Home > Articles posted by
FEATURE
on Aug 30, 2022

احساس اور اتحاد ضرورت وقت اس وقت ہمارا پیارا وطن بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے جہاں ہمارے لوگ بے یار و مددگار سیلاب کی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں ۔لوگوں کے بسے بساۓ گھر اجڑ گئے ،کاروبار ختم ہو کر رہ گئے ،اسکول بند پڑے ہیں ،کھاںے پینے کے لالے پڑ گئے ہیں بارشوں کو رحمت مانا جاتا ہے لیکن اس بار بارشوں کی نہ رکنے والی صورتحال نے ملک میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ساون کے موسم میں بارشیں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اگر یہی بارشیں شدت اختیار کر لیں اور تو ان سے نا قابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہمارا ملک ڈوب رہا ہے ہمارے لوگ اور ان کے گھر ڈوب رھے ہیں ۔لیکن کوئی ان کی دادرسی کرنے والا نہیں ہے ۔ خصوصا سندھ اور بلوچستان ڈوب چکے ہیں۔گھر ،مال مویشی،کاروبار ،سب ڈوب گیا ہے اور اب سیلاب کا رخ پنجاب کی جانب ہے ۔پنجاب کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچاتا ہوا سیلاب آگے کا رخ کر رہا ہے ۔ ایسے مشکل اور کٹھن حالات میں ہم انسانوں کا واحد سہارا اللہ تعالیٰ کے علاؤہ کوئی نہیں۔اب وقت ہے کہ ہم اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کو آگے بڑھ کر تھام لیں۔تاہم ان سیلاب زدگان تک پہنچنا آسان نہیں ہے لیکن اگر دل میں انسانیت کے لیے درد ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے بس اللہ پاک کا نام لے کر انسانیت کی خدمت کی خاطر جٹ جانا چاہیے۔ انسانیت کےلئے درد دل رکھنے والے ہمارے بہت سے ہم وطن سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچ رہے ہیں اور ان کی اس کوشش میں بہت سے لوگ حسب استطاعت ساتھ دے رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ہم وطنوں چاہے وہ کسی بھی رنگ ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں، ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ مشکل میں کام آنا ،ساتھ دینا ہی تو انسانیات ہے اور ہمارا مذہب اسلام ہمیں انسانوں سےبلا تفریق محبت سکھاتاہے ۔

FEATURE
on Aug 29, 2022

آیت نمبر 119 تا 126 هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ دیکھو! تم وہ لوگ ہو کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے اور تم ساری کتاب پر ایمان رکھتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیوں کی پوریں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ کہہ دے اپنے غصے میں مر جائو، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔ـ آل عمران : 119إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ اگر تمھیں کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو تو ان کی خفیہ تدبیر تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی۔ بے شک اللہ، وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔ آل عمران : 120وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اور جب تو صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلا، مومنوں کو لڑائی کے لیے مختلف ٹھکانوں پر مقرر کرتا تھا اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ آل عمران : 121إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ جب تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا کہ ہمت ہار دیں، حالانکہ اللہ ان دونوں کا دوست تھا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔ آل عمران : 122وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور بلاشبہ یقینا اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی،جب کہ تم نہایت کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو، تاکہ تم شکر کرو۔ آل عمران : 123إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ جب تو ایمان والوں سے کہہ رہا تھا کیا تمھیں کسی طرح کافی نہ ہوگا کہ تمھارا رب تین ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے، جو اتارے ہوئے ہوں۔ آل عمران : 124بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو اور وہ اپنے اسی جوش میں تم پر آپڑیں تو تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا، جو خاص نشان والے ہوں گے۔ آل عمران : 125وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر تمھارے لیے ایک خوشخبری اور تاکہ تمھارے دل اس کے ساتھ مطمئن ہو جائیں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

FEATURE
on Aug 29, 2022

پاکستان کو ہفتے کے روز اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اسٹار فاسٹ بولر شاہین آفریدی گال میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوران فیلڈنگ کے دوران گھٹنے کی انجری کے باعث آئندہ ایشیا کپ ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئے۔ توقع ہے کہ آفریدی اس سال کے آخر میں آسٹریلیا میں ہونے والے آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے وقت پر مکمل فٹنس پر واپس آجائیں گے، اس لمبے بائیں بازو کے کھلاڑی پاکستان کے وائٹ بال اسکواڈ کے ساتھ رہیں گے جب وہ اپنی بحالی سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پہلے ہی عندیہ دیا ہے کہ آئندہ ایشیا کپ میں آفریدی کے متبادل کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا اور ہم پانچ ممکنہ آپشنز پر غور کر رہے ہیں جن کا انتخاب سلیکٹرز کر سکتے ہیں۔ حسن علی میں ایک ثابت شدہ اداکار کو یاد کریں۔ جب سلیکٹرز نے پہلی بار ایشیا کپ کے لیے پاکستان کے اسکواڈ کا انتخاب کیا تھا تو دائیں بازو کا کھلاڑی ایک قابل ذکر کوتاہی تھی اور فوری طور پر واپس بلانے میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ گزشتہ سال کے ٹی20 ورلڈ کپ کے بعد سے علی کی فارم لاتعلق ہے اور سلیکٹرز نے چھ ٹیموں کے ٹورنامنٹ کے لیے 15 کھلاڑیوں پر مشتمل اسکواڈ کا انتخاب کرتے وقت انہیں ایشیا کپ کے ابتدائی منصوبوں سے باہر کرنے کا انتخاب کیا۔ لیکن دائیں بازو کا کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ایک ثابت شدہ پرفارمر ہے اور اگر سلیکٹرز کی جانب سے انہیں دوبارہ چھٹی دی گئی تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے میدان میں اتریں گے۔ ایک لیفٹی کی ضرورت ہے، لہذا میر حمزہ کو منتخب کریں۔اسپن صحرا میں جیت سکتا ہے۔ توقع ہے کہ متحدہ عرب امارات کی پچز سے اسپن کو کچھ مدد ملے گی، تو کیا پاکستان کو اپنے اسکواڈ میں کسی اور اسپنر کو شامل کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے؟ لیگ اسپنر زاہد محمود پہلے ہی ہالینڈ میں پاکستان کے وائٹ بال اسکواڈ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں اور ایشیا کپ کے دوران اپنے قیام کو بڑھا سکتے ہیں، جبکہ بائیں ہاتھ کے دانش عزیز ایک اور سست بولر ہیں جو موقع ملنے پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔اسکواڈ میں پہلے سے موجود پیس اٹیک کے ساتھ قائم رہیں اکثر سلیکٹرز کے لیے سب سے آسان فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ کسی متبادل کا نام نہ لیا جائے اور صرف ان کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا جائے جو پہلے ہی منتخب کیے گئے تھے۔ پاکستان کے پاس آفریدی کے بغیر تیز گیند بازوں کا ایک ٹھوس گروپ ہے – حارث رؤف، نسیم شاہ، محمد وسیم جونیئر اور شاہنواز دہانی پہلے ہی اسکواڈ میں شامل ہیں – اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ متبادل کھلاڑی اس کوارٹیٹ میں سے کسی سے پہلے الیون میں جگہ حاصل کر لے گا۔ تیز گیند باز حارث رؤف نے فوری اثر کیا۔ ایشیا کپ کے لیے پاکستانی اسکواڈ: بابر اعظم، شاداب خان، آصف علی، فخر زمان، حیدر علی، حارث رؤف، افتخار احمد، خوشدل شاہ، محمد نواز، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، نسیم شاہ، شاہنواز دہانی، عثمان قادی اگر سلیکٹرز آفریدی کی جگہ لائک سلیکشن کے لیے لائک تلاش کر رہے ہیں، تو ساتھی بائیں بازو کے میر حمزہ اگلا بہترین آپشن نظر آتا ہے۔ حمزہ نے پاکستان کے لیے صرف ایک بار کھیلا ہے – 2018 میں ابوظہبی میں آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹیسٹ – لیکن حال ہی میں لاہور میں بابر اعظم کے ون ڈے اسکواڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں شامل ہوئے جس نے ہالینڈ کا سفر کیا اور اس کے پیچھے ہونا یقینی ہے۔ سلیکٹرز کا ذہن کچھ لوگ حمزہ کے لیے کال اپ کو ایک بڑے سرپرائز کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر یہ بائیں ہاتھ کا تیز ہے جو سلیکٹرز چاہتے ہیں تو 29 سالہ واضح طور پر بہترین آپشن ہے۔ پرجوش نوجوان زمان خان پر ایک طنز کریں۔ بائیں میدان کے انتخاب میں نوجوان تیز گیند باز زمان خان کو شامل کیا جائے گا، جنہوں نے اس سال پاکستان سپر لیگ کے ایڈیشن کے دوران لاہور قلندرز کے لیے 18 وکٹیں لے کر متاثر کیا تھا۔ 20 سالہ کھلاڑی پہلے ہی سری لنکا کے لیجنڈری فاسٹ باؤلر لاستھ ملنگا کے ساتھ موازنہ کر چکے ہیں اور پاکستان دائیں بازو کے کھلاڑی کو بڑے وقت کا پہلا ذائقہ دینے سے بھی بدتر کر سکتا ہے۔

FEATURE
on Aug 29, 2022

ویسے تو ہمارے ملک کا ہر شعبہ بددیانتی اور کرپشن کی اپنی مثال آپ ہے کہ نیچے سے لے کر اوپر تک سب ناجائز اور دو نمبر کام کو اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہمارے نظام تعلیم میں بھی نقل فراڈ اور دو نمبری عام ہے۔بھلے کوئی تسلیم نہ کرے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر شعبہ ہائے زندگی میں نوے فیصد عملہ رشوت سفارش اور دو نمبری سے بھرتی شدہ ہوتا ہے۔عوام پھر ان سے ایمانداری اور میرٹ سے کام کی توقع رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ باقی شعبوں کی خستہ حالی اور تباہ حالی کی گواہ وہ شعبے خود ہیں۔ نظام تعلیم کے حوالے سے پڑھی لکھی جہالت اور حد سے زیادہ مضحکہ خیزی کو عیاں کرنا میری تحریر کا اصل مدعا ہے۔ نہم اور دہم کے سالانہ امتحان 2022ء ابھی کچھ دن پہلے ہی اختتام پذیر ہوئے ہیں۔پنجاب کے تمام بورڈز کے پرچہ جات یقیناً بڑے بڑے ماہر اور قابل اساتذہ ہی بناتے ہوں گے۔ ان پرچہ جات میں سے ہر ایک پرچہ بورڈ کی کمیٹی بڑے غوروفکر کے بعد منتخب کرتی ہوگی اور ان پرچہ جات کو چیک بھی بڑے ماہر اساتذہ کرتے ہوں گے جو اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہونے کے باعث میرٹ پر منتخب ہوکر آنے والے بچوں کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوں گے۔ ہم کم تعلیم یافتہ پرائیویٹ اساتذہ تو ان کے مقابلے میں شاید سطحی علم بھی نہ رکھتے ہوں لیکن ان ماہرین کے مقابلے میں اتنا احساس ضرور رکھتے ہیں کہ طالب علموں کے سکول میں ہونے والے عام ٹیسٹوں کو بھی پوری جانچ پڑتال سے بناتے ہیں پھر بھی اس میں غلطی ہونے کی صورت میں طالب علموں کو پورا حق دیتے ہیں اور اصلاح ضرور کرتے ہیں۔ یہ توفیق اگر نہیں ہوتی تو بورڈ کے ان اعلیٰ ماہرین کو نہیں ہوتی جو طالب علموں کے تعلیمی مستقبل سے غیرذمہ داری سے ایسا بھونڈا مذاق کرتے ہیں کہ یا تو وہ ہمیں رشوت اور سفارش سے بھرتی شدہ قصائی معلوم ہوتے ہیں یا ڈگریوں کا طوق گلے میں سجائے حقیقی علم اوراخلاقی مورال سے محروم ایسے حیوان معلوم ہوتے ہیں جن کا احساس، ضمیر اور ایمانداری سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ ناقص پرچہ جات بنا کر جہاں طالب علموں سے کھلواڑ کرتے ہیں وہیں گھٹیا اور غیر معیاری چیکنگ سے ان کے مستقبل سے بھی کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ری چیکنگ فیس کے نام پر رقم بٹور کر اپنی غلطی کو ماننے کی بجائے طالب علم کو ٹرخا دیتے ہیں کہ ساری چیکنگ درست ہوئی ہے۔ پرچہ چیکنگ کے حوالے سے میں نے بورڈ کےلیے کچھ اصول وضح کیے تھے ان کو دوبارہ دہرانے اور ان کو لاگو کرانے کےلیے ہروقت کی حکومت سے درخواست کرتا رہوں گا تاکہ طالب علم کی محنت کا حقیقی ثمر اسے ملے۔ناقص کارکردگی کا عالم یہ ہے ایک طالب علم نے ڈی جی خان بورڈ کی طرف سے جاری کردہ اپنی بارھویں کلاس کی رول نمبر سلپ سوشل میڈیا پر عیاں کی جس میں بورڈ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کرتا دھرتاؤں نے مطالعہ پاکستان کا پرچہ 2 جولائی کو رات ڈیڑھ بجے کر دیا ہے۔ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ یہ غلطی ہے۔ مگر ایسی غلطی ایک آدھ بار ہو تو غلطی کہلائی جاسکتی ہے پرچہ جات میں بھی لایعنی اور ذومعنی باتیں ڈال کر بورڈ والے یہ ضرور ثابت کرتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی نہیں بلکہ سوچی سمجھی جہالت ہوتی ہے۔ ان کے بنائے پرچہ جات میں بھی غلطی کو تسلیم کرلیا جائے تو پرچہ چیکنگ میں تو اصلاح منٹ میں ممکن ہوتی ہے لیکن وہاں پر بھی اپنی ڈھٹائی پر قائم رہ کر ری چیکنگ کرانے والے طالب علم کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے جس کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں طالب علم ضرور گواہ ہوں گے۔تعلیمی بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کی لاعلمی یا کم علمی کاثبوت گزشتہ سالوں کے سالانہ پیپر میں سے بھی بآسانی دیا جاسکتا ہے اور امسال کے پرچہ جات میں سے بھی۔ دو سال پہلے ان کے نقائص کی درستی کےلیے میں نے اپنی جیب سے ایک طالب علم کی ری چیکنگ فیس بھر کر اسے بھیجا لیکن ری چیکنگ کے نام پر مال کماؤ ٹولا جو خود کو اساتذہ میں شمار کرکے اس مقدس نام کو بدنام کرتا ہے کچھ بھی سننے اور سمجھنے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ ممکن ہے کہ طالب علم یا ہمارا موقف غلط ہو اور وہ درست ہوں۔ آپ کا یہ سمجھنا بجا ہے۔ ہم آج بھی اپنا موقف آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور بورڈ آپ کے سامنے اپنی دلیل ثابت کردے تو ہم خود کو کھلے دل سے غلط مان لیں گے۔ آپ سابقہ پرچوں کو چھوڑیں امسال نہم اور دہم کے سالانہ پیپر میں ہی ان کی بھونڈی کوتاہیاں دیکھ لیں جن پر وہ ٹس سے مس نہ ہوں گے اور نہ اصلاح کریں گے بلکہ حسب سابق ری چیکنگ فیس کے نام پر لوٹ مار کرکے بچوں کو ٹرخائیں گے۔ڈی خان بورڈ کے نہم کے ریاضی کے پرچہ کی معروضی میں لکھ دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک موضوعہ ہے جبکہ آپشن میں سارے موضوعہ تھے۔ اس معروضی میں انھوں نے وہی آپشن ٹھیک کرنا ہے جو ان کے نزدیک درست ہوگا۔باقیوں کو رگڑا دے دیں گے۔ میرے خیال میں تو ان کو اب تک بھی پتا نہیں ہوگا کہ ہم نے ایسی جاہلانہ معروضی دی تھی پرچہ میں۔ اسی طرح نہم کلاس کے اردو کے پرچہ کے پہلے گروپ کی معروضی میں جملہ لکھا کہ ” بوڑھا کا مؤنث ہے ” چلو یہاں” کا ” اور “کی” کی غلطی کو نظرانداز کر دیتے ہیں مگر جوابی آپشن میں بوڑھی اور بڑھیا دونوں لکھ دیا حالانکہ طالب علم بُڑھیا کو بَڑھیا بھی پڑھ سکتا ہے۔ جبکہ بوڑھی بھی بوڑھا کی درست مؤنث میں شمار ہے مگر انھوں نے بڑھیا کو ہی درست ماننا ہے بس۔ اسی طرح دہم کے اردو کے پرچہ کےپہلے گروپ میں اعراب دیا گیا اور پوچھا گیا کہ کون سا درست ہے مگر وہاں دو اعراب ایسے دیے گئے تھے جو دونوں درست تھے یعنی مُتَرجَم بھی اور مُتَرجِم

