ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں کنائے، استعارے آ گرے ہیں وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟ جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں رشید حسرتؔ
زندگی کے سفر میں بچپن جاتا رہتا ہے اور سفر چلتا رہتا ہے اور ہمیں یاد کرواتا رہتا ہے کہ اب ہم بچے نہیں رہے بلکہ بڑے ہوگئے ہیں ۔ اب ماجرہ یہ ہے کہ کچھ باتیں ہم بُھول نہیں پاتے اور جو باتیں یاد کرنا لازم ہوں وہ بُھول جاتے ہیں۔ پھر ہم ایسا قدم اُٹھا جاتے ہیں جس کے لئے ہم عمر بھر پچھتاتے رہتے ہیں لیکن اب ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ شاید انسان ہونے کا احساس یہی ہے کہ ہم بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ کل کی فکر نہ کرتے ہوئے جو ہنس لیا کرتے تھے اب فکر ہمیں دیکھ کر ہنستی رہتی ہے۔ پہلے چھوٹی سی چوٹ لگتی تو رو لیا کرتے تھے اب گھائل بھی ہوجائیں تو اُف تک نہیں کرتے ہیں۔ زندگی ناجانے کس موڑ پر لے آئی ہے کہ اب خوابوں کو دفنا کر جینا پڑتا ہے کاش اب کوئی میرے رونے کے لئے آنسو دے اور میری چلاہٹ کو آواز دے کیونکہ اب زخم سے زیادہ زخم کے نِشان تکلیف دیتے ہیں اور مُسکرانا لباس پہننے کی طرح معمول بن چُکا ہے۔اب گر جائیں تو کوئی اُٹھانے نہیں آتا ہے اب ہر شخص تماشا دیکھنے والا لگتا ہے۔ یہ کیسی کیفیت تاری ہوگئی ہے کہ اجنبی دوست اور دوست اجنبی سا لگتا ہے۔ لیکن میرا خدا مجھے اپنے پروں میں چھپا لیتا ہے گر بھی جاؤں تو اُٹھا لیتا ہے۔ جب حالاتوں سے تھک جاؤں تو مجھے تھام لیتا ہے اکیلا نہیں چھوڑتا بلکہ ساتھ رہتا ہے وہ میرا خدا ہے میری اُمید بن جاتا ہے۔مجھے جانتا ہے وہ اور یہ میرے لئے کافی ہے مجھے سنبھالتا ہے وہ اور یہ اُس کی وفاداری ہے۔ زندگی کا سفر چلتا رہتا ہے لیکن خدا پر توکل میرا حوصلہ بلند کرتا ہے۔ اُس کی طرف سے میری مدد ہے وہ مجھے بے یارومددگار نہیں رہنے دیتا ہے۔ اُس پر ایمان لانے سے کبھی پچھتایا نہیں ہوں میں۔ اب بڑا ہوگیا ہوں لیکن اُس کے لئے بچہ ہی ہوں میں۔ جب ہم اُن حالات اور لوگوں کے آگے مُسکرانا سیکھ جاتے ہیں جو ہمیں اپنا مُطیع بنانے کی کوشش کرتے ہیں پھر مُسکرانا ہماری سُپر پاور بن جاتا ہے۔ اس لئے ہر حالات میں مُسکرانے کا ہنر رکھتے ہیں کیونکہ خداوند ہمارا زور بن جاتا ہے۔
شازیہ عبدالحمید (کراچی )۔ آٹھ مئی کو پوری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے حالانکہ کوئی دن ماں کے بغیر نہیں ہوتا لیکن ہم نے ایک خاص دن مقرر کر لیا ہے اور اسی دن اپنی ماں کے ساتھ پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر شخص آٹھ مئی کو ماں کے بارے میں پوسٹ شیر کر رہا ہوتا ہے لیکن ایسی پوسٹ کا کیا فائدہ جو صرف آپ عوام کو دکھانے کے لئے کر رہے ہیں آپ اپنی ماں سے محبت کا اظہار کیجئے ان کا احترام کیجئے ان کے ساتھ وقت گزاریں ۔ ماں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جسے دیکھ کر مسکرانے پر حج کا ثواب ملتا ہے۔ اب بتائیں اور کیا چاہیے آپ کو گھر بیٹھے بیٹھے ہی حج کا ثواب مل رہا ہے اور آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے قدرکیجئے اپنی ماؤں کی ماں جیسی محبت کہیں نہیں ملتی ۔ اسلام میں عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ماں کو سب سے زیادہ عزت دی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ باپ سے زیادہ ماں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے حالانکہ باپ جیسا رشتہ بھی دنیا میں کوئی رشتہ نہیں ۔ لیکن اسلام میں ماں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ہر اولاد اپنی ماں سے بے حد پیار کرتی ہے اور ہر ماں اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتی ہے ۔ماں جیسی خالص محبت دنیا میں کہیں نہیں ملتی ماں وہ عظیم ہستی ہے جو بغیر کسی مطلب کے اپنی خوشیوں کو ایک طرف کرکے صرف اور صرف اپنی اولاد کی خوشی کے لیے اپنی زندگی کو انھیں خوش کرنے میں گزار دیتی ہے ماں وہ ہے جو اپنی تکلیف کو بھلا کر اپنے بچے کی تکلیف کو سکھ میں بدل دیتی ہے ۔جن کی مائیں زندہ ہے انہیں چاہیے کہ وہ ان کی خدمت کريں اور اپنی آخرت کو سواريں۔ ماں کی خدمت کرکے انسان نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے ماں کی دعائیں انسان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہے ۔ آج کے دور میں لڑکیاں جو اپنی ماوں سے بہت بد تمیزی سے بات کرتی ہیں اور لڑکے بھی اپنی ماں سے تمیز سے بات نہیں کرتے مدرڈے والے دن واٹس ایپ پر ماں کے بارے اسٹیٹس اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہیپی مدر ڈے اور ماں کو معلوم ہی نہیں ہوتا ۔آج کی نوجوان نسل جب ماں ان سے مخاطب ہوتی ہے تو وہ ماں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور موبائل میں مصروف رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھیں ، ماں کے ساتھ وقت گزاریں اور اپنی ماں کو اہمیت دیں ۔ماں کی باتوں کو غور سے سنا کرو ان میں بڑی نصیحت ہوتی ہے جو کہ تمہارے فائدے کے لیے ہوتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ماں کی عزت کریں آج کے دور میں ہم سب کہیں نہ کہیں ہر چیز میں اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جیسے کہ ناجائز رشتہ رکھنا ,ماں باپ کی دی ہوئی آزادی کا غلط فائدہ اٹھانا۔ دنیا کے ہر رشتے پر حد سے زیادہ بھروسہ اور ماں باپ پر بھروسہ نہ کرکے انسان جب دھوکہ کھاتا ہے تو اس وقت صرف اور صرف اس کے ماں باپ ہی اسے سنبھالتے ہیں
کلامِ مختصر کروں تو اب گزارہ نہیں ہوتا جس محفل میں اُس ہستی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ بے چینی کا اک عجب ہے کیف طاری ہوتا جس ذکر میں میرے ذکرِ خدا نہیں ہوتا لکھتے لکھتے قلم رک گیا شاید آنکھوں کے موتیوں نے اس کی نظر سے سب کچھ مستور کر دیا شاید دل کے بوجھ نے اس کے الفاظوں کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ بہت کچھ لکھنا چاہتی تھی مگر اس احساس کو بیان کرنا لفظوں میں شاید نہ ممکن تھا عینا کو معلوم تھا کہ اس احساس سے بڑھ کر کوٸی چیز اس کو خوش نہیں کر سکتی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کچھ گناہ اس احساس کو دور کر دیتے ہیں لیکن خلق الانسان ضعیفا کے قانون تحت وہ اکثر خواھشات کی لہر میں بہہ جاتی ہے ۔ اور گناہوں کی لذت کو محسوس کرکہ اکثر توبہ کے دروازے پر دستک دیتی ہے مالک کاٸنات بھی ودود و رحمان و غفور کے اسم گرامی تحت اپنے بندے کو اپنی رحمت کی آغوش میں ڈھاپ لیتے ہیں محض احساسِ ندامت پر اپنے انعامات کی بارش برساتے ہیں لیکن اس بار معاملہ کچھ الگ تھا اس بار ایک طویل مدت وہ رابطہ غاٸب تھا شاید اس قول کی تصدیق تھی کہ بعض گناہ توبہ کی توفیق سلب کر لیتے ہیں شاید اب اس کو یہ سمجھانا تھا کہ ہر سیڑھی پر ایک سخت امتحان ہے ۔خواھشات اور اطاعات آپس میں متضاد ہیں ۔ یقینا عینا اس بات کو جان چکی تھی۔
مصنف کا تعارف ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس 17 جولائی 1947 میں ویسٹ انڈیز میں پیدا ہوئے اور آپ کی پرورش کینیڈامیں ہوئی۔1972 میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور اپنے علمی سفر کا آغاز کیا ۔آپ نے جامعۃ المدینہ ،سعودیہ عرب سے شعبہ اصول الدین سے بی۔اے اور جامعۃ الریاض سے ایم-اے مکمل کیا ۔یونیورسٹی آف وہیلز سے پی۔ایچ۔ڈی مکمل کرنے کے بعد 1994 میں دبئی اسلامک انٹرنیشنل سنٹر کی بنیاد رکھی اور 2001 تک باحثیت مدیر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ساتھ ہی آپ نے اسلامک آن لائن یونیورٹی کی بنیاد رکھی جو سب سے پہلی اسلامک آن لائن یونیورسٹی کہلاتی ہے ۔اب آپ قطر گیسٹ سینٹر میں بطور لیکچرار اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی تحریر کردہ کند کتب مندرجہ ذیل ہیں۔ نمبر1.The fundamentals of Tawheed, نمبر2:The true religion of God, نمبر3:Usool ut tafseer طبعِ کتاب کتاب اصول التفسیر کا پہلا ایڈیشن 1996 میں شائع ہوا جو کہ نامکمل تھا۔بلال فلپس کتاب کے دیپاچے مین لکھتے ہیں کہ اس کے تقریباً 9 سال بعد اس کتاب کا مکمل ایڈیشن 2005 میں انٹرنیشنل اسلامک پبلشنگ ہاؤسنگ ،ریاض،سعودیہ عرب نے شائع کیا۔کتاب کی اصل زبان انگریزی ہے ۔کتاب میں کل 15 ابواب ہیں اور یہ کتاب کل 345 صفحات پر مشتمل ہے۔کتاب کی قیمت $6ہے یعنی پاکستانی 1059 روپے۔ وجہِ انتخاب تفسیرِ قرآن پڑھنے اور سننے کا شوق شروع سے ہی رہا ہے لیکن اب یہ جاننا چاہتا تھا کہ تفسیر لکھنے کے لیے کن اصول و قوائد کا خیالرکھا جاتا ہے ؟اور اسی موضوع سے متعلق دیگر سوالات کے جوابات درکار تھے ۔ اسی سلسلے میں جب کتب کی تلاش شروع کی تو کئیں مشہور کتب ملیں لیکن ان میں سے اکثر کتب میں مشکل الفاظوں و اصطلاحات کا انتخاب پایا ۔ معلومات کے لیے دارالسلام کے دفتر کا دورہ کیا تو انہوں نے یہ کتاب تجویذ کی کیونکہ یہ کتاب عام قارئین کے لیے لکھی گئ ہے۔ کتاب”اصول التفسیر” کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس کتاب کے ابتدائی دو ابواب میں مصنف نے رسول ﷺ کے رحلت فرمانے کے بعد تا اب تک موضوعِ تفسیر پر لکھی گئیں تمام معروف کتبِ تفاسیر کا ذکر کیا ہے ۔مصنف نے بلاتعصب تمام ہی مصنفین کی کاوشوں کو سراہا ہے چاہے وہ کسی بھی مکتبہِ فکر یا یا کس بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جیسے صفحہ نمبر 18 میں مصنف نے برِصغیر کے عالم عبدالحمید فراحی کی کتاب “التکمیل فی اصول التاویل ” کو اس موضوع پر لکھی گئ نامور کتب میں شمار کیا ہے۔مصنف ان ابواب میں تفسیر با لر وایہ و تفسیر بالرائے کے مابین فرق کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے بدلتے زمانے کے ساتھ لوگ قرآن کی تفسیراس کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر اپنی عقل کے مطابق کرنے لگے جس سے بڑا فتنہ پیدا ہوا اور دورِحاضر میں لکھی جانے والی اکثر تفاسیر تفسیر بالرائے و تفسیر بالروایہ کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ باب سوم میں مصنف نے قرآن کے ابتدائ تراجم کا ذکر کیا ہے قرآن کا پہلا ترجمہ 13 صدی میں لکھا گیا اور اردو زبان میں شاہ عبدالقادر دہلوی نے لکھا ۔چونکہ کتاب انگریزی زبان میں گویا مصنف نے انگریز مترجم کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ مصنف نے صفحہ نمبر 81 میں سلطنت ِ عثمانیہ پر تنقید کرتے ہوئے “وار ٌلارڈز” کہہ کر پکارا ہے جس کے معنی ایسے جنگجو کے ہیں جو اپنی ذاتی مفادات کے لیے جنگ کرتے ہیں۔مصنف نے عربی زبان کے زوال کا سبب عثمانیوں کو ٹہرایا ہے کہ ترکوں نے عربی زبان کو مدارس اور مذہبی رسومات تک محدود کردیا تھا ۔ مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کا ترجمہ ممکن ہی نہیں کیونکہ قرآن ایک معجزہ ہے ۔تراجم پڑھ کر کوئی شخص ہدایت تو پاسکتا ہے لیکن قرآن کے معجزے تک بذریعہ ِتراجم ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔ باب چہارم میں مصنف نے امثال کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قرآن کس طرح تمام کتب سے منفرد کتاب ہے ۔قرآن کوئ ایسی کتاب نہیں جو کسی بھی طرح کے اصول و قواعد میں قید ہو بلکہ قرآن ان تمام باتوں سے آزاد ہے اور یہی بات اسے منفرد بناتی ہے۔ باب پنجم ، باب ششم ،باب نہم،باب دھم و باب بازدھم میں مصنف نے وحی کے لغوی و اصطلاحی معنی ،قرآن کی مختلف سات قراتیں بیان کرنے کے بعد اسباب النزول کی تفصیلات بتائ ہیں کہ وحی نازل ہونے کی جو وجہ ہوتی ہے وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کبھی کوئی حکم عام بھی ہوتا اور کبھی خاص بھی ۔ قرآن پہلے لوحِ محفوظ پر پھر جبرئیلِ امین کے ذریعے پیغمبرﷺ تک پہنچا اور آپﷺ پر قرآن وقفوں میں نازل ہوا جس کی اہمیت و حکمت مصنف نے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں ۔ساتھ ہی مصنف نے مکی و مدنی وجہ ِنزولِ وحی کے پیچھے حکمت کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ مکی سورتیں عقائد و نطریات کے موضوع پر ہیں اور مدنی سورتیں انبیاء کے قصص اور اصول و قوائد،حرام و حلال کے موضوع پر نازل ہوئیں۔ باب ہفتم اور باب نھم میں مصنف نے تدوینِ قرآں کی مختصر تاریخ اور قرآن میں صورتوں کی ترتیب کا ذکر کیا ہے کہ قرآن کی ترتیب آپ ﷺ نے بذات خود ہی تعلیم فرمائ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کو کتابی شکل دیتے وقت بذاتِ خود بھی ترتیب ِ قرآن کی جانچ پڑتال کی ۔ آخری چار ابواب دواز دہم، سیزدہم، چہاردہم، پانزدہم میں مصنف نے ان اصطلاحات کا استعمال کیا ہے جو اصولِ التفسیر میں استعمال کی جاتی ہیں جیسے نقش ،مھکم ،متشابہ، مثل ، جدل ،قصہ،عام ،خاص مطلق، مقید،مطلوق،اقتدا وغیرہ۔ کتاب چونکہ انگریزی زبان میں لکھی گئ ہے تو مصنف نے کتاب کے آغاز میں حرفِ تہجی اور ساتھ ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا ہے تاکہ تلفظ کرنے میں آسانی رہے۔کتاب کے آخر میں ایک حصہ قرآنی آیات اوراحادیث کے حوالاجات کا ہے۔اسی طرح تمام استعمال کردہ اصطلاحات ,تعریفات اور مصنف کی استفاذہ کردہ کتابیات کا بھی حصہ موجود ہے۔مصنف نے حاشیوں کا بھی استعمال کیا ہے۔جہاں کسی لفط کی وضاحت کرنا ضروری جانا وہاں حاشیے کا استعمال
