھے اکیلا چھوڑ کر واپس چلے گئے. میں گھبرا گیا، میں نے چیخ کر ان کو روکنے کی کوشش کی لیکن میری آواز ہی نہ نکلی. میں خوفزدہ تھا، میرے سب گھر والے جانتے بھی تھے کہ مجھے اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی، اس کے باوجود بھی وہ مجھے اکیلا اس اندھیری کوٹھڑی میں کیوں چھوڑ گئے؟؟ اب میں ان کے بغیر اور وہ میرے بغیر کیسے رہیں گے؟؟ لیکن میرے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالات کے جوابات مجھے کہاں سے ملتے؟؟ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دو انتہائ خوفناک دیو قبر میں میرے سامنے آ گئے. ان کے قد اور بال بہت لمبے تھے اور آواز جیسے بجلی کی کڑک. انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں مجھ سے تین سوالات پوچھے، تمہارا رب کون ہے، تمہارا نبی کون ہے اور تمہارا دین کون سا ہے؟ مجھے یاد آیا کہ یہ چیزیں دنیا میں علماء بتاتے تھے کہ ان سوالات کی تیاری کر کے قبر میں جانا. مجھے یاد آیا کہ میں ان باتوں کو مولویوں کی باتیں کہہ کر ہنس کر ٹال دیتا تھا. آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی لیکن اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا تھا. مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ میں نے کیسے ان کے سوالات کے جوابات دیے. خیر وہ چلے تو گئے لیکن میری حالت قابل رحم تھی، مجھے خوف سے اتنا پسینہ آیا تھا کہ میں کفن سمیت گویا اپنے پسینے میں تیر رہا تھا اور آنے دنوں کے بارے میں سوچ رہا تھا. دھیرے دھیرے وقت گزر رہا تھا، یہاں تو دن اور رات برابر تھے کہ تھا جو گھپ اندھیرا. کبھی گرمیاں آتیں تو کبھی سردیاں، کبھی کیڑے نظر آتے تو کبھی سانپ، بچھو اور آگ. میں بہت نفیس طبع تھا لیکن اب کیڑوں کو اپنے اوپر چلتے دیکھتا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا. ادھر میں تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچوں نے دو چار دن سوگ منایا اور پھر وہ اپنی زندگیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ میرا خیال تک بھول گئے. میری قبر پر آ کر فاتحہ پڑھنا تو دور کی بات، مجھے یاد تک بھی کوئ نہیں کر رہا تھا. دھیرے دھیرے وہ مجھے ایسے بھول گئے کہ جیسے میں ان کی زندگی میں آیا ہی نہیں تھا. میں نے ان کےلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن… اتنا بےوفائ اور اتنا بڑا دھوکہ؟ میں رو پڑا لیکن وہاں میرا رونا کون دیکھ رہا تھا. ایک دن مجھے یاد آیا کہ کسی عالم نے بتایا تھا کہ قبر میں قیامت تک رہنا ہے. اتنی لمبی مدت؟؟ اسی بےبسی کے عالم میں اچانک میرے ذہن میں کامیابی کا تصور اور نقشہ پھر آ گیا. میں چلا اٹھا: ہاں ہاں، قبر کی تیاری کر کے آنا، اس اندھیری کوٹھڑی میں روشنی کا انتظام کر کے آنا، یہاں کے سانپ، بچھووں اور آگ سے بچنے کا سامان کر کے آنا ہی تو کامیابی تھی.