FEATURE
on Aug 29, 2022

ٹیچر نے ایک دن مجھے بہت مارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دل میں انہیں جتنی گالیاں دے سکتی تھی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارادہ کیا جب بھی ذرا بڑی ہوی ان کا قتل کر دوں گی۔۔۔۔۔۔لازم کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ مجھے ”سکھا“ گۓ۔۔۔ ایک دن ملے ”ساٸیکل “ پر تھے ۔کافی بزرگ  ہو چکے تھے۔ ان کے پاٶں شوگر کی وجہ سے سوجے رہتے۔ (کبھی کبھی بنا جوتوں کے ساٸیکل چلاتے۔) مجھے دیکھ کر بولے ”اقرا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھاگ کر گاڑی سے اتری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے خوش ہو کر بولے ۔۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر ایک دم ہاتھ جوڑ کر بولے۔۔ مجھے معاف کر دینا تمہیں بہت مارتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اس لیے مارتا تھا کہ تم ایک مقام تک پہنچ جاٶ آج تمہیں اس مقام پر دیکھ کر بہت خوشی ہوٸ۔اس لیے رو پڑا کہ میری شاگردہ اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھی ہے۔ بیٹا تم میری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔۔ اور رو پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سینے پر ”گھونسہ “ لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ سارا روڈ یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ جس جس راہ چلتے بندے کو پتہ چلا وہ بھی رو پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ آپ اچھے ”نمبرز “ نہ بھی لیں۔ اچھے ”گریڈز “ نہ بھی لیں۔ صرف اپنے ”ٹیچر“ کا ادب کریں تو اجر ٹیچر نہیں ” خدا “ دیتا ہے۔ مجھے یہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتی۔۔۔ ” مجھے تراشنے والے وہی تو تھے“ ” میں ایک گمنام بے شکل پتھر تھا“ اس لیے جتنا ہو سکے استاد کا احترام کریں ۔کیونکہ یہی کامیابی کی سیڑھی ہیں۔

FEATURE
on Aug 18, 2022

مِٹھڑی (ہمارا گاؤں) (توسیع کے ساتھ)۔ جہاں پر بھی بسیرا ہو ہمارا، یاد مٹھڑی ہے ثمر قندؔ و بُخاراؔ ہے، مُراد آبادؔ مٹھڑی ہے نوابؔ اللہ کو پیارے ہوئے تو دور بدلا ہے نہیں جو وہ رہے تو اب ستم ایجاد مٹھڑی ہے گُزارا ہے جہاں بچپن، لڑکپن کا زمانہ بھی رکھا جِس نے مِرے دِل کو ہمیشہ شاد مٹھڑی ہے کبھی ٹِیلوؔ، کبھی ٹِیٹی ٹماٹرؔ تھا، کبڈّیؔ تھی ابھی کل کی ہو جیسے بات ایسے یاد مٹھڑی ہے پِشنگیؔ گاؤں میں، عیزت بخاریؔ دوسری جانب انہی اللہ والوں کے طفیل آباد مٹھڑی ہے مُجاوِر ہیں رفیق احمدؔ، فقیرانہ طبیعت ہیں رویّے سے فقیروں کے تو گویا شاد مٹھڑی ہے تعصُّب سے ہیں بالا تر یہاں کے لوگ سِیدھے سے خُدا ترسی یہاں کا شیوہ ہے شہزاد مٹھڑی ہے نواب اسلمؔ ہمارے فلسفہ میں بات کرتے ہیں اِنہی کی دُور بِینی کے سبب آزاد مٹھڑی ہے یہاں پر مُختلف اقوام کے بھی لوگ بستے ہیں مگر رنگ و نسل کی، قوم کی اضداد مٹھڑی ہے بلوچی بھی، برہوی بھی، یہاں سِندھی سِراکی بھی سبھی قد والے رہتے ہیں جبھی شمشاد مٹھڑی ہے یہاں ساداتؔ بستے ہیں سو فیضِ عام ہے لوگو رفیقِ آل احمدﷺ ہے جبھی تو شاد مٹھڑی ہے یہاں ملّاؔ قبِیلہ خیلؔ کا بازُو بنا ہر دم پِرانا گاؤں دمڑیؔ تھا نئی اِیجاد مٹھڑی ہے محلّہ تالپوریؔ ہے کئی گھر سومروؔ کے ہیں مہیسرؔ قوم کی بھی اک بڑی تعداد مٹھڑی ہے یہاں گولہؔ بھی بستا ہے، بسے کلواڑؔ، داروغہؔ کہیں سے آئے سولنگیؔ ابھی اولاد مٹھڑی ہے نِرولیؔ اور ابڑوؔ اور دھرپالیؔ بھی رہتے ہیں ملے گا تُم کو آرائیںؔ کوئی بہزاد مٹھڑی ہے ہمارے دوست چاچڑؔ تھے کہ نام امدادؔ کرتے تھے نہیں ہم میں مگر اس کی سُہانی یاد مٹھڑی ہے کِسی کو کیا جسارت ہے فرِیدؔ اور تاجؔ آگے ہیں اِنہی کی کاوِشوں کا ہی صِلہ ہے، داد مٹھڑی ہے برابر سِلسِلہ تعلِیم کا ہے اِک گھرانے سے گھرانہ وہ ہے قاضیؔ کا، اگر اسناد مٹھڑی ہے حوالہ معتبر تعلیم کا صدیق قاضیؔ تھے سبھی ہیں طفلِ مکتب حاصلِ امداد مٹھڑی ہے یہاں حاجی عمرؔ کا نام لینا بھی ضروری ہے وہی قُرآں پڑھاتے تھے جبھی استاد مٹھڑی ہے علیؔ صاحب تھے، قادرؔ، مولوی صاحبؔ بھی ہوتے تھے منیر احمدؔ، فتےؔ، مقبولؔ کی اِیجاد مٹھڑی ہے بڑا کِردار قاضی یارؔ کا تعلِیم میں دیکھا یہاں پر (باپ سے) اُستاد ہیں، اولاد مٹھڑی ہے خدا سے ہے دعا آباد رکھے پریم نگریؔ کو جہاں بھی جا بسیں اپنا مگر اجداد مٹھڑی ہے یہاں حسرتؔ تخلّص کے بڑے مشہُور شاعِر ہیں کبھی اِن کے لِیے شِیریںؔ، کبھی فرہادؔ مٹھڑی ہے رشِید حسرتؔ

FEATURE
on Aug 17, 2022

استاد کی اہمیت تحریر:سعدیہ ناز اللّٰه نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا،اسے اس بھری دنیا میں بے آسرا نہیں چھوڑا بلکہ اسے ماں باپ جیسی عظیم نعمت دی،جو اسکی پرورش کریں،اس کی تربیت کریں،اسے اچھے اور برے کا فرق بتلائیں تاکہ معاشرے میں ایک اچھا انسان پروان چڑھے۔ایک بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے،وہ وہی سیکھتا ہے جو اسے اس کی ماں سکھاتی ہیں،اس کی تربیت کرتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بچے کو ایک اور انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے علم کی نعمت سے روشناس کراسکے،جو اس کی شخصیت کو نکھار سکے,،اسکو اخلاقی زیور سے آراستہ کرسکے,اسے مختلف فنون سے آگاہ کرسکے،اس انسان کو عام الفاظ میں”استاد”کہتے ہیں۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کے لئے “روحانی ماں باپ”کا درجہ رکھتا ہے،جس طرح انسان کا اپنے والدین سے خون کا رشتہ ہوتا ہے،اسی طرح استاد سے اس کا “روحانی”رشتہ ہوتا ہے،”احساس” کا رشتہ ہوتا ہے، عزت و احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔اور یہ عزت و احترام استاد کا حق ہے جو ہر شاگرد پر فرض ہے۔کیونکہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے،بلکہ استاد تو وہ ہے جو ہمیں ایک اچھا اور باشعور انسان بناتا ہے،جو ہمیں اپنی اولاد کی طرح محبوب رکھتا ہے،جو ہماری کامیابوں پر ہمارے والدین کی طرح ہی خوش ہوتا ہے تو بھلا ہم کیوں کر اس کی عزت نہ کریں ؟کیوں اس کا احترام نہ کریں؟ لیکن نہ جانے کیوں ہماری نوجواں نسل اس عظیم انسان کے رتبے کو بھول گئی ہے،نہ جانے کیوں وہ اسے ایک عام انسان سمجھتی ہے،اس کی ڈانٹ کو اپنی بے عزتی سمجھتی ہے اس کی مار کو تشدد سمجھتی ہے،جبکہ وہ تو اگر ڈانٹتا بھی ہے تو اس لئے تاکہ اسے دنیا کی ڈانٹ سے بچاسکے، اسے اس معاشرے میں رسوا ہونے سے بچاسکے،اگر مارتا بھی ہے تو اس لئے تاکہ اسے اس بے رحم دنیا کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں ،وہ سختی بھی کرتا ہے تو اس لئے تاکہ اسے دنیا کے سخت لہجے نا برداشت کرنے پڑیں۔ کسی بھی ملک کے فوجی اداروں میں جب نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے تو انہیں جاتے ہی پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جاتے،ان کو سخت ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ وہ اس سختی سے مضبوط بنیں،تاکہ وہ اس وقتی سختی سے مستقبل میں اپنے وطن کے ایماندار محافظ بنیں اور دشمنوں سے اپنے ملک کو بچاسکیں۔پھر یہی نوجوان اپنے استاد کی محنت اور سختیوں کی بدولت ملک و قوم کے لئے باعث فخر بنتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے، ” *جو شخص استاد کی سختیاں برداشت نہیں کرسکتا اسے پھر زمانے کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں”* لہذا ہر طالب علم پر فرض ہے کہ وہ اپنے استاذہ کا عزت و احترام کرے اور ان کی باتوں کو،ان کی نصیحتوں کو غور سے سنے اور نہ صرف طالبِ علمی کے زمانے میں بلکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی اپنے استاذہ سے روابط قائم رکھے، ان سے ملے اور ان کی قیمتی دعاؤں سے فیضیاب ہو۔یاد رکھیں وہ شخص زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتا جو اپنے والدین اور استاد کی عزت اور ان کی نصیحتوں پر عمل نہ کرے۔ شاعر نے کیا خوب لکھا ہے، گمنامی کے اندھیرے میں تھا ایک پہچان بنادیا دنیا کے غموں سے انہوں نے مجھے انجان بنادیا ان کی ایسی مہربانی ہوئی کہ استاد جی نے مجھے ایک اچھا انسان بنادیا!

