آپ سب کے علم میں ہے کہ عمران خان کے حالیہ انٹرویو نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے لیکن کچھ باتیں بہت اہم ہیں جو آپ سے زکر کرنے لگے ہیں کچھ اس تحریر میں ذکر کریں گے اور کچھ اگلی .میں بہرحال ساری دنیا کے اخبار اسے روپورٹ کر رہے ہیں سواے چند بڑے مشہور اخباروں کے ، آگے چل کر ان کا تذکرہ کرتے ہیں ، اس 80 منٹ کے انٹرویو میں ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکال کر پوزیٹیو یا نیگیٹو روپورٹ کر رہا ہے اور اس انٹرویو کو لے کر ہر کوئی اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں ہے یہ اتنا بڑا کھیل چل رہا ہے کہ سوچنا بھی محال ہے اور یہ انٹرویو ہو بھی ایسا گیا ہے کہ تاریخ گواہ رہے گی کہ عمران خان نے کیسا آئینا دکھایا ہے مغرب کو –
صحافتی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے سارے اخباروں میں یہ مین ہیڈ لائن ہونی چاہیے تھی کہ ایبسلوٹلی ناٹ پر دنیا کا میڈیا غصہ اتارنے کے لیے اسے کسی اور طرح روپورٹ کر رہا ہے پر عجیب بات یہ کہ نیویارک ٹائم اخبار نے اسے رپورٹ نہیں کیا یہ وہ نیویارک ٹائم ہے جس میں چند دنوں سے اس طرح کے آرٹیکل آ رہے ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کے صحافی سیاستدان وغیرہ یہ کہہ رہے ہیں پاکستان نے امریکہ کو اڈے دے دیے ہیں نیویارک ٹائم میں چھپنے والے آرٹیکل کو لے کر جو عمران خان کے مخالف ہیں وہ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں اب وہ نیویارک ٹائم اسے رپورٹ نہیں کر رہا چپ لگی پڑی ہے ، دی گارڈئین بھی نہیں رپورٹ کر رہا اور واشنگٹن اخبار نے بھی اسے رہورٹ نہیں کیا ، بہرحال یہ عمران خان کا اپنا موقف ہے اور ہے بھی پورانا یہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ یہ انہوں نے 2012 میں ٹوئیٹ کیا تھا کہ ہم آپ کے دوست بنیں گے خادم نہیں بنیں گے ہم آپ کی مدد ضرور کریں گے افغانستان سے انخلاء میں یہ ان کا پرانا موقف ہے وہ شروع سے کہتے ہوئے آ رہے ہیں کہ لڑائی کوئی حل نہیں ہے مزاکرات کریں ٹیبل پر بیٹھیں وہاں لوگوں کو سپورٹ کریں لوگوں کہ بہتری کے لیے کام کریں تجارت کریں اور ایک پرامن ماحول وہاں بن جائے بہرحال ایک سوال ہے
( کیا اس سے پہلے کبھی کسی نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا ہے امریکہ کو )
تو جواب ہے نہیں ، نہ نواز شریف نے نہ زرداری نے بلکہ نواز شریف کو جب امریکہ نے منع کیا کہ ایٹمی دھماکہ نہیں کرنا تو اس پر بھی میاں صاحب خاموش ہو گئے تھے جواب نہیں دیا کیونکہ یہاں فوج کسی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھی ہلانکہ کہ میاں صاحب بڑا شور مچا رہے تھے امریکہ نے منع کیا ہے یہ کام نہیں کرنا کیونکہ ان کا ابو جو ہے امریکہ بہرحال آج تک کوئی امریکہ کے سامنے اس کلیئرٹی کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا سواے عمران خان کے ، اب آتے ہیں اپوزیشن کی طرف چند دن پہلے ن لیگ یہ الزام لگا رہی تھی کہ عمران خان نے امریکہ کو اڈے دے دیے ہیں ppp بھی اس میں شامل تھی مولانا فضل الرحمن نے سب سے زیادہ اس پر پراپیگنڈا کیا اور پھر بعد میں جب بات کھل گئی تو اس بندے نے الگ سا پراپیگنڈا کیا وہ بھی آپ کو بتاتے ہیں آگے چل کر اب وہ لوگ جو عمران خان پر الزام تراشی کرنے میں پیش پیش تھی ان کا کیا ان لوگوں کو تو شرم سے مر جانا چاہیے پر اس صورت میں جب ان کے اندر شرم ہو تو ان کو معافی مانگنی چاہیے پر ایسا ہو گا نہیں
(اپوزیشن کا اڈے نہ دینے پر سارا کریڈٹ اپنے اوپر لینے کا پورا زور )
بلکہ انہوں نے تو اپنے اوپر اس کا کریڈٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے عمران خان پر دباو ڈالا جس کہ وجہ سے وہ امریکہ کو اڈے نہیں دے رہا ، کہہ رہے بھی کون ہیں جن کو مر کر بھی این آر او نہیں مل رہا جیسا کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی یہ کہہ دیا ہے صاف لفظوں میں پر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا صاحب نے کیسے گھر بیٹھے بیٹھے امریکہ کو اڈے دینے سے عمران خان کو روک دیا جو جلسے جلوس کر کہ عمران خان سے این آر او نہیں لے سکے اور جب مولانا کی خیبر پختون خوا میں حکومت تھی تو اس وقت مشرف کو کیوں نہیں روک سکے امریکہ کو اڈے دینے سے ہلانکہ اس وقت یہ اقتدار میں بھی تھے اور ابھی تو ہیں بھی نہیں تو سنیے سچ یہ ہے کہ اس وقت نہ تو یہ روکنا چاہتے تھے اور نہ ہی کوئی اور کیونکہ معاملہ ڈالرز کا تھا اور مولانا تو وہ شخص ہیں جنہوں نے امریکی سفیر کو بلا کر کہا کہ حکومت ہمیں دے دو ہم امریکہ کو زیادہ اچھا ریسپانس دیں گے اور ان سے زیادہ اچھی خدمت کریں گے کیونکہ خفیہ خبر دی اس لیے کچھ عرصہ بعد ویکی لیکس نے اس خبر سے پردہ اٹھا دیا اور مولانا صفائی بھی پیش نہیں کر سکے تو یہ لوگ تو اڈے دینے والوں میں سے تھے نہ کہ روکنے والوں میں سے
(شاباشی کے مستحق )
اب بجاے خان کو شاباش دینے کے اس انٹرویو میں سے نیگیٹیویز نکال کر اس پر واویلا شروع کر دیا گیا ہے جیسے کہ میں نے شروع میں کہا بہرحال سارا انٹرویو منظر عام پر آ رہا ہے اور ساری حقیقت کھلتی جا رہی ہے اور جو لوگ پروپیگنڈا کر رہے تھے اس سب سے پردہ اٹھ رہا ہے اور لوگوں کو حقیقت پتہ لگنا شروع ہو گئی ہے ۔ بہرحال چند اور نکات ہیں ان پر بات ہو گی انشاءاللہ
دعا ہے کہ لوگ حقیقت سے آشنا ہو جائیں
( تحریر از اسامہ ظہور اسفرائینی )