Home > Articles posted by Syed muhammad Adnan Ali shah
FEATURE

نمبر1۔ نام : نجاشی اصحم :: ملک : حبشہ پیغام کا متن اے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) ایسی بات کی طرف آئیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ھے وہ یہ کہ ہم آللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں اور اس کے علاوہ کسی کو اپنا رب نہ بنائیں اگر تم نے یہ دعوت قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کا گناہ ھے۔ نتیجہ نجاشی نے حضرت محمد کے خط کو چوما، آنکھوں سے لگایا اور وہاں موجود حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ حضرت محمد نے 9ہجری میں نجاشی کی نماز جنازہ بھی ادا کی۔ نمبر2۔ نام : قیصر :: ملک : روم پیغام کا متن اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے، صرف اسی کو اپنا رب مانو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھراؤ۔ نتیجہ خط پا کر قیصر نے وہاں موجود عرب کے کسی شخص سے ملنے کے خواہش ظاپر کی۔ابو سفیان سے مل کر قیصر نے حضرت محمد کے متعلق چند سوالات کیے ۔ دشمنی کے باوجود ابو سفیان نے سچ سچ جواب دیے جس سے قیصر اسلام قبول کرنے پر ماہل ہو۔ نمبر3۔ نام : خُسرو پرویز :: ملک : ایران پیغام کا متن اللہ رب العالمین وحدہ لاشریف ہے اسی کے اختیار میں ساری خدائ ہے صرف اس کی بندگی کرو اور اسی کے آگے جھکو۔ نتیجہ خط مین سب سے اُوپر حضرت محمد کا نام دیکھ کار خُسرو اپے سے باہر ھو گیا اور گستاخی کرتے ھوئے کط کو پھاڑ دیا،ھضرت عبداللہ بن خضافہ نے جو خط لے کر گئے تھے واپس آ کر حضرت محمد کو سب کچھ بتا دیا،تو آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی اس کے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کا دے گا،اور پھر وہی پوا۔خُسرو پرویز کے بیتے شیرویہ نے اسے قتل کر دیااور کود تخت پر بیٹھ گیا۔ نمبر4۔ نام : مقوقس :: ملک : مصر پیغام کا متن پیغام کا متن سلام اس پر جو راہ حق پر چلے ۔ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے ۔ نتیجہ مقوقس نے حضرت محمد کے قاصد حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور خط کا احترام کیا آپ کی خدمت میں تحفے بھیجے لیکن اسلام قبول نہیں کیا ۔ نمبر5۔ نام : ہوذہ بن علی :: ملک : یمامہ پیغام کا متن سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے ۔میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک سواری کے اونٹ اور گھوڑے پہنچ سکتے ہیں نتیجہ حضرت سلیط بن عمر و عامری یہ خط لے کر یمامہ گئے ہوذہ بن علی کو ایمان کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔

FEATURE

ماوراء النہر کا علاقہ جسے آج ھم ترکستان کا نام دیتے ہیں اور جو مشرق میں منگولیا ائر شمالی چین کی پہاڑ سے مغرب میں بحزز اور شمال سیبریا کے میدانی علاقوں سے جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ غز خاندانوں کا وطن ہے اس علاقہ میں اس خاندان کے بڑے بڑے قبائل رہائش یذیر تھے۔چھٹی صدی عسوی کے نصب ثانی میں ان قبیلوں نے اپنے اصلی وطن کو خیرباد کہہ کر گروہ در گروہ ایشیاء کو چک کی راہ لی۔ مورخین ان کی اس نقل مکانی کی کئی تو جیہات کرتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ اقتصادی بد حالی تھی۔ شدید قحط اور بڑھتی ہوئی آبادی انہیں ترک وطن پر مجبور کیا اور وہ ایسے علاقوں میں آکر بسے جہاں وسیع چراگاہیں اور خوشحالی زندگی کے اسباب وافر مقدار میں موجود تھے۔ اسلامی دنیا کے ساتھ تُرکوں کا اتصال 22ھ،652ء کو اسلامی فوجوں نے باب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی تا کہ ان علاقوں کو فتح کریں۔ یہ وہ علاقے تھے جن میں ترک سکونت پذیر تھے۔ اسلامی سپاہ کےسپہ سلار عبدالرحمٰن بن ربیعہ نے ترکوں کے سردار شہر برازسے ملاقات کی۔ شہربراز نے عبدالرحمٰن سے صلح کی درخواست کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ وہ ارمن پر حملہ کرنے کیلئے اسلامی لشکر میں شریک ہونے کے لئے تیار ہے۔ عبدالرحمٰن نے انہیں اپنے قائد سراقہ بن عمرو کے پاس بھیج دیا۔شیر براز نے سراقہ سے ملاقات کی اور ان سے ملاقات اپنی خدمات پیش کرنے کے سلسلہ میں بات کی۔ سراقہ نے ان کی پیشکش کہ قبول کرلیا۔ اور اس بارے ایک عریضہ حضرت عمر بن الخطاب کے نام پر تحریر کیا اور انہیں اس بارے میں اطلاع دی۔ اس کے بعد اسلامی لشکر فارس کے شمالی مشرقی علاقوں کی طرف بڑھے تاکہ مسلمان لشکروں کے ہاتھوں دولت ساسانی کے سقوط کے بعد علاقوں میں الٰہی دعوت کی ترویج ہو سکے۔ یہ وہ علاقے تھے جو شمال کی طرف اسلامی سپاہ راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ جب صلح کے معاہدہ کی بدولت یہ مشکلات ختم ہو گہیں تو ان علاقوں اور ملکوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی اور ترقوں اور مسلمانوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا ہو گیا۔ ترک اسلامی تعلیمات بہت متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر کے اسلام کی اشاعت اور غلبہ دین کے لئے مجاہدین کی صفوں مین شامل ہو گئے۔اور خلیفہ راشد حضرت عثمان کے عہد خلافت میں طبرستان کا پورا علاقہ فتح ہوا۔

FEATURE

بجلی کا قرآن سے حوالہ ترجمہ تمہارا خدا وہ ہےجس کی بجلیاں تم میں خوف و طمح کی دو گونہ کیفیات پیدا کر دیتی ہیں اور جس کے لرزہ انگیز بادل تمام کائنات پر چھا جاتے ہیں۔ سائنس سے حوالہ ان ذرات سے بجلی کہاں سے آگئی؟ ہم نہیں جانتے ہمیں اب تک اتنا ہی معلوم ہو سکا ہے کہ بجلی دو قسم کی ہوتی ہے۔مثبت اور منفی۔ اگر شیشے کی ایک سلاخ کو ریشمی کپڑے سے رگڑا جائے تو سلاخ کے کافی منفیے کپڑے میں چلے جاتے ہیں اور پچھلے تقریبا مثبت بجلی رہ جاتی ہے اور اگر لاکھ کی سلاخ کو اسی کپڑے میں رگڑیں تو کپڑے کے منفیے سلاخ میں چلے جاتے ہیں۔ اور سلاخ میں منفی بجلی بڑھ جاتی ہیں۔جب کسی جسم میں منفیے سلاخ میں چلے جاتے ہیں تو وہ فالتو منفیوں کو دور پھینک دیتا ہے اس پھینکنے كو اصطلاح میں ڈسچارج کہتے ہیں۔یہ ڈسچارج ہمیشہ منفی مبرق جسم سے مقابلہ مثبت جسم کی طرف ہوتا ہے۔منفیوں کی دوڑ بجلی کی روح کہلاتی ہے چونکہ تانبے یا پیتل کا تار بہت ٹھوس ہے اور اس کے جواہر ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں۔اس لئے یہ جواہرات نہایت پھرتی کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف منفیے پھینک سکتے ہیں۔اس کی مثال یوں ہے کہ ایک قطار میں پچاس چست لڑکے کھڑے ہوتے ہیں جن میں سے پہلا دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو کوئی چیز پکڑا رہا ہو۔بس یہی کیفیت پیتل کے تار کی ہے کہ جوہر نہایت تیزی سے دوسرے جوہر کو منفی دے رہا ہے اور اس کا نام برقی رو ہے۔جب ہم پیتل کاتار زنک کے قریب لاتے ہیں تو زنک کے منفیے تار میں گھس جاتے ہیں اگر ہم زنک کو کسی ایسے سلوشن میں ڈال دیں جس میں وہ گھل سکتا ہو تو زنک کے تمام منفیے اس سلوشن میں مل جائیں گے۔ ساون کے موسم میں ہمالہ کی طرف نگاہ اٹھاؤ۔سیاہ بادلوں کی ایک مہیب فوج انسانی دنیا کی طرف گرجتی کڑکتی اور دھاڑتی ہوئی بڑھ رہی ہے۔دل بیٹھے جا رہے ہیں اور کلیجے دھڑک رہے ہیں کہ کہیں بجلیاں بھون نہ ڈالیں ان بادلوں کی رفتا میں کس قدر وقار ہے اس لئے کہ ان جلو میں بجلیوں کے طوفان ہیں اور زمستان کے وہ بادل کس قدر مردہ نظر آتے ہیں جن کے پہلو میں آگ نہیں دامن میں بجلیوں کا خزانہ نہیں اور ہاتھ میں آتشیں تازیانہ نہیں۔بس دنیا میں وہی قومیں باوقار و معزز کہلاتی ہیں جن کے قبضے میں بجلیاں ہوں اور جن ہم رکاب طوفان ہوں۔

FEATURE

شاہ ہنگری سچسموند اور پوپ نہم بونیفارس دولت عثمانیہ کے خلاف صلیبی مسیعی یورپی اتحاد کی تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوۓ ۔یہ ان اتحاد میں سب سے بڑا اتحاد تھا جس کا چودھویں صدی عیسوی میں دولت عثمانیہ كو سامنا کرنا پڑا۔کیونکہ اس اتحاد میں پہلے کی نسبت زیادہ سلطنتیں شامل تھیں اور ان تمام نے اسلحہ فوجی ساز و سامان اور فوجوں کی فراہمی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس صلیبی حملہ میں تقریبا 1200000 جنگجوؤں نے حصہ لیا جو مختلف قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔800ھ،1396ء میں صلیبی فوجییں ہنگری کی طرف بڑھیں۔لیکن سپہ سالاروں اور سرداروں کی درمیان اور سچسموند کے درمیان جنگ سے پہلے اختلافات پیدا ہو گئے۔ سچسموند اس بات کو ترجیح دیتا تھا کہ صلیبی لشکر انتظار کرے اور جب عثمانی لشکر حملہ کرے تو وہ تب جنگ شروع کرے۔لیکن باقی سپہ سالار اس انتظار کے حق میں نہیں تھے۔انہوں نے بغیر کسی انتظار کے اپنی فوجوں كو حملے کا حکم دے دیا۔ وہ دریا دانوب کے ساتھ ساتھ نشیب میں اترتے گئے اور بلقان کی شمال میں نیکو بولیس تک پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور شروح شروع میں انہیں عثمانی فوجوں کے مقابلے میں كامیابی ہوئی لیکن بایزید اچانک نمودار ہوئے۔کیونکہ وہ یورپیوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ سو اکثر نصرانی شکست خوردہ بھاگ کھڑے ہوۓ کئی قتل ہوۓ اور ان کے بہت سے قائد گرفتار ہوئے ۔ اس جنگ میں بے انداز مال غنیمت عثمانیوں کے ہاتھ لگا۔ وہ دشمن کے زخیروں کے مالک ہوۓ فوزو کامرانی کے نشہ میں سلطان با یزید کہہ اٹھا۔میں اٹلی کو فتح کروں گا اور اپنے گھوڑے کو روم میں پطرس رسول کی قربانی گاہ میں جوکے دانے کھلاؤں گا۔ فرانس کے بڑے بڑے رئیس جن کی تعداد بہت زیادہ تھی گرفتار ہوۓ جن میں کاؤنٹ ڈی نیفر کا نام سر فہرست ہے۔ سلطان با یزید نے ان قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کرنے کی تجویز منظور کر لی تمام قیدی رہا ہو گئے۔ کاؤنٹ ڈی نیفر کو بھی رہائی مل گئی جس نے قسم کھائی کہ وہ جنگ کے لئے دوبارہ نہیں آئے گا۔بایزید نے کہا میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ اگر تم دوبارہ میرے خلاف میدان میں اترنا چاہو تو اتر سکتے ہو ۔کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں کہ تم یورپ کے تمام مسیحیو ں سے لڑو اور ان پر فتح حاصل کرو ۔ نیکو بالیس کے معرکہ کے بعد یورپی معاشرے کی نظروں میں ہنگری کی قدر و منزلت بہت گر گئی اور ان کی ہیبت اور سطوت کا محل زمین بوس ہو گیا۔

FEATURE

محبت کے معتلق تمام غلط فہمیوں میں سب سے زیادہ طاقتور اور ہر جگہ موجود غلط فہمی یہ یقین ہے کہ محبت میں گرفتار ہونا محبت یا کم از کم محبت کی ایک جسم صورت ضرور ہے۔یہ غلط فہمی بہت طاقتور ہے۔کیونکہ محبت میں گرفتار ہونے والا شخص ایک نہایت طاقتور انداز میں محبت کا تجربہ کرتا ہے۔جب کوئی محبت میں گرفتار ہوتا\ ہوتی ہے تو اسے یقین محسوس ہوتا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا میں اس سی محبت کرتی ہوں لیکن دو مسائل فورا عیاں ہو جاتے ہیں۔پہلے یہ کہ محبت میں گرفتار ہونے کا تجربہ بالخصوص سيكس سے سے مربوط ہیجانی تاجربہ ہے۔ہم اپنے بچوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتے حالانکہ انہیں دل کی گہواؤں سے محبت کرتے ہیں۔ہم اپنے ہم جنس دوستوں اور سہیلیوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتے حالانکہ انہیں شدت سے چاہتے ہیں۔جنسی اعتبار سے شعوری تحریک ملنے پر ہی ہم محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ محبت میں گرفتار ہونے کا تجربہ غیر متغیر طور پر عارضی ہوتا ہے۔ محبت میں گرفتار ہونے اور اس کے ناگزیر اختتام کی نوعیت کو سمجھنے کی خاطر اس چیز کی نوعیت کا تجزیہ کرنا ضروری ہے جسے ماہریں نفسیات انا کی حدود کہتے ہیں۔ بالواسطہ تجزیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیا پیدا ہونے والا بچہ زندگی کے پہلے چند ماہ میں اپنے اور باقی کائنات کے درمیان فرق نہیں کرتا۔جب وہ اپنے بازو اور ٹانگیں ہلاتا ہے تو دنیا بھی ساتھ ساتھ حرکت کرتی ہے۔جب وہ بھوکا ہو تو ساری دنیا بھوکی ہوتی ہے۔جب وہ اپنی ماں کو حرکت کرتے دیکھتا ہے تو وہ خود کو بھی حرکت ہوۓ محسوس کرتا ہے۔جب اس کی ماں لوری سناتی ہے تو بچہ یہ نہیں جانتا کہ اس اپنی آواز نہیں ہے وہ خود کو پنگوڑے کمرے اور اپنے والدین سے تمیز نہیں کر سکتا۔جاندار اور بے جان اشیاء ایک جیسی ہوتی ہیں۔میں اور کے درمیاں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا۔وہ اور دنیا ایک ہوتے ہیں۔کوئی حدود کوئی علحیدگیاں موجود نہیں ہوتی کوئی شناخت بھی نہیں۔ لیکن تجربے کے ساتھ بچہ خود کو محسوس کرنے لگتا ہے۔یعنی باقی دنیا سے علیحدہ وجود کے طور پر۔جب وہ بھوکا ہو تو ماں ہمیشہ ہی اسے دودھ پیلانے نہیں آ جاتی ۔جب کھیلنا چاہ رہا ہو تو ماں ہمیشہ ہی کھیلنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔تب بچے کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی خواہشات ماں کا حکم نہیں ہیں۔اسے خواہشات ماں کے رویے سے ایک جدا چیز محسوس ہونے لگتی ہیں۔