FEATURE
on Aug 15, 2022

مِٹھڑی (ہمارا گاؤں)۔ جہاں پر بھی بسیرا ہو ہمارا، یاد مِٹھڑی ہے ثمر قند و بُخارا ہے، مُراد آباد مِٹھڑی ہے گُزارا ہے جہاں بچپن، لڑکپن کا زمانہ بھی رکھا جِس نے مِرے دِل کو ہمیشہ شاد مِٹھڑی ہے تعصُّب سے ہیں بالا تر یہاں کے لوگ سِیدھے سے خُدا ترسی یہاں کا شیوہ ہے شہزاد مِٹھڑی ہے نواب اسلم ہمارے فلسفہ میں بات کرتے ہیں اِنہی کی دُور بِینی کے سبب آزاد مِٹھڑی ہے یہاں پر مُختلف اقوام کے بھی لوگ بستے ہیں مگر رنگ و نسل کی، قوم کی اضداد مِٹھڑی ہے بلوچی بھی، برہوی بھی، یہاں سِندھی سِراکی بھی سبھی قد والے رہتے ہیں جبھی شمشاد مِٹھڑی ہے یہاں سادات بستے ہیں سو فیضِ عام ہے لوگو رفیقِ آل احمدﷺ ہے جبھی تو شاد مِٹھڑی ہے یہاں ملّا قبِیلہ خیل کا بازو بنا ہر دم پِرانا گاؤں دمڑی تھا نئی اِیجاد مِٹھڑی ہے کِسی کو کیا جسارت ہے فرِید اور تاج آگے ہیں اِنہی کی کاوِشوں کا ہی صِلہ ہے، داد مِٹھڑی ہے برابر سِلسِلہ تعلِیم کا ہے اِک گھرانے سے گھرانہ وہ ہے قاضی کا، اگر اسناد مِٹھڑی ہے بڑا کِردار قاضی یار کا تعلِیم میں دیکھا یہاں پر (باپ سے) اُستاد ہیں، اولاد مِٹھڑی ہے یہاں حسرتؔ تخلّص کے بڑے مشہُور شاعِر ہیں کبھی اِن کے لِیے شِیریںؔ، کبھی فرہادؔ مِٹھڑی ہے۔ رشِید حسرتؔ۔

FEATURE
on Aug 13, 2022

مرض ہے اس میں وہ کمتر، حقِیر جانتا ہے فقِیر ہو گا جو سب کو فقِیر جانتا ہے میں اُس کی قید سے آزاد ہو چُکا ہُوں مگر وہ بے وقُوف ابھی تک اسِیر جانتا ہے تُمہارا کام اگر ہو کوئی تو حُکم کرو تُمہیں پتہ ہے؟ مُجھے اِک وزِیر جانتا ہے ہُؤا ہے پار جو حلقُوم سے یہ اصغر کے لبوں پہ روتی رہی پیاس تِیر جانتا ہے اگرچہ شعر کا مُجھ کو سلِیقہ کُچھ بھی نہِیں شرف ہے ذوق شناسا ہے، مِیر جانتا ہے لڑاؤں پنجہ تو اب بھی شِکست دُوں اُس کو عجب جواں ہے مُجھے پِھر بھی پِیر جانتا ہے سوال کرنا پڑا ہے جو آج مُجھ کو رشِید بٹا ہُوں ٹُُکڑوں میں کِتنے، ضمِیر جانتا ہے رشید حسرت

FEATURE
on Aug 8, 2022

TYPES OF EARTHQUAKE WHAT CAUSES AN EARTHQUAKE Earthquakes occur when tectonic plates collide. This may happen on land or at sea, or both. A quake can be a small aftershock or a large damaging event that produces landslides, tsunamis, and/or fires. Earthquakes are a natural reaction to huge movements in the Earth’s crust, which can happen naturally or artificially. The earthquake is the result of tectonic plates rubbing against each other in various places around the globe and thus causing stress on the Earth’s crust. Earthquakes happen because faults in the earth’s crust create pressure which causes trembling and sinking of the land. Faults occur along a number of types of lines, such as sliding and thrust faults, strike-slip faults, reverse faults, and normal faults. Most earthquakes are caused by movement along fault lines within the Earth’s crust but sometimes they occur elsewhere such as when a part of a plate slides under another one or when tectonic plates spread apart. Earthquakes are often caused by sudden ruptures, or extensional fractures, in the Earth’s crust. The rupture may initiate at a mobile fault plane (the locked fault) or a stationary fault that is locked by normal stresses. The earthquake can occur without infantry rupture, called an EARTHQUAKE WITHOUT GROUND SHAKING(EWGS). The answer lies in the foundational forces of Earth itself. When these forces are disturbed, earthquakes result. Earthquakes occur because of a sudden release of the stress built up inside the earth. Earthquakes are a natural occurrence on a planet that is constantly changing. The earth’s surface moves somewhat regularly, causing earthquakes. When the Earth moves, it can bring up land masses and cracks in the surface of the Earth that then cause earthquakes. The energy released during an earthquake causes a tsunami and damaging power outages as well as flooding from rivers. The cause of earthquakes is complex, but there are many factors that can increase the likelihood of one happening.

FEATURE
on Aug 8, 2022

محرم کیا ہے؟ کیا آپ کو پتہ ہے محرم میں کیا ہوا تھا ۹ اور ۱۰ محرم تاریخِ اسلام کا سب سے دردناک پہلو ہے جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے پیارے نواسے جنّت کے نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسین علیہ السّلام اور اُن کے خاندان پر کون سی قیامت ٹوٹی تھی اُن پر کیا ظلم و ستم ہوا تھا کربلا ظلم و ستم کے خلاف استقامت کا نام ہے کربلا و جگہ ہے جہاں ننھے علی اصغر کو پیاس کی شدت نے رُلایا ظالموں نے اُن پر پانی بند کر دیا اُن عظیم ہستیوں نے پانی تو نہ پیا لیکن شہادت کا جام ضرور پیا حضرتِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جب خیمے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کے ایک کہرام مچا ہوا ہے بچے پیاس سے تڑپ رہے ہیں پیاس کی وجہ سے علی اصغر کی حالت دیکھی نہ جاری تھی کبھی سکینہ پکارتی ہے چچا جان!!!!! پانی کبھی چھ ماہ کا علی اصغر اپنی سوکھی زبان نکال کر دیکھاتا ہے دوسری طرف بیمار زین العابدین علیہ السّلام کا جسم بخار سے جھلس رہا ہے پیاس کی شدت اور تڑپ سے جسم کانپ رہے ہیں ہر طرف سے العطش العطش (پیاس پیاس) کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں حضرتِ عباس علمدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ غضبناک حالت میں اُٹھے ،مشکیزہ اٹھایا اور گھوڑے کی باگیں فرات کی طرف موڑیں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! بھائی عباس کدھر جارہے ہو ؟ عرض کی ! آقا اجازت دو میں فرات پر پانی لینے جارہا ہوں۔ یہ سنا تو آقاحسین رو پڑے ،فرمایا ! عباس تم میری چھوٹی سی جماعت کے علمبر دار ہو، تمہارے چلے جانے سے یہ سارا سلسلہ ختم ہو جاۓ گا تم بھی جارہے ہو کیا یہ چاہتے ہو کہ جب حسین آنکھ کھولے تو اسے کوئی اپنا نظر نہ آئے اور کسی کا سہارا نہ رہے ، خدا کیلئے میرا نہیں تو عورتوں کی بے کسی کا خیال کرو، مجھے توپتہ ہے کہ ظالم کسی صورت بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ، اگر تم بھی نہ ہو گے تو ان کا وارث کون بنے گا اور یہ کس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں گی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ! یا امام ذرا خیموں میں ایک نظر جا کر دیکھو کہ بچے کس طرح پیاس سے تڑپ رہے ہیں ،سکینہ نے بار بار مجھے کہا ! چچا جان کوشش کرو، شاید دوگھونٹ پانی مل جائے ، اس لئے یا امام مجھے آپ اجازت دیں۔ میرے امام رضی اللہ عنہ نے اشک بار آنکھوں سے حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ کوالوداع کیا ، حضرت عباس علمدار رضی اللہ تعالی عنہ لشکر یزید کے سامنے پہنچ گئے ،اور آپ نے اتمام حجت کے لئے ایک خطبہ ارشادفرمایا ! اوکوفیو بتاؤ کس کے امتی ہو ؟ اگر تم مانتے ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے تو پھر اس آل رسول پر پانی بند کیوں کیا ؟ ظالموں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تمہارے جانور تو پانی پئیں مگر اہل بیت کے لئے پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی وقت ہے سو چو اور دوگھونٹ پانی کے دو میں تمہیں کل قیامت کے دن حوض کوثر کے جام پلاؤں گامگران نام نہادمسلمانوں پر آپ کی تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا، بالآخر آپ لشکر جرار کی صفوں کو چیرتے ہوۓ نہر فرات کی طرف بڑھے، جب عمرو بن سعد نے دیکھا کہ حیدر کا لال بڑے ہی عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے اشقیاء نے راستہ روکنا چاہا، سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوارمیان سے باہر نکالی جو بجلی کی طرح چمکی اور قہر خدا بن کر دشمنوں پرگری حیدر کرار کی ہیبت و شجاعت نے دشمن کی صفوں میں راستہ بنا دیا اور دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوۓ لب دریا تک پہنچ گئے ، جب نہر فرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی دیکھا تو خیال آیا کہ ایک چلو بھر کر پی لوں مگر جب پینے لگے تو سکینہ کی پیاس یاد آ گئی اور علی کا شدت پیاس سے زبان کا باہر آنا آنکھوں کے سامنے آ گیا، پانی اسی جگہ پھینک دیا اور جلدی سے پانی کا مشکیزہ بھرا کندھے پہ لٹکا کر چلنے لگے تو شمرلعین چلا اٹھا کہ اگر یہ پانی اہل بیت کے خیموں میں پہنچ گیا تو یادرکھو پھر زمین پرکوئی یزیدی باقی نہ رہے گا چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ پانی صحیح سلامت خیموں میں پہنچ جائے اور میرا یہ وعدہ بھی پورا ہو جاۓ مگر دشمن کے نرغہ میں آگئے انہوں نے تیروں کی بارش کر دی ، جس سے مشک چھلنی ہوگئی۔ ادھر خیموں والے خوشی منا رہے ہیں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ عباس پانی لے آئے ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ حوض کوثر کے مالک آج کر بلا کے میدان میں اپنے ہی نانا کا کلمہ پڑھنے والے بے وفا امتیوں کے ہاتھوں پیاسے ہی تڑپ تڑپ کر جانیں دیں گے، پھر ہرطرف سے تیروں ، نیزوں اور تلواروں کے جھنکارتڑپ کر جانیں دیں گے آپ ان کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ، خیموں کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے کہ نوفل بن ورقہ مردود نے چھپ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر وار کیا کہ آپ کا دایاں بازو کٹ گیا ، جوش شجاعت دیکھئے کہ آپ نے فورا نہایت ہی دلیری کے ساتھ مشک کو دوسرے کندھے پر اٹھالیا اور بائیں ہاتھ سے تلوار پکڑ کر دشمن کا مقابلہ کرتے رہے کوشش یہی تھی کہ کسی طرح پانی خیموں میں پہنچا دوں ،آپ بڑھتے آرہے تھے کہ ملعون نے آپ پر دوسرا وار کیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بایاں بازو بھی قلم کر دیا ، آپ نے مشک کے تسمہ کو دانتوں سے پکڑ لیا اور خیموں میں پہنچنے کی کوشش