آئینہ میٹنگ ختم ہوتے ہی میں اس شاندار بلڈنگ سے باہر آ گئی جو دنیا کی ایک مشہور ترین کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔ سوئیٹزر لینڈ میں واقع یہ شہر ویوے میری جائے پیدائش ہے زندگی کے پینتالیس سال میں نے یہیں گزارے کیونکہ مجھے اس کا حسن اور سکون پسند ہے میری ہر شام یہاں جھیل کے کنارے گزرتی ہے آج بھی میں اپنی مخصوص جگہ آ بیٹھی تھی لیکن آج میری توجہ جھیل کے نیلگوں پانی اور اس میں تیرتی رنگ برنگی بوٹس کی طرف نہیں تھی ۔ میرے ذہن میں ابھی بھی کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کی میٹنگ چل رہی تھی جس میں دس سال بعد ایک بار پھر مجھے پاکستان بطور کنٹری مینیجر بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی تھی اور جسے میں مسترد کر آئی تھی ۔ مجھے آج بھی اپنی زندگی کے وہ چھ ماہ یاد تھے جو میں نے پاکستان میں گزارے تھے ۔ پاکستان میں میرا آفس لاہور میں تھا ۔ وہ ایک چلچلاتی دوپہر تھی جب میں نے لاہور کے ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھے تھے ۔ سامنے ہی ساندرا بلوخر کے نام کا کارڈ اور پھولوں کا گلدستہ تھامے کمپنی کے دو اعلی عہدیدار کھڑے تھے جس خوش اخلاقی سے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا تھا اس نے مجھے چند لمحوں کو شدید گرمی کے احساس سے بھی بے نیاز کردیاتھا ۔میں نے زندگی میں پہلی بار جھلسا دینے والی ہوا کے تھپیڑے اپنے وجود پر برداشت کیے تھے ۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے اپنی جیکٹ اتار دی اس لمحے مجھے لگا میرے میزبانوں سمیت تمام کا تمام ماحول ساکت ہوگیا ہے پر آخر کیوں ؟یہ میں اس وقت سمجھ نہیں پائی تھی ۔ ایئرپورٹ سے آگے بڑھتے ہی میری سماعت کا امتحان شروع ہوگیا یہ امتحان وقتی نہیں تھا بلکہ ان چھ ماہ کے دوران میں جب جب اپنے لگثری سٹوڈیو اپارٹمنٹ سے باہر نکلی مجھے یہ اذیت جھیلنی ہی پڑی تھی ۔ میں آج بھی جب ان دنوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک دلنواز قوم ہے مگر اس دلنوازی کے باوجود ان کے بیچ رہنا ایک یورپین کے لئے بہت مشکل کام ہے ۔ وہاں کا ٹریفک اژدھام اور اس کا شور ایک کہرام کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستان جانے سے پہلے میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی سہولت کے لیے وہاں ایک کار خرید لوں گی اور اسے چلانا بھی سیکھ لوں گی کیونکہ یہاں اور وہاں میں رائٹ اور لیفٹ کا فرق تھا لیکن میں اس بے ہنگم ٹریفک میں ایک دن بھی گاڑی چلانے کی ہمت نہیں کر سکی بھلا ہو میرے جونیئر عباس کا جس نے مجھے پورے چھ ماہ فری پک اینڈ ڈراپ کی سروس دی ۔ ایک روز جب میں اس کے ساتھ آفس سے واپس آ رہی تھی تب میں نے سگنل پر ایک موٹر سائیکل والے کو دیکھا جس نے اپنے آگے دو بچے اور پیچھے ایک برقعہ بردار خاتون کو بٹھا رکھا تھا بظاہر پاکستان میں ایسے لوگ عام نظر آتے ہیں لیکن اس میں خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک تواتر سے مجھے گھور رہا تھا پہلے میں نے اسے مسکرا کر دیکھا پھر تعجب سے اور پھر گہرے تعجب سے پر وہ مستقل مزاج انسان ٹس سے مس نہ ہوا ۔ میں نے عباس سے پوچھا یہ آدمی مجھے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے جیسے اس نے زندگی میں پہلے کبھی عورت دیکھی ہی نہیں تو وہ ہنس کر بولا ممکن ہے آپ جیسی پہلے کبھی نہ دیکھی ہو ۔ عباس نے وہ بات مذاق میں کی تھی مگر جلد میں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ یہ قوم خواتین اور خوراک کے معاملے میں حد اعتدال سے گزری ہوئی ہے ۔ مجھے آج تک وہ رات یاد ہے جب عباس مجھے لاہور فوڈ سٹریٹ کی مشہور کڑاہی کھلانے لے گیا تھا ۔ دھتورا مرچوں سے بھری کڑاہی کھانا میری برداشت سے باہر تھا اس لیے دو نوالے کھانے کے بعد ہی میں نے ہاتھ کھینچ لیے اور اپنے لیے سادہ چائنیز رائس کا آرڈر دیا لیکن وہ پیسے پورے کرنے کے چکر میں کڑاہی کے پیندے میں لگا مصالحے کا آخری ذرہ تک صاف کر گیا تھا ۔ پاکستانیوں کی اکثریت صحت تباہ کر سکتی ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ لگا ہوا پیسہ حرام ہو جائے ۔میں ایک ورکنگ وومن ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گھومنا پھرنا میرا محبوب مشغلہ ہے جس نے مجھے لاہور کی شدید گرمی میں بھی صرف گھر میں ہی بیٹھے رہنے نہیں دیا تھا ۔ گھر سے باہر نکلتے ہی ایک خاص چیز مجھے اذیت پہنچاتی تھی جس سے مجھے زندگی میں پہلےکبھی اس طرح واسطہ نہیں پڑا تھا ویسے تو بہت سی چیزیں مجھے گراں گزرتی تھیں مگر طوعاً و کرہاً برداشت کرنی ہی پڑتی تھیں مثلا جب جس کا دل چاہا جہاں دل چاہا وہاں تھوک دیا ۔ راہ چلتے جو کھایا پیا اسکا ڈبہ چھلکا کاغذ یا لفافہ وہیں پیچھے آنے والوں کے لئے نشان راہ کے طور پر چھوڑ دیا ۔ پاکستان میں مردوں کے لئے باتھ روم کی چار دیواری کا ہونا قطعی ضروری نہیں بس ایک دیوار کا سایہ بھی بہت ہوتا ہے ۔ لاہور کے گلی محلوں اور بازاروں سے گزرتے میں نے مردوں کے منہ سے پیار اور غصے میں بولتے کچھ کامن ورڈز بہت سنے جن کے بارے میں عباس نے مجھے بتایا کہ ان کا من ورڈز کے لیے صرف ایک کامن ورڈ استعمال کیا جاتا ہے جسے گالی کہتے ہیں ۔ سکول سے آتے جاتے بچوں اور مال بردار گدھوں میں مجھے کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا ان بچوں کو دیکھ کر میں نے ہمیشہ یہ بات سوچی کہ منوں وزنی تعلیم کا بوجھ لدا ہے ان بچوں پر پھر اس قوم میں تنظیم کیوں نہیں پیدا ہوتی ۔ اتنی عدم برداشت کیوں ہے کہ دس روپے کے ایک نوٹ کے لیے دست و گریباں ہو جاتے ہیں میری اکثر شامیں لاہور کی سڑکوں پر پیدل گھومتے گزرتی تھیں یہ میں نے شروع میں ہی جان لیا تھا کہ وہاں پورے لباس میں نکلے
گاؤں کو واپسی وہ مجُھ میں رہ گئی کوئی کمی ہے مِرا دِل ہے، نظر کی روشنی ہے سجی سازوں پہ میری دھڑکنوں کے کھنکتی، کھنکھناتی راگنی ہے اسے چاہت کِسی کی مانتا ہُوں نہ ہو گی، پر مجُھے اُس شخص کی ہے بڑی مُدّت کے بعد آیا ہوں گاؤں وُہی سرسوں کی پِیلی سی پری ہے میں پگڈنڈی پہ گُم سُم چل رہا ہُوں کِسی نے آج پِھر آواز دی ہے سُنائی دی ہے وہ مانوس آہٹ کہ چاپ اُس آشنا دمساز سی ہے گنوایا شہر جا کر خُود کو یارو حقِیقت اب کہِیں جا کر کُھلی ہے یہاں پر چاندنی بھی نِکھری نِکھری ہر اِک رشتے میں گویا تازگی ہے کہاں پر کھو کے آیا ہُوں جوانی کہ پِھرجِینے کی چاہت جاگ اُٹھی ہے جو بھر کے آنکھ میں لوٹا ہوں زردی کمائی عُمر بھر کی پیاس کی ہے ہے دِلکش چودھوِیں کی رات حسرتؔ ہوا ،جادُو، مدُھر سی بانسری ہے رشِید حسرتؔ-
دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی سو پُھوٹے روشنی اُس چوٹ میں سے خُوشی کے شادیانے بج رہے ہیں چلا ہے گھوٹ کوئی گوٹ میں سے سمجھ آئی نہیں ناکامیابی کِیا تھا حل تو پرچہ نوٹ میں سے نہِیں لے جا سکے گا، فکر چھوڑو کوئی دُشمن تُمہیں باہوٹ میں سے گُماں تھا ہم کو اِس میں نیکیاں ہیں نِکل آئے گُنہ پر پوٹ میں سے بڑے ہی شوق سے حِصّہ لیا تھا نِکل آیا ہے کیا جِن ووٹ میں سے وہ دِن گاؤں کے یاد آتے ہیں اکثر غریبی جھانکتی لنگوٹ میں سے چِھڑا جب شاعروں کا ذکر حسرتؔ تُمہارا نام ہو گا کوٹؔ میں سے رشِید حسرت۔
تلاوت کلام پاک کرتے وقت کیا نیت و ارادہ کرنا چاھیے ؟ بہت سے مسلمان قرآن مجید کی تلاوت کرتے ھوئے محض اجر و ثواب کی نیت کرتے ہیں۔جبکہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت مزید کئی بڑی نیتیں بھی کی جا سکتی ہیں جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں- حالانکہ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت درج ذیل نیتیں کرنے سے قرآن پاک کے بے شمار انعامات و ثمرات سے بھی مستفید ھو سکتے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: * إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى* * “اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی”* – ( مفہوم حدیث) قرآن پاک کی تلاوت کے وقت درج ذیل نیتیں بھی کر لی جائیں تو یقینا اس تلاوت پر ہم بے بہا انعامات حاصل کر سکتے ہیں :- جیسا کہ ۔۔ نمبر1- میں علم اور اس پر عمل کی نیت سے قرآن مجید پڑھتا ھوں ۔ نمبر2- میں اللہ تعالی سے ہدایت کے ارادے و نیت سے قرآن مجید پڑھتا ھوں ۔ نمبر3- میں اللہ تعالی کو یاد کرنے کی نیت سے قرآن مجید پڑھتا ھوں ۔ نمبر4 – میں اپنی ظاہری و باطنی ( جسمانی و روحانی ) بیماریوں سے پاک ہونے کے ارادے و نیت سے قرآن مجید پڑھتا ھوں ۔ نمبر5- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی مجھے اندھیروں سے نکال کر روشنی اور نور عطا فرما دیں ۔ نمبر6- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی میرے دل کی سختی کو دور کر دیں اور میرے دل کو نرم فرما دیں ۔ نمبر7- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی میرے سینے کے تفکرات کو ختم فرما دیں ۔ نمبر8- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ میں غافل لوگوں میں نہ لکھا جاوں بلکہ یاد رکھنے والوں میں شمار کیا جاوں ۔ نمبر9- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات پر میرے یقین اور ایمان میں ترقی و اضافہ ھو ۔ نمبر10- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل کرنے والا بن جاوں ۔ نمبر11- میں قرآن مجید کو ثواب کے لئے پڑھتا ہوں ، تاکہ مجھے اسکے ہر حرف کے بدلے 10 نیکیاں ملیں اور اللہ تعالی اپنے فضل سے مزید بڑھا کر عطا فرما دیں ۔ نمبر12- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ قیامت کے دن مجھے قرآن کریم کی شفاعت حاصل ھو جائے ۔ نمبر13- میں رسول اللہﷺ کے حکم کی تعمیل کی نیت سے قرآن پڑھتا ھوں ۔ نمبر14- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی قرآن مجید کے سبب مجھے بلند مرتبہ والوں میں شمار فرما دے۔ نمبر15- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ قرآن مجید کی وجہ سے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل فرما دے اور مجھے اور میرے والدین کو تعظیم کا تاج پہنا دے ، اور میرے والدین کو کرامت کا لباس پہنا کر جنت میں داخل فرمادے ۔ نمبر16- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اسکا پڑھنا مجھے اللہ تعالی کے قریب کر دے ۔ نمبر17- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ میں اللہ تعالی کے خاص بندوں میں شامل ہوجاؤں۔ نمبر18- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ معزز فرشتوں کے ساتھ ھو جاوں اور اللہ تعالی مجھے قرآن کے ماھر میں شمار فرمادے ۔ نمبر19- میں جھنم کی آگ اور اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کی نیت سے قرآن پڑھتا ھوں ۔ نمبر20- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ مجھے اللہ تعالی کی معیت ( تعلق ) نصیب ھو جاے۔ نمبر21- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ میں دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی سے بچ جاوں ۔ نمبر22- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ یہ قرآن میرے حق خلاف دلیل نہ بنے بلکہ میرے حق میں دلیل بنے ۔ نمبر23- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی مجھے اس پر ثابت قدمی عطا فرما دے ۔ نمبر24- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ مجھے سکینہ ( اطمینان ) ملے اور رحمت مجھ پر نازل ہو اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں میرا تزکرہ ھو ۔ نمبر25- میں اللہ تعالی سے خیر اور فضل کے حصول کے ارادے سے قرآن مجید پڑھتا ہوں۔ نمبر26- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ مجھے پاک ھوا ( خوشبو ) نصیب ہو ۔ نمبر27- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ میں اس دنیا میں گمراہ نہ ہوں اور نہ ہی آخرت میں دکھی ہوں۔ نمبر28- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اس کی برکت سے مجھ سے رنج و غم اور پریشانیوں کو دور کر دیا جائے ۔ نمبر29- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ قبر میں مجھے قرآن سے مجھے ( انسیت ) ھو ، اس دنیا میں میری رہنمائی کرے ، اور مجھے جنت میں لے جائے۔ نمبر30- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی مجھے حلم دے اور مجھ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم والے اخلاق سے مزین فرما دے۔ نمبر31- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ حق پر قائم رھوں اور جھوٹ اور باطل سے محفوظ رھوں ۔ نمبر32- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ مجاھدہ نفس حاصل کر کے نفس و شیطان اور اسکے مکر و فریب سے محفوظ رھوں ۔ نمبر33- میں اس نیت سے قرآن پڑھتا ھوں کہ اللہ تعالی قیامت کے دن میرے اور کافروں کے درمیان پردہ حائل فرما دے۔ تو آئیے قرآن مجید والے لوگوں میں سے بنیں !! یقینا یہ اللہ تعالی کے ساتھ نفع بخش تجارت ہے ، جس پر اللہ تعالی اپنی رحمت اور کبھی نہ ختم ہونے والا فضل و احسان عطا فرما تے ہیں ۔ یا اللہ یہ تمام انعامات ہم سب کو عطا فرما ( آمین یا رب العالمین )
ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو رشِید حسرت
اسلام وعلیکم دوستو امید کرتا ہوں آپ سب خیریت سے ہونگے ۔دوستو ویسے تو پورا پاکستان ہی جنت ہے پاکستان کی خوبصورتی کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے لیکن پاکستان کے آزاد کشمیر کی اگر بات کی جائے بہت کچھ ملتا لکھنے کو، دیکھنے کو. وہاں کے لوگوں سے جو پیار محبت و خلوص ملتا اسکی مثال نہیں۔اور اگر آزاد کشمیر کے دارالخلافہ مظفرآباد کی بات کرے تو آپ کو بتاؤں کہ وہاں کے بہت مہمان نواز، پیار محبت و خلوص دینے والے ہیں۔ مظفرآباد کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ وہاں کا موسم بہت ہی پیارا اور خوشگوار ہوتا ہے۔ مظفرآباد میں دریائے جہلم اور دریائے نیلم آکر دونوں مل جاتے ہیں سب سے زیادہ دلکش نظارہ وہاں کا بہت بڑا پل ہے اور اسی پل کے نیچے دونوں دریا مل کر ایک ہو جاتے ہیں اور اب آپ کو بتاؤں کہ وہاں پر دو بہت بڑی ہستیوں کے مزار ہیں۔اور انھی میں سے ایک کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا۔ (پیر چناسی) پیر چناسی بہت ہی پیاری جگہ ہے اور یہ مظفرآباد شہر سے 10000فٹ بلندی پر واقع ہے مظفرآباد شہر سے 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے اور پیر چناسی کے لوگ نہایت ہی خوش اخلاق اور خلوص دینے والے ہیں اور جب آپ مظفرآباد سے اوپر پیر چناسی کو نکلتے ہیں تو چند کلومیٹر کے فاصلے کے بعد آپ ایسے محسوس کریں گے جیسے گویا جنت میں آگئے ہوں کیونکہ جیسے جیسے آپ اوپر جاتے جائیں گے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے موسم سرد سے سرد ہونے لگتا ۔15کلو میٹر کے فاصلے کے بعد آپ جو نظارہ دیکھیں گے آپ حیران رہ جائیں گے کیونکہ کہ وہاں سے مظفرآباد پورا آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ایک طرف دریائے جہلم کا نظارہ دوسری طرف دریائے نیلم کا خوبصورت منظر۔ مظفرآباد پورا کا پورا شہر اسکی خوبصورتی اور سب سے بڑ کر وہاں کا سٹیڈیم اور ایئر پورٹ بہت پیارا لگتا ہے۔آپ ایسے سفر کرتے جائیں گے اوپر جاتے جائیں گے اور روڈ جو سانپ کی طرح اوپر نیچے بہت کمال کا نظارہ ہوتا ہے ۔ راستے میں بہت بڑے بڑے درخت وہاں کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔جب آپ 25 کلومیٹر اوپر آ جاتے ہیں تو وہاں پہ آپ کو پیراگلاڈنگ کرنے کے لیے مخصوص جگہ ملے گی جہاں آپ چاہیں تو ہوا میں خود کو اڑا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور راستے میں بہت اچھے ریسٹورانٹ بھی ملیں گے جہاں آپ سکون سے کھانا کھا سکتے ہیں اور رات کو رک بھی سکتے ہیں۔ جب آپ پیر چناسی تک پہنچتے ہیں تو آپ خود کو بادلوں میں لپیٹا ہوا پاتے ہیں ہر طرف بادل ہی بادل ٹھنڈی ہوا بہت ہی لطف اندوز اور پر سکون ماحول ہوتا ہے۔ پیر چناسی بلکل پہاڑوں کی ٹاپ چوٹی پر ہے اور بہت دور دور سے لوگ آتے ہیں آپنی منت مانگنے۔سال کے اکتوبر کے مہینے میں سالانہ عرس ہوتا ہے اور دربار کے ساتھ بہت پیارا منظر ہوتا ہے اور ساتھ دربار کے پاکستان ایئر فورس کا سیٹ اپ ہے اس کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کیسے یہ نہ ڈر بہادر اپنے ملک پاکستان اور ہماری حفاظت کےلئے قربانیاں دے رہے ہیں اتنی سخت سردی میں جہاں درجہ حرارت صفر 10 ہو ۔اللہ پاک افواج پاکستان کو اور ہر مسلمان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین۔
جھوٹ جھوٹ دانستہ نادانستہ طور پر ہماری شخصیت کا حصہ ہوتاہے ، ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں یا جھوٹ ہمارے منہ سے کیوں نکل جاتا ہے آٸیے اس بارے غور کرتے ہیں۔ جھوٹ کیا ہے؟ # مذاق میں غلط بیانی کرنا۔ #اصل بات میں اپنی طرف سے اضافہ یا کمی کرنا۔ #اپنی عزت بڑھانے کے لٸے بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ #بات کو اس طرح گول مول بیان کرنا کہ سننے والا اصل بات نہ سمجھ سکے۔ #بات کو اس طرح توڑ مروڑ کر بیان کرنا کہ سننے والا بات کے اصل مطلب کے بجاۓ وہ سمجھے جو جھوٹا اُسے سمجھانا چاہ رہا ہو۔ #من گھڑت اور بے بنیاد بات کرنا۔ #کسی بارے جان بوجھ کر غلط راۓکااظہار کرنا۔ #استفسار پر دانستہ مبہم راۓیا جواب ۔ جھوٹ کی یہ تمام شکلیں کہیں مذاق کہلاتی ہیں ، کہیں مبالغہ آ راٸی ٗ کہیں الزام تراشی اور کہیں پر بہتان بن جاتی ہیں ٗ جھوٹ کبھی شیخی کی صورت میں ہوتا ہے کبھی یہ خوشامد کے روپ میں ہوتا ہے ٗجھوٹ محبت نفرت انا اور ضد کی علامت بن کر بھی سامنے آتا ہے ، بڑھک ماری جاۓ یا بھرم رکھا جاۓ دراصل سب جھوٹ ہے۔ جھوٹے کا مسٸلہ کیا ہوتا ہے؟ جھوٹے کا ایک ہی مسٸلہ ہوتا ہے وہ یہ کہ جھوٹا سچاٸی تسلیم نہیں کرتا کہیں اپنی کہیں دوسروں کی اور کہیی حالات کی! جھوٹے کی نفسیات جھوٹ بولنا انسانی نفسیات کی منفی عادت ہے اس عادت کا براہِ راست تعلق انسان کی ذات اس کی انا اس کی ُ میں ٗ سے جڑا ہوتا ہے۔جھوٹا انسان بنیادی طور پر کمزور ہوتا ہے اسی لۓوہ سچاٸی سے آنکھ چراتا ہے دوسرا یہ کہ جھوٹا مغرور ہوتا ہے کیونکہ وہ سچاٸ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کا انکار کرتاہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جھوٹا سرکش ہوتا ہے وہ سچاٸی کو اپنی زبان کے بل پر بدلنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ یقینناً قدرت کے فیصلوں کے سامنے گستاخی اور بے عقلی ہے یہ سرشت بےلگام ہوکر قدرت کے فیصلوں کے خلاف بغاوت تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جھوٹے کا مزاج جب ایک انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی ضرورت نہیں ہوتی عادت ہوتی ہے جو جھوٹ بولنے میں سہولت پاتی ہے اس کےاپنے خیالات اس کی اپنی ذاتی وجوہات ہوتی ہیں اس کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ جھوٹ بولتا ہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ جھوٹا انسان بڑی مشکل سے کسی کی جاٸز تعریف کرتا ہے کسی کی اچھاٸی کو پہچاننے میں اسے ماننے میں اسے بڑا مسٸلہ ہوتا ہے ۔تنقید نکتہ چینی عیب جوٸی اور سب سے بڑھ کر حسد جھوٹے کے اندرپایا جاتا ہے ۔اس میں خیر کا مادہ بھی اس کے اپنے مفاد سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑا سیانا اور ہوشیار سمجھتا ہے۔ جھوٹوں کی اقسام کچھ لوگ نہ چاہتے ہوۓ بھی جھوٹ بول جاتے ہیں یعنی ان کا ارادہ جھوٹ بولنے کا نہیں ہوتا لیکن وقتی صورتحال سے مغلوب ہوکر ان کے منہ سے جھوٹ پھسل جاتا ہے لیکن موقع پرستی کی اس کیفیت میں صادر ہوجانے والا جھوٹ ان کے لۓ قلبی بے اطمینانی کا باعث بنتا ہے انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ آٸندہ اسے نہ دہرانے کا عزم کرتے ہیں اب انسان ہونے کے ناطے یہ اپنے ارادے پر قاٸم نہ رہ سکیں تو یہ ایک مختلف بات ہے لیکن یہ جھوٹ بول کر خوش نہیں ہوتے جھوٹ بولنا ان کے لٸے پریشان کن ہوتا ہے۔ جھوٹوں کی دوسری قسم وہ ہے جو موقع پرستی کے لحاظ سے جھوٹ بولنا جاٸز تصور کرتے ہیں اور جب یہ اسے غلط ہی نہیں سمجھتے تو اسے چھوڑنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پہلے اس قسم کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں بعد ازاں جھوٹ خود عادت کے موافق حسب موقع ان کی زبان سے جاری ہونے لگتا ہے کیونکہ ان کے ذہنوں نے کُلیہ طے کرلیا ہوتا ہے لہذا بعد میں یہ کلیہ خودکار طریقے سے لاگو ہونے لگتا ہے اس پر نہ انھیں خوف ہوتا ہے نہ شرمندگی! تیسری قسم سراسر جھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے یہ اس روانی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کی بحث ہی سے آزاد ہو جاتے ہیں یہ مخاطب اور ماحول کی مناسبت سے اس طرح لبادہ اوڑھتے ہیں کہ ان کی اصل کی شناخت ممکن نہیں ہو پاتی۔یہ طبقہ بے وجہ جھوٹ بولتا ہے ۔ جھوٹ بولنے کے انداز عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جھوٹ صرف زبان سے بولا جاتا ہے جبکہ ہر وہ عمل جھوٹ کے زمرے میں داخل ہے جس کے ذریعے کسی بات کے حقیقی تاثر کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاۓ یعنی بعض اوقات جھوٹ روٸیے اور لہجے سے بھی بولا جاتا ہے ایسی صورت میں اصل بات کو انداز اور آواز کے زور پر منفی تاثر سے بھر دیا جاتا ہے اور ایسا عام طور پر طنز تنگ نظری تعصب اور تنقید کی شکل میں ہوتا ہے۔ جھوٹ کی پہچان یا پکڑ اور فیصلہ کون کرے؟ اس بحث میں یہ نکتہ اٹھتا ہے کہ جھوٹ کی شناخت کیسے کُھلتی ہے؟بے شک کبھی کبھی جھوٹ سامنے آجاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بظاہر جھوٹے کا کاروبار رواں رہتا ہے.دراصل جھوٹ چونکہ ایک روحانی عارضہ ہے اس وجہ سے اس کا راز خود جھوٹے ہی کو معلوم ہوتا ہے چہ جاٸیکہ کسی پر جھوٹے کی مہر نہ لگ چکی ہو۔ جھوٹ نیت یعنی دل سے شروع ہوتا ہے اور زبان پر آکر مکمل ہوتا ہے۔ جھوٹ براٸی کیوں ہے اور اس سے گریز کیوں کیا جائے؟ جھوٹ بولنا ایک روحانی بیماری ہے یہ انسانی نفسیات کو بگاڑتی ہے جب یہ کسی مزاج کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کی شخصیت اور ماحول دونوں ہی کو خراب کرتی ہے۔جھوٹ مکمل طور پر انسان کا ذاتی فعل اور اس کی خود اختیاری کا شاخسانہ ہوتا ہے لِہٰذا ذاتی طور پر ہمیں یہ بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان اصل میں دخل دینے اور اسے بدلنے کا قطعی مجاز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے کا مقصد سواۓدھوکہ دہی کے کچھ
واٹس ایپ نے اپنے کلائنٹس کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور جز سے متعارف کرایا ہے۔ افراد اب ایک ہی وقت میں 32 افراد کو ایک صوتی کال کر سکتے ہیں۔ میٹا پاسزڈ ٹیکسٹنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ اپنے کلائنٹس کو ان کی ضروریات کے مطابق نئے عناصر دینے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ باآسانی مطلع انتظامیہ میں حصہ لے سکیں۔ واٹس ایپ اس وقت کچھ نئے عناصر سے چھٹکارا پا رہا ہے، جس میں ایک شامل ہے جہاں کلائنٹ اپنی ٹاک لسٹ کے اندر نوٹس دیکھ سکتے ہیں اور ایک اور چند بیٹا تجزیہ کاروں کے لیے ایپلیکیشن کی زبان کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کی اجازت دیتا ہے۔ واٹس ایپ کے تازہ ترین جزو کے ساتھ، کلائنٹ اپنے 32 سب سے زیادہ پیارے افراد میں سے کسی کو بھی ‘ایک ‘ وائس کال میں شامل کر سکتے ہیں۔ واٹس ایپ نے اپنے ٹویٹر کنٹرولر پر مزید کہا، “آپ کے پورے خاندان کو خوش کن خبریں پیش کرنے کا مطلب ہے کہ ایک ہی سادہ کال میں تمام خوشیوں کو سننا اور ہنسنا”۔ ایک مہینہ پہلے ہی، واٹس ایپ نے ایموٹیکنز کا ایک اور انتظام کیا تھا۔ اسٹیج پر 34 نئے جذباتی نشانات پیش کیے گئے تھے تاہم سب سے زیادہ دلچسپ جذباتی نشانات نشان، بیرونی اور نرمی ظاہر کرنے، اشارہ کرنے والی انگلی اور دل کے ہاتھ کے برابر تھے۔
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں جہاں تلک بھی گئی آنکھ رِند بیٹھے تھے نوازے سب کو جو پیرِ مُغاں تو وہ بھی نہِیں تُمہارا پیار تھا مشرُوط لوٹنے سے مِرے نِبھاؤ عہد ابھی درمیاں تو “وہ” بھی نہِیں نظر میں ہو تو کہِیں ہم پلٹ کے نا دیکھیں کِسی بہار کا ایسا سماں تو وہ بھی نہِیں ہمارا نام حوالہ ہی اِس میں رنگ رہا وگرنہ ایسی کوئی داستاں تو وہ بھی نہِیں جو ایک شخص تُمہیں شاعری میں دِکھتا ہے شریکِ شعر سہی ترجماں تو وہ بھی نہِیں رشِید کی بھلا توصِیف کیا ضرُوری ہے؟ کرے ہے شاعری جادُو بیاں تو وہ بھی نہِیں رشِید حسرت
What Are the Benefits of Podcasting in Cutting edge Publicizing? We wreck down the several benefits of podcasting (6 reasons) and how might affect your undertaking for the higher. Sound substance material publicizing is winding up an essential a piece of automated advancing. As extra people are moving from using workspaces to the use of cell gadgets,podcasts are gaining more appreciation with this shift. This is an aftereffect of the truth cell devices help individuals with centering and down load advanced accounts each time they need. People don’t continually have satisfactory chance to pay interest on visual substance material. They need something they’re prepared for eat up on comparative time as moving toward their consistently works out. Thusly, what makes podcasting a higher condition of cutting edge publicizing in examination to the rest? Gives You an Edge over Your Adversaries Most organizations are working on their advancing and publicizing approaches reliably. If you don’t do some issue about it, you’re possibly to fall inside the lower back of in pay and lose a degree of the market on your obstruction. The usage of advanced accounts offers you a more prominent expansion inside the perpetually exhibiting worldwide. Since a great many people are zeroing in on visuals, podcasting will help you stick out and clutch the interest of various clients. Accepting at least for now that you’re not commonly ensured in any kind of mood of mind-set to convey an undertaking phenomenal web recording, you may steadily pick a webcast business chief. There are numerous peak computerized broadcast creation relationship to pick out from set up totally absolutely concerning your assets and present day wishes.Takes less time in assessment to recording movies or making articles to submit to your net site page or weblog. All you need is a staggering sound recording to make the fair webcast episode. It’s More Sensible and Easy to Make The well point around recording sound is that it needn’t bother with an expert boss. All you truly need is a respectable mouthpiece, a strong recording programming program, and several minor evolving. Your substance material can arise out of the stuff you do on a consistently foundation. Check those out accepting you need assistance with modifying or conveying appropriate extraordinary sounds. Advanced accounts Are More Profitable to Consume. Accepting you’ve anytime tried to play out a little craftsmanship inside the working environment or at local while though glancing through TV, then, you definately are aware of how hard it might be to perform different undertakings. In any case, the vast majority show-stoppers while notwithstanding zeroing in on tune or radio. This is the general concept that drives advanced accounts. Clients can notice advanced accounts on the undefined time as voyaging, working or doing unequivocal games works out. You don’t ought to leave how you are paying interest on what you are being aware of. Clients can zero in on your substance material surface even as using or maybe as exercise. Makes More Leads Particularly like every single condition of virtual publicizing, the standard point of computerized accounts is to make leads. You need to recollect a CTA for the stop of each advanced transmission. Give records around how crowd individuals can get you. A part of the data you can give represent email, undertaking area or your web site. Make fine there is a clean CTA around the completion of every episode. Builds an Extraordinary cooperation with Crowd individuals Not in the least like made text, sound unendingly publicizing has an approach to bantering with limit clients on a non-public foundation. Right when people center your voice, they will more often than not get you higher. It works with in building fitting associations close by your clients and further creating pay. The more individuals keep on noticing your voice the more captivated they’re to see extra about what you give. Presents a Superior methodology for Getting Money For associations that have sorted out some way to procure a huge following of webcast allies, this can be a method for making two or three extra benefit. Other than the use of your webcasts to grandstand your organizations or things, you could include it as a way to deal with making extra advantages from advertisers who pay for quick live readings. This should, yet, be done keenly to make an effort not to drop omnipresence on what the webcasts are imagined to supply. Podcasting is a dependable and more reasonable sort of publicizing and advancing and publicizing and exhibiting that every business try ought to involve. Get the right advanced broadcast host and recording gadgets to make this consider the effects you want. The Bottom Line Podcasting is a reliable and lower assessed kind of publicizing that each attempt need to embody. Get the right webcast host and recording stuff to make this give you the results you really want.
