نوجوان طبقہ کے مسائل کا حل
اسلای نقطہ نگاہ سے نوجوان نسل کو درپیش مسائل کی دلدل سے
نکال کر جاره حق پر لا کھڑا کرنے کا بہترین حل ان کو بروقت مناسب رشتہ
ازدواج میں منسلک کر دیتا ہے۔ بشرطیکہ ان کو وہ تمام اسباب میسر آجائیں
جن کو بروئے کار لا کر وہ شادی کے موقع پر نمبر وغیرہ کی شکل میں اٹھنے
والے اخراجات کو برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں ارشاد
نبوی ہے:
اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جس کسی کو شادی کے اخراجات
برداشت کرنے کی ہمت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ یہ حقیقت ہے
کہ نکاح آنکھوں میں شرم و حیا کے پیدا کرنے اور ستر کی صیانت و حفاظت
کا اہم وسیلہ ہے۔ اور جو شخض شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمت
نہ پا رہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ ان حالات میں
اس کے لئے حیوانی خواہشات و جذبات پر قابو پانے کا بہترین ذریه ثابت ہو سکتا ہے
اور بعض لوگ محض تعلیم کے منقطع ہو جانے کے خوف
کے پیش نظر شادی کرنے میں تاخیر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ شادی تعلیم کے
جاری رکھنے میں قطعا کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ کیونکہ اگر
نوجوان کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے ہو گا اور اس کی جملہ ضرورتوں
کو پورا کرنے کی زمہ داری اس کے والد نے اٹھا رکھی ہو گی تو پھر بھلا اس
صورت میں شادی تعلیم کے مسئلے کو جاری رکھنے میں کیونکہ رکاوٹ بن
کی ہے۔ ای طرح اگر وہ بذات خود صاحب حیثیت یا اس کے بر سر
روزگار ہونے کی وہہ سے اسے معقول آمدنی حاصل ہو رہی ہو تو بی شادی
اس کی علمی ترقی کی راہ میں ہرگز حائل نہیں ہو سکتی۔
لہذا صاحب حیثیت اور خوش حال والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے
بچے کے سن بلوغت کو پہنچتے ہی بلا تاخیر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے
ہوئے اس کی شادی کر دیں کیونکہ اس کو شادی کے مقدس اور زمہ وارانہ
بندھن میں باندھ کر اس کے اوقات کو مصروف کر دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ بوجہ تجرد فحاشی و بے حیائی کے اڈوں پر منہ کالا کر کے والدین کی
نیک نامی شرافت اور شہرت کو زمانے بھر میں داغ دار کرتا پھرے۔ پس
ایسے والدین جو مالدار ہونے کے باوجود بھی ان کی شادی کی طرف دھیان نہیں دیتے وہ اس صورت میں
صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہی زیادتی کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے
آپ پر بھی ظلم ڈھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
اگر والدین کی یہ حالت ہو کہ وہ خوش حالی و فرائی کے باوجود بھی
بچوں کی بروقت شادی کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے
ہوں تو اس صورت میں اگر بچوں کی طرف سے حسن طلب کے ساتھ
والدین کی توجہ اس جانب مبذول کرا دی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج
نہیں ہے۔ بشرطیکہ اظهار مقصد کے لئے نہایت شائستہ اور مہذب پیرایہ
انداز اختیار کیا جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاو کا رویہ
اختیار کرتے ہوئے ہر اس بات سے گریز کرنے کی کوشش کی جائے جو ان
کے لئے دلی صدمہ اور زہنی اذیت کا باعث بن سکتی ہو۔
اور بے اصولی بات تو ہر شخص کو اپنے ذھن میں اچھی طرح جاگزیں
کر لینی چاہیے کہ رب کائنات نے اس وقت تک کسی چیز کو حرام قرار
نہیں دیا جب تک کہ اس کی جگہ کسی دوسری چیز کو اس کے متبادل کے طور
پر جائز قرار نہ دے دیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر دیکھئے کہ اللہ تعالی نے
جہاں سود کو ناجائز قرار دیا ہے وہاں اس کی جگہ اس کے متبادل کے طور پر
تجارت کو جائز و مباح ٹھڑایا ہے۔ اسی طرح حیوانی جذبوں کی تسکین کے لئے اگر بدکاری کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کے لئے نکاح کے جائز ذرایعہ کو
اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ نکاح ہی ہے جس میں نوجوان طبقہ کے
اکثر و بیشتر مسائل کا حل پوشیدہ رکھا گیا ہے۔