FEATURE
on Aug 8, 2022

اپریل کی سہانی شام تھی۔ ہم دونوں چشمے کے بیچوں بیچ ایک گول پتھر پر بیٹھے اپنی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔ ننھی لہریں، کبھی تو اس کے ٹخنوں کو بوسہ دے کر آگے بڑھ جاتیں، اور کبھی رک کر پازیب سے اٹکھیلیاں کرنے لگتیں۔ پھسلنے کے ڈر سے اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا۔ وہ قریب تھی، پر لگتا تھا جیسے میلوں دور ہے۔ ایسے میں ہوا کو شرارت سوجھی تو ایک سبک رفتار جھونکا ہماری طرف روانہ کر دیا۔ اسکا توازن بگڑا، اور وہ میری گود میں آ گری۔ جتنی دیر میں وہ خود کو سنبھالتی، آسمان نے سب کچھ دیکھ لیا۔ کالی گھٹائیں قہقہے لگانے لگیں، اور کچھ نے تو تصویریں بھی کھینچ لیں۔ “بہت دیر ہو گئی” وہ بولی “کوئی اچھا سا شعر سنائو، اور پھر میں چلی۔” جدائی کا خیال آتے ہی دل ڈوبنے لگا۔ فرطِ جزبات میں ساحر لدھیانوی کا یہ شعر سنایا۔ چند کلیاں نشاط کی چن کر، مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں اس شعر کا یہ اثر ہوا کہ وہ روز ملنے لگی اور پھر، ہماری شادی ہو گئی۔ شادی کی سالگرہ پر وہ بہت خوش تھی۔ بڑے شوق، بہت ہی اشتیاق سے کہنے لگی “پتہ ہی نہیں چلا چار سال کیسے گزر گئے۔ سچ سچ بتائو، تمہیں میرے ساتھ گزرا وقت کیسا لگا؟ میری کمپنی انجوائے کرتے ہو ناں؟” فرطِ جزبات میں ساحر لدھیانوی کا یہ شعر سنایا۔ چند کلیاں نشاط کی چن کر، مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں اس شعر کا یہ اثر ہوا کہ دو ہفتے سے بات چیت بند ہے۔

FEATURE
on Aug 4, 2022

منشیات ایک ایسا موذی مرض ہے جس کے استعمال سے نہ صرف منشیات کے عادی افراد کی اپنی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں بلکہ خاندان اُجڑ جاتے ہیں،رشتے ناتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔سڑک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے۔صحیح و غلط،جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔جرائم کی تعدار میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔غیر طبعی اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر 7 دسمبر 1987 کو اقوام متحدہ نے اس دن کو ہر سال 26 جون کو منانے کا فیصلہ کیا۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 35 کروڑ سے زائد افراد اس وقت مختلف اقسام کی منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔اور ان کی تعدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والوں کی تعداد قریب 90 لاکھ ہے،اور ان میں بڑی تعدار پچیس سے لیکر انتالیس برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔مشہور امریکی جریدے”فارن پالیسی”کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔منشیات پاکستان کے لئے کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشتگردی کے نتیجے میں 60 ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعدار میں ہر سال پاکستان میں منشیات کی وجہ سے ہلاکتیں ہوتی ہیں۔نفسا نفسی اور گہما گہمی کے اس دور میں منشیات فروش نوجوانوں کی رگوں میں منشیات زہر کی طرح اتار رہے ہیں۔قتل،ڈکیتی اور دوسرے جرائم کی بڑھتی ہوئی ایک بڑھی وجہ منشیات کا کاروبار بھی ہے۔منشیات کے عادی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں،اور اس مقصد کے لئے وہ کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پاکستان میں ہیروئن کی تیاری اور اسمگلنگ کا آغاز انقلاب ایران اور افغانستان پر روس حملے کے بعد ہوا۔ایرانی حکومت نے منشیات اسمگلروں کے لئے سزائے موت مقرر کر دی تو افغان جہاد کے دوران افغانستان کے بعض اسمگلروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بااثر قبائلی افراد کے تعاون سے ہیروئن تیار کرنے کی لیبارٹریز قائم کر لیں۔افغانستان کو پاکستان سے آزاد تجارتی سہولتیں حاصل تھیں، اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز پاکستان کے راستے درآمد کر کے قبائلی علاقوں میں قائم ہیروئن کی لیبارٹریز تک پہنچایا جاتا رہا۔اس مکروہ کاروبار میں نہ صرف بااثر افراد بلکہ منشیات کی روک تھام کے لئے قائم کئے گئے اداروں کے بعض بڑے افسران بھی ملوث رہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سگریٹ اور شراب کے علاوہ منشیات جن میں چرس،افیون،ہیروئن وغیرہ شامل ہیں پر چالیس ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔منشیات کا استعمال صرف یہی نہیں کہ مذہبی اور اخلاقی طور پر ممنوع ہے بلکہ اس کی پیداوار اس کی خریدوفروخت کرنے والے بھی مذہبی اور اخلاقی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔منشیات کے استعمال سے دل،جگر،معدہ،پھیپھڑوں کی بیماری،فالج،ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کا شکار ہو کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاءباآسانی دستیاب ہیں۔ایک شخص دوسرے شخص کو اس کا عادی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق منشیات استعمال کرنے والے 73 فیصد افراد 60 سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔اور سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڈھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ منشیات سے متاثر ہیں۔منشیات کی لت نے کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کھلے عام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات استعمال کرتے ہیں۔منشیات فروشوں کے گروہ باقاعدہ کالجز اور یونیورسٹیز میں منشیات فراہم کرتے ہیں۔منشیات ہمارے نوجوانوں کا مستقبل دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین بھی نشے میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔اس کی متعدد وجوہات ہیں،جن میں سرفہرست سماجی تربیت کا فقدان،گھریلو حالات،غربت،بری صحبت،نوکری کا نا ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ابتداء میں خواتین میں تمباکو نوشی عام ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری نشہ آور ادویات اور نشہ آور انجکشن کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کو نشے کی لت سے نکالنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔افسوس کی بات ہے کہ منشیات کا کاروبار باآسانی چل رہا ہے اور نوجوان نسل اس کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔جس طرح آسانی سے موجودہ دور میں پیزا اور برگر دستیاب ہے بلکل اسی طرح سے منشیات بھی لوگوں کی دسترس میں ہے۔ہر شہر میں سڑکوں کے کنارے منشیات کے عادی افراد دنیا جہاں سے بے خبر اپنی زندگیاں تباہ کرتے نظر آئیں گے۔المیہ یہ ہے کہ بعض میڈیکل سٹورز بھی منشیات کے دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ایسے میڈیکل سٹورز سے پین کلرز اور ڈرگز کی ترسیل عام ہے۔گاہے بگاہے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور منشیات فروش گروہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔نشے کی لت میں مبتلا افراد کی اصلاح میں بہت بڑی رکاوٹ منشیات فروش اور انتظامیہ میں چپھی کالی بھیڑیں ہیں۔کیونکہ اگر نشے کے عادی افراد زندگی کی طرف واپس پلٹ گئے تو ان لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات فروشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ حکومتی سطح پر کوششوں کے علاوہ لاتعداد غیر حکومتی تنظیمیں (این جی اوز)بھی انسدار منشیات کے حوالے سے سر گرم عمل ہیں۔مگر اس کے باوجود اس لعنت سے چھٹکار حاصل نہیں کیا جا سکا۔اس حوالے سے جدید ترین علاج اور منشیات کے عادی مریضوں کا مفت علاج کیا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کے لئے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد ہونا چاہیئے۔نشے کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ نشے کی لت

FEATURE
on Aug 4, 2022

بریکنگ نیوز لاہور چوکی سوئی اصل کاھنہ نمبر 2 کے قریب تیز رفتار کار کی ٹکڑ سے دو افراد جاں بحق اور دو زخمی ہو گے تفصیلات کے مطابق 45سالہ منیر احمد سڑک عبور کر رہا تھا کے تیز رفتار گاڑی کی ٹکڑ سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ بعد اذاں اسی تیز رفتار کار نے سڑک کی دوسری جانب مزدا وین کو ٹکڑ مار دی جس کے بائیث مزدا کی چھت پر بیٹھے 42سالہ فرقان بشیر گر کر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ دوہرے حادثات میں کار ڈرائیور احمد حسن اور اس کے ساتھ نا معلوم عورت زحمی ہو گے اور ان کو شہر کے جنرل ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

FEATURE
on Aug 4, 2022

“آسودگی” تحریر فیضان خانزادہ مشکلات کا شکار ہوں ہر آنکھ اشکبار ہوں شہر کو کس کی نظر لگی بھائی میں بیمار ہوں اس بار عید الاضحی پر کچھ خاص اپنائیت کی فضا دکھائی نہیں دی کیونکہ اس بار عیدالاضحیٰ اور ابر رحمت کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن بھی ہونے تھے یوں لگا کے عوام کی بے جا اصرار کے بعد اس بار زیادہ تر آزاد امیدوار عوام کی نمائندگی کرتے دکھائی دے رہے ہیں جن میں زیادہ تر کی تعداد نوجوان نسل ہے کل ہی کی بات ہے دیوار پر بنی ایک انتخابی نشان کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ عوام مہنگائی سے بہت زیادہ تنگ آ چکی ہے اور اپنی لیے ایک لیڈر کی تلاش میں پہلے سے زیادہ پر امید ہے کیونکہ اقلیتیوں کا خصوصی تحفظ اور امن و امان کو قائم رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے جو آج ایک خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات فیز2 کے الیکشن چوبیس جولائی کو ہونے ہیں جس کے باعث امیدواران اپنی اپنی یوسیز میں عوام کے ساتھ جلسے جلوس اور ریلیوں کے ساتھ ساتھ گلی کوچے اور نکڑ پر تقریر کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان سب عمل کے باوجود کراچی کی صورت حال سے عوام بخوبی واقف ہے نکاسی آب ہو یا پھر لوڈشیڈنگ آپ سب کو علم ہوگا کل پنجاب میں بھی الیکشن ہونے ہیں جس میں آزاد امیدوار اور نون لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے اگر پنجاب میں ہم مہنگائی کی بات کریں تو مہنگائے کی نسبت سے نون لیگ کو کافی محنت کرنی ہوگی کیونکہ مہنگائی کی شرح میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث عوام شدید پریشان دکھائی دے رہی ہے اس کا اثر ن لیگ پر پڑ سکتا ہے الیکشن میں عوام کی حق رائے دہی آنے والے تمام الیکشنز کی نوید ہوگی آپ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پہلے کی طرح مشترکہ حکومتوں کا ہی دور ہوگا پہلی کی سیاست اور آج کی سیاست میں بڑا گہرا فرق دکھائی دے رہا ہے پہلے سیاستدان پارٹیز تبدیل کر لیا کرتے تھے لیکن آج سیاست دان ہی تبدیل ہوتے دکھائی دے رہا ہے میری اس مختصر سی تحریر کا متن یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کو پریشانیاں تو بےحد لاحق ہیں لیکن لگتا ہے اس بار عوام اڑ بیٹھی ہے جبکہ حکومتی اعلانیہ کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی ہوگی اس کمی سے دیکھنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ عوام پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے یہ تو 24 جولائی کو ہی معلوم ہوسکے گا جبکہ دو ہزار پندرہ میں ایم کیو ایم میں 135 سیٹیں حاصل کی جس کے بعد میئر ایم کے ایم وسیم اختر کراچی پر حکومت کرتے دکھائی دیے لیکن پچھلے برسوں کی نسبت آ اس بار حالات کچھ الگ دکھائی دے رہے ہیں آزاد امیدوار ان اور دیگر جماعتیں سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں ماضی میں بھی کراچی میں ایک ضمنی الیکشن ہوا جس میں آؤٹ آف ٹرن ووٹوں کی تعداد بیس فیصد رہی جس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ عوام کا اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف آرٹیکل چھ لگانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اخبارات کی زینت بننے والا یہ آرٹیکل چھ آخر ہے کیا ؟؟؟ ذہن و گمان میں کھلبلی مچا تا ہوا یہ سوال بالکل بجا ہے اس دفعہ کے مطابق کوئی بھی شخص جوآئین کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرے یا اس کی کوشش کرے بغاوت ارفع کا قصوروار قرار پایاۓ جائے گا اور اس عمل کا معاون بھی جرم کا قصوروار قرار پایا جائے گا اور اس کی سزا کا فیصلہ مجلس شعوری یا پارلیمنٹ کرے گی سیدھے اور عام عوام الفاظ میں اس کا مطلب پارلیمنٹ نے جو قانون منتخب کیا ہے اس کے مطابق نہ چلنا لگتا ہے کسی بڑے رہنما کی گرفتاریاں متوقع ہے خیر یہ تو وقت بتائے گا کیونکہ مہنگائی کی شرح میں بدترین اضافہ ایک مزدور طبقے کی تنخواہ سے گزارا ہونا بالکل ہی ناممکن سی بات ہے ہمارے ملک پاکستان پر بالخصوص اللہ رب العزت رحم و کرم فرمائے آمین