سنو اسامہ ستی ، تمہارے ماں باپ ، تمہارے بہن بھائی، تمہارے رشتے دار، تمہارے دوست اور میڈیا پر آنے کی وجہ سے پورا پاکستان پوچھ رہا ہے کہ تمہارا جرم کیا تھا؟ تمہیں کیوں حکمرانوں کی ناک کے نیچے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا؟ لوگ تمہیں بےقصور سمجھ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تم بےقصور نہیں تھے. تم قصور وار تھے اور تمہارے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے. میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں اور باقی سب کو بھی تمہارے جرائم بتا دوں تا کہ سب مطمئن ہو جائیں. سنو اسامہ، تمہارا پہلا جرم یہ ہے کہ تم ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں تم جیسے لوگوں کا خون بہت سستا ہے. تم یورپ کے کسی پر امن ملک میں بھی پیدا ہو سکتے تھے، جہاں تمہاری پیدائش، تعلیم اور علاج کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی. جہاں انسان تو انسان جانوروں تک کے حقوق ہیں. یہ تمہارا پہلا جرم تھا ، جس کی سزا تمہیں مل گئی. اسامہ ، تمہارا دوسرا اور سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ تم نے ایک عام ، معمولی اور غریب گھرانے میں جنم لیا. اسامہ، شاید تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اس ملک میں غریب ہونا بہت بڑا جرم ہے. تمہاری اور تمہارے والدین کی آنکھوں میں تمہارے سنہرے مستقبل کے سپنے تھے ، اسی لئے تم اپنی گاڑی کو بطور ٹیکسی بھی چلاتے رہے. تم شاید اپنا مقدر بدلنا چاہتے تھے، لیکن کیا تمہارے جیسے لوگ اور کیا تمہارے سپنے.تم غریب بھی تھے اور خود دار بھی، یعنی دو دفعات تو تم پر اکٹھی لگ رہی ہیں. سنا ہے کہ تم نے گاڑی کے شیشوں پر کالے سٹکر لگائے ہوئے تھے کہ اسلام آباد میں ناکے ختم ہونے پر بہت سارے لوگوں نے ایسا ہی کر لیا تھا. اسی بات پر تمہاری کچھ دن پہلے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور ان اہلکاروں نے تمہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی. اسامہ، تم نے دیکھ لیا نا کہ ہمارے شیر جوان اپنے وعدے کے کتنے پکے نکلے، انہوں نے جو وعدہ کیا، وہ پورا کیا. اسامہ، تمہارا تیسرا جرم یہ تھا کہ تم کسی زرداری، لغاری، چودھری یا شریف فیملی سے تعلق نہیں رکھتے تھے. اگر ایسا ہوتا تو تم ان اہلکاروں کو اپنی گاڑی سے کچل بھی ڈالتے تو تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکتا. مگر افسوس کہ تمہیں کوئٹہ کے چوک پر کھڑا وہ پولیس اہلکار بھی یاد نہیں رہا، جس کو ایک بڑے صاحب کی گاڑی نے فٹ بال کی اچھال کر اس کی ڈیوٹی ہمیشہ کےلئے ختم کردی. اس صاحب کو کچھ عرصہ حراست کے نام پر آرام دیا گیا اور پھر باعزت بری کر دیا گیا. اسامہ، تمہیں یہ واقعہ یاد نہیں تھا تو یہ بھی تمہارا جرم تھا، جس کی سزا تمہیں مل گئی. اسامہ، تمہیں کراچی بلدیہ فیکٹری کے دو سو ساٹھ مزدور بھی یاد نہیں رہے، جن کو فیکٹری کے اندر زندہ جلا دیا گیا تھا. وہ بھی تمہاری طرح غریب تھے جو اپنے اس جرم کی سزا پا گئے. تمہیں سانحہ ساہیوال بھی یاد نہیں رہا کہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیسے ہمارے شیر جوانوں نے سڑک کے اوپر ایک پوری فیملی کو گولیوں سے بھون دیا تھا. اسامہ، تمہیں یاد نہیں ہو گا کہ اس گاڑی میں تمہاری عمر کی ایک بچی بھی تھی جس کو گاڑی سے باہر نکال لیا گیا. پھر ہمارے کمانڈوز نے کچھ سوچا، اس بچی کو دوبارہ گاڑی میں بٹھایا اور گولیوں سے چھلنی کر دیا. انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ نوجوان بچی والدین کے بغیر اس معاشرے میں کیسے زندگی بسر کرے گی.بےشمار لوگوں نے واقعے کی ویڈیو بنا لی اور میڈیا پر چڑھا دی. مجبور ہو کر سرکار کو ان اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا. اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ کچھ دن ان کو آرام دے کر باعزت بری کر دیا گیا. ہاں اسامہ، تمہیں مارنے والے شیر جوانوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے. حکمران پھر بیانات دے رہے ہیں کہ ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا اور پھر وہی تماشا ہو گا کہ کچھ عرصہ کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو ان جوانوں کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کر دیا جائے گا اور وہ تازہ دم ہو کر کسی نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے. اسامہ، تمہارا چوتھا جرم یہ تھا کہ تم نے تبدیلی کی تمنا کی تھی. تم نے سوچا تھا کہ حکمرانوں کے بدلنے سے شاید تبدیلی آ جائے گی. لیکن یہاں صرف چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تبدیلی سرکار کے آس پاس سارے لوگ وہی ہیں جو پچھلی حکومتوں میں بھی اقتدار میں ہوتے تھے، یہ لوگ آج بھی اقتدار میں ہیں اور کل پھر کسی نئی حکومت میں بیٹھ کر موجودہ تبدیلی کو گالیاں دے رہے ہوں گے. اور اسامہ، آخری بات، ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہوا ہے کہ تمہاری عمر بائیس سال تھی، تم نے بائیس سال تبدیلی دیکھنے کا انتظار کیا تھا اور تمہارے اوپر گولیاں بھی بائیس ہی برسائ گئیں. کیا یہ اتفاق ہے یا تم جیسے تبدیلی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کےلئے کوئ پیغام ہے؟؟
میٹرک سے پہلے تو مجھے کچھ خاص یاد نہیں ہے. البتہ میٹرک کا رزلٹ اچھا آیا تو میں نے خیال کر لیا کہ یہی بڑی کامیابی ہے. ظاہر ہے ہر طرف سے مبارکبادیں اورشاباشیاں مل رہی تھیں تو کامیابی اسی میں نظر آ رہی تھی. پھر کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ان کی ڈگریاں ملیں تو بھی تعلیمی میدان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونا ہی کامیابی سمجھا. تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کےلئے بھاگ دوڑ شروع کی، جوتیاں چٹخائیں اور دھکے کھائے. بالآخر ایک دن جاب آفر لیٹر مل ہی گیا. تنخواہ اتنی زیادہ نہیں تھی اس لئے دائیں بائیں بھی ہاتھ مارتا رہا جس سے کچھ نہ کچھ جائیداد بھی بنا ہی لی. اس طرح خاندان میں بھی ایک کامیاب نوجوان کے طور پر میری پہچان بن گئ. پھر میرے لئے اچھے رشتے کی تلاش شروع ہو گئ اور ایک دن ایک تعلیم یافتہ، خوب صورت اور خوب سیرت لڑکی میری شریک حیات بن کر میری زندگی میں آ گئ. اس دن میرے دل نے کہا کہ کامیاب تو میں اب ہوا. لیکن کہاں ، سال بعد ہی اللہ نے بیٹا دیا تو پھر چند سال کے بعد دو اور بچوں کی پیدائش سے میری فیملی مکمل ہو گئ تو میں نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ آج مجھے لگتا ہے کہ میری لائف میں کامیابی مکمل ہو گئ ہے. بیگم نے جواب میں بڑے بیٹے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جناب اس کےلئے کسی اچھے سکول میں داخلے کی تگ و دو کریں. خدا خدا کر کے وہ مرحلہ بھی مکمل ہوا اور کچھ عرصے کے بعد باقی دونوں بچے بھی اچھے سکولز میں داخل ہو گئے. وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ میری کامیابی کے نقشے بھی میری نگاہوں کے سامنے اپنی شکل تبدیل کرتے گئے. پتہ ہی نہیں چلا اور بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئ. ابھی اس کامیابی کو جی بھر کے سیلیبریٹ بھی نہیں کیا تھا کہ بچوں کی نوکریوں اور کاروبار کےلئے بھاگ دوڑ اور سفارشیں ڈھونڈنی شروع کر دیں. وہ مرحلہ بھی سر کر لیا تو اب ان کے رشتوں کی فکر سر پر آن پڑی. خیر ایک دن ایسا آیا کہ میں اولاد کی ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہو گیا. اس ساری بھاگ دوڑ میں وقت پر لگا کر اڑتا رہا جس کا مجھے اپنی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوا. اچانک ایک دن سینے میں شدید درد اٹھا، مجھے ہسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹر نے بتایا کہ شدید ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور بچنا مشکل ہے. بیوی بچے یہ سن کر رونے لگے، وہ میری جدائ برداشت نہیں کر سکتے تھے. میں بھی ان سے کب جدا ہونا چاہتا تھا. میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا میں اپنی ساری دولت اور کامیابیاں دے کر بھی موت سے بچ سکتا ہوں؟ جواب نفی میں تھا، میرے دماغ کی سکرین پر موجود کامیابیوں کے نقشے دھیرے دھیرے ماند پڑنا شروع ہو گئے. پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سامنے موجود بیوی بچوں کے چہرے بھی دھندلانا شروع ہو گئے. اچانک ایک عجیب سی مخلوق نظر آئ جو میرے قریب آئ اور مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ جانا پڑا. اب میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا کہ میری کامیابیاں تو ایک طرف، میرا نام تک اپنی پہچان کھو چکا تھا. ہر کوئ میت کہہ رہا تھا کہ میت کو غسل دو، میت کو کفن دو، میت کو اٹھاو اور میت کا جنازہ پڑھو. یہ سارے مراحل طے ہو گئے اور پھر مجھے قبر میں لٹا دیا گیا. میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا کہ میرا مال تو گھر سے آگے آیا ہی نہیں تھا اور اولاد بھی جو قبر تک آئ تھی، مجھے دفن کر کے واپس چلی گئ. اب دھیرے دھیرے کامیابی کا تصور اور نقشہ بدل رہا تھا. کامیابی کا پہلا نقشہ دنیا کی صورت میں تھا جس کا اختتام ہو چکا تھا اور اب دوسرا نقشہ قبر کی صورت میں میرے سامنے تھا. ( جاری ہے )