Skip to content
  • by

عشق ذات

ناول: عشق ذات
از: پلوشہ صافی
قسط: 01

حارث صاحب صحن میں بار بار گھڑی کو دیکھ کر چکر کاٹ رہے تھے۔ شادی ہال جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی۔
“بیگم صاحبہ زرا جلدی کریں کم از کم تقریب ختم ہونے تک تو پہنچ جائے” انہوں نے بلند آواز میں صدا لگائی۔۔
نائلہ بیگم ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر باہر نکل آئی
“آپ نے گاڑی کا انتظام کیا” انہوں نے حارث صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
حارث صاحب: “ہاں شکیل کو کہہ دیا ہے وہ کسی کو بھیج دے گا۔۔۔۔۔۔ بچے تیار ہو گئے؟”
نائلہ بیگم: “جی بس آرہے ہیں”

گھر کے باہر ہارن کی آواز سن کر حارث صاحب گیٹ کھولنے بڑھ گئے
نائلہ بیگم:” بچوں جلدی آو گاڑی آگئی” وہ بلند آواز میں کہتے گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ تب تک حارث صاحب باہر زوہیب کے ساتھ سلام دعا کرنے میں مصروف تھے۔

نائلہ بیگم کو باہر آتا دیکھ، زوہیب ان کی طرف آیا
“اسلام علیکم آ نٹی” اس نے نائلہ بیگم کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
نائلہ بیگم: “وعلیکم اسلام کیسے ہو زوہیب، ماشااللہ بہت ہینڈسم لگ رہے ہو۔۔۔” انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

زوہیب نے آج کی تقریب کےلیے گرے قمیض شلوار اور کالے رنگ کا ویسٹ کوٹ زیب تن کیا تھا بال جیل سے پیچھے ٹکاے رکھے تھے۔
زوہیب: “شکریہ آنٹی آپ بھی کوئی کم حسین نہیں لگ رہی” زوہیب نے بھی جواب میں ان کی تعریف کر دی اور دروازہ بند کر کے سیدھا ہوا۔

عرفان: “کیسے ہو زوہیب” عرفان اپنے 2 سالہ چھوٹے بیٹے کو گود میں اٹھائے اپنی بیوی سائرہ اور 8 سالہ بڑے بیٹے سعد کے ہمراہ سامنے سے آرہے تھے۔
زوہیب:”بلکل ٹھیک عرفان بھائی” زوہیب نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔

عرفان اپنے بیوی بچوں کو گاڑی میں بیٹھا رہے تھے جب زوہیب نے ایک پیاری نسوانی آواز سنی
” اے ڈرائیور” زوہیب نے تجسس سے پیچھے دیکھا۔
وہ اونچی سینڈل پہنے ایک ہاتھ سے لمبے بال کانوں کے پیچھے اڑسھتی دوسرے میں کلچ اور مٹھائی کی ٹوکری پکڑے گرتی سنبھلتی ہوئی گاڑی کی طرف آرہی تھی۔
سفید لہنگے میں زوہیب کو وہ آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔ ہر حد کوشش کے باوجود زوہیب اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر مسکان نے ایک بار پھر زوہیب کو مخاطب کیا

مسکان:”سنو ڈرائیور جلدی سے گاڑی کی ڈکی کھولو یہ سامان رکھنا ہے”
زوہیب نے پہلے خود کو سر سے پیر تک دیکھا پھر مسکان کو
” کس اینگل سے میں اس کو ڈرائیور لگ رہا ہوں” اس نے دل میں سوچا
مسکان: “او ہیلو مسٹر سنائی نہیں دے رہا کیا” اس نے زوہیب کی آنکھوں میں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے کہا۔
اور زوہیب کو لگا اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر وہ واقعی کچھ پل کے لیے کچھ سننے کے قابل نہیں رہا
اپنے جذبات پر قابو کرتے ہوئے وہ جلدی سے پیچھے گیا اور ڈکی کھول دی مسکان سامان اندر رکھنے کے بعد اپنے بازو سہلاتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھی۔
زوہیب ڈکی بند کر کے ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور بیک ویو مرر میں مسکان کو دیکھتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔
******************