FEATURE
on Aug 4, 2022

صدارتی ریفرنس کیا ہے ؟ اور موجود صدارتی ریفرنس ۔ آج کل ملک کے سیاسی ماحول میں ایک بات بہت زیادہ سننےکو مل رہی ہے کہ صدرعارف نے سپریم کورٹ کو ایک ریفرنس بھیجا ہے جس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے منحرف ایم اینز کے مستقبل کا فیصلہ ھوگا۔ سب سے پہلے صدارتی ریفرنس کیا ہے ؟آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 186 میں صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ جس کو ہم عام الفاظ میں صدارتی پاور بھی کہ سکتے ہیں۔ آرٹیکل 189 مشاورتی دائرہ اختیار۔ ایڈوائزری جیوریسڈیکشن آرٹیکل 189. نمبر1: اگر، کسی بھی وقت، صدر یہ سمجھتا ہے کہ قانون کے کسی ایسے سوال پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے جسے وہ عوامی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے، تو وہ اس سوال کو غور کے لیے سپریم کورٹ کو بھیج سکتا ہے۔ نمبر2: سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرے گی اور اس سوال پر اپنی رائے صدر کو بتائے گی۔اس کا مطلب کے صدر کے پاس اختیار ہے کے جہاں پر قانون میں عوامی اہمیت کا مسئلہ اتا ہے اور یہ کوئی سوال آتا ہے تو وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کہہ سکتا ہے کے قانونی تناظر میں اس کی تشریح کر کے اپنے رائے سے مجھے آگاہ کریں اور جب ایک دفعہ کوئی مسئلہ یہ کوئ قانونی سوال بھیج دیا جاتاہے تو سپریم کورٹ پابند ہے کہ اس ریفرنس کو جواب کے ساتھ صدر کو واپس کردے آیا وہ قانونی مسئلہ یہ سوال بنتاتا یہ نہیں اور یہ ایک رائے کے حد تک ہوگی جو کہ سپریم کورٹ کا فیصلا شمار نہیں ھوگا۔ یہ تو تھا آرٹیکل 189 کے متعلق لیکن اور جگہ بھی صدر، صدارتی ریفرنس دائر کرسکتا ہے جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 سپریم جوڈیشل کونسل سپریم جیوڈیشنل کونسل میں صدر دو بنیادوں پر کسی جج کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرسکتا ہے نمبر1) کسی جج کی بدتمیزی پر نمبر2) جج کی جسمانی یا ذہنی طور پر اپنے دفتر کے فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی نااہلی پر۔ موجودہ صدراتی ریفرنس میں بھی صدر نے آئین کا آرٹیکل اے (63) جس کے 16 کلاز ہے جو کہ پارلیمنٹیرینز کے نااہلی کے متعلق ہے کے تشریح کےلئے آئین کہ آرٹیکل 189 کے نیچے سپریم کورٹ کو بھیجا ہے جس میں حکومت کے طرف سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پروی کرگا جس پر چیف جسٹس اف سپریم کورٹ عمر عطاء بندیال نے لارجر پانچ ممبر بنچ تشکیل دیدیا جن نام کے ابھی تک نام سامنے نہیں ائے۔ سپریم کورٹ اس معاملے پر صدر کو اپنے رائے سے جلد سے جلد آگاہ کرنے کا پابند ہے ۔ وہ سؤالات جو صدر نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے کیے ہیں ۔ سپریم کورٹ سے چار بنیادی سوالات کی تشریح کی درخواست کی ہے۔ نمبر1) کہ کیا اگر کوئی خیانت کرتا ہے اور اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے انحراف کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی ہے اور اسے ڈی سیٹ یعنی اپنے کیے کی سزا دیتے ہوئے اسے اس کی نشست سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ نمبر2) کہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے ایک وسیع مشاورت کے بعد آئین میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت ایسے رکن کو تاحیات نااہلی قرار دیا جا سکتا ہے تاکہ اس قسم کی دھوکہ دہی، غیرآئینی اور غیراخلاقی عمل میں شریک ارکان میں ڈر پیدا کیا جاسکے ؟ نمبر3) کہ موجودہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کیا ایسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جس سے انحراف، فلور کراسنگ اور ووٹ بکنے جیسے عمل کو روکا جا سکے۔ نمبر4)کہ ایسا رکن جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہتا اور اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیتا اور بعد میں اپیل میں سپریم کورٹ سے بھی اگر اسے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور صادق اور امین نہ رہے تو پھر کیا ایسے میں اس رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟

FEATURE
on Aug 4, 2022

کیا انسان جب اس دنیا میں آیا تب بھی اتنا ہی مغرور تھا تب بھی وہ اکڑ کر چلنا چاہتا تھا اور اس قدر تکبر والے لفظوں کا استعمال کرنا چاہتا ہے اور آمریت کو ترجیح دینا آگیا تھا کیا صرف تب اس کے پاس طاقت کی کمی ہوتی ہے کیا وہ پہلے سانس کے ساتھ سیکھ جاتا ہے اس کے یہ الفاظ میرے کلیجے کو چھلنی چھلنی کر رہے تھے اتنے معصوم سے چہرے کے پیچھے اس قدر درد اور تکلیف تھی میں اپنا درد جیسے بھول ہی گئی مجھے اپنی نواب سکندر سے ہونے والی بے عزتی جیسے یاد ہی نہ رہی ہو .میں ایک اور غوروفکر میں لگ گئی میری بیٹی پہلے تو ایسی نہیں تھی جب اس کا باپ زندہ تھا ااس کے چہرے سے ہنسی نہیں جاتی تھی مجھے معلوم ہی نہیں ہوا کے کب میری ہانیہ بچپن سے سیدھا بڑھاپے کی طرف آگئی میرا دل چارہا تھا کے میں اس قدر ذوروقطار سے روئو مگر میں ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ ہانیہ اس سے اور زیادہ پریشان ہوتی میں اپنی سرخ آنکھوں کو چھاپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی وہ جھٹ سے بولی امی جان آپ کل سے کام پر نہیں جائیں گی ان امیروں کو کیا لگتا ہے ہم ان کے ٹکڑوں پر پل رہے ہے اسے کیا معلوم نہیں اسے بھی وہی دہ رہا ہے جس نے مجھے تو کیا پتھر میں موجود کیڑے کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے میں اب نہیں جائو گی سکول میں کسی کے ہاں کام کر لوں گی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف نواب سکندر نے گھر کے ماحول کو اپنے شور سے ایسے کیا ہوا تھا جیسے انڈیا پاکستان کا ورلڈکپ میں فائنل چل رہا ہو اور آخری گیند پر پانچ رنز کی ضرورت ہو شاہد آفریدی چھا لگا دے مگر شور کی آواز اسی قدر تھی مگر ادھر ادھر کے حلات میں فرق تھا ادھر خوشی کا شور تھا ادھر بےعزتی کا جو گھر کی عام سی نوکرانی نے انھیں یہ بول کر کی ہے کہ صاحب ابھی اندر نہ جائیں ابھی پوچا لگایا ہے فرش گیلا ہے آپ گر جائیں گے

FEATURE
on Jul 19, 2022

داماد رسول، ہمراز مصطفٰی، ہم زلف حیدر کرار ،سسر حسن ابن علی، جامع القرآن، سخاوت کے مہر و منیر ،جن سے حیا کرے خود رب ذوالجلال وہ پاک ہستی ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ۔جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا محاصرہ کر لیاگیا تو یہ خلافت کا آخری دور ہے اور آپ کی عمر82 سال تھی۔ یہ تاریخ کا المناک باب ہے کہ حضرت عثمان غنی پر چالیس دن تک پانی بند تھا ایک منصوبہ تھا تین لوگ تین مختلف شہروں مصر سے ، کوفہ سے اور بصرہ سے ایک ایک ہزار آدمیلے کر مدینہ پہنچے۔حضرت علی المرتضی سے ملے ام المومنین سیدہ عائشہ سے ملے اور بعض اصحاب سے ملے ۔تو انہوں نے انہیں سمجھا کر واپس بھیج دیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پراقرباٗ پروری کاالزام عائد کیا تھا پھر یہ تھا کہ آپ نے کم عمر گورنر کم عمر لوگ مقرر کیے ہیں۔اس پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ حضرت اسامہ بھی تو کم عمر تھے حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو اگر مقرر کیا تھا تو یہ تو مثال ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن یہ ایک منصوبہ تھا اس منصوبے کے تحت تین جگہ سے لوگ آئے تھے وہ تین دن کی مسافت کے بعد پھر تینوں واپس آ گئے یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ تینوں کے واپس آ گئے کوئی ایک تو نہ آتا اگر یہ سب طے شدہ منصوبہ نہ ہوتا۔ جس نے مدینتہ المنورہ کو گھیر لیا اور بلوائیوں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ شہر مدینہ سے باہر تھے اور اپنے بیٹوں امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت عثمان غنی کے دروازے پر مقرر کیا تاکہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچتے تھے اب سات سو صحابہ اجازت طلب کر رہے ہیں آپ ان بلوائیوں سے نپٹنے کا اجازت نامہ دے دیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا کہ نہیں میں ایسی اجازت نہیں دوں گا جس سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا شہر مدینہ کے لوگوں کے خون سے لال ہوجائے آپ کے غلاموں نے جب تلوار اٹھا لی تو آپ نے فرمایا کہ میرا حکم ہے کہ تم سارے تلوار نیچے رکھوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ پڑھنے پڑھانے والے لوگ تھے تعلیم و تعلم فن کا تعلق تھا لیکن وہ بھی آپ کے دفاع میں آگئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی حضرت عثمان غنی روک دیا۔مالک بن اشتر کہنے لگا کے ہم آپ کی دستبرداری کے خواہاں ہیں آپ خلافت سے دست برداری اختیار کر لیجئے۔حضرت عثمان غنی نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا۔ دستبردار ہونا سب سے زیادہ آسان تھا لیکن حضور نے ارشاد فرمایا اے عثمان تمہیں اللہ ایک قمیض پہنائے گا لوگ اس کو اتارنا چاہیں گے تم کبھیاس کو نہ اتارنا ۔اس سے مراد خلافت کی قمیض تھی اگر آپ دستبردار ہوجاتے تو خلافت ایک بازیچہ بن جاتی ہے چند آدمیوں کے پریشر سے خلافت سے دست برداری کرنا پڑتی۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے چند باغی تھے ان کو کس طرح کچل دیا جاتا لیکن نہیں ایک تو یہ کہ مدینہ کی حرمت پامال نہ ہو اور دوسرا پورے عالم اسلام کو آگ لگانے کا اور وہ جو ان کےتین آدمیوں کے پیچھے کام کرنے والے نادیدہ ہاتھ تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ یہاں سے تینوں شہر مختلف سمتوں میں تھے تینوں سمتوں میں جب لاشیں جائیں گی تو پورے عالم اسلام کو ہم جنگ کی آگ میں دھکیل سکیں گے۔ حضرت عثمان غنی ان سازشوں سے آگاہ تھے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں خلافت سے دستبردار بھی نہیں ہوگا اور مدینہ کی عظمت بھی پامال نہیں ہونے دوں گا اور تیسری بات یہ کہ میں خود مظلوم شہید کر دیا جاؤں تو آپ نے یہ گوارا کیا۔ 18ذوالحج ،جمعہ کا دن اور آپ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے حضرت امام حسن امام حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر اور دیگر لوگ آپ کے دروازے پر پہرا دے رہے تھے لیکن باغی پچھلے گھر سے دیوار پھلانگ کر آپ کے گھر داخل ہو ئےتلوار سے وار کیا آپ کی زوجہ حضرت نائلہ آگے بڑھی اور ہاتھ سے روکنا چاہتی تھی مگر انگلیاں کٹ گئی پھر دوسرا وار کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا دایاں ہاتھ کٹ کے گر گیا۔آپ نے افسوس کیا کہا کے تم نے وہ ہاتھ کاٹ دیا جس میں وحی کی کتابت کیا کرتا تھا اس کے بعد آپ پر 9 وار کر کے آپ کو شہید کر دیا گیا اور آپ کا خون قرآن مجید پڑھتے ہوئے اس آیت پر گرا فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(۱۳۷) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی بھوکے پیاسے شہید کئے گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور فتنوں کا ذکر کر رہے تھے تو ایک شخص نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور وہ مجلس وعظ کے قریب سے گزر گیا اور حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص حق پر ہوگا۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور جا کے دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تھے تو میں نے حضرت عثمان کے چہرے کو پکڑ کے تھوڑا سا حضور کی جانب کیا تو حضور نے فرمایا کہ جب فتنے ہوں گے یہ حق پہ ہوگا۔ حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اس شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا جو حضرت عثمان غنی رضی رضی تعالی عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ کارنامہ تھا کہ آپ نے اپنی جان پیش کر کے امت کو جو فتنوں سے محفوظ کر لیا اور امت کو بچا لیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پر کروڑوں رحمتیں کروڑوں سلام ہم آپ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں عقیدتوں کا خراج پیش کرتے ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک پاکستان کو بھی اپ رضی اللہ تعالی عنہ جیسے حکمران عطا فرمائے۔آمین تحریر کنندہ:محمد احسان غوث

FEATURE
on Jul 16, 2022

ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے ہمارا عِشق بھی جنّت مِثال ہو جائے سُنا ہے تُم کو سلِیقہ ہے زخم بھرنے کا ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے ذرا سی اُس کے رویّے میں گر کمی دیکھیں طرح طرح کا ہمیں اِحتمال ہو جائے چلا تھا کھوکھلی کرنے جڑیں وطن کی جو گیا ہے مُنہ کی وہ کھا کر، دھمال ہو جائے پِھر اُس کے بعد کبھی بھی دراڑ آنے نہ دُوں بس ایک بار تعلّق بحال ہو جائے سُکونِ قلب جِسے تُم خیال کرتے ہو بہُت قرِیں ہے کہ دِل کا وبال ہو جائے کِسی کے صبر کا ایسے بھی اِمتحان نہ لو تڑپ کے رُوح اَلَم سے نِڈھال ہو جائے یہ اِختلاط ہمیں کر رہا ہے خوف زدہ کمی نہِیں بھی اگر اعتدال ہو جائے کمان کھینچے ہُوئے ہے جو آج وقت رشِید عجب نہِیں کہ یہی کل کو ڈھال ہو جائے رشِید حسرتؔ

