ایک خاندان جو کہ اپنی زندگی بہت خوشحالی میں گزار رہا تھا۔جو ماں،باپ اور بیٹے پر مشتمل تھا۔ اور وہ گاؤں میں رہتے تھے اور ایک انہوں نے بیٹھے بیٹھے شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔وہ سوچ رہے تھے کہ اپنے بیٹے کو اچھے سکول میں داخل کروانا اور اس کا مستقبل سنوارنا اور ایک دن وہ شہر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ انہوں نے ایک گھر خریدا جو کہ ایک فیکٹری کے قریب تھا اس کے قریب ایک بہت بڑا سکول تھا۔
اس سکول میں انہوں نے اپنے بیٹے کو داخل کر وا دیا اور بچہ خوشی خوشی سکول جانا شروع ہو گیا۔باپ نے اپنا کاروبار شروع کر لیا۔کاروبار بھی ٹھیک چل رہا تھا، لیکن ایک دن ان کا بچہ بیمار ہو گیا ۔ماں باپ قریبی کلینک پر لے کر گئے اس نے دوائی دی جس سے وہ ٹھیک ہو گیا ۔لیکن انکا بیٹا اکثر بیمار رہنے لگا وہ دوائی لے کر دیتے تو وہ ٹھیک ہو جاتا آہستہ آہستہ وقت گزر رہا تھا پھر انکا بیٹے زیادہ تر بیمار رہنے لگا۔ اس کی ماں پریشان رہتی کہ میرا بالکل ٹھیک تھا اسے کیا ہو گیا ہے۔ لیکن انکو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہ اس کے لئیے مضر صحت ہے۔گاؤں میں صاف اور سرسبز ماحول میں رہتے تھے صاف و شفاف ہوا تازہ سبزیاں تازہ خوراک کھاتے تھے۔ یہاں وہ فیکٹری کے نزدیک آلودہ ماحول میں رہتے تھے جس سے ان کے بیٹے کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے ۔ بیٹے کی ماں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہم اسے کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں جو ہمارے بیٹے کا علاج کرے مجھ سے اپنے بیٹے کی ایسی حالت نہیں دیکھی جاتی تو وہ اسے ہسپتال لے