گھر سے ہال تک کے راستے میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ وقفے وقفے سے بیک مرر میں پیچھے مسکان کو دیکھتا رہا جو کبھی خود کو سنوارتی کبھی اپنی امی اور بھابھی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتی اور کبھی اپنے بھتیجے کو ہنساتی
زوہیب گاہے بگاہے حارث صاحب کے بات کا بھی جواب دیتا۔
تینوں عورتیں پیچھے سیٹ پر بیٹھی تھیں جبکہ حارث صاحب فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔ اور عرفان انہیں رخصت کر کے گھر پر ہی رکا تھا ۔

*****************

ہال پہنچ کر ستارہ جیسے مسکان پر جھڑپ پڑی
ستارہ:” کتنی دیر کر دی یار کب سے انتظار کر رہی ہوں جلدی چلو آپی بھی آگئی ہے” اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی کہا۔۔
مسکان:”صبر یار اترنے تو دو” اس نے لہنگا اٹھائے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا۔
باقی سب بھی گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔ زوہیب تب تک ڈکی کھول کر ٹوکری نکالے ان کی طرف آگیا مسکان نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے ٹوکری پکڑی اور ستارہ کے ساتھ تقریبا بھاگتے ہوئے ہال کے اندر چلی گئی۔
زوہیب وہی کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا جب تک کہ وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ پھر وہ بھی مردانہ ہال کی طرف گامزن ہو گیا۔
**********************

حارث صاحب:” سب ٹھیک ہے ” انہوں نے سٹیج پر جا کر شکیل صاحب سے پوچھا جو اپنے بیگم ثمرین کو کچھ ہدایت دے رہے تھے۔
شکیل صاحب: “اب پہنچ رہے ہیں آپ ” انہوں نے حارث صاحب کی آواز پر پلٹ کر کچھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
حارث صاحب:” بس تم تو جانتے ہو ان عورتوں کے کام جتنا بھی کہو جلدی تیار نہیں ہو سکتیں” انہوں نے بے بسی سے کہا۔

مسکان: “واو ماشااللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے آپی۔ آج تو ہونے والے جیجو آپ پر فدا ہوجائے گے” ہال کے برائڈل روم میں جاتے ہی وہ آپی کی تعریف کرنا شروع ہوگئی جو اس وقت دلہن بنی سبز لباس میں اپنے منگنی کے تقریب کے لیے تیار بیٹھی تھی۔
کومل:” ویسے تم لوگوں نے آنے میں بہت دیر کر دی مسکان اتنا تو دلہن ہو کہ مجھے تیار ہونے میں وقت نہیں لگا جتنا تمہیں” اس نے خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
مسکان:” نہیں آپی میں تو کب سے تیار تھی گاڑی دیر سے آئی” اس نے اپنے دفاع میں گاڑی دیر سے آنےکا بہانہ کیا اور رخ موڑ لیا۔