FEATURE
on Jul 16, 2022

اپنی زندگی میں اس انقلاب کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ بلاگ اپ کی کایا پلٹ دے گا۔ میں بے شمار ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو اپنے آپ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اور ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔کہ جہاں بھی اس موضوع پر کوئی لیکچر یا تربیتی اجتماع ہوتا ہے وہ اس میں شرکت کرتے ہیں۔اپنے آپ کو بہتر بنانے کے موضوع پر ان کے علم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے بلکہ وہ کامیابی کی منزل کی طرف ایک قدم بھی اگے نہیں بڑھ پاتے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ان لوگوں میں اپنا مقصد حاصل کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے،جذبہ بھی ہوتا ہے،وہ ہر ممکن کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ناکام رہتے ہیں ۔ان کی ناکامی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو وہ راستہ ہی معلوم نہیں ہوتا جس پر چل کر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ کو کسی عمارت کی بالائی منزل پر جانا ہے۔جب تک آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ سیڑھی کہاں ہے،آپ عمارت کی بالائی منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔آپ عمارت کے گرد چکر لگاتے رہیں گے وقت ضائع کریں گے مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔میں اپنی زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو اچھے لوگ تھے ہیں اور ہوں گے ان کے ارادے بھی اچھے تھے لیکن منزل کا راستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عمارت کے گرد گھومتے رہے۔ میری یہ تحریر جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اس لیے لکھی ہے کہ آپ کو اس موضوع پر ایک تربیتی کورس دیا جائے جس پر عمل کرکے آپ دولت،صحت اور خوشی حاصل کرسکیں۔یہ تحریر آپ کی کایا پلٹ دے گی ۔اپنی زندگی میں اس انقلاب کے لیے تیار ہو جائیں۔آپ کا ہدف ہے:خود کو بدلنا اور اس موضوع پر کورس مکمل پڑھنے کے بعد انشااللہ دولت،صحت اور خوشیاں اپ کا مقدر بنیں گی۔ چھ بنیادی اصول یہ چھ بنیادی اصول آپ کو اپنا ہدف حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ نمبر1-روزانہ بیس منٹ کی ذہنی اور روحانی مشق کریں۔ نمبر2-روزانہ کم از کم بیس منٹ ورزش کریں۔ نمبر3-تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ہر قسم کے نشے ترک کردیں۔ نمبر4-ہر روز کوئی ہمدردی کا کام کریں۔ نمبر5-منفی خیالات کو ترک کرکے مثبت سوچ اپنائیں اور اپنی ذات پر یقین رکھیں۔ نمبر6-بازار کی بنی ہوئی چیزیں اور کھانا نہ کھائیں۔ نوٹ فرمائیں کہ یہ اس کورس کا پہلا حصہ تھا اس موضوع پر طویل دورانیے کے بلاگ ضرور پڑھتے رہیں۔اس موضوع پر مزید بلاگ صحت و عافیت کے آصول کیا ہیں؟ وقت ہماری تمام چیزوں سے قیمتی کیوں ہے؟ آپ کی بقایا زندگی کے ابتدائی دن؟

FEATURE
on Jul 16, 2022

تغیر زمان اور اسلام تغیر زمان یعنی زمانے کا بدلنا،اج بشریت زندگی کے نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے.ایک طرف ترقی و پیشرفت اور بڑھتی ہوئی ثقافتی یلغار ہے اور دوسری طرف چند کوتاہ فکر لوگوں کی روشن فکری باعث بنی ہے کہ لوگوں کو اسلام سے دور کیا جائے۔ ہمارے ایجوکیشن سسٹم پر ایک اعتراض جو ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں کو یرغمال بنا رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام چودہ سو سال پہلے آیا ہے اور اس وقت انسان نے اتنی ترقی کا سفر طے نہیں کیا تھا۔ اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے اور وہ انسان جو کبھی پتھر کے دور میں تھا اب ایٹمی ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ اس وقت ممکن نہیں کہ چودہ سو سال پہلے کا اسلام بشریت کی ضرورت پوری کر سکے۔ میری نظر میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہماری قوم دانستہ یا نادانستہ شکار ہوتی جا رہی ہے۔ لہزااس حالت میں اسکا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ جو حضرات اسلام کو چھوڑ کر زمانے کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے حق میں ہیں۔ وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو زمانے کے ساتھ چلنے کے مخالف ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں، کیونکہ زمانے کو انسان بناتا ہے، اور انسان ہی ایک ایسا موجود ہے جو چاہے تو زمانے کو اچھا بنا سکتا ہے یا چاہے تو برا پس یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کو زمانے کی اچھی چیزوں کی حمایت کرنی چاہئیے اور بری چیزوں کی مخالفت ۔ اسی ضمن میں ایک ایک سوال دیگر پیش آتا ہے کہ انسان کے پاس اچھی اور بری چیزوں کو پرکھنے کا معیار کیاہے؟ تو اس کے لئے بہترین معیار عقل ہے۔ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کمال کی طرف جا سکتا ہے۔ اگر اسکا درست استعمال نہ ہو تو انسان انحراف اور اشتباہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ چیز جاننا بہت ضروری ہے کہ جو چیز زمانے میں پیدا ہوئی ہے عقل کی پیداوار ہے یا کسی دوسری چیز کی مداخلت شامل ہے؟ بعض وقت ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز زمانے میں پیدا ہوئی ہے۔ سو فیصد علم و عقل کے تابع ہیں۔ لیکن بعض وقت لوگ علم زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثلا علم فزکس سے بشر نے عکس برداری اور فیلم برداری کو کشف کیا ہے۔ جو واقعی انسانیت کی ایک خدمت ہے۔ لیکن ایک جگہ ایک ہوس پرست پیسے کا پجاری آدمی اٹھتا ہے اور اس وسیلے کو لوگوں کی جیبیں خالی کرنے اور اخلاق کو فاسد کرنے کا ذریعہ بناتا یے۔ تو یہاں پر علم کا حصول نہیں بلکہ شہوت پرستوں کی شہوت کا حصول کہینگے۔ جیسے امریکہ میں دانشمندوں کا ایک جشن منعقد کیاگیا جس میں سب کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ جب خود اس شخص کی باری آئی جس نے ایٹم ایجاد کیا تھا۔ اس نے کہا آپ اس شخص کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ جو ایٹم کی ایجاد کا سبب بنا۔ اس نے ایٹم کو بشریت کے فائدے اور قدرت کےلئے ایجاد کیا تھا۔ لیکن ھوس پرستوں نے اپنے فائدے کےلئے استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس دور میں ہم رہ رہے ہیں۔ یہ عصر علم نہیں بلکہ عصر اسارت (قید) علم ہے۔ یعنی علم تو اپنا کام کر رہا ہے لیکن اس میں شہوت پرستوں کی شہوت بھی شامل ہے جو اپنی منفعت کےلئے اسکا منفی استعمال کرتے ہیں۔ لہذا آج کے دور میں اسی ایک طریقے سے اسلام کے ساتھ ہم آہنگ رہا جا سکتا ہے کہ زمانے کی مثبت پیشرفت کو قبول کریں اور منفی پیشرفت کا راستہ روکیں۔ (تحریراز:سید قمر نقوی)

FEATURE
on Jul 13, 2022

محکمہ خزانہ 1872-1880-1905 کے ریکارڈ کو کیسے جانیں۔ مکمل تفصیلات دیکھیں اپنا شجرہ نسب کیسے معلوم کریں؟ محکمہ خزانہ سے نسب نامہ کیسے حاصل کیا جائے؟ اگر آپ اپنا نسب نامہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس لیے آپ اپنی آبائی زمین کا خسرہ نمبر لے کر یا موضع یا یونین کونسل کے پتے پر ریکارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔اپنے ضلع کے محکمہ خزانہ کے دفتر میں جائیں۔اسی دفتر میں قدیم ریکارڈ موجود ہے۔اسے سیف ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔اس کا 1872-1880 یا 1905 کا ریکارڈ آؤٹ آف آرڈر ہے۔ جب انگریزوں نے 1872-1880 یا 1905 میں مردم شماری کروائی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہر گاؤں میں ایک جرگہ ہوتا تھا جس میں پٹواری گوردوارہ اور چوکیدار نمبردار پورے گاؤں کو اس جرگے میں بلایا کرتے تھے۔ جب ہر خاندان کو انتظام میں رجسٹر کیا گیا تو اس سے اس کی قوم سے پوچھا گیا۔ اور جب وہ اپنے لوگوں کو بتاتا تو گاؤں والے بلند آواز سے اس کی تصدیق کرتے۔اس تصدیق کے بعد اس کی قوم کا اندراج ہو گا۔اس وقت کوئی فرد اپنی قوم کو نہیں بدل سکتا تھا۔وہ جس قوم کا اندراج ہے اسے لکھتے تھے۔ تمام اقوام اس ترتیب میں درج ہیں۔ سید، مغل، گجر، اعوان، گھکڑ، ترین، دھونڈخت، سرارا، عباسی، تنولی، نائی، موچی، سدھن، کانجو، جاٹ، راجپوت، جدون، کمار، ترکھان، لوہار، قریشی، جولایا، ارائیں، ملیار، چمیار ترک، ٹوانہ، بلوچ، وٹو، اور بہت کچھ درج ہیں۔ آپ کو محکمہ خزانہ سے بھی تصدیق کرنی چاہیے اور اپنا نسب نامہ محفوظ کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے آباؤ اجداد کے پاس زمین کا کوئی ٹکڑا تھا تو آپ کا ریکارڈ محکمہ خزانہ میں ہے۔ آپ اپنا نسب نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ شیر شاہ سوری سے اکبر اعظم تک اور پھر انگریزوں سے کرج تک۔ محکمہ خزانہ کا موجودہ نظام انگریز حکمرانوں نے 1848 میں پنجاب میں متعارف کرایا تھا۔ محکمے کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گاؤں کو ریونیو اسٹیٹ قرار دیا گیا تھا۔ گاؤں کا نام دیا گیا۔ تصفیہ کی شرائط و ضوابط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے معاملات کا تصفیہ، جیسے قانون۔ کہ گاؤں کے تمام معاملات کے لیے ایک دستاویز کی شرط دہی دستور کے طور پر لکھی جاتی تھی۔ جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ جب محکمہ شروع ہوا تو پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ پیمائش اس احتیاط اور تندہی سے مکمل کی گئی کہ تمام دریاؤں، ندی نالوں، دریاؤں، جنگلوں، پہاڑوں، کھائیوں، کھیتوں، بنجر بستیوں وغیرہ کے درمیان کی پیمائش کی گئی اور ہر گاؤں کی حدود میں پیمائش درج کی گئی۔ انہیں خسرہ کیلے کا نمبر الاٹ کیا جائے گا۔ اور پھر ہر نمبر کے ارد گرد، تمام اطراف میں، ساڑھے پانچ فٹ فی کیڑا کے حساب سے پیمائش “کیڑا” ریکارڈ کی گئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ کرنے کے لیے ہر گاؤں کے لیے ایک اہم دستاویز فیلڈ بک تیار کی گئی تھی۔ جب ریونیو سٹیٹ کی حد قائم ہو جائے گی تو اس میں خسرہ کا نمبر ترتیب سے درج کیا جائے گا اور ہر خسرہ نمبر کی پیمائش کروم کیلکولیشن کے ذریعے چار سمتوں میں درج کی جائے گی اور اس کا رقبہ رقبہ کے فارمولے اور اصولوں کے مطابق درج کیا جائے گا۔ اس کتاب میں پراپرٹی نمبر خسرہ کے علاوہ گاؤں کی تمام اراضی بشمول سڑکیں، عام قبرستان وغیرہ کو بھی خسرہ نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش لکھ کر علیحدہ رقبہ درج کیا گیا۔

