سنو اسامہ ستی ، تمہارے ماں باپ ، تمہارے بہن بھائی، تمہارے رشتے دار، تمہارے دوست اور میڈیا پر آنے کی وجہ سے پورا پاکستان پوچھ رہا ہے کہ تمہارا جرم کیا تھا؟ تمہیں کیوں حکمرانوں کی ناک کے نیچے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا؟ لوگ تمہیں بےقصور سمجھ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تم بےقصور نہیں تھے. تم قصور وار تھے اور تمہارے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے. میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں اور باقی سب کو بھی تمہارے جرائم بتا دوں تا کہ سب مطمئن ہو جائیں. سنو اسامہ، تمہارا پہلا جرم یہ ہے کہ تم ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں تم جیسے لوگوں کا خون بہت سستا ہے. تم یورپ کے کسی پر امن ملک میں بھی پیدا ہو سکتے تھے، جہاں تمہاری پیدائش، تعلیم اور علاج کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی. جہاں انسان تو انسان جانوروں تک کے حقوق ہیں. یہ تمہارا پہلا جرم تھا ، جس کی سزا تمہیں مل گئی.
اسامہ ، تمہارا دوسرا اور سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ تم نے ایک عام ، معمولی اور غریب گھرانے میں جنم لیا. اسامہ، شاید تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اس ملک میں غریب ہونا بہت بڑا جرم ہے. تمہاری اور تمہارے والدین کی آنکھوں میں تمہارے سنہرے مستقبل کے سپنے تھے ، اسی لئے تم اپنی گاڑی کو بطور ٹیکسی بھی چلاتے رہے. تم شاید اپنا مقدر بدلنا چاہتے تھے، لیکن کیا تمہارے جیسے لوگ اور کیا تمہارے سپنے.تم غریب بھی تھے اور خود دار بھی، یعنی دو دفعات تو تم پر اکٹھی لگ رہی ہیں. سنا ہے کہ تم نے گاڑی کے شیشوں پر کالے سٹکر لگائے ہوئے تھے کہ اسلام آباد میں ناکے ختم ہونے پر بہت سارے لوگوں نے ایسا ہی کر لیا تھا. اسی بات پر تمہاری کچھ دن پہلے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور ان اہلکاروں نے تمہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی. اسامہ، تم نے دیکھ لیا نا کہ ہمارے شیر جوان اپنے وعدے کے کتنے پکے نکلے، انہوں نے جو وعدہ کیا، وہ پورا کیا.
اسامہ، تمہارا تیسرا جرم یہ تھا کہ تم کسی زرداری، لغاری، چودھری یا شریف فیملی سے تعلق نہیں رکھتے تھے. اگر ایسا ہوتا تو تم ان اہلکاروں کو اپنی گاڑی سے کچل بھی ڈالتے تو تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکتا. مگر افسوس کہ تمہیں کوئٹہ کے چوک پر کھڑا وہ پولیس اہلکار بھی یاد نہیں رہا، جس کو ایک بڑے صاحب کی گاڑی نے فٹ بال کی اچھال کر اس کی ڈیوٹی ہمیشہ کےلئے ختم کردی. اس صاحب کو کچھ عرصہ حراست کے نام پر آرام دیا گیا اور پھر باعزت بری کر دیا گیا. اسامہ، تمہیں یہ واقعہ یاد نہیں تھا تو یہ بھی تمہارا جرم تھا، جس کی سزا تمہیں مل گئی.
اسامہ، تمہیں کراچی بلدیہ فیکٹری کے دو سو ساٹھ مزدور بھی یاد نہیں رہے، جن کو فیکٹری کے اندر زندہ جلا دیا گیا تھا. وہ بھی تمہاری طرح غریب تھے جو اپنے اس جرم کی سزا پا گئے. تمہیں سانحہ ساہیوال بھی یاد نہیں رہا کہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیسے ہمارے شیر جوانوں نے سڑک کے اوپر ایک پوری فیملی کو گولیوں سے بھون دیا تھا. اسامہ، تمہیں یاد نہیں ہو گا کہ اس گاڑی میں تمہاری عمر کی ایک بچی بھی تھی جس کو گاڑی سے باہر نکال لیا گیا. پھر ہمارے کمانڈوز نے کچھ سوچا، اس بچی کو دوبارہ گاڑی میں بٹھایا اور گولیوں سے چھلنی کر دیا. انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ نوجوان بچی والدین کے بغیر اس معاشرے میں کیسے زندگی بسر کرے گی.بےشمار لوگوں نے واقعے کی ویڈیو بنا لی اور میڈیا پر چڑھا دی. مجبور ہو کر سرکار کو ان اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا. اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ کچھ دن ان کو آرام دے کر باعزت بری کر دیا گیا. ہاں اسامہ، تمہیں مارنے والے شیر جوانوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے. حکمران پھر بیانات دے رہے ہیں کہ ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا اور پھر وہی تماشا ہو گا کہ کچھ عرصہ کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو ان جوانوں کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کر دیا جائے گا اور وہ تازہ دم ہو کر کسی نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے.
اسامہ، تمہارا چوتھا جرم یہ تھا کہ تم نے تبدیلی کی تمنا کی تھی. تم نے سوچا تھا کہ حکمرانوں کے بدلنے سے شاید تبدیلی آ جائے گی. لیکن یہاں صرف چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تبدیلی سرکار کے آس پاس سارے لوگ وہی ہیں جو پچھلی حکومتوں میں بھی اقتدار میں ہوتے تھے، یہ لوگ آج بھی اقتدار میں ہیں اور کل پھر کسی نئی حکومت میں بیٹھ کر موجودہ تبدیلی کو گالیاں دے رہے ہوں گے.
اور اسامہ، آخری بات، ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہوا ہے کہ تمہاری عمر بائیس سال تھی، تم نے بائیس سال تبدیلی دیکھنے کا انتظار کیا تھا اور تمہارے اوپر گولیاں بھی بائیس ہی برسائ گئیں. کیا یہ اتفاق ہے یا تم جیسے تبدیلی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کےلئے کوئ پیغام ہے؟؟
1 comments on “اسامہ ستی ، تم قصور وار تھے”
Leave a Reply
باتیں مشکل لیکن سچ ہیں۔گریٹ آرٹیکل۔