میٹرک سے پہلے تو مجھے کچھ خاص یاد نہیں ہے. البتہ میٹرک کا رزلٹ اچھا آیا تو میں نے خیال کر لیا کہ یہی بڑی کامیابی ہے. ظاہر ہے ہر طرف سے مبارکبادیں اورشاباشیاں مل رہی تھیں تو کامیابی اسی میں نظر آ رہی تھی. پھر کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ان کی ڈگریاں ملیں تو بھی تعلیمی میدان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونا ہی کامیابی سمجھا. تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کےلئے بھاگ دوڑ شروع کی، جوتیاں چٹخائیں اور دھکے کھائے. بالآخر ایک دن جاب آفر لیٹر مل ہی گیا. تنخواہ اتنی زیادہ نہیں تھی اس لئے دائیں بائیں بھی ہاتھ مارتا رہا جس سے کچھ نہ کچھ جائیداد بھی بنا ہی لی. اس طرح خاندان میں بھی ایک کامیاب نوجوان کے طور پر میری پہچان بن گئ. پھر میرے لئے اچھے رشتے کی تلاش شروع ہو گئ اور ایک دن ایک تعلیم یافتہ، خوب صورت اور خوب سیرت لڑکی میری شریک حیات بن کر میری زندگی میں آ گئ. اس دن میرے دل نے کہا کہ کامیاب تو میں اب ہوا. لیکن کہاں ، سال بعد ہی اللہ نے بیٹا دیا تو پھر چند سال کے بعد دو اور بچوں کی پیدائش سے میری فیملی مکمل ہو گئ تو میں نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ آج مجھے لگتا ہے کہ میری لائف میں کامیابی مکمل ہو گئ ہے. بیگم نے جواب میں بڑے بیٹے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جناب اس کےلئے کسی اچھے سکول میں داخلے کی تگ و دو کریں. خدا خدا کر کے وہ مرحلہ بھی مکمل ہوا اور کچھ عرصے کے بعد باقی دونوں بچے بھی اچھے سکولز میں داخل ہو گئے.
وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ میری کامیابی کے نقشے بھی میری نگاہوں کے سامنے اپنی شکل تبدیل کرتے گئے. پتہ ہی نہیں چلا اور بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئ. ابھی اس کامیابی کو جی بھر کے سیلیبریٹ بھی نہیں کیا تھا کہ بچوں کی نوکریوں اور کاروبار کےلئے بھاگ دوڑ اور سفارشیں ڈھونڈنی شروع کر دیں. وہ مرحلہ بھی سر کر لیا تو اب ان کے رشتوں کی فکر سر پر آن پڑی. خیر ایک دن ایسا آیا کہ میں اولاد کی ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہو گیا.
اس ساری بھاگ دوڑ میں وقت پر لگا کر اڑتا رہا جس کا مجھے اپنی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوا. اچانک ایک دن سینے میں شدید درد اٹھا، مجھے ہسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹر نے بتایا کہ شدید ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور بچنا مشکل ہے. بیوی بچے یہ سن کر رونے لگے، وہ میری جدائ برداشت نہیں کر سکتے تھے. میں بھی ان سے کب جدا ہونا چاہتا تھا. میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا میں اپنی ساری دولت اور کامیابیاں دے کر بھی موت سے بچ سکتا ہوں؟ جواب نفی میں تھا، میرے دماغ کی سکرین پر موجود کامیابیوں کے نقشے دھیرے دھیرے ماند پڑنا شروع ہو گئے. پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سامنے موجود بیوی بچوں کے چہرے بھی دھندلانا شروع ہو گئے. اچانک ایک عجیب سی مخلوق نظر آئ جو میرے قریب آئ اور مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ جانا پڑا. اب میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا کہ میری کامیابیاں تو ایک طرف، میرا نام تک اپنی پہچان کھو چکا تھا. ہر کوئ میت کہہ رہا تھا کہ میت کو غسل دو، میت کو کفن دو، میت کو اٹھاو اور میت کا جنازہ پڑھو. یہ سارے مراحل طے ہو گئے اور پھر مجھے قبر میں لٹا دیا گیا. میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا کہ میرا مال تو گھر سے آگے آیا ہی نہیں تھا اور اولاد بھی جو قبر تک آئ تھی، مجھے دفن کر کے واپس چلی گئ. اب دھیرے دھیرے کامیابی کا تصور اور نقشہ بدل رہا تھا. کامیابی کا پہلا نقشہ دنیا کی صورت میں تھا جس کا اختتام ہو چکا تھا اور اب دوسرا نقشہ قبر کی صورت میں میرے سامنے تھا. ( جاری ہے )
2 comments on “کامیابی کے بدلتے نقشے…. پہلا نقشہ”
Leave a Reply
اللہ اور لکھنے کی ہمت دے
ایک ایسی حقیقت جس سے سب ہی آنکھ بچاتے ہیں۔بہت زبردست آرٹیکل۔