FEATURE
on Jul 13, 2022

اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے. ایک طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست نظر آئے گی. جہاں وسائل کی بہتات ہے. لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہے. لوگ یہاں پر رہنا پسند کرتے ہیں. ان ممالک میں تمام لوگوں کے لیے سہولیات ایک جیسی ہیں. لوگوں میں احساس محرومی نہیں ہے. لوگوں کاحکومتوں پر اعتماد ہے. ان ممالک میں لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں. کیونکہ یہاں پر قانون کی حکمرانی ہے. لہٰذا سب سے بڑ ھ کر لوگوں میں شعور اور آگاہی ہے. لوگ ریاست کی حفاظت کرتے ہیں. اور ریاست اپنے عوام کی فلاح اور بہتری کیلئے اقدامات کرتی ہے. لہٰذا ریاست کے تمام ادارے بلا تفریق اپنے عوام کے لئے خدمات فراہم کرنے میں مصروف رہتے ہیں. ان ممالک میں لوگ حکومتوں کے بدلنے سے زیادہ پریشان بھی نہیں ہوتے. کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ حکومت جو بھی آئے گی اس کی ترجیحات میں ملکی سالمیت اور ترقی سر فہرست ہوں گی. ان ممالک میں عوام کو پتہ ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل اچھا ہے. اور وہ اپنے بڑھاپے کے بارے میں بھی پریشان نہیں ہیں. کیونکہ ریاست نے باقاعدہ بندوبست کیا ہوا ہے. اب اس صورت حال میں یہاں کے عوام کو نہ تو دولت جمع کرنے کی فکر ہے. اور نہ ہی رشوت لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے. لہٰذا ان ممالک میں ریاست اور ادارے عوام کی فلاح اور بہبود کیلئے کوشاں ہیں. بدلے میں عوام اپنی ریاست کی ہربات کو ذمہ داری سمجھ کر فالو کرتی ہے. اسطرح ریاست اور قوم ایک دوسرے کے محافظ ہیں. لہٰذا وہ ممالک دیکھنے میں بھی خوبصورت ہیں اور وہاں لوگ خوش ہو کر رہتے ہیں. لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال بھی رکھتے ہیں. اور معاشرہ اچھا لگتا ہے. وہاں کی عوام اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ صفائی کو زندگی کا اہم حصہ سمجھتی ہے. لہٰذا وہ ممالک دنیا میں رہنے کے لیے بہترین جگہ کا درجہ لے چکے ہیں. اگر آپ ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں تو یہاں پر زندگی بلکل برعکس ہے. یہاں سے لوگ ان ممالک میں جانا چاہتے ہیں. کیونکہ یہاں پر لوگ مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں. پاکستان میں ہی دیکھ لیں جب سے پاکستان بنا ہے. یہاں پر سیاستدانوں اور ڈکٹیٹرزدونوں نے مل کر ملک پاکستان پر حکمرانی کی ہے. لیکن بدقسمتی سے ملکی سالمیت اور ملکی ترقی دونوں ان کی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتیں. ہر دور میں آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت پر اسطرح الزامات لگائے ہیں کہ گویا یہ ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں. لیکن کسی بھی دور حکومت میں نہ تو تعلیم بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی اور بالادستی قابل عمل ہوئی. عوام ہر دور میں پستی چلی گئی. کبھی روز گار کے فکر میں اور کبھی بچوں کے مستقبل کے بارے میں. اسطرح ریاست پاکستان کے اندر ادارے بجائے عوام کی خدمت اور فلاح کے وسائل کو لوٹنے میں مصروف ہوگئے. چھوٹے سے چھوٹے پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کے اندر ملازمین نے صرف اپنے بارے میں سوچا اور جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے ملکی وسائل کو لوٹنے میں اپنا اپنا خوب حصہ ڈالہ. اسطرح ملک کے اندر دو طبقاتی نظام معرض وجود میں آتا گیا. جس کا نقصان یہ ہوا کہ جس جس نے ملک پاکستان کو لوٹا وہ پاکستان کی دولت اکٹھی کر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر سیٹ ہوتا گیا. جس حکمران نے بھی پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی وہ ملک میں قانون کو اپنی پسند اور ناپسند کے طور پر چلانے کی ناکام کوششیں کرتا رہا. بدلے وہ تو چلتا بنا لیکن پاکستان کا نقصان ہوتا رہا. اس لئے آج ہر کوئی اپنی اپنی فکر میں ہے. حقوق نام کی کوئی چیز نہیں. انسانیت انسانی اقدار گم ہو گئی ہیں. نفسانفسی کے اس عالم میں نقصان پیارے پاکستان کا ہی ہو رہا ہے. ہمارے حکمرانوں نے اپنے پیٹ کی آگ بھرنے کی خاطر قوم کو روٹی کے چکر میں ڈال دیا. اور ملک کو اس نازک صورتحال میں دھکیل دیا ہے. لیکن ان لوگوں نے ابھی بس نہیں کی. ان کے پیٹ ابھی بھرے نہیں. ان کی آنکھوں میں حرص ابھی باقی ہے. لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے تو پھر ہر ایک کو میدان میں آنا پڑے گا. یہ ملک اگر اب بھی ان کے ہاتھوں میں رہا جنہوں نے پورے اسی سال ملک کو لوٹا ہے تو پھر ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ہو گا. ہمارے وہ ادارے جو اس ملک میں حکومتوں کا فیصلہ کرتے ہیں. انہیں بھی اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی. ملک میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی اور تعلیم کے نظام کو صحیح بنیادوں پر استوار کیے بغیر کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا. شمیم حیدر 03008505779 Malianwali537@gmail.com

FEATURE
on Jul 12, 2022

تو نے پیچھے سے جب نہ دی آواز آنکھ سے آئی دکھ بھری آواز میرے ہونے کا بس یہ مطلب ہے ان سنی اور ان کہی آواز خون پانی ہوا تو دل میں ہی زنگ سے بھر گئی نئی آواز منتظر دست آرزو کی تھی پانی میں ڈوبتی ہوئی آواز اس کی آواز تھک گئی تھی مگر میں نہیں سنتا دوسری آواز میرے گاؤں کا پانی ایسا ہے دل میں چبھتی رہی تری آواز جب مرے پاس کوئی اور نہ ہو مجھے آتی ہے تب مری آواز دکھ تو یہ ہے سنی نہیں تو نے اپنے اطراف گونجتی آواز کچے رستوں سے ہو کے آیا ہوں دھول سے اٹ گئی مری آواز اتنے زوروں سے چیخا ہے کوئی چلتے چلتے ٹھہر گئی آواز لوگ قیمت بڑھاتے جاتے تھے مجھ کھنڈر سے جو نکلی تھی آواز میں تری سمت آ رہا تھا مگر مجھے گمراہ کر گئی آواز واعظا یا خموش رہ پیارے یا لگا کوئی دلبری آواز میں فقط ہاتھ اٹھا سکا تھا عقیل بے دلی نے ہی گھونٹ دی آواز

FEATURE
on Jul 12, 2022

ہر قسم کے باطل کے خلاف اکیلا لڑنا پوری دنیا کا سلطان بننے سے بہتر ہے ، ‏باطل کے ساتھ اتحاد کر کے آپ حق کے راستے پر نہیں چل سکتے۔۔ ناممکن ، ‏پوری دنیا بھی اگر خلاف ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی ظالم کا ساتھ دیں کبھی ‏تمام جہان بھی اگر ظالم ہو جائے تو بھی ہم ظالم سے ڈرنے والے نہیں ‏حق کی راہ پر چلنے والوں کو میرا رب کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ‏اگر آپ کا دل خالص و پاکیزہ ہے تو دنیا کی کوئی شیطانی قوت آپ کا محاصرہ نہیں کر سکتی۔ ‏آپ کی زندگی سالوں، مہینوں یا دنوں میں نہیں بدلتی۔ زندگی اسی لمحے بدل جاتی ہے جس لمحے میں آپ زندگی بدلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

FEATURE
on Jul 12, 2022

اچُھوت کوئی، کِسی برہمن میں کیا تفرِیق تُمہارے اُجلے، مِرے میلے من میں کیا تفرِیق دھکیل کر جو کرے زن پرے خصم خُود سے تو فاحشہ کے کسِیلے بدن میں کیا تفرِیق شجر میں ایسا، نہِیں جِس پہ برگ و بار کوئی رہُوں میں دشت یا صحنِ چمن میں کیا تفرِیق تُمہارا کام جفا، ہے وفا مِری فِطرت نہِیں ہے کوئی ہمارے چلن میں کیا تفرِیق؟ کمال دونوں کا مسحُور کر کے رکھ دینا تُمہاری زُلف میں، مُشکِ خُتَن میں کیا تفرِیق چمکتے شہر میں مزدُور کا کُھلے بندوں جو حق غصب کرے وِیران بَن میں کیا تفرِیق سکُون پاتا ہے مزدُور، تُم مگر بے کل سو جان جاؤ کہ ہے کالے دَھن میں کیا تفرِیق وہی چمکتے سِتارے وہی ہیں شمس و قمر ذرا بھی آئی ہے چرخِ کُہن میں کیا تفرِیق؟ رشِید اُنس کا دعویٰ خُدا کی خلق سے ہے رویّہ جو ہے مگر، بانکپن میں کیا تفرِیق رشِید حسرتؔ

FEATURE
on Jul 7, 2022

موجودہ دور میں عیش و عشرت کے بے شمار ظاہری اسباب مہیاہونے کے باوجود معاشرے کا ہر دوسرا فرد بے چینی اور بے سکونی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کئی لوگ سکون کی تلاش میں در در بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ زندگی پرسکون نہ ہونے کی وجہ سے طبعیت غصے، چڑچڑےپن اور ذہنی دباؤ جیسے امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض اوقات ذہن میں مختلف خیالات گردش کرنے لگتے ہیں اور بات خودکشی تک جاپہنچتی ہے۔ یہ بات تو بلاشک مسلم ہے کہ مال و دولت یا شہرت وغیرہ سے سکون جیسی عظیم نعمت کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ بڑے بڑے بنگلے، ایئر کنڈیشنڈکمرے، نرم و گرم بستر و دیگر ذرائع آرام کے ذریعے چین و سکون کا حاصل ہوجانا بعید از قیاس ہے۔مہنگی مہنگی دوائیاں لینے کے باوجود بھی پوری رات کروٹیں بدلتے گذر جاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے جسے دنیاوی ذرائع سے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ میں نے بارہا اپنی آنکھوں سے سستا اور سادہ لباس پہنے مدارس کے طلباء کو زمین پر بستر بچھا کر گہری اور پرسکون نیند کے مزے لیتے دیکھا ہے۔ آخرکار وہ کون سا نسخہ ہے جس کو استعمال کرکے زندگی کو پرسکون بنایا جاسکتا ہے؟وہ کون سا راستہ ہے کہ جس پر چل کر زندگی میں سکون و طمانیت کی بہار لائی جاسکتی ہے؟ ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے اور فرمانِ خداوندی بھی ہے کہ ہمارے لیےرسول اللہ صہ کی سنت میں زندگی گذارنے کا بہترین طریقہ موجود ہے۔جس پر عمل کرکے نہ صرف ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔ دراصل دلوں کے چین و سکون کا راز اللہ کے ذکر میں پنہاں ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ خوب سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دلوں کا چین ملتا ہے۔(سورۃ رعد،28) ہم اپنی پوری زندگی مال ودولت کمانے میں صرف کردیتے ہیں۔ ہمیشہ ہمارا ذہن دولت کمانے کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف رہتا ہے۔ مال کمانے کے نشے میں ہم حلال و حرام کے درمیان تمیز کرنا ہی بھول جاتے ہیں اورنتیجتًا ہم سے سکون و آرام جیسی عظیم نعمت چھین لی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص میری نصیحت سے منہ موڑے گا، اس کے لیے معیشت تنگ ہوگی۔ (سورۃ طٰہٰ، 124) مفسرین کرام نے اس آیت کی مختلف تفاسیر بیان کی ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر رضہ نے معیشت کی تنگی کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس شخص سے قناعت سلب کی جائے گی اور حرصِ دنیا بڑھا دی جاوے گی۔ یعنی ایسا شخص مال سے کبھی بھی سیر نہیں ہوگابلکہ پوری زندگی دنیا کمانے کے چکر میں مصروف رہے گا اور بالآخر موت اسے اپنی آغوش میں لے لی گی۔ دنیا میں کئی ایسی دولتمند اور شہرت یافتہ شخصیات کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے زندگی سے تنگ آکر مجبورًا خودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مال و دولت کا حصول زندگی میں سکون و طمانیت پیدا نہیں کرسکتا۔ اس دنیا میں موجود اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اسے ہمیشہ خوشی ہی نصیب ہو، مصیبت اور تکلیف اس کے گھر کا دروازا بھی نہ کھٹکھٹائیں تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔ زندگی خوشی اور غم کے نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ تکلیف اور خوشی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔لہٰذا ایسی سوچ آپ کی زندگی میں بے چینی اوربے سکونی کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا ہماری زندگی کو چین و سکون سے بھر دیتا ہے۔ایک مسلمان کو چھوٹی سی چھوٹی تکلیف کابھی اجر ملتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کا دامن تھامے رکھے۔ اگر خوش ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے اس پر صبر کرے۔ دونوں صورتوں میں وہ رضائے الٰہی کامستحق ٹھہرے گا اور اس کے نامہ اعمال میں انیک نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صہ نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار چیزیں عطا کی گئیں وہ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں پاگیا۔ شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، مصائب پر صبر کرنے والا بدن اور نیک و صالح عورت۔ معلوم ہوا کہ صبر اور شکر نہ صرف آخرت کے لیے ذخیرہ ہیں بلکہ دنیا و آخرت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ صبر انسان کو مصائب و تکالیف سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے اور شکر ہمیں کئی خطرناک گناہوں سے بچاتا ہے۔ ہمارے کئی سادہ مسلمان موقعہ ملتے ہی قدرت کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتوں کی ناقدری شروع کردیتے ہیں حالانکہ اگر ہم صرف اپنے وجود پر ہی نظر کریں تو بے شمار ایسی نعمتیں ملیں گی جن کے بدلے میں پوری زندگی سجدے میں گذار دیں تو بھی ان کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ بے صبری اور ناشکری کی وجہ سے ہمارا جسم ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور نتیجتًا ہماری زندگی سے چین و سکون ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ شریعت کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے اپنے ذہن سے بےصبری، ناشکری، لالچ، حسد، کینہ وغیرہ جیسی بیماریاں نکال باہر پھینکیں اور صبر، شکر، ایثار، خلوص اور پیار جیسی نعمتوں سے اپنے ذہن کو تروتازہ رکھیں۔