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے نجانے کِس طرح کی خُوش گُمانی ہم کو لاحق تھی ہمیں جِن سے اُمِیدیں، لوگ وہ دُنیا کے فانی تھے سبھی نے اپنے حِصّے کی کوئی آفت اُٹھائی ہے بہُت سے آشنا چہرے زمِینی، کُچھ زمانی تھے تسلُّط ایک مُورت کا تھا دِل کی راجدھانی پر گھنیری نرم زُلفیں جس کی، لب بھی ارغوانی تھے وہ کیا چہرے تھے ماضی کے دُھندُلکوں سے اُبھر آئے ہم اُن کا جھوٹا قِصّہ، وہ مگر سچّی کہانی تھے لِکھا تھا غین چہرے پر، سو غُربت کِس کو بھائی ہے؟ یقِیں کرتا کوئی کیا ہم سراپا بد گُمانی تھے رشِید اپنی محبّت کا لہُو تُھوکا کِیے لیکِن کِسی کے ہم زُباں ٹھہرے کسی کی بے زُبانی تھے رشید حسرت
استاد صاحب کلاس میں اسلامیات پڑھا رہے ہیں۔ وہ بہت ہی پر اثر انداز میں حقوق العباد پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ وہ بچوں کو بتا رہے ہیں کہ اسلام میں یتیموں،مسکینوں،غریبوں اور بیواؤں کے کیا حقوق ہیں۔بچے بڑے انہماک سے استاد صاحب کا لیکچر سن رہے ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں۔ جب کہ اسکول کے ساتھ والی بلڈنگ،جس میں تھانہ قائم ہے وہاں ایک بیوہ بیٹھی رو رو کر تھانیدار صاحب سے درخواست کر رہی ہے کہ محلے کے اسکول کے اسلامیات کے استاد صاحب سے اس کے خالی پلاٹ کا قبضہ چھڑوایا جائے۔ آج تھانیدار صاحب کے گھر میلاد کی پر رونق محفل منعقد ہے۔جس میں علاقے بھر سے معروف نعت خواں اور پر جوش مقرر مدعو ہیں،جو سامیعن کے ایمان کو بڑھارہے ہیں۔اور سامیعن سرور دو عالم ﷺ کی مدح سرائی سن کر باقاعدہ جھوم رہے ہیں۔ وہیں پر ایک کونے میں تھانیدار صاحب اپنے رفیق دوست کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کر رہے ہیں،جو کہ مقامی اسکول میں اسلامیات کے استاد ہیں۔تھانیدار صاحب استاد صاحب سے اپنے بیٹے کے لیے مشہور کالج میں میڈیکل میں داخلے کی سفارش کرتے ہیں۔جس کو استاد صاحب بڑی فراخدلی سے قبول فرما لیتے ہیں۔یوں ایک بیوہ کے پلاٹ پر سودا طے ہو جاتا ہے۔اب سامیعن تھانیدار صاحب اور استاد صاحب کے نام کے نعرے مار رہے ہیں۔جنہوں نے اتنی بابرکت محفل میلاد کا انعقاد کیا۔ جج صاحب اپنی کرسی انصاف پر براجمان ہیں۔ اور ایک بیوہ کے پلاٹ پر قبضے کے مقدمے کے کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ جج صاحب نے تیسری سماعت پر ہی اس کمزور مقدمے کا فیصلہ بیوہ کے خلاف سنا دیا۔ اور بیوہ کو حکم صادر فرما دیا کہ وہ ایک معزر استاد کے خلاف ایسا بیہودہ مقدمہ کرنے پر ان سے معافی مانگے۔اب جج صاحب عدالت کی کاروائی کو کل تک ملتوی کر کے مقامی ہوٹل تشریف لے جا رہے ہیں۔جہاں تھانیدار کی سر پرستی میں شہر کے معزز افراد ایک دعوت پر جمع ہیں۔جن میں سے اکثر کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہے اور وہ کرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ہوٹل کے ایک کونے میں بے شمار نعمتوں سے سجی ایک میز پر استاد صاحب،تھانیدار صاحب اور جج صاحب بیٹھے ملک کے نا گفتہ بہ حالات پر تبصرہ فرما رہے ہیں۔
ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو موت پڑتی ہے حکم رانوں کو جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کو چھپ کے بیٹھے گا تُو کہاں ہم سے جانتے ہیں تِرے ٹھکانوں کو سر پہ رکھتے ہیں ہم زمیں لیکن زیرِ پا اپنے، آسمانوں کو آئے دِن اِن کے بیچ دنگل ہے دیکھو گتّے کے پہلوانوں کو کیا یہ کم ہے کہ بولنے کو زباں مل گئی ہم سے بے زبانوں کو ہسپتال اپنا، اپنے پاس رکھو مت اُکھیڑو مگر گِدانوں کو یہ ہی دھرتی کا سینہ چاک کریں اور روٹی نہیں کسانوں کو اک نیا مسئلہ ہؤا درپیش پھر سے صحرا کے اُونٹ بانوں کو چار سُو سر پِھری ہوا کا راج تہ نہیں رکھنا بادبانوں کو کر کے وعدہ جو کل نہیں آیا بِیچ لائے گا پِھر بہانوں کو ہم نے تھوڑا قلم جہاد کِیا یاد رکھنا ہے اِن ترانوں کو حسنِ اخلاص اور روا داری آؤ ڈھونڈیں پھر اِن خزانوں کو روزے رکھنا تو فرض سب پر ہے ہم مگر سونپ دیں پٹھانوں کو موت بھی یوں ہماری گھات میں ہے صید چُگتا ہے جیسے دانوں کو زندگی قید میں گزاری ہے بھول بیٹھے ہیں اب اُڑانوں کو ہم نے سیکھا ہے آہ بھرنا بس یاد کر کے گئے زمانوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اِک کہانی کئی فسانوں کو اتنے مجبور تھے گِرانی سے بیچ آئے ہیں سائبانوں کو اس کو زلفیں بکھیرنا تو تھیں شان بخشی ہمارے شانوں کو سچ کو سچ سے رشید ماپیں گے وہ بھلے تان لیں کمانوں کو رشید حسرت
روزے کے متفرق احکام ومساٸل اور روزے کی شرعی تعریف کیا ہے؟ دوستوں اس کے ساتھ ساتھ آج ہم سیکھیں گے کہ روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے۔ اور اس کے علاوہ بھی روزہ کے مطلق آپ اس میں بھت کچھ جان سکھتے ہیں۔ ========مضامین=========== روزہ رکھنے کی نیت۔ روزہ کی حالت میں بیوی کے ساتھ سونا۔ روزہ کب فرض ہوا۔ انجکشن سے روزہ۔ روزہ کے مسائل۔ قے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم۔ روزہ کے مسائل سوال: روزہ کے شرعی تعریف کیا ہے؟ جواب: مسلمان کا بہ نیت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصدا کھانے پینےاور جماع سے باز رکھنا شراعًا روزہ ہے۔ سوال: روزے کی کتنی قسمیں ہیں ؟ جواب: روزے کی پانچ قسمیں ہیں۔ فرض واجب نفل مکروہ تنزیہی مکروہ تحریمی. سوال: فرض روزے کون سے ہیں؟ جواب: اس کی دو قسمیں میں ہیں۔ فرض معین جیسے اداٸے رمضان۔ فرض غیر معین جیسے قضائے رمضان۔ سوال: واجب روزے کون سے ہیں؟ جواب۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ واجب معین جیسے نذر معین۔ واجب غیر معین۔ سوال: نفل روزے کون سے ہیں؟ جواب: نفلی روزہ یہ ہیں۔ عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ، اور اس کے ساتھ نویں کا بھی اور ہر مھینے میں تیرھویں، چودھویں، پندرھویں عرفہ کا روزہ، پیر اور جمعرات کا روزہ، شوال کے چھ دن کے روزے، داؤد علیہ السلام کے روزے، یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ ان میں سے کچھ مسنون ہے کچھ مستحب۔ سوال مکروہ تنزیہی کون سے روزے ہیں؟ جواب۔ مکروہ تنزیہی یہ ہیں صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا صوم دھر (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا) صوم سکوت(یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے) صوم وصال کا روزہ یعنی ایک دن روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن بھر روزہ رکھے۔ ( فتوی ہندیہ کتاب الصوم، الباب الاول جلد نمبر 1، ص194، درمختار و رد المحتار، کتاب الصوم) سوال: مکروہ تحریمی کون سے روزے ہیں؟ جواب: عید اور ایام تشریق کے روزے۔ سوال: روزہ کب فرض ہوا جواب: تحویل قبلہ کے بعد 10. شعبان المعظم کو اللہ تعالی نے مسلمانوں پر روزے فرض کئے جیسا کہ علامہ علاٶالدین الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”وفرض بعد صرف القبلة الکعبة العشر في شعبان بعد الهجره بسنه ونصف“ یعنی روزہ ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد اور تحویل کعبہ شریف کے بعد 10 شعبان کو فرض کیا گیا۔ روزہ رکھنے کی نیت سوال : روزے کی نیت کب تک کر سکتے ہیں؟ جواب: ادائے روزہ رمضان اور نذر معین اور نفل کے روزوں کے لیے نیت کا وقت روزہ افطار کے بعد سے نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک ہے،اس پورے وقت کے دوران آپ جب بھی نیت کر لیں گے یہ روزہ ہو جائیں گے۔ ( در مختار و رد المحتار کتاب صوم جلد 3 صفحہ نمبر 392) ادائے رمضان اور نذر معین اور نفل کے علاوہ باقی روزے مثلًا قضاٸے رمضان اور نذرِ غیر معین اور نفل کی قضا یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا،اور نذر معین کی قضا اور کفارے کا روزہ اور تمتع کا روزہ ان سب میں عین صبح کے وقت یا رات میں نیت کرنا ضروری ہے۔ نوٹ: دن میں وہ نیت کام کی ہے کہ صبح صادق سے نیت کرتے وقت تک روزے کے خلاف کوئی امر نہیں پایا گیا ہواور اس کے بعد بھول کر کھا پی لیا یا جماع کرلیا تو نیت صحیح ہو جائے گی کیونکہ بھول کر اگر کوئی ڈٹ کر بھی کھا پی لے تو اس سے روزہ نہیں جاتا۔ سوال: روزے کی نیت کیسے کریں گے؟ جواب: نیت دل کے ارادے کا نام ہے زبان سے کہنا شرط نہیں،مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے اگر رات میں روزہ رمضان کی نیت کرے تو روزہ رکھنے کی یہ دعا پڑھے۔ نویت ان اصُوم غدا لله تعالى من فرض رمضان۔ ترجمہ: میں نے نیت کی اللہ عزوجل کے لئے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھوں گا۔ اگر دن میں نیت کرے تو روزہ رکھنے کی یہ دعا پڑھے ۔ نویتُ ان اصوم هذا اليوم لله تعالى من فرض رمضان ترجمہ: میں نے نیت کی کہ آج کے دن اللہ عزوجل کے لئے اس رمضان کے اس دن کا فرض روزہ رکھوں گا۔ سوال: اگر یوں نیت کی کہ کل کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوٸی تو روزہ ہے“ تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر یوں نیت کی کہ کل کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو روزہ ہے یہ نیت صحیح نہیں ہے روزہ نہ ہوا سوال: رات میں روزے کی نیت کرنے کے بعد کھا پی لیا تو کیا حکم ہے؟ جواب: غروب آفتاب کے بعد سے لے کر رات کے کسی وقت میں بھی نیت کی پھر اس کے بعد رات ہی میں کھایا پیا تو نیت نھیں ٹوٹی، وہوئی پھلے ہی کافی ہے پھر سے نیت کرنا ضروری نھیں۔ سوال: روزے توڑنے کی صرف نیت کرنے سے کیا روزہ ٹوٹ جائےگا؟ جواب: روزے کے دوران توڑنے کی صرف نیت کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک توڑنے والی کوئی چیز نہ کرے۔ یعنی صرف یہ نیت کرلی بس میں روزہ ٹوڑ ڈالتا ہو تو اسطرح اس وقت تک روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک توڑنے والی چیز استمعال نہ کرے۔ سوال: کیا سحری کھانا نیت شمار ہوگا؟ جواب: سحری کھانا بھی نیت ہی ہے، خواہ رمضان کے روزے کے لئے ہو یا کسی اور روزے کے لیے مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ روزہ نہ رکھوں گا تو یہ سحری کھانا نیت نہیں۔ سوال: کیا رمضان کے شروع میں رمضان کے تمام روزوں کی اکھٹی نیت کی جا سکتی ہے؟ جواب: رمضان المبارک کی ہر روزے کے لئے نٸی نیت ضروری ہے۔پہلی تاریخ یا کسی بھی اور تاریخ میں اگر پورے ماہ رمضان کے روزے کی نیت کر بھی لی تو یہ نیت صرف اسی ایک دن کے حق میں ہے، باقی دنوں کے لئے نہیں۔ سوال: اگر کئی روزے قضا ہو گئے ہوں،تو نیت کیسے کی جائےگی؟ جواب: کٸی روزے قضا ہو تو نیت میں یہ ہونا چاہیے کہ اس رمضان کے پہلے روزے کی قضا دوسرے
خوں آشام آج پھر رجو کی کمبختی آئی تھی ۔ شاید کوئی برتن اس سے ٹوٹ گیا تھا تبھی اسکی بھابھی اسے صلواتیں سنا رہی تھی ۔ میں چینی کے پیالے میں گدلی سی رنگت والی چائے میں گول پاپے ڈبو ڈبو کر کھاتا رہا ۔ میرے لیے یہ آئے دن کے معمول کی بات تھی ۔ سامنے کمرے کے دروازے سے جھلنگا سی چارپائی پر اماں سوتی نظر آ رہی تھی ۔ ہر تھوڑی دیر بعد اس کا داہناہاتھ کالے سفید مٹیالے بالوں میں جاتا ، رینگتاپھر وہ چٹکی میں دبا کر کچھ نکالتی اور زمین پر چھوڑ دیتی ۔ میرے دل کو خیال کی ایک لہر نے چھوا ” کیا اب سوتے میں بھی “. یہ خیال نہیں ایک اذیت تھی جو میرے وجود میں بھر گئی تھی پیالے میں دو گھونٹ چائے بچی تھی باقی جائے تو پاپے پی گئے تھے ۔ میں نے جلدی سے وہ دو گھونٹ اپنے اندر انڈیل لیے ۔ کھرے میں نل کے نیچے چائے کے برتن دھو کر میں گھر سے باہر نکل آیا ۔ ساتھ والے گھر کا آدھا دروازہ کھلا تھا ۔ بڑی سی پرات میں رجو سموسوں کے لیے میدہ گوندھ رہی تھی ۔وہ روزانہ ڈھیروں سموسے بناتی تھی جو اس کا بھائی لنڈے بازار میں بیچتا تھا ۔ پانی اور میدہ یکجان کرتے اس کے پینتیس سالہ بدن میں مسلسل ایک حرکت سی تھی ۔ نہ جانے اسے دیکھ کر آج میرے قدم کیوں رکے تھے ۔ وہ سانولی رنگت اور معمولی نین نقش والی لڑکی تھی۔ ” لڑکی ” ۔ ہاں اسے لڑکی ہی کہیں گے کیونکہ عورت تو شادی شدہ کو کہتے ہیں ۔ عمر تو میری بھی پینتیس برس ہی تھی پر مجھے کوئی لڑکا نہیں کہتا تھا ۔ حالانکہ نہ تو میں شادی شدہ تھا اور نہ ہی بغیر شادی شدہ ۔ میری نگاہوں کا ارتکاز پا کر رجو کا ہلکورے لیتا بدن ساکت ہو گیا ۔ اس نے حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا میں آگے بڑھ گیا۔ عمر پندرہ ہو یا پینتیس عورت کی نظر بجلی کی طرح دل پر لپکتی ، جھپکتی ، جلاتی اور تڑپاتی ہے ۔لیکن میں اسکا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ پکھی واسیوں کے جھونپڑوں کے سامنے انکے آدھ ننگے بچے کینچے کھیل رہے تھے ۔ آخر انسان بچہ ہی کیوں نہیں رہتا ۔ ان بچوں کا بے فکرا پن دیکھ کر یہ احساس روز میرے دل میں جاگتا تھا ۔ مائی سکینہ کے گھر سے دال سیو کا تھال اور چھابڑی لے کر میں گورنمنٹ سکول کے سامنے آکھڑا ہوا ۔ کاندھے پر پڑے بڑے سے رومال سے میں تھال پر بیٹھنے والی مکھیاں اڑاتا جاتا تھا ۔ناجانے کیوں آج مجھے اپنا جسم اور روح دولخت ہوتی محسوس ہو رہی تھی ۔ اکثر عورتوں کے ہلکورے لیتے بدن دیکھ کر مجھ پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ میرے چند سنگی ساتھی مجھ سے کہتے تھے ” بھورے تو شادی کر لے ” ۔ مگر اماں کہتی تھی ” نہ ، شادی نا کرئیو ، ورنہ میری جووئیں تیری بیوی کو کھا جائیں گی “. اس بات پر میری روح تڑپ جاتی تھی پر شاید وہ ٹھیک کہتی تھی۔ *********** تیسری دنیا میں بسنے والے پچھتر فیصد غریب غربت سے جنگ لڑتے لڑتے ہی مر جاتے ہیں ۔ اسی غربت میں وہ خوش ہونے کے چند مواقع بھی ڈھونڈ لیتے ہیں جیسے مہینوں میں کوئی اچھی چیز کھا لی ، سال میں ایک آدھ نیا جوڑا بنا لیا ، شادی بیاہ اور بچوں کا پیدا ہونا بھی ان کی خوش ہوتا ہے ۔ میں نے بھی ایسے ہی غربت میں آنکھ کھولی تھی ۔بہت بچپن میں ہی ابا ایک حادثے کی نذر ہو گئے اماں ایک سیدھی سادی عورت تھی ۔ دنیا کی چالاکیوں نے بہت جلد اس کا ذہنی توازن متاثر کر دیا لیکن ایک بگڑے ہوئے دماغ والے انسان کو سنبھالنے والے بھی کب متوازن ہوتے ہیں ۔ باوجود خواہش کے میں شادی نہیں کر سکا ۔ شروع شروع میں اماں کو سنبھالنا اتنا مشکل نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ دشوار ہوتا گیا وہ محلے والوں سے الجھ پڑتی تھی ۔ کبھی بلا وجہ ہی گلی سے گزرتے بچوں کی پٹائی کردیتی ۔ دن کا کھایا رات کو بھول جاتی ۔ اکثر قبرستان میں جا بیٹھتی تھی لیکن جب سے اس کے سر میں جووئیں پڑیں اسنے گھر کا کونہ سنبھال لیا تھا ۔ہفتہ ہفتہ بھر نہاتی نہیں تھی صحن اور کمرے کے بیچ چکر لگانا شروع کرتی تو پھر گھنٹوں گھنٹوں سر کھجاتے ہوئے چکر پر چکر لگاتی رہتی ۔ موٹے موٹے کالے جووئیں لکالتی اور زمین پر مارتی رہتی ۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کا سر صاف کردو ں پر نجانے کیا بات تھی کہ جتنے جووئیں میں اسکے سر سے نکالتا اگلے دن پھر سر میں جوؤں کا ڈھیر موجود ہوتا ۔ لوگ کہتے تھے کہ اسے گنجا کردو ۔ لیکن میری کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں اس کے سر پر استرا چلا پاتا ۔ ایسے میں کون عورت میرے ساتھ بندھنا پسند کرتی ۔ کچھ یہ احساس بھی دل میں گھر کر گیا تھا کہ سوائے تکلیف اور محرومی کے اور کیا دے سکوں گا دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے والے ایک جوڑے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے اس لیے گورنمنٹ سکول کے سامنے کچھ دیر کو چھٹی کے وقت دال سیو کا تھال سنبھال لیتا تھا لیکن اس قلیل آمدنی میں کسی کے ارمان نہیں پالے جاسکتے تھے۔ جوان ، کنواری ، شادی شدہ اور کبھی کبھار تو ادھیڑ عمر عورتوں کو دیکھ کر بھی دل میں ہوک اٹھتی تھی پر جب اماں کو دیکھتا تو وہ ہوک آہ میں بدل جاتی ۔کتنی کتنی دیر میں اماں کو تکتا رہتا اور وہ میرے سامنے سر سے جوئیں نکال نکال کر زمین پر ڈھیر لگائےجاتی تھی ۔ موٹے موٹے جووئیں زمین پر چینٹیوں کی طرح رینگتے رہتے تھے ۔ پہلے پہل اماں سختی سے بات مان لیتی تھی لیکن گزرتے وقت ہے اسے ضدی اور چڑچڑا بنا دیا تھا۔ میری درخواست پر اکثر محلے کی عورتیں اسے نہانے آجاتی تھیں مگر وہ سب سے لڑنے لگتی شاید
ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت اور سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہےلیکن ایک کام انھوں نے بہت اچھا کیا۔انسان کو جب غلطیوں کا ادراک ہوجائے تو ان کے اعتراف اور ازالے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان سیاسی نظام کے لیے اپنی باقاعدہ جماعت تیار کی اور متعددمرتبہ اس سیاسی عمل میں حصہ لیتے رہے لیکن جب انھیں اس سیاسی نظام کی سمجھ آگٸی کہ یہاں پر صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی کامیاب ہیں تو انھوں نے اسمبلی کی نشست سے استعفی دیا اس سیاسی نظام سے باہر نکلے اور اس کو بدلنے کے لیے دھرنے وغیرہ دٸیے اس کے جو بھی نتائج نکلے اس کی گہرائی میں جانا موضوع نہیں۔ عمران خان ایک مقبول کھلاڑی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی شخصیت تھی۔ان کی مقبولیت ان کی سیاست میں بھی کام آٸی۔انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کا اعلان کیا۔باٸیس سال تک انھوں نے جدوجہد کی مگر اقتدار ان کو نہ مل سکا البتہ وہ اپنے نظریات پر ایک نسل کو تیار کرنے میں کامیاب ہوگٸے۔ جب عمران خان کو طویل عرصہ کے بعد بھی اقتدار ملنے کی امید نہ ہوٸی تو انھوں نے اس سیاسی نظام سے سمجھوتہ کرلیا اور روایتی جاگیر دار اور سرمایہ داروں کو پارٹی کا حصہ بنانے پر راضی ہوگٸے۔ہر پارٹی کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والے یہ جاگیردار اور سرمایہ دار جب پی ٹی آٸی میں شامل ہوۓ تو 2018 میں اقتدار عمران خان کو مل گیا مگر عمران خان کا بھی وہی حال ہوا جو اس سے پہلے اقتدار حاصل ہونےوالوں کا ہوا تھا اور انھیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح عمران خان کو بھی اس سیاسی نظام کی سمجھ آگٸی۔اب عمران خان کو بھی چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے اس کے ازالے کے لیے اس نظام کی تبدیلی کے لیے اپنی جدوجہد کریں ۔ عمران خان کو پیروی کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد میسر ہے یہ ان کا پلس پواٸنٹ ہے۔اگر وہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور ماوزے تنگ کی طرح اس نظام کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو تاریخ ان کو ایک انقلابی کے نام سے یاد رکھے گی لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ اس سیاسی نظام کے خلاف نہیں جاٸیں گے اور آٸندہ بھی اس نظام کا حصہ بننے کی کوششوں میں اپنی زندگی گزار دیں گے۔عمران خان کے ساتھ اس وقت عوام کی بڑی تعداد ہے جو عمران خان کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہیں اب یہ عمران خان تک ہے کہ وہ اس موقع کو کیسے استعمال کرتے۔آیا وہ اس نظام کی تبدیلی کی طرف جاٸیں گے یا روایتی سیاستدانوں کی طرح ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں (الیکٹیبلز)کی مدد سے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے۔اس کا فیصلہ وقت کرے گے راجہ افضال سلیم۔ 03009191113
ڈائری کا ایک ورق رات اللہ تعالی سے دعا مانگ کر سوئی تھی کہ تہجد کے لئے آنکھ کھل جائے اور اللہ تعالی نے دعا قبول کر لی۔ جب سے بڑی بہن کی طبیعت خراب ہوئی ہے ایک بے چینی سی ہر وقت دل کو لگی رہتی ہے۔نہ جانے کیوں یہ احساس دل کو جکڑنے لگا ہے کہ وقت کی ریت ہاتھوں سے تیزی سے پھسلتی جارہی ہے۔ اپنوں سے بچھڑنے کے لمحے اب قریب سے قریب تر آتے جا رہے ہیں ۔ فجر کے بعد زندگی کے معمولات روز کی طرح جاری رہے میاں جی قرآن پڑھتے رہے اور میں زینب کو سکول بھیجنے کی تیاری میں لگی رہی ۔ناجانے یہ بچے بڑے ہوکر بھی بچہ ہی کیوں بنا رہنا چاہتے ہیں۔لاکھ کہنے کے باوجود زینب نے بال بھی مجھ سے بنوانے ہیں اور بیگ بھی مجھے سے سیٹ کروانا ہے وہ سکول چلی گئی تو میاں جی کافی دیر بات کرتے رہے ورنہ تو فیس بک چیک کرتے رہتے ہیں ۔انھوں نے لاہور جانے کا پکا فیصلہ کرلیا تھا تب سے میرے دل کی کیفیت عجیب ہے ان کے کام کی نوعیت بہت ٹف ہے اس لیے میں خود چاہتی ہوں کہ وہ اپنی روٹین سے کچھ باہر نکلیں اور اپنی زندگی کو انجوائے کریں اپنے دوستوں میں وقت گزاریں ، اپنی پسند کی جگہوں پر جائیں اور اپنی زندگی کو کمانے کی ٹینشن سے تھوڑا آزاد کریں ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ان کے بغیر وقت گزارنا بہت ہی مشکل ہے وہ سارادن گھر نہیں ہوتے پر پھر بھی انکے ہونے کا احساس رہتا ہے پر جب لاہور چلے جاتے ہیں تو زندگی بالکل خالی خالی سی لگنے لگتی ہے ۔ آج بھی وہ اپنے ٹائم پر آفس چلے گئے ۔دو دن کی چھٹی کے بعد سلمی باجی (میری میڈ) کام پر آگئیں انکے آتے ہی ایسا لگا جیسے زندگی میں بہار آگئی۔حالانکہ میں ان سے زیادہ کچھ نہیں کرواتی مگر پھر بھی صفائی اور باتھ روم کی دھلائی ایک بہت بڑاکام ہوتا ہے۔میں ساتھ مل کر گھر سمیٹتی رہی برتن دھوئے اور پھر وہی خواتین کا عالمی مسلہ کہ آج کیا پکائیں ۔رات کڑھی بنائی تھی اور ابھی بچیوں کی فرمایش پر اس کے سات چاول بگھارنےتھے پر رات کے لیے تو کچھ نہ کچھ بنانا تھا ۔ میں چاہتی تھی جلدی سے بنا لوں تاکہ میاں جی کے آنے سے پہلے تیار ہو جائے ۔جب کچھ جلدی بنانا ہو تو لے دے کے ایک چکن ہی رہ جاتا ہے جو بچے شوق سے کھا لیتے ہیں۔زینب سکول سے خوشی خوشی گھر آئی تو پتہ چلا رزلٹ آگیا اور وہ ففتھ آئی تھی ۔بچے پڑھائی میں اچھے ہوں تو ماں باپ خوش ہوتے ہیں پر ہم دونوں زیادہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ نہ میاں جی پڑھنے میں اچھے تھے نہ میں انھیں کرکٹ کا جنون تھا اور مجھے ناولوں رسالوں کا۔ تین بجے تک وہ گھر آگئے کھانا کھا کر آئے تھے بلکہ اپنے ہاتھوں سے قیمہ شملہ مرچ بناکر شاگردوں اور پڑوسیوں کو کھلا کر آئے تھے اور پھر اپنی تعریفوں کی داستانیں۔خیر اب تو سہنا آہی گیا ہے اور دل اس بات پر راضی بھی ہوگیا ہے کہ لاکھوں لوگوں سے بہت اچھا کھانا بنالیتے ہیں بشمول میرے۔ساڑھے تین تک ہم گھر سے نکل گئے ہاسپٹل کے لیے ۔بڑی بہن کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر دل بیٹھ گیا ایک شہر میں رہنے کے باوجود کتنے کتنے عرصے بعد ایک دوسرے کو دیکھنا نصیب ہوتا تھا ۔کبھی مجھے اپنی اس بڑی بہن پر بہت غصہ آتا اور کبھی بہت ترس بھی آتا ۔اب ایسی بھی کیا شوہر پرستی کہ وہ دن کو رات کہے تو رات اور رات کو دن کہہ دے تودن۔اپنی مرضی تو جیسے ان میں سے ختم ہی ہوگئ تھی۔اوپر سے ہمارے بھائی جان بھی شاہکار ہیں اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھنا ہی نہیں ایک زمانے میں انھوں نے دنیا گھومی تب سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ جانتے ہیں کوئی نہیں جانتا اسی لیے میاں جی ان سے زیادہ ملنا پسند نہیں کرتے۔پر اب باجی بیمار تھیں تو خود ہی ملوانے لے آئے تھے۔ ہم کافی دیر دوسرے بہن بھائیوں اور اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے رہے ۔گھر واپس آتے آتے تقریبا رات ہی ہوگئی۔ مغرب کی نماز کے بعد میاں جی کے جانےکی تیاری شروع کی صبح انھوں نے لاہور کے لیے نکلنا ہے۔ بھائی کو نان خطائی پسند ہے اس لیے کافی رات تک بیکنگ کرتی رہی ۔اخر کو صرف اپنے بھائی بہنوں کو ہی تو نہیں بھیجنی میاں جی کی بہن اور بھانجیوں کو بھی بھیجنی ہیں ۔دنیا کا سب سے اچھا شوہر بھی بیوی کو صرف اپنے بھائی بہنوں کو کھلانا پسند نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی یہ پسند کرتا ہے کہ رات گئے تک بیوی لکھنے لکھانے میں مصروف رہے اور اسے توجہ نہ دے اس لیے ڈائری اب اپنے اختتام کو پہنچی ۔زندگی رہی تو کل اگلے صفحے پرایک نئے دن کی روداد قلم بند ہوگی ۔ان شاء آللہ از کرن نعمان
بھائیوں کے درمیان دراڑ ” افسانہ مشایم عباس سرخ اینٹوں سے بنی اس سنہری دیوا ر پر نظریں جمائے وہ ایک عمیق سوچ میں ڈوبا حجرے کی آہنی دیواروں کے اس پار بجتی گھنٹیوں کے شور سے بالکل بے خبر تھا ۔۔۔ ” سبطین قعقاع ” بنو قعقاع قلعے کا اکلوتا مالک جس کے ایک اشارے پر بنو قعقاع کا ہر فرد حکم کی تعمیل کرنے آموجود ہوتا ، جسکی اجازت کے بناء کسی ذی روح کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی ۔۔ بے شمار خزانوں کی کنجیوں پر دسترس رکھنے والا ،، سونے چاندی کی بو جسکے نتھنوں میں رچ بس کر گویا عادی ہوگئی تھی مگر بنو قعقاع کے اس مالک کی زندگی میں ایک کسک تھی ۔۔۔۔ اتنی امارت بھی جس زخم پر مرہم ثابت نہ ہوسکی ایسا ناقابل علاج زخم ۔۔۔۔۔۔ ! جس عہدے کی خاطر اس نے سگے بھائی کے خلاف چال چلی وہی عہدہ آج اسے سکون دینے سے قاصر تھا ✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩ کتنے گھنٹے ہوگئے تجھے یہ جوتی مرمت کرنے کیلئے دی ہے کم ذات انسان رکھ یہ کتاب اور میری جوتی مرمت کرکے دے “وہ دنیا وما فیھا سے بے خبر ہوکر اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے میں مگن تھا کہ ایک کرخت آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی “یمان قعقاع” کے وجود نے ایک لمحے میں خوابوں سے حقیقت کا سفر کیا تھا جی سردار ابھی کرتا ہوں ” کھردرے ہاتھوں میں دبی کتاب کو تیزی سے لکڑی کی تپائی پر رکھا اور کمر سیدھی کرکے چمڑے کے تھیلے میں موجود جوتی باھر نکالی ، اس شخص نے رعب ڈالنے کی خاطر کمر پر کچھ دیر بعد پھر ایک دھپ رسید کی اور مزید سخت لہجے میں گویا ہوا اپنی اوقات سے آگے کی نہ سوچا کر جوان ! کہاں تو چمڑے کی جوتیاں مرمت کرنے والا نیچ طبقہ غریب انسان اور کہاں یہ عظیم صفحات پر رنگے خوشبودار الفاظ، یہ پکڑ چاندی کے سکے “خود کو لفظوں کا قدردان کہلوانے والا لفظوں کے غلیظ تیر چلاکر سکوں کو پھینکتا واپس پلٹ گیا اے نادان شخص میں فقط اس عرش والے کے آگے ایک بلند مرتبہ بندہ کہلوانا چاھتا ہوں ، آہ کاش لوگ انسانوں کی قیمت سونے چاندی کے بوسیدہ سکوں میں نہ تلاش کرتے ” وہ شخص رخصت ہو چکا تھا یمان قعقاع پرسکون انداز میں خود سے ہمکلام تھا ۔۔۔ ✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩ وہ دوشنبے کی شب تھی جب وہ بنو قعقاع کے مخالف دشمنوں کے قلعے پر حملہ آور ہونے کے بعد دشمنوں کو انکے انجام تک پہنچاکر اپنی فتح کی خبر اپنے والد ماجد کو دینے بنو قعقاع کے سنہرے قلعے میں داخل ہوا ہر سمت خلاف عادت سکوت تھا ،، بھائی کے حجرے کے سامنے سے گذرتا وہ کچھ پل رکا مگر کوئی آھٹ نہ پاکر وہ آگے بڑھا -بابا کے حجرے کے منقش دروازے جسکے باھر کئی محافظ تعینات تھے اسکے آتے ہی وا ہوئے اور وہ تیزی سے اندر داخل ہوا ،، بابا سرخ چہرہ لیے آگے بڑھے اور ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا حیرت پر حیرت۔۔۔ کیا فاتح کا استقبال یوں کیا جاتاہے ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے ہر سمت دیکھا “سبطین قعقاع کی نظروں میں نفرت آمیز شعلے بھڑک رہے تھے ایک جانب بھابھی اپنی زیورات سے لدی گردن کو مزید اونچا کرکے فاتحانہ نظروں سے اسے تک رہی تھیں انکے دائیں طرف بھابھی کی شاطر بہن عاجزی کی تصویر بنی مگرمچھ کے آنسوؤں کے ذریعے ناظرین کے دلوں میں اپنے لئیے ہمدردی جگا رہی تھی ایک لمحے میں اسے تمام کہانی سمجھ آگئی تھی بھابھی اور انکی چالاک بہن حسد اور بغض کی چال میں فاتح ٹھری تھیں اور “یمان قعقاع” کئی عظیم الشان فتوحات حاصل کرکے بھی گویا ایک ہارا ہوا جواری ۔۔۔۔ ناھنجار شخص ۔۔۔۔! میں تمھیں ایک بادشاہ کا شہزادہ سمجھ کر ایک عزت دار مرد سمجھ رہا تھا مگر تف ہو تم پر اپنے ہی خاندان کی ایک بیٹی کی عزت پر تم نے کل رات حملہ کیا وہ معصوم اب تک اس قصے کو چھپائے پھررہی تھی ، اگر میں اسکی اپنی بہن سے ہونے والی گفتگو نہ سنتا تو مستقبل میں ایک نا اھل کو اپنے تخت کا حقدار بنانے کا فیصلہ کر بیٹھتا ۔۔۔ اس قلعے کے دروازے تم پر تا قیامت حرام ہیں “اپنی کرسی کا سہارا لیے انہوں نے جیسے ہی بات ختم کی لڑکھڑا کر دبیز قالین پر گر پڑے میں “سبطین قعقاع” کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں “کپکپاتی آواز میں کہا گیا تھا اور سینہ بھینچے آخری سانسیں لینے لگیں “یمان قعقاع کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا ۔۔ باپ کی روح نکلنے کا ماتم کرتا یا بھائی کی سنگدلی کا کئی گھونسوں اور لاتوں کی بارش میں اسے قلعے سے نکال پھینکا گیا تھا بھائی کا دل بھائی کیلئے پتھر بن چکا تھا ،، قابیل کی داستان دھرائی گئی تھی ۔۔ کاش رشتوں میں اعتبار کی ایک مضبوط کیل ٹھونکی جاسکتی جسے کوئی شاطر اور حاسد نہ ادھیڑ سکتا ۔۔ بلکہ جو بھی اسے کھنچ کر نکالنے کی کوشش کرتا اسکے ہاتھ بھی زخمی ہوجاتے ۔۔۔! یمان قعقاع لکڑی کے ڈبے سے ٹیک لگائے چمڑوں میں کیل ٹھونکتے سوچ رہا تھا
بجا کہ دُور، مگر آس پاس جیسے ہو وہ اپنے آپ میں خُوشبُو ہے (باس جیسے ہو) کِسی کو تن پہ سجایا ہے پیرہن کی طرح میں اُس کی لاج، وہ میرا لِباس جیسے ہو دھڑک دھڑک کے مچلتا ہے میرا دِل ایسے اِسے کِسی کے پلٹنے کی آس جیسے ہو صدا بلند کوئی حق کے واسطے جو کرے تو شہ خیال کرے اِلتماس جیسے ہو پلٹ کے آنے میں یُوں مصلحت کا وہ ہے شِکار نہِیں ہو اُس کو، فقط مُجھ کو پیاس جیسے ہو کبھی کبھی وہ مُجھے ایسے ڈانٹ دیتی ہے وہ میری بنِت نہ ہو، سخت ساس جیسے ہو دِکھا رہا ہے نئے مُعجزے محبّت کے ہُنر میں کُوزہ گری کے وہ خاص جیسے ہو مرادیں جھولیاں بھر بھر کے سب کو دیتا ہے محبّتوں کا امر دیو داس جیسے ہو رشِید ہم تو ہیں پیوست ایک دُوجے میں ہو استخوان مِرا، اُس کا ماس جیسے ہو رشید حسرت
اک ظلم اُس پہ دیکھو آنکھیں دِکھا رہا ہے ‘انجام بے حیا کا نذدیک آ رہا ہے” پچھلی دہائیوں میں پاپی اکائیوں کا سب جانتے ہو یارو کردار کیا رہا ہے دھرتی ہے ایک ڈھانچہ، کرگس ہیں چار جانب اک نوچ کر گیا اب اک اور آ رہا ہے حاکم کی ہے ضیافت چونتیس لاکھ کی اور اس شہر کا معلّم ٹکڑے چبا رہا ہے کیا تجربے کو تُجھ کو یہ سرزمیں ملی تھی؟ چُلُّو میں ڈوب مر، پِھر سپنے دِکھا رہا ہے؟ چالیں ہیں شاطرانہ، نیّت بھی کھوٹ والی اک حُکمراں کہ جس سے سب کو گِلہ رہا ہے ذاتی عداوتیں ہیں اور ملک داؤ پر ہے جاگو کہ دیس اپنے ہاتھوں سے جا رہا ہے بچّوں کا فیصلہ بھی پختہ ہو اس سے شائد کچّا تھا اِس کا جو بھی یاں فیصلہ رہا ہے حسرت معاشرے وہ ہیں اور ہی طرح کے یہ بے ضمیر، اِن کو اب کیا سُنا رہا ہے رشید حسرتٓ
توہم پرستی اور ہم ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پہ توہم پرستی عام ہے حالانکہ مسلمان خدا پرست ہوتا ہے توحید پرست ہوتا ہے تقدیر کا پابند ہوتا ہے اور کبھی بھی توہم پرست نہیں ہوتا کہتے ہیں کہ کالی بلی راستہ کاٹ لے تو اچھا نہیں ہوتا کس کے لئے آپ کے لئے یا بلی کے لئے،ہوسکتا ہے بلی کے ساتھ آپ سے بھی برا معاملہ ہوا ہو اور بلی بھی آپ کو کوستی ہو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے ارادے سے نکلا خدام ساتھ تھے نقارے بجائے جارہے تھے جاہ و حشم اور پورے کروفر کے ساتھ محل سے نکلا ہی تھا کہ سامنے اور فقیر درویش شخص دیکھا میلے کپڑوں میں ملبوس بال گرد سے اٹے بادشاہ کی نظر پڑی اور نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا سارا دن جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہا کچھ ہاتھ نہ آیا شام کو خفت اور شرمندگی کے مارے واپس لوٹا .ایک مصاحب سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے ہم بے نیل مرام واپس لوٹا آئے ہیں مصاحب نے عرض کی حضور صبح کون ملا تھا سب سے پہلے کس کی شکل دیکھی تھی بادشاہ نے حکم دیا فوراً اس فقیر کو پیش کیا جائے فقیر کو پیش کیا گیا بے چارہ ہانپتا کانپتا حاضر خدمت ہوا اور آداب بجا لایا اس ننگ آدمیت اس منحوس کی گردن مار دی جائے اس کمبخت کی نحوست کہیں ہماری سلطنت نہ لے ڈوبے بادشاہ نے گرج کرحکم دیا اس سے پہلے کہ جلاد کے ہاتھ حرکت آتے وہ شخص بولا حضور کا اقبال بلند ہو ہم تو ہیں ہی جناب کی خدمت کے لئے جناب کے لئے جیتے ہیں اور حضور والا کے حکم پہ مرنا ہمارے لئے سعادت ہے جناب والا ایک سوال کی اجازت عنایت فرمائیں اگر نازک مزاج شاہاں پہ ناگوار نہ گزرے تو اجازت ملتے ہی وہ شخص گویا ہوا میں اس لئے قابل گردن زنی ہوں کہ منحوس ہوں حضور کے ماتھے میں صبح لگا تو حضور کو شکار نہیں لگا حضور کو لگتا ہے کہ میرا زمین پر رہنا سلطنت کے لئے خطرہ ہے لیکن حضورِ والا آپ بھی صبح سب سے پہلے میرے ماتھے لگے سب سے پہلا شخص جو میں نے دیکھا وہ آپ کی ذات اقدس ہے آپ کا سارا دن ضائع ہوگیا مگر میری تو گردن ماری جارہی ہے آپ کا ایک دن ضائع گیا اور میری پوری زندگی تو منحوس کون ہوا؟آپ یا میں؟بادشاہ کی آنکھیں کھل گئیں حکم ہوا چھوڑ دو اسےلوگ کہتےہیں وہ بندہ ملے تو کام نہیں ہوتا کبھی اس سے بھی پوچھ لیا کریں اس کا کام ہوتا ہے یا نہیں کام کرنے والی اللہ پاک کی ذات با برکات ہے دوسروں کو الزام دینے سے پہلے اپنے اعمال پہ نظر کرنی چاہیے،جب آپ کے کام نہ بن رہے ہوں تو دیکھے کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگوں کے کام آپ نہیں ہونے دے رہے آپ دوسروں کے کام میں لگ جائیں اللہ پاک آپ کے کام سنوارنے لگ جائے گا نحوست صرف ہمارے اعمال میں ہوتی ہے ہماری سوچ میں ہوتی ہے صبح کے با برکت وقت میں سونے والا اور صبح کی نماز چھوڑنے والا کس منہ سے لوگوں کو کوستا ہے؟؟؟ محمد عباس کاٹھیا
. . . . . . . . . . نوری. . . . . . . . . . . . وہ سات سال کی ایک سانولی سی لڑکی تھی جو بد قسمتی سے ایک فقیرنی کے گھر پیدا ہوئی تھی اس کا باپ بھی فوت ہو چکا تھا وہ اپنی فقیرنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. ہر روز صبح سویرے جب دنیا نیند سے بیدار ہو کر اپنی مصروفیات میں لگ جاتی تھی، نوکریوں والے دفتروں کو جاتے تھے، روزگار والے اپنے کام میں لگ جاتے تھے، اور جب باقی بچے اپنے والدین کے ساتھ اسکول کو جاتے تھے تو نوری اپنی ماں کے ساتھ بازار کا رخ کرتی تھی کیوں کہ اُسے بھی ماں اپنی طرح بھیک مانگنا سکھا رہی تھی. نوری روز اپنی ماں کے ساتھ بازار کی ٹھوکریں کھاتی، کہیں سے بھیک ملتی، کہیں کوئی کہتا معاف کرو، کہیں تو لوگ غصے سے اُس کی ماں گالیاں بھی دیتے تو وہ معصوم نظروں سے لوگوں کی طرف دیکھ کر اپنی ماں کی طرف دیکھتی اور معصوم ذہن میں پتا نہیں کیا کیا سوچتی. جب وہ دوسرے بچوں کو اسکول سے آتے جاتے دیکھتی تو وہ مڑ مڑ کر منٹوں تک ان کو دیکھتی رہتی اور ان کی دنیا میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی.پورا دن زندگی کی جنگ لڑ لڑ کر جب شام کو اپنے گھر آتی “جو سڑک کی سائیڈ پر ایک درخت کے نیچے تھا”پورے دن دھکے کھانے کے بعد اتنا کچھ نصیب ہوتا تھا کہ صرف رات کی روٹی کا بندوبست کر سکیں. رات کو وہ اپنی ماں کے سینے پر سر رکھ گھنٹوں تک دن کو ہونے والے واقعات کو سوچتی رہتی اور کھلے آسمان سے تاروں کی کشمکش کو دیکھتی رہتی. ایک دن نوری اور اس کی ماں صبح صبح اپنی رات کی روٹی کی جستجو میں نکلیں تو ایک تیز رفتار ٹرالر ڈرائیور کے کنٹرول سے نکل کر اُس کی ماں کو کچلتا ہوا ایک بلڈنگ سے ٹکرایا. لوگ جمع ہو گئے ہر کوئی بول رہا تھا “فقیرنی مر گئی فقیرنی مر گئی” وہ بالکل خاموش ہو گئی لوگوں کی بھیڑ میں اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا. پھر ایمبولنس آئی اور لاش کو اُٹھا کر چلی گئی اور پھر سب لوگ چلے گئے سوائے نوری کے وہ راستے پر لگے اپنی ماں کے خون کو دیکھتی رہی اور رات ہو گئی سورج کے ساتھ ساتھ سب لوگ اپنی گھروں کو چل دئیے پر نوری کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں جائے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں مجھے یہاں چھوڑ کر گئی ہے تو یہیں سے ہی لینے آئی گی اور سوچتے سوچتے اس کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا. اور جب آنکھ کھلی تو دیکھا اس کے جیسے بہت سے بچے وہاں موجود تھے اور وہ یتیم خانہ تھا. آدمیوں کی اتنی بھیڑ میں کوئی ایک انسان تو ملا جو اُسے صرف یتیم خانے میں چھوڑ کر آیا جہاں وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اور آج بھی اُس کو اپنی ماں کا انتظار ہے.
دوسرا موڑ اس کا نام حریم تھا اور عمر 16 سال تھی اسکول میں اس کا آخری سال تھا میرا اور اس کا قریبی تعلق صرف دو سال پرانا تھا اس سے پہلے بھی میں اسے دیکھتی ضرور تھی پر بات شاذو نادر ہی ہوتی تھی میری حیثیت اسکول میں سینئر ٹیچر کی تھی حریم کا شماراسکول کی ان چند ایک پر جوش لڑکیوں میں ہوتا تھا جو ہر میدان میں آگے رہنے کی متمنی ہوتی تھیں کلاس میں ٹاپر کھیل کے میدان میں فاتح اور شاعری ڈیبیٹس کے مقابلوں میں سب کی ہر دلعزیز ۔ ہر ٹیچر کی پسندیدہ تو ہر لڑکی اس سے مرعوب تھی ۔ بے حد فیشن ایبل ۔ صرف اسی بات پر وہ اکثر ٹیچر سے ڈانٹ کھاتی تھی کہ یونی فارم میں ہونے کے باوجود اس کے سٹائل میں فیشن کی جھلک نمایاں ہوتی تھی ۔ اسکی عمر کی دوسری لڑکیاں اسکول آتے جاتے چادر یا دوپٹہ استعمال کرتی تھیں لیکن میں نے اسے کبھی دوپٹے میں نہیں دیکھا وہ صرف یونیفارم کی وی ہی استعمال کرتی تھی اور اکثر چھٹی کے وقت وہ بھی اس کے کندھے پر جھول رہی ہوتی تھی ۔ بال کھل جاتے تھے اس کے شوخ قہقہے اکثر گیٹ کے پار کھڑے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے تھے ۔ سکول کی میڈم سے لیکر چپڑاسی تک ہر کسی سے اسکی اچھی بنتی تھی لیکن میرے اور اس کے درمیان ایک تناؤ ہمیشہ قائم رہا تھا اس نے بظاہرمجھ سے کبھی بھی بدتمیزی نہیں کی تھی پر سکول میں چلتے پھرتے وہ اپنی سہیلیوں سے بات کرتے اونچی آواز میں مجھے تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھی جس کی واحد وجہ مجھے یہی سمجھ آئی تھی کہ میرے پردے اور گاہے بگاہے کلاس میں بچیوں کو اخلاقی طور پر اچھے برے کا فرق سمجھاتے رہنا تھا ان باتوں سے کلاس میں اکثر بچیاں متاثر ہوتی تھیں اور اکثر ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتیں لیکن حریم واحد ایسی تھی جو اکثر بحث کرتی اور پردے کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی کبھی کبھی میرے دل میں آتی تھی کہ میں اسے قائل کروں پر میں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کلاس کو ٹینشن کے ماحول سے بچانے کے لئے اسے درگزر کر دیا کرتی تھی ۔مگر پچھلے تین چار ماہ سے یہ سلسلہ زیادہ ہی ہو گیا تھا شاید میرے درگزر نے اس کی ہمت بڑھا دی تھی انہی دنوں اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہوئی تو میں نے پہلی بار اس کی ماں کو دیکھا دلکش اور نفیس عورت سلیقے سے چادر میں لپٹی ہوئی وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی چند ایک نصابی باتوں کے بعد وہ کہنے لگی میں یہاں صرف آپ کو دیکھنے آئی تھی میرے وجہ پوچھنے پر کہنے لگی بس ویسے ہی ۔ حریم بہت ذکر کرتی ہے آپ کا ۔ پھر کچھ ہچکچاتے ہوئے پوچھنے لگی آپ کو کوئی شکایت تو نہیں اس سے ۔میں سمجھ گئی کہ وہ گھر میں بھی میرے خلاف بولتی رہتی ہوگی ۔ میں چند لمحے اس کی ماں کو خاموشی سے دیکھتی رہی ۔آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ وہ کامیاب ہوجائے گی ۔ میرے سامنے بیٹھی عورت ندامت کی تصویر ہو گئی ۔ اگلے کچھ دنوں میں مجھے حریم کا روئیہ بدلہ ہوا لگا اب وہ مجھے طنز بھری نظروں سے نہیں دیکھتی تھی بلکہ ایک سختی اور جھنجھلاہٹ بھرا تاثر اس کی نگاہوں میں اٹہرا تھا ۔ دلوں کے حال خدا بہتر جانتا ہے اس کی لاکھ میرے لئے ناپسندیدگی کے باوجود میں اسے نا پسند نہیں کر سکی تھی وہ میری دعاؤں میں سب سے زیادہ شامل رہتی تھی اور نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ اس کے دل کی کایا پلٹ جائے گی ۔ اس سے پہلے کہ میٹرک کلاس فارغ ہوتی ایک دن وہ میرے پاس آ گئی اس نے اپنے رویوں کی مجھ سے معافی نہیں مانگی ۔ کہنے لگی اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا تو آپ نے مجھے سمجھایا کیوں نہیں ایک لمحے کو تو دل چاہا کہ اسے خوب ڈانٹوں پر میں جوش پر ہوش کو ترجیح دینے کی عادی تھی میں نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ۔ کیا ضروری ہے سمجھانے کے لیے لفظوں کا سہارا لیا جائے ۔ وہ کچھ نہیں بولی پر نگاہ جھک گئی ۔ مجھے لگتا ہے ٹیچر یہ پردہ مذہب کی چادر ہے ہے جو آپ جیسی عورتیں ہر وقت خود پر چڑھائے رکھتی ہیں یہ ایسی دیوار ہے جو ہمیشہ آپ کے اور میرے بیچ حائل رہی ہے مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ۔۔۔ کہ وہ تذبذب میں مبتلا ہوکر انگلیاں مروڑنے لگی ۔ اس کی بات نے مجھے شدید حیرت سے دوچار کیا تھا لیکن جلد میں نے اپنی حیرت کو قابو کر لیا ۔ تم مجھ سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کر سکتی ہو ۔ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کی جھلک ابھری ۔ مجھے لگتا ہے ٹیچر ہم پردے سے چہرہ چھپا سکتے ہیں لیکن خود کو خواہش سے نہیں روک سکتے ۔ کپڑے کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا مرد کی نگاہ اور عورت کے چہرے کے درمیان آڑ ہو سکتا ہے پر عورت کی نگاہ اور مرد کے وجود کے درمیان کچھ حائل نہیں ہوتا نہ ہی دل پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے پھر صرف اور صرف چہرہ چھپا لینے سے کیا فائدہ ۔ سولہ سالہ لڑکی کے منہ سے نکلنے والی یہ باتیں میرے لیے تعجب خیز تھیں میرے گلے کی گلٹی ابھر کر ڈوب گئی مجھے لگا کہ لفاظی کے پردے میں وہ مجھے اپنے دل کا راز بتا گئی ہے میں نے دل ہی دل میں خدا سے مدد چاہی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک سپورٹس میگزین تھا جس کے سرورق پر ایک کرکٹ اسٹار کی تصویر نمایاں تھی میں نے اس کے ہاتھ سے میگزین لے کر تصویر والا پیج پھاڑ دیا ۔ چیزوں کی کشش اس وقت تک ہوتی ہے جب تک ہم انہیں دیکھتے رہتے ہیں لیکن جب ہم ایک شعوری کوشش کرکے اس خاص چیز یا منظر یا انسان سے نظر پھیر لیتے
کہانی رخصتی از صائمہ نور قسمت جو کسی کے تابع نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے ہم سب قسمت کے تابع ہیں تو بلکل بھی غلط نہیں ہوگا،قسمت اگر بدلی جا سکتی ہے تو صرف اور صرف دعا سے یا تدبیر سے ،مگر کبھی کبھی تدبیر بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے سامنے سب تدبیریں بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ ___________ سفید قبائیوں میں ملبوس ہیولے در و دیوار پہ سایہ فگن تھے،سب کچھ دھندلا سا دکھائ دے رہا تھا ۔ میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی ،کسی نے میرا ہاتھ تھاما اور سفید دری پر بٹھا دیا،میں نیم بے ہوش سی ہو رہی تھی کوئ انجانہ سوگوار جذبہ میرے حواسوں پہ سوار تھا اور مجھے غم کی کھائیوں کی طرف دھکیل رہا تھا ۔۔ ___________ اٹھیے امی نماز کا وقت نکل رہا ہے ۔ مہوش کے زور زور سے پیر ہلانے پر ۔رقیہ بیگم گہری نیند سے جاگیں آنکھ کھلتے ہی مہوش دکھائ دی جو نماز کی پابند تھی اور نماز عصر کے لیے وضو کئے کھڑی تھی،امی کیا دیکھ رہیں ہیں جلدی اٹھیں پھر بازار جانا ہے اپکو معلوم ہے میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے پھر آکر کتنے کام کرنے ہیں ۔ مہوش میڈیکل کے فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی اور اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کے مصروف شیڈول کے سبب اسکے پاس وقت کی شدید کمی تھی ۔ مگر کچھ دنوں سے مہوش کی یہ “میرے پاس وقت نہیں ہے کی تکرار ” کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ رقیہ بیگم حد سے زیادہ حساس طبیعت رکھتیں تھیں اسی لیے مہوش کے منھ سے بار بار یہ تکرار سن کر انکا ذہن الجھ جاتا ۔ ابھی تو نماز کو دیر ہو رہی تھی اور انہیں شاپنگ پر جانا تھا ۔ چونکہ مہوش کے فائنل ائیر کے امتحانات کے فورا بعد اسکی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی تھی ۔ اسی سلسلے میں بازار امدو رفت زور و شور سے جاری تھی۔ آج واپس ا کر سمجھاؤں گی انہوں نے وضو کرتے ہوئے سوچا۔ __________ بازار سے واپسی پر مہوش اور رقیہ بیگم خریدے ہوئے کپڑے پھلائے بیٹھیں تھیں تاکہ انکی دوسری دو بیٹیاں بھی دیکھ سکیں ۔ مہوش اب تمہارے کتنے جوڑے رہ گئے ؟ رقیہ بیگم نے استفار کیا۔ امی آپ مجھے کتنے جوڑے دیں گی مہوش نے انہیں چھیڑا ۔ بیٹا یوں تو جتنے تم لینا چاہو۔ رقیہ بیگم نے فراخ دلی سے کہا وہ انکی پہلوٹھی کی لاڈلی اولاد تھی ۔ انکا بس نہیں چلتا کہ چاند ستارے اسکے نصیب میں ٹانک دیتیں ۔ امی جوڑے تو کافی ہو گئے مگر ایک بات بتائیں ؟ بولو بیٹا ۔ امی جہیز میں بیٹی کو جب اتنا کچھ دیتے ہیں بلکہ سب کچھ ہی تو دیتے ہیں تو پھر کفن کیوں نہیں دیتے؟ مہوش نے سادگی سے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ مہوش نے ایک غیر متوقع سوال کیا جو رقیہ بیگم کے دل کو دہلا گیا ،اب وہ بہت سخت سرزنش کریں گی مہوش کی جب وہ دونوں اکیلی ہونگیں ۔ انہوں نے سوچا،پتا نہیں کیوں شادی کی تیاری میں وہ دلچسپی تو لے رہی تھی مگر اتنی خوش نہیں تھی یا انکا وہم تھا..! ___________ مہوش گھر پہنچی تو شدید حواس باختہ تھی ۔ کیا ہوا باجی سب خیریت ہے مہوش کی چھوٹی بہن نے اسکے چہرے پر غیر معمولی ہوائیاں اڑتے دیکھا تو فورا پانی لے آئی اور ساتھ ہی سوال بھی کیا۔ ہاں خیریت ہے مہوش نے پانی کا گلاس تھام کر جواب دیا۔ کیا ہوا مہوش امی جو اپنی بیٹیوں کی گفتگو سن رہی تھیں فورا وہاں آ گئیں ۔ امی آج میرا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ مہوش نے حقیقت بتائی ۔ اوہو کیا ہوا؟ امی ایک صاحب مجھے اوور ٹیک کر رہے تھے میں نے گاڑی سائڈ پر کرنی چاہی تو پوری گاڑی ایک طرف ڈھلک گئی ،پتا نہیں کیسے خودبخود سیدھی ہوئی بس یوں سمجھیں کسی نادیدہ طاقت نے گاڑی کو سیدھا کیا۔ وہ صاحب بھی ڈر گئے اور گاڑی روک کر کہنے لگے کہ “محترمہ اپنا صدقہ وغیرہ دیں موت کے منھ میں سے واپس آئیں ہیں آپ ” مہوش نے انہیں پوری روداد سنائی۔ بس آج سے تم گاڑی نہیں چلاؤ گی ،پو ائنٹ سے یونی جاؤ گی میں نے کہہ دیا۔مگر امی ۔۔نہیں نہیں آج کتنا برا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا تمہارا تم تھکی ہوئی ہوتی ہو بس اب کوئ اور بات نہیں۔۔وہ ہار مانتے ہوئے سر ہلانے لگی پتا نہیں کیوں امی کو بتایا آج کے ایکسیڈنٹ کے متعلق ،شاید وہ خود بھی ڈر گئ تھی اس لیے امی کو بتا دیا تھا۔ _________ مہوش باجی آپکو ایک کام کہا تھا ،مگر آپ وہ نہیں کر سکیں ۔ مہوش کی چھوٹی بہن مہک نے کچھ چیزیں منگوائی تھیں مہوش سے جو مہوش بہت دیر ہونے کے سبب نہیں لا سکی تھی۔ تو اب وہ بہت سخت الفاظ میں گلا کر رہی تھی۔ سوری چندا مجھے یاد تو تھا مگر وقت نہیں ملا ۔ چلا ابھی لے آتے ہیں وہ شدید تھکن کے باوجود بولی۔ نہیں اب رہنے دیں کیا فایدہ میں اب کل خود بھی لے سکتی ہوں ۔ مہک نے منھ بنایا مہوش کو بہت محسوس ہوا مگر اب وہ کیسے اسے مناتی۔ مہک اب اس سے کم ہی بات کرتی ۔ مہک ایسی ہی تھی اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت غصہ آتا اور وہ غصہ کئی دن قائم رہتا۔ __________ مہوش نے پوائنٹ سے آنا جانا شروع کر دیا تھا مگر ایک مخصوص اسٹاپ تک اسے سکس سیٹر سے جانا پڑتا پھر مطلوبہ پوائنٹ ملتی ۔ اور آج پھر وہی ہوا وہ یونی سے واپسی پر مین روڈ پر اتری اور گھر کے لیے رکشہ لیا اور رکشہ کسی زور دار چیز سے ٹکرا کر ہوا میں اچھلتا ہوا دو بار الٹا ،اسکی جان جیسے نکل کر واپس آئ وہ سہم گئ ،مگر آج امی کو بتانے کی ہمت نہ کر سکی کہ امی یونی ہی چھڑوا دیں گی۔ __________ رقیہ بیگم صبح فجر کے وقت ناشتہ ہاٹ پاٹ میں بنا کر دکھ دیتیں اور بچے مطلوبہ وقت پر اپنا اپنا
ناول: عشق ذات از: پلوشہ صافی قسط: 01 حارث صاحب صحن میں بار بار گھڑی کو دیکھ کر چکر کاٹ رہے تھے۔ شادی ہال جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی۔ “بیگم صاحبہ زرا جلدی کریں کم از کم تقریب ختم ہونے تک تو پہنچ جائے” انہوں نے بلند آواز میں صدا لگائی۔۔ نائلہ بیگم ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر باہر نکل آئی “آپ نے گاڑی کا انتظام کیا” انہوں نے حارث صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ حارث صاحب: “ہاں شکیل کو کہہ دیا ہے وہ کسی کو بھیج دے گا۔۔۔۔۔۔ بچے تیار ہو گئے؟” نائلہ بیگم: “جی بس آرہے ہیں” گھر کے باہر ہارن کی آواز سن کر حارث صاحب گیٹ کھولنے بڑھ گئے نائلہ بیگم:” بچوں جلدی آو گاڑی آگئی” وہ بلند آواز میں کہتے گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ تب تک حارث صاحب باہر زوہیب کے ساتھ سلام دعا کرنے میں مصروف تھے۔ نائلہ بیگم کو باہر آتا دیکھ، زوہیب ان کی طرف آیا “اسلام علیکم آ نٹی” اس نے نائلہ بیگم کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ نائلہ بیگم: “وعلیکم اسلام کیسے ہو زوہیب، ماشااللہ بہت ہینڈسم لگ رہے ہو۔۔۔” انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ زوہیب نے آج کی تقریب کےلیے گرے قمیض شلوار اور کالے رنگ کا ویسٹ کوٹ زیب تن کیا تھا بال جیل سے پیچھے ٹکاے رکھے تھے۔ زوہیب: “شکریہ آنٹی آپ بھی کوئی کم حسین نہیں لگ رہی” زوہیب نے بھی جواب میں ان کی تعریف کر دی اور دروازہ بند کر کے سیدھا ہوا۔ عرفان: “کیسے ہو زوہیب” عرفان اپنے 2 سالہ چھوٹے بیٹے کو گود میں اٹھائے اپنی بیوی سائرہ اور 8 سالہ بڑے بیٹے سعد کے ہمراہ سامنے سے آرہے تھے۔ زوہیب:”بلکل ٹھیک عرفان بھائی” زوہیب نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔ عرفان اپنے بیوی بچوں کو گاڑی میں بیٹھا رہے تھے جب زوہیب نے ایک پیاری نسوانی آواز سنی ” اے ڈرائیور” زوہیب نے تجسس سے پیچھے دیکھا۔ وہ اونچی سینڈل پہنے ایک ہاتھ سے لمبے بال کانوں کے پیچھے اڑسھتی دوسرے میں کلچ اور مٹھائی کی ٹوکری پکڑے گرتی سنبھلتی ہوئی گاڑی کی طرف آرہی تھی۔ سفید لہنگے میں زوہیب کو وہ آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔ ہر حد کوشش کے باوجود زوہیب اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر مسکان نے ایک بار پھر زوہیب کو مخاطب کیا مسکان:”سنو ڈرائیور جلدی سے گاڑی کی ڈکی کھولو یہ سامان رکھنا ہے” زوہیب نے پہلے خود کو سر سے پیر تک دیکھا پھر مسکان کو ” کس اینگل سے میں اس کو ڈرائیور لگ رہا ہوں” اس نے دل میں سوچا مسکان: “او ہیلو مسٹر سنائی نہیں دے رہا کیا” اس نے زوہیب کی آنکھوں میں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے کہا۔ اور زوہیب کو لگا اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر وہ واقعی کچھ پل کے لیے کچھ سننے کے قابل نہیں رہا اپنے جذبات پر قابو کرتے ہوئے وہ جلدی سے پیچھے گیا اور ڈکی کھول دی مسکان سامان اندر رکھنے کے بعد اپنے بازو سہلاتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھی۔ زوہیب ڈکی بند کر کے ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور بیک ویو مرر میں مسکان کو دیکھتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔ ****************** گھر سے ہال تک کے راستے میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ وقفے وقفے سے بیک مرر میں پیچھے مسکان کو دیکھتا رہا جو کبھی خود کو سنوارتی کبھی اپنی امی اور بھابھی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتی اور کبھی اپنے بھتیجے کو ہنساتی زوہیب گاہے بگاہے حارث صاحب کے بات کا بھی جواب دیتا۔ تینوں عورتیں پیچھے سیٹ پر بیٹھی تھیں جبکہ حارث صاحب فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔ اور عرفان انہیں رخصت کر کے گھر پر ہی رکا تھا ۔ ***************** ہال پہنچ کر ستارہ جیسے مسکان پر جھڑپ پڑی ستارہ:” کتنی دیر کر دی یار کب سے انتظار کر رہی ہوں جلدی چلو آپی بھی آگئی ہے” اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی کہا۔۔ مسکان:”صبر یار اترنے تو دو” اس نے لہنگا اٹھائے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا۔ باقی سب بھی گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔ زوہیب تب تک ڈکی کھول کر ٹوکری نکالے ان کی طرف آگیا مسکان نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے ٹوکری پکڑی اور ستارہ کے ساتھ تقریبا بھاگتے ہوئے ہال کے اندر چلی گئی۔ زوہیب وہی کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا جب تک کہ وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ پھر وہ بھی مردانہ ہال کی طرف گامزن ہو گیا۔ ********************** حارث صاحب:” سب ٹھیک ہے ” انہوں نے سٹیج پر جا کر شکیل صاحب سے پوچھا جو اپنے بیگم ثمرین کو کچھ ہدایت دے رہے تھے۔ شکیل صاحب: “اب پہنچ رہے ہیں آپ ” انہوں نے حارث صاحب کی آواز پر پلٹ کر کچھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ حارث صاحب:” بس تم تو جانتے ہو ان عورتوں کے کام جتنا بھی کہو جلدی تیار نہیں ہو سکتیں” انہوں نے بے بسی سے کہا۔ مسکان: “واو ماشااللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے آپی۔ آج تو ہونے والے جیجو آپ پر فدا ہوجائے گے” ہال کے برائڈل روم میں جاتے ہی وہ آپی کی تعریف کرنا شروع ہوگئی جو اس وقت دلہن بنی سبز لباس میں اپنے منگنی کے تقریب کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ کومل:” ویسے تم لوگوں نے آنے میں بہت دیر کر دی مسکان اتنا تو دلہن ہو کہ مجھے تیار ہونے میں وقت نہیں لگا جتنا تمہیں” اس نے خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ مسکان:” نہیں آپی میں تو کب سے تیار تھی گاڑی دیر سے آئی” اس نے اپنے دفاع میں گاڑی دیر سے آنےکا بہانہ کیا اور رخ موڑ لیا۔ ستارہ اپنا بیگ سمیٹتے ساتھ ان کی باتیں سن رہی تھی مسکان کی بات سن کر اس نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا ” بس بس ہمیں مت بتاو ضرور بھول گئی ہو گی وقت دیکھنا” مسکان نے اسے کہتے سنا۔ کومل:” اچھا اب بس بھی کرو چلو میری اچھی سی تصویریں لو” یہ کہہ کر وہ پوز بنا کر بیٹھی جب اس نے مسکان کو بلند آواز میں آہ و پکار کرتے سنا مسکان:”یا اللہ میرا موبائل” وہ ادھر ادھر
ان الدین عند اللہ الاسلام اس دنیا میں بہت سارے دین و مذاہب ہیں پر مکمل دین اسلام ہی ہے۔ اسلام سے پہلے جتنی بھی شریعت اللہ تبارک و تعالی نے نازل لیں سب میں ردو بدل ہو گیا ہے۔ لیکن اللہ نے نبی کریم ﷺ کے اوپر جو شریعت نازل کی قران کی صورت میں وہ آج بھی بنا کسی ردو بدل کے موجود ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ لہزا جو شخص بھی رضاۓ الہی کو مد نظر رکھتے ہوۓاسلام قبول کرتا ہے اس کو چاہیے کہ ارکان اسلام کو اچھی طرح سمجھ لے اوراسمیں کوتاہی نہ کریں۔ ارکان اسلام نمبر1) کلمہ: لا إله الا اللہ محمد رسول الله اس کلمہ کے دو جز ہیں اور دونوں پر ہی دل سے یقین کرنا ضروری ہے۔ بنا سدق دل کے اقرارکے ہم سچے مسلمان نہیں بن سکتے ہیں۔ کلمہ کا پہلا جز “لا إله إلا الله” ہے یعنی ہم دل سے اللہ کی وحدانیت کو قبول کرتے ہیں اور اس کل اختیار کل کا مالک مانتے ہیں۔ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ سب کا خالق و مالک وہی ہے اور اسکے حکم کے بنا پتہ بھی نہی ہل سکتا۔ کلمہ کا دوسرا جز “محمد رسول الله ” یعنی محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ آپ پر وحی کے ذریعے قران نازل کیا گیا ہے اپ نے خود سے کچھ نہیں کہا ہے۔ نمبر2) نماز قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خشعون دین اسلام میں نماز کی بہت اہمیت ہے کیونکہ نماز ہی مومن و کافر کے درمیان فرق کرتی ہے۔ الہ تبارک و تعالیٰ نے ہم پر دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ ہمیں اس کو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ قران و حدیث میں جا بجا نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نمبر3) زکوۃ اقیموا الصلوۃ و آتوا الزکوٰۃ قران میں جہاں کہیں بھی نماز قائم کرنے کی تاکید کی ہے وہیں زکوۃ ادا کرنے کی تاکید بھی کی ہے۔(زکوۃ اس شخص پر فرض ہے جس کے پاس ایک مقرر مقدار میں مال پورے سال موجود رہے۔ )زکوۃ ادا کرنے سے ہمارا مال پاک ہو جاتا ہے۔ مال میں برکت ہوتی ہے۔ ضرورت مندوں کا بھلا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں دعائیں دیتے ہیں اور ہمارے دلوں سے مال کی محبت کم ہوتی ہے۔ نمبر4) روزہ یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبل کم لعلکم تتقون پورے سال میں رمضان کا روزہ ہم پر فرض ہے۔ اس ماہ میں ہم خاص کر اللہ تبارک و تعالی کیلیے بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور حتی الامکان گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ روزہ رکھنے سے ہم میں تقوی و پرہیزگاری کی صفت آتی ہے۔ ہمیں اپنے نفس کو قابو کرنا آتا ہے۔ نمبر5) حج ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا حج اللہ نے صاحب استطاعت حضرات پر پوری زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا ہے۔ کیونکہ دین کے بقیہ ارکان تو ہم دنیا کے کسی بھی حصہ سے ادا کر سکتے ہیں لیکن حج کیلیے مکہ جانا اور حج کے تمام ارکان ادا کرنا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ ارکان اسلام کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اور ان پر ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ نمبر1) کلمہ کا دل و زبان سے اقرار کرنا۔ نمبر2) بدنی عبادت: نماز اور روزہ نمبر3) مالی عبادت: زکوۃ اور حج۔ فلک نوری falaknoori268@gmail.com
میں نے بہت سوچا پھر اس موضوع پر لکھنے کی جسارت کی،مجھے نہیں معلوم لوگ اس مضمون کو کون سا چشمہ لگا کر پڑھیں گے لیکن مجھے جو کہنا ہے میں کہ کر رہوں گا۔تو چلئے سیر کرتے ہیں اس دور کی جب موبائل لفظ سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔اس دور کا سماجی رکھ رکھائو کیسا تھا۔ایک چھوٹی سی مثال سے اسے سمجھ لیتے ہیں۔ موبائل کی دنیا سے پہلے اگر کوئی دور کا رشتہ دار بیمار یا کسی اور پریشانی میں پڑ جاتا تھا تو یا تو کسی شخص سے کہ کر وہ اپنی حالت سے اپنے رشتہ داروں کو آگاہ کرتا تھا یا خود ان کے پاس جاکر اپنی تکالیف کو دور کرتا تھا ۔اب ایسا نہیں رہا، لوگ موبائل پر ہی اپنی خیریت دیدیتے ہیں اور ان کی بھی خیریت لے لیتے ہیں۔ اس سے انہیں لگتا ہے کہ انکا وقت بھی بچ گیا اور رشتہ کا فریضہ بھی ادا ہو گیا۔اسلامی تعلیمات پر اگر نظر ڈالیں تو بیمار کی تیمارداری کرنا ایک عظیم عمل میں شمار ہوتا ہے۔اس موبائل نے اسے سب سے پہلے اس کار خیر کرنے سے روکا۔دوسری ایک اور اہم چیز عرض کرتا چلوں کہتے ہیں جو نظر سے دور وہ دل سے دور۔یہ حقیقت ہے اگر آپ کسی اپنے سے بہت زیادہ دنوں تک دور رہے تو سمجھئے آپ کے دلوں میں محبت کے جو جذبات ایک دوسرے کے لئے پہلے جیسے تھے وہ شاید ہی رہیں کیوں کہ انسان ہو یا حیوان جب وہ بہت زیادہ دنوں تک کسی ایک طرح کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اسکا اپنی عادتوں کو تبدیل کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ہم انسان ویسے تو ایک ہی فورمیٹ پر بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے خیالات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ سماج میں جب انسان رہتا ہے تو وہ ان جدا خیالات کے رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہوا زندگی کے سفر کو آگے بڑھاتا رہتا ہے لیکن جب سے موبائل نے انسانوں کی زندگیوں میں اپنے پیر پسارے ہیں اسنے ساری توجہ اپنی طرف مرکوز کرادی ہے۔موبائل انسان کو سماجی رشتہ جوڑنے کے بجائے ایک خیالی دنیا کی طرف بڑی تیزی سے دھکیل رہا ہے۔لوگ اس موبائل کے فریب میں اتنے پھنس چکے ہیں کہ گھر میں ماں باپ کی فکر کے بجائے وہ دنیا جہاں کے معاملات میں کھوئے رہتے ہیں ۔اس سے پہلے انسان خود اپنے تجربات کی روشنی میں ایک سمجھ رکھتا تھا۔وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا تھا۔آج جو میں آپ کے سامنے یہ باتیں لیکھ رہا ہوں مجھے کسی موبائل سے میسر نہیں ہوئیں یہ میری اپنی صلاحیت ہے جو میں نے سماج کے بیچ رہ کر حاصل کی ہے۔موبائل ہمیں ورچوئل زندگی میں شب و روز الجھائے رہتا ہے۔ہم اپنی ذمہ داری بھول کر دوسروں کی زندگیوں کی تاکہ جھانکی میں لگ گئے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا مذہبی سب کی روح معدوم کرنے والا یہ اکلوتا موبائل ہے۔ہم اپنی عبادات کو بھی موبائل کے سہارے پائے تکمیل کو پہنچا تے ہیں۔عمرہ و حج ہو جمع ہو روزہ ہو زکات ہو یا کوئی اور خیر کا کام ہو جب تک اسے موبائل کی اسکرین پر قید نہیں کرتے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اہم فریضہ ہم سے چھوٹ گیا ہو۔ جھوٹ اتنا پھیل گیا ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے مرنے تک میں کام کا بہانہ لیکر موبائل سے ہی تعزیت دے دیتے ہیں۔سوچنے والی بات یہ ہے ہم صرف اب ویڈیو کال پر ہی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا پسند کرنے لگے۔بیٹا باپ سے دور ،بھائ بھائ سے دور،دوست دوست سے دور ہاں سب ایک ہیں کیوں کہ سب اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔اس لئے ویڈیو کال کر کے دلوں کو اطمنان مل جاتا ہے۔آپ کو بتا دوں اس طرح کی زندگی جیتے جیتے کئی ماں باپ بھائی بہن اور دوست اس دنیا سے رخصت ہوگئے اسی نہج پر زندگی گزارتے گزارتے کہ روزانہ یا ہفتہ میں ایک دو بار ہماری بات ہوتی رہتی ہے۔بہت سے لوگ کہیں گے کہ موبائل نے آسانی پیدا کر دی دور بیٹھے اپنے عزیز کا حال تو کم سے کم اب فورا پتہ چل جاتا ہے پہلے تو یہ سہولت تھی ہی نہیں، تو میں آپ کو بتا دوں موبائل وہ واحد ذریعہ بن گیا ہے جو اپنوں کو ملنے بھی نہیں دیتا۔یہی سوچ کر کہ بات تو ہو جاتی ہے۔ماں باپ کی خدمت بہن بھائیوں کے دکھ درد کو ساتھ رہ کر سمجھنے کی جو فضیلت اور ثواب تھا دن بہ دن اس سے دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم نے اپنوں سے دور رہنا سیکھ لیا ہے کیوں کہ ہمارے پاس ۔۔ موبائل ہے۔ از شباب پرویز نیو دہلی 00919368127846
تکلیف جن کو ہوتی تھی میرے وجود سے کس نے کہا کے غیر تھے باہر کے لوگ تھے پردے ہٹے جو عقل سے تو پھر پتہ چلا جو میرے حاسدوں میں تھے وہ گھر کے لوگ تھے ندیمؔ گُلانی
کون آیا ہے یہ سر بہ سر روشنی ہو گیا آج تو گھر کا گھر روشنی تیرگی راج کرتی تھی چاروں طرف راہبر بن گئی اب مگر روشنی ایک دن جائیں گے ہم بھی پی کے نگر ہم سے لپٹے گی تب دوڑ کر روشنی وہ حقیقت میں روشن ضمیروں میں تھے جن سے پایا ہے ہم نے ہنر روشنی اس کو آتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا بس ہو گئی چار سو جلوہ گر روشنی ہم نے سمجھوتہ تاریکیوں سے کیا یوں ہوا پھر بنی ہم سفر روشنی رتجگوں نے رچائی تھی محفل کوئی رقص کرتی رہی رات بھر روشنی شاذ و نادر اندھیروں سے پالا پڑا ورنہ تو زندگی کی بسر روشنی سچ پہ کامل بھروسہ ہے اپنا رشید پھر ابھر آئے گی ڈوب کر روشنی رشید حسرت
آنکھوں میں نہ پڑ جائے برسات تُمہیں کوئی بخشے ہے نئی وحشت ہر رات تُمہیں کوئی بس اِتنا سمجھ لیجے وابستہ نہِیں تُم سے بتلا تو نہِیں سکتا ہر بات تُمہیں کوئی آ جاؤ گھڑی بھر کو ماضی میں پلٹ جائیں کل مُجھ سے جھپٹ لے گی بارات تُمہیں کوئی ہو شِیرِیں سُخن ایسے، لب لعلِ یمنؔ جیسے دِل تُم کو کہے کوئی، جذبات تُمہیں کوئی ہے وقت کڑا، دیکھیں کیا فیصلہ آتا ہے دُھتکارے تُمہیں، رکھ لے یا سات تُمہیں کوئی ہر گام دُعا یہ ہے آرام قدم چُومے پیش آئے کِسی صُورت نا مات تُمہیں کوئی اِک حُسن کرِشمہ ہو، شہکار مُصوّر کا بس دان کرے ہر پل نغمات تُمہیں کوئی تفرِیق کرو خُود ہی ہے کون کھرا اِن میں اسباب فقط سونپے یا ذات تُمہیں کوئی مُسکان رہی لب پر ہر زخم رکھا مخفی حسرتؔ نہ جُھکا پائے، حالات تُمہیں کوئی رشِید حسرتؔ