امثال بے مثال
قرآنی تمثیلات پر اپنے انداز میں ایک عالمانہ تبصرہ ہے جو تفہیمی افادیت کا حامل ہے آج کی تحریر کا انتساب بڑا اچھوتا اور ایمان افروز ہے درحقیقت یہ تحریر اُن لوگوں کے نام ہے جو حق و صداقت کا ادراک کرکے اسے منافقت اور مصلحت کے پردے میں نہیں چھپاتے بلکہ بلا خوف و خطر اعلان کرکے اصحاب عزیمت کی قیادت کرتے ہیں
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اب میں اپنے دعوے پر قرآن کی ایک تمثیل بیان کر کے موضوع کو واضح کرتا ہوں
وَکُنْتُمْ اَزْوَاجاً ثَلثَۃً
اور تم ہوجاؤ تین گروہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ستائیسویں پارے کے سورہ واقعہ کی آیت نمبر 7 سے لیکر آیت نمبر 46 تک قیامت کے دن نوعِ انسانی کے تین گروہوں میں تقسیم کرنے کا ذکر فرمایا اور ان تینوں گروہوں کو انکے اعمال کی نسبت سے تقسیم کیا گیا ہے -اور اس تقسیم کی نسبت سے انکے ساتھ جزاء و سزا کا معاملہ طے ہونا بتلایا گیا ہے -اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے نوعِ انسانی قیامت کے دن تین گروہوں میں بٹ جائے گی ایک دائیں بازو والے ۔ دوسرے بائیں بازو والے ۔ اور تیسرے سب سے آگے آگے
سبقت لے جانے والا گروہ
اور یہی تیسرا گروہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء صدیقین شہداء صالحین اور مقرّبین کا ہوگا-جن کو انعام کے طور پر نعمت کے باغ عطا ہوں گے ۔ یہ سونے سے بنے پلنگوں پر گاؤ تکیے لگائے ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھے ہوں گے -انکے ارد گرد ستھری شراب کے آب خورے اور جام لئے ہوئے خوبصورت لڑکے پھر رہے ہوں گے ۔ یہ شراب ایسی ہوگی جس سے نہ طبیعت میں گرانی ہوگی اور نہ نشہ ۔ اُن کیلئے پھل ہوں گے جو وہ منتخب کریں گے ۔اور اُڑتے پرندوں کا گوشت جس قسم کا ان کا جی چاہے اور بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزائیں ہوں گی جو لڑی میں پروئے ہوئے موتی کی طرح ہوں گی ۔ ایسے ماحول میں وہاں گفتگو جھوٹ سے پاک اور سلامتی والی ہوگی اور یہ سب بدلہ ہوگا اُن کے اعمال کا .
دائیں بازو والا گروہ
یہ وہ گروہ ہے جو بیری کے کانٹوں سے پاک درختوں میں رہتے ہوں گے ۔ اُن کے لئے کیلے تہہ در تہہ ہوں گے ۔ گھنی چھاؤں ہوگی ۔ بہتا ہوا پانی پینے کو ہوگا ۔ اور میوے کثرت سے ہوں گے ۔ جو نہ گھٹیں گے اور نہ ہی اُن کے میووں کے کھانے میں کوئی رکاوٹ ہوگی اور اونچی باعزت بیٹھنے کی جگہیں ہوں گی ۔ بچھونے لگے ہوں گے ۔ دوشیزائیں جن کو جسمانی اور روحانی لحاظ سے ایک خاص معیار پر بنایا گیا ہے اور وہ دوشیزائیں ایسی کہ جو دل کو لبھاتی ہیں ایک ہی عمر کی اور کنواریاں ہوں گی اور یہ سب انعام دائیں بازو والوں کیلئے ہے نیز اس گروہ میں اگلوں اور پچھلوں سے بھی لوگ کثرت سے شامل ہوں گے .
بائیں بازو والا گروہ
اس گروہ کا حال یہ ہے کہ وہ آنچ کی بھاپ اور جلتے پانی میں ہوں گے ۔ اور ان کے سروں پر دھوئیں کی چھاؤں ہوگی جو نہ ٹھنڈی ہو گی اور نہ ہی عزت کی ہوگی .ہاں البتہ اس مقام سے پہلے وہ بڑے آسودہ حال لوگ تھے اور گناہوں کی لذت میں ڈوبے ہوئے تھے اور گناہوں پر ضد کے مصر رہے -اس گروہ کی بدبختی یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی آسودہ حالی کو حصولِ رحمتِ خداوندی کیلئے استعمال نہیں کیا ۔ یہ بائیں بازو والے اپنے نظریات ایمانیات اور اعمال کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کا شکر ہوئے ۔ اپنی انانیت تکبر و غرور میں بھرے خود کی موت سے انجان اور دوسروں کی زندگی میں تاک جھانک اپنا کام سمجھنے والےزندگی کے اصل مقصد کو بھلا کر رب تعالیٰ کو راضی کرنے کے بجائے اپنے خالقِ حقیقی کی نافرمانیوں میں اپنے رات دن بسر کرنے والے یہ وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بائیں بازو والے نام سے مخاطب فرمایا ہے جبکہ اپنے پاک کلام میں اللہ عزوجل نے حیاتِ دنیاوی کو کھیل کود تماشہ اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنے کا محض سامان قرار دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ دنیاوی ساز و سامان کے چکر میں اپنا ایمان اخلاقیات کردار گفتار اور رشتے تک پسِ پشت ڈال دیتے ہیں
خلاصہ سبق
ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت بھرپور یہ کوشش کرتا رہے کہ وہ اپنے امورِ خانہ دار کے ساتھ ساتھ اپنے مہربان رب العالمین کو جانی مالی بدنی عبادات کرنے سے راضی کرتا رہے اور حتَّی المقدور حقوق العباد کے معاملے میں بھی محتاط زندگی گزارے
بارگاہِ ایزدی میں التجاء
اللہ جل شانہ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں دعا گو ہوں کہ وہ اس تحریر کو ہم سب کیلئے ذریعہ نجات بنائے آمین ثم آمین
از قلم : علامہ مولانا محمد وقاص مدنی