FEATURE
on Jul 7, 2022

اچھی کتابوں کے مطالعے کی اہمیت سے کوئی صاحب بصیرت انکار نہیں کرسکتا،کتابوں کی بدولت جاہل آدمی علم سے آراستہ ہوتا ہے جب کہ صاحب علم اپنی بصیرت بڑھاتا ہے۔معیاری کتابوں کا مطالعہ آدمی کو وہ آگہی فراہم کرتا ہے کہ جس سے آشنا ہونے کے بعد فرد اپنے آپ کو پہچانتا ہے،جوں جوں آدمی کا مطالعہ آگے بڑھتا ہے تو اس پر واضح ہوتا ہے کہ اب تک وہ کس قدر انجان رہا۔ مطالعے کی وسعت انسان کو غرور کی بجائے عجز کی طرف لے جاتی ہےاور اسے ان حقائق سے آگاہ کرتی ہے کہ جن سے وہ اب تک لاعلم رہا۔اچھی کتابوں کے مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد ان لوگوں کی نسبت بہتر ہوتے ہیں کہ جو مطالعہ نہیں کرتے اور اپنی ذہنی گرہیں نہیں کھولتے۔یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ کتابوں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے، خام ذہن کے لیے بغیر سوچے سمجھے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ فائدے کے بجائے ضرر کا باعث بن جاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں کہ جو زندگی کا زیادہ حصہ مطالعے میں گزار چکے ہوں تاکہ ان کی رہنمائی میں مطالعے کا سلسلہ شروع ہو۔ مطالعہ بعض اوقات دو دھاری تلوار کی مانند ہوتا ہے۔ ہمیشہ تعصبات اور مخصوص نظریات کی عینک لگائے بغیر مطالعہ کرنا چاہیے۔فرقہ پرستی، بے حیائی،علاقائی و لسانی منافرت پر اکسانے والی کتابیں آ دمی کو ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہیں کہ جس سے نکلنا پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ایسی کتابوں سے ہر صورت دور رہنا چاہیے۔ مفید مطالعے کے ضمن میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مطالعہ بھلے رفتار کے اعتبار سے کم ہو مگر اس کا تسلسل نہیں ٹوٹنا چاہیے، مشکل مقامات بار بار پڑھے جائیں لیکن اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئیں تو ان کو نشان زد کرکے کسی اور صاحب علم کے سامنے رکھا جائے۔کسی کتاب کے مطالعے سے پیشتر کتاب کے مصنف کا تعارف دوران مطالعہ پیش آنے والی مشکلات کو آسان کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اسی طرح کسی کتاب کو پڑھنے سے پہلے اگر کسی ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جس نے وہ کتاب پہلے پڑھ لی ہو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اپنے ذوق کے مطابق کتابوں کا انتخاب نشاط انگیز ہوتا ہے، سو اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی کتاب عجلت میں ہاتھ آجاے کہ جس سے طبیعت مطالعے پر آمادہ نہ ہو اور پچھتاوے کا سامنا ہو۔اپنے ذوق کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرکے مطالعے کا آغاز کیجیے اور دیکھیے کہ کیسے کیسے لعل و گوہر ہاتھ آتے ہیں۔ بشارت تنشیط

FEATURE
on Jul 6, 2022

جانتا کوئی نہِیں آج اصُولوں کی زباں کاش آ جائے ہمیں بولنا پُھولوں کی زباں موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خُوشبُو کے گُلاب بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں یہ رویّہ بھی ہمیں شہر کے لوگو سے مِلا پُھول کے مُنہ میں رکھی آج ببُولوں کی زباں آپ نے سمجھا ہمیں غم کا تدارُک بھی کیا جانتا کون بھلا ہم سے فضُولوں کی زباں بے وجہ غرق کوئی ایک بھی اُمّت نہ ہُوئی ڈالتے پُشت پہ جب لوگ رسُولوں کی زباں ہم نے مانا کہ اُسے پِھر بھی بنے رہنا تھا کاٹتی دِل کو مگر درد شمُولوں کی زباں آج حسرت سے ہر اِک دُور نِکل بھاگے ہے کیا ہُؤا؟ بولتا ہے کیا یہ بگُولوں کی زباں رشِید حسرتؔ

FEATURE
on Jul 6, 2022

اب کہاں مجھ کو یہ گھر لگتا ہے ماں بنا غیر کا در لگتا ہے قبر تک ساتھ چلے گا میرے غم ترا دردِ جگر لگتا ہے ماں بنا زندگی یوں لگتی ہے جیسے پت جھڑ میں شجر لگتا ہے جم گئے اشک مرے چہرے پر چہرہ گر خشک ہو تر لگتا ہے تری آغوش کہاں سے لاؤں آج بھی رات سے ڈر لگتا ہے ماں ترا لال بچھڑ کر تجھ سے اب کہاں نورِ نظر لگتا ہے شاعرساگرحیدرعباسی

FEATURE
on Jul 6, 2022

!!آہ وہ جنوری کی ٹھٹھرتی صبح !!لحاف کی گرمایش !!حی علی الفلاح !کانوں میں رس گھولتی آوازیں !سکوت اتنا کہ مر جانے کو جی چایے !دور کہیں پٹڑی پر ریل کے دوڑنے کی آواز فقط سارا عالم فیکون کی تشریح بنا ہوا اندھیری رات چھٹنے سے صبح کو بھی وجود ملا کن کی تڑپ کے ساتھ مانگنے والوں کو فیکون کا اشارہ مل رہا! دلوں کے داغ دھوئے جا رہے ہیںڈگمامگاتے ایمان لیکن پھر بھی سجدہ ریزی آہ زاریاں جاری ! کیونکہ بات تو صرف تڑپ کی ہوتی ہے اس تڑپ کو تم ہلکا نہ لینا یہ جب ا پنی پہ آ جائے تو تمھاری جان پہ بن آےء۔یہ تڑپ بھی پھر کیا تڑپ ہے جب منصور انالحق کہتے کہتے جان کی بازی ہار جائے۔یہ تڑپ تو وہ تڑپ ہے دکھ کی کیفیت ہےنظر کے سامنے لخت جگر نور نظر نہیں ،بینا سے نابینا ہو گئے ہیں مگر ذات۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ذات ایسی کہ مع الصابرین کی مثال بنی ہوئی ہےیہ تڑپ تو وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کے بر گزیدہ بندے ہیں ۔بلند ہاتھ کیے جاے نماز پر بیٹھی وہ ایسے مدھم آواز میں رب سے سرگوشیاں کر رہی تھی وہ دونوں ہاتھ اٹھائے گڑ گڑا رہی تھی لبوں پر مسلسل التجائیں تھیں وہ روز ہی ایسے مانگتی تھی لیکن آج کچھ اور ہی سوز تھا جیسے اس التجا کو سنا جانا ہو اسے سجدے میں مانگنا اچھا لگتا تھا بھیگتی آنکھیں ڈگمگاتے ہاتھ لیے آہستگی سے وہ سجدے میں گر گئی۔نیند کی کیفیت طاری ہونے لگی ایسے محسوس ہونے لگا دل کا بوجھ ہلکا ہو چکا ۔۔۔دل کی طمانیت واپس آنے لگی ہو جیسے۔وہ اپنے لئے ہدایت مانگ رہی تھی وہ کسی نا محرم کی محبت میں مبتلا نہ تھی بلکہ وہ تو گزرے حالات میں کٹھن رعنائیوں میں رب سے کیے شکوے ناراضگیوں،بیزاریوں،نادانیوں کی معافی کی طلبگار تھی۔ خوابوں کی کرچیاں جو ہوئی تھیں اس  کی،جب خواب ٹوٹتے ہیں نا یہ روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔اس کو اپنوں کی بہت سپورٹ تھی ۔باپ پیار سے بیٹی نہیں بلکہ اپنا بہادر بیٹا کہتا تھا اسےاور ہمیشہ وہ باپ کی دلاری ہی تو رہی تھی ۔وہ اس کے خواب پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اسی لئے تو جدی پشتی زمینیں تک اس کے لئے قربان کرنے کے لییے تیار تھا وہ ۔ اس فیصلے کو سن اس کی بچی کھچی نیند بھی اڑ چکی تھی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی وہ کاروبار اور آباؤ اجداد کی وراثت صرف اس کا حق نہیں تھی وہ اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ہمیشہ سے لیڈ رول کرنے والی تھی ان کا رول ماڈل ایسا کمزور نہیں ہو سکتا تھاوہ ہمیشہ سے میڈیکل میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن اب کی بار بھی وہ قسمت کے سامنے بے بس ہو چکی تھی لیکن اس سال کی نا کامی نے اسے مضبوط بنا دیا تھا اب وہ اپنے رب کی رضا پر راضی رہنے والی بن چکی تھی بس پھر کیا تھا؟ ظرف کو وسیع کر لیا رکے لمحات،فکری اندازسب چھوڑ دیے پیچھے۔ شکوے شکایتیں کم کر دیں اور؟؟؟؟؟؟ اور خواہشیں مختصر کر دیں اس طرح اس نے اپنی زندگی کو آسان بنالیا

FEATURE
on Jul 5, 2022

اللہ کے علاوہ کوئی عبادت لائق نہیں مسلمان صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اسی کے آگے جھکتا ہے کلمہ ہمیں خوداری سیکھاتا ہے اگر انسان اللہ کے علاؤہ کسی کے سامنے جھکتا ہے تو زلت اس کا مقدر ہے وہ ہر جگہ سے زلیل ہوتا ہے تیرے در سے جو یار پھرتے ہیں در بدر یونہی خار پھرتے ہیں اللہ کے علاوہ مخلوق کے آگے ہاتھ پہلے سے انسان کو پھر اس کی غلامی کرنی پڑتی ہے کبھی آپ سر اٹھا کے نہیں جی سکتے .حضرت عمر رضہ نے فرمایا مسلمان غلامی کو کیوں قبول کرتا ہے حالانکہ اللہ نے انسان کو ماں کے بطن سے آزاد پیدا کیا ہے۔مسلمان کبھی غلامی قبول نہیں کرتا

FEATURE
on Jul 3, 2022

محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا رشِید حسرتؔ

FEATURE
on Jun 25, 2022

آج وہ بہت خوش تھا کیونکہ آج وہ دن تھا جس کا اس کو پانچ سال سے انتظار تھا۔کیونکہ آج اس کی شادی تھی وہ بھی اس سے جس سے وہ پیار کرتا ہے۔دوسری طرف بھی یہی صورت حال تھی کیونکہ دونوں بہت خوش تھے کہ آج وہ آخر اک دوسرے کے ہو رہے ہیں ہمیشہ کے لیئے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ تقدیر ان کے ساتھ کیا کرنے والی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست کی ہے جس کو میں زاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ اک پرائویٹ جاب کرتا تھا اور جس سے وہ پیار کرتا تھا وہ کراچی کی رہنے والی تھی اور یہ راولپنڈی۔دونوں کی بات فیس بک سے شروع ہوئی تھی اور آہستہ دونوں میں پیار ہوتا گیا اور پھر اک وقت آیا کہ دونوں کی شادی کے دن پکے ہو گئے۔جس دن ان دونوں کی شادی تھی وہ دونوں بہت خوش تھے لیکن ان کی یہ خوشی بس کچھ دن کی ہی تھی کیونکہ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا اور تقدیر کا کس کو پتہ ہوتا ہے۔ جہاں تقدیر نے دونوں کو ملایا تھا وہی تقدیر نے دونوں کو جدا بھی کر دیا لیکن کسی کی جدائی ایسی نہ ہو جیسے میرے دوست کے ساتھ ہوا۔ہوا کچھ یوں کہ شادی کے تین مہینے بعد ہی اچانک سے میرے دوست کی بیوی کو اچانک سے سر درد ہوا اور وہ بے ہوش ہو گئی میرا دوست اس کو ہسپتال لے کر گیا تو پتہ چلا کہ بھابھی کو کینسر ہے اور وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر۔یہ سن کر تو میرے دوست کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ہو جیسے۔ اس نے اپنا سب کچھ بیچ دیا لیکن پھر بھی اس کی بیوی نہیں بچ سکی اور میرا دوست اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور اپنا زہنی توازن کھو دیا۔ آج میرا دوست بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ اللہ ان دونوں کو جنت میں جگہ دے۔ امین۔۔ آج ان دونوں کو گزرے سال ہونے والا ہے لیکن میں آج بھی اپنے دوست کو یاد کرتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تقدیر بھی کیسے کھیل کھیلتی ہے۔ دونوں نے مل کر جینے کے سپنے دیکھے ہوں گے۔ موت نے دونوں کو جدا کر دیا لیکن تقدیر نے دونوں کو پھر سے ملا دیا۔ اللہ ان دونوں پر اپنی رحمت اور مغفرت کا نزول کرے۔امین۔۔

FEATURE
on Jun 25, 2022

کئی لفظ باعثِ درد تھے کئی لہجے حد سے گزر گئے پھول کتنے تھے راہ میں سب کانٹوں کی نظر ہوئے کچھ خواہشیں تھیں خواب تھے سب حسرتوں میں بدل گئے رستے پہ تنہا چھوڑ کر سب منزلوں کو پہنچ گئے !کہ زندگی کے سفر پہ اے دوست کئی لوگ دل سے اُتر گئے کئی لفظ باعثِ درد تھے کئی لہجے حد سے گزر گئے