ستارہ اپنا بیگ سمیٹتے ساتھ ان کی باتیں سن رہی تھی مسکان کی بات سن کر اس نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا
” بس بس ہمیں مت بتاو ضرور بھول گئی ہو گی وقت دیکھنا” مسکان نے اسے کہتے سنا۔
کومل:” اچھا اب بس بھی کرو چلو میری اچھی سی تصویریں لو” یہ کہہ کر وہ پوز بنا کر بیٹھی جب اس نے مسکان کو بلند آواز میں آہ و پکار کرتے سنا
مسکان:”یا اللہ میرا موبائل” وہ ادھر ادھر جاتی ہر چیز ہٹا کے دیکھتی موبائل کے تلاش میں پریشان ہو گئی۔
ستارہ”کہاں رکھا تھا”؟ ستارہ نے بھی نظریں دوڑائی
مسکان:”کلچ میں تھا”
ستارہ:” کلچ کہاں ہے”
مسکان:”وہی تو نہیں مل رہا” وہ اب پریشانی کے عالم میں سر پر ہاتھ رکھے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کومل:” پریشان مت ہو مل جائے گا رِنگ کر کے دیکھو” اس نے ان دونوں کو تجویز دیتے ہوئے کہا۔
مسکان:” اففففف موبائل تو میرا سائلنٹ پر ہے” اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔
ستارہ:” لو جی اسی لیے میں تمہیں بُھلکڑ کہتی ہوں۔ ہر چیز بھول جاتی ہو”
مسکان نے بنا کچھ کہے صرف اسے دیکھا۔ اس وقت وہ یہ سوچنے میں مصروف تھی کہ کلچ کہاں رہ گیا ہے۔۔۔
اچانک ایک جھٹکے سے وہ اٹھ کھڑی ہوئی
“شاید گاڑی میں رہ گیا ہے” اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا اور باہر کی طرف بھاگی۔
باہر ہال کے سرے پر وہ چارو طرف نظر دوڑاتی گاڑی کو تلاش رہی تھی۔
ستارہ:”ملی گاڑی” ستارہ بھی اس کے ساتھ پارکنگ میں دیکھنے لگی
مسکان:” نہیں، نہ گاڑی دکھ رہی ہے نہ وہ ڈرائیور” مسکان کے اضطراب میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔
ستارہ:”جلدی کرو یار آپی کو سٹیج پر لے جا رہیں ہیں ،
کس کے ساتھ آئے ہو تم لوگ”
مسکان:” تھا ایک لمبا چوڑا لڑکا”
ستارہ:”نام کیا ہے اس کا؟”
مسکان:” پتا نہیں، بابا کو پتا ہوگا وہ پورا راستہ اس سے باتیں کرتے رہے ہیں” اس نے جیسے خود سے ایک حل سوچا۔

ہال کے اندر حارث صاحب شکیل صاحب کے ساتھ کھڑے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔
مسکان اور ستارہ تیز رفتار سے چلتی ان کے پاس آئی۔
مسکان:”بابا” اس نے انہیں مخاطب کیا “بابا ہم کس ڈرائیور کے ساتھ آئے ہیں” حارث صاحب کو اپنی طرف متوجہ پا کر اس نے فورا سوال کیا۔
حارث صاحب:” کیوں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر انہوں نے کہا۔
مسکان:” جی بابا بس کچھ سامان رہ گیا ہے گاڑی میں آپ بتائیں اس کا نام ہم ڈھونڈ لیں گے” ستارہ کے لب کھولنے سے پہلے ہی مسکان نے چھٹ سے کہا اسے خوف تھا موبائل گم کرنے کا سن کر کہیں بابا سب کے سامنے نہ ڈانٹ دیں۔
حارث صاحب:” ہم تو زوہیب کے ساتھ آئیں ہیں بیٹا”
ستارہ:”زوہیب کے ساتھ” اس نے حیران ہو کر کہا۔ مسکان اس کی طرف پلٹی
مسکان:” تم جانتی ہو اس کو”
ستارہ:” ہاں”
مسکان: “اوکے بابا شکریہ” حارث صاحب کو کہتے ہوئے وہ ستارہ کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑی۔

مسکان:” تم کیسے جانتی ہو اس ڈرائیور کو” اس نے ستارہ کا ہاتھ جھنجوڑتے ہوئے کہا
ستارہ:”ھاھاھا تم سے کس نے کہا وہ ڈرائیور ہے پاگل۔ اتنا کول لڑکا تمہیں ڈرائیور لگا ” ستارہ نے اس کی کم عقلی پر ہنستے ہوئے کہا “زوہیب، عثمان بھائی کے چھوٹے بھائی ہے آپی کے دیور”

مسکان، ستارہ کے اس انکشاف پر شاکڈ کھڑی اسے دیکھنے لگی۔ کچھ دیر پہلے اسے آپی کے دیور کو بار بار ڈرائیور مخاطب کرنے پر ندامت کا احساس ہوا۔ وہ یہ بات ستارہ کو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ستارہ اس کا کتنا مذاق اڑاتی
ستارہ:” اب چلو بھی۔۔۔۔ سارہ فنکشن یہی گزارنا ہے کیا۔۔۔۔ زوہیب مردوں کے سائیڈ پر ہوگا” اس نے مسکان کو پکارتے ہوئے کہا اور آگے چل پڑی۔

