تُرکوں کا حسب و نسب اور ان کا اصلی وطن

In اسلام
January 08, 2021

ماوراء النہر کا علاقہ جسے آج ھم ترکستان کا نام دیتے ہیں اور جو مشرق میں منگولیا ائر شمالی چین کی پہاڑ سے مغرب میں بحزز اور شمال سیبریا کے میدانی علاقوں سے جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ غز خاندانوں کا وطن ہے اس علاقہ میں اس خاندان کے بڑے بڑے قبائل رہائش یذیر تھے۔چھٹی صدی عسوی کے نصب ثانی میں ان قبیلوں نے اپنے اصلی وطن کو خیرباد کہہ کر گروہ در گروہ ایشیاء کو چک کی راہ لی۔

مورخین ان کی اس نقل مکانی کی کئی تو جیہات کرتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ اقتصادی بد حالی تھی۔ شدید قحط اور بڑھتی ہوئی آبادی انہیں ترک وطن پر مجبور کیا اور وہ ایسے علاقوں میں آکر بسے جہاں وسیع چراگاہیں اور خوشحالی زندگی کے اسباب وافر مقدار میں موجود تھے۔

اسلامی دنیا کے ساتھ تُرکوں کا اتصال
22ھ،652ء کو اسلامی فوجوں نے باب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی تا کہ ان علاقوں کو فتح کریں۔ یہ وہ علاقے تھے جن میں ترک سکونت پذیر تھے۔ اسلامی سپاہ کےسپہ سلار عبدالرحمٰن بن ربیعہ نے ترکوں کے سردار شہر برازسے ملاقات کی۔ شہربراز نے عبدالرحمٰن سے صلح کی درخواست کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ وہ ارمن پر حملہ کرنے کیلئے اسلامی لشکر میں شریک ہونے کے لئے تیار ہے۔ عبدالرحمٰن نے انہیں اپنے قائد سراقہ بن عمرو کے پاس بھیج دیا۔شیر براز نے سراقہ سے ملاقات کی اور ان سے ملاقات اپنی خدمات پیش کرنے کے سلسلہ میں بات کی۔ سراقہ نے ان کی پیشکش کہ قبول کرلیا۔ اور اس بارے ایک عریضہ حضرت عمر بن الخطاب کے نام پر تحریر کیا اور انہیں اس بارے میں اطلاع دی۔

اس کے بعد اسلامی لشکر فارس کے شمالی مشرقی علاقوں کی طرف بڑھے تاکہ مسلمان لشکروں کے ہاتھوں دولت ساسانی کے سقوط کے بعد علاقوں میں الٰہی دعوت کی ترویج ہو سکے۔ یہ وہ علاقے تھے جو شمال کی طرف اسلامی سپاہ راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ جب صلح کے معاہدہ کی بدولت یہ مشکلات ختم ہو گہیں تو ان علاقوں اور ملکوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی اور ترقوں اور مسلمانوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا ہو گیا۔ ترک اسلامی تعلیمات بہت متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر کے اسلام کی اشاعت اور غلبہ دین کے لئے مجاہدین کی صفوں مین شامل ہو گئے۔اور خلیفہ راشد حضرت عثمان کے عہد خلافت میں طبرستان کا پورا علاقہ فتح ہوا۔