FEATURE

نیا سال 2021 طلوح ہو چکا ہے لیکن کس دل سے نئے سال کی مبارک بادی دی جائے؟ بے پناہ مہنگائ دل فگار سیاسی ابتری کا سیاپا کرتے پاکستانی عوام نے روتے دھوتے ایک سال اور گزار لیا ہے ۔عوام بیک زبان کہ رہے ہیں: یہ 365 دن نہیں گزرے،یوں سمجھیئے 365 نئے مصائب ھم بے بس اور بے کس عوام نے اپنی چھاتی پر سہے ہیں۔ سارا سال امید کا دیا ٹمٹماتا رہا لیکن قسمت سے اسکی لو تیز نہ ہو سکی ۔ حکمرانوں سے اگر پوچھا جائے حضور اس گزرے برس میں اپنے کسی ایک ایسے قدم کا ذکر فرما دیجئے جو عوامی ریلیف کے لئے اٹھایا گیا تو وہ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں۔اس گزرے سال میں بھی یہی تن توڑی جاتی رہی پچھلے حکمران اس ملک کا بیڑا غرق کر گئے۔اب عوام بجا طور پر کہتے سنائی دے رہے ہیں اور اپنے سیاسی حریفوں کو ذندانوں میں بھیجنے کیلئے دکھا رہے ہیں،اگر انپھرتیوں کا بھی عوامی مسائل و مصائب حل کرنے میں بروۓ کار لیا جاتا تو ملک کی 22 کروڑ عوام کو کچھ نہ کچھ معاشی ریلیف فراہم کیا جاتا سکتاتھا ۔اپنی ٹیم کو مباركباد دیتا ہوں کے چینی کی قیمت خاصی کم ہو گئی ہے؟پر کہاں؟ عجب قیامت ہے حکمرانوں کے آزوباڑو میں لینے والے جملہ حواری اپنے مالی مفادات میں چینی کی نرخوں میں پہلے 80روپے فی کلوگرام اضافہ کر کے مجبور عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ نکال لے جاتے ہیں ہیں اور عوام سینہ کوبی کرتے رہ جاتے ہیں۔ اور پھر ماہ بعد جھونکے میں چینی کی قیمت میں 20روپے کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں:مبارکاں چینی کی قیمت میں خاصی کمی کر دی ہے۔ گزرے برس میں کرلاتے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوۓ حکمران “نوید” سناتے رہے ۔ ملک کے معاشی اشارے مثبت جا رہے ہیں۔ان مبیہ مثبت اشاروں کے باوصف روتی اور آٹے کی قیمتیں نیچے آنے كو تیار کیوں نہیں؟ گزرے برس میں روزگار کے مواقع دن بدن سکڑتے کیوں چلے گئے ہیں؟ تبدیلی کے دل افروز نعروں میں اقتدار کی چھترچھاؤں میں بیٹھنے والے اب عوام کے ان سوالوں کا جواب دینے کو تیار نہیں ہیں۔جواب پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے میڈیا والے ہمارے اچھے کاموں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔اپنے مبینہ اچھے کاموں کی فہرست عوامی عدالت میں مگر پیش کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ حکمران بس میڈیا کو لا حاصل انٹرویوز دیتے رہے۔ گزرے برس کے دوران ٹیکس ریٹرنز کی شرح میں میں بھی خاصی کمی دیکھنے میں آئ ہے۔ یہ دراصل ٹیکس دینے والے کا حکمرانوں پر عدم اعتماد ہے۔ بس اللّه سے دعا ہے کہ 2021 پاکستانیوں کا اچھا گزر جائے۔ آمیں