***************

زوہیب گاڑی پارک کر کے ہال میں داخل ہوا اور مردوں کے ساتھ سلام دعا میں مصروف مبارکباد وصول کرتے عثمان کے پاس آیا اور سرگوشی کی
“بہت خوش لگ رہے ہو دلہے میاں”
عثمان:” کہاں گم ہو گئے تھے تم” اس نے زوہیب کے سینے پر کُہنی مارتے ہوئے کہا
زوہیب:” کیا کروں بھائی آپ کے سسرال والوں کو لینے گیا تھا۔ اچھے خاصے لوگ ہے ایک ایکسٹرا گاڑی نہیں لے سکتے۔” اس نے منہ بنایا۔
عثمان نے صرف اسے گھور کے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔

عثمان کے ہمراہ چلتے مہمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی اس کا ذہن مسکان کی طرف بھٹک رہا تھا۔ وہ کسی نہ کسی کام کے سلسلے سے یا امی سے کچھ کام ہے کا بہانہ کر کے کئی دفعہ ہال کے لیڈیز سائیڈ پر بھی گیا لیکن وہ سرمئ آنکھوں والی لمبے کالے بالوں والی سفید لہنگا اونچی سینڈل پہنے پری اسے نظر نہیں آئی تھی۔
زوہیب:” کہاں غائب ہوگئی ایسے۔ ہونا تو یہی چاہیئے” اس نے مایوسی سے واپس مردوں کے سائیڈ پر آتے سوچا تھا۔

*******************

وہ دونوں مردوں کے سائیڈ، ہال کے داخلی دروازے پر کھڑی اندر جھانک رہی تھی۔
ستارہ:” اندر جانا پڑے گا یہاں سے نظر نہیں آرہا ”
مسکان:” اتنے مردوں میں اندر کیسے جائے برا لگے گا” اسے شرم محسوس ہوئی۔ “اگر چاچو نے دیکھ لیا تو کیا کہے گے” اس نے ستارہ کے ابو، شکیل صاحب سے سامنا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جو اب مردوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف نظر آرہے تھے۔
ستارہ:”کچھ تو کرنا پڑے گا یہاں کھڑے تو نہیں رہ سکتے”
ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کہ سامنے سے مسکان کا 8 سالہ بھتیجا سعد پیسے ہاتھ میں مڑوڑتا باہر کی طرف آتا نظر آیا۔
مسکان:” سعد ادھر آو” اس نے سعد کی طرف اشارہ کیا
سعد غیر متوقع طور پر اپنی پھپھو کو دیکھ کر بھاگتے ہوئے گیا
سعد:” آپ یہاں کیا کر رہی ہو پھپھو ” سعد نے معصومانہ انداز میں کھلکھلا کر پوچھا۔
مسکان:” تم ان انکل کو جانتے ہو جس کے ساتھ ہم ہال آئیں ہیں” مسکان نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
سعد:” زوہیب بھائی کو” اس نے خوشگوار حیرت سے کہا “ہاں وہ تو میرے فرینڈ ہے۔ دیکھے یہ پیسے بھی انہوں نے دیے” اس نے اپنے ہاتھ اوپر کر کے مسکان کو پیسے دکھائے۔
مسکان:” اچھا جاو انہیں بلا کر لاو” اس نے ایک بار پھر سعد کی بات کو نظر انداز کر کے کہا۔
سعد جو پر اسرار طور سے مسکان کے اچھے رد عمل کا منتظر تھا بے دلی سے واپس اندر کی طرف گیا۔

“زوہیب بھائی” سعد نے تیزی سے زوہیب کا ہاتھ جھنجوڑ کر متوجہ کیا۔ “میری پھپھو آپ کو باہر بلا رہی ہے”
زوہیب:” کونسی پھپھو” زوہیب کو لگا اسے سعد کی بات سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے
سعد:” ارے میری پھپھو مسکان” سعد تیزی سے کہہ کر وہاں سے بھاگ گیا
زوہیب کو اب بھی یقین تو نہیں آیا لیکن مسکان کا نام سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک بار پھر اسے آج کی محفل میں رنگ چڑھتا محسوس ہوا۔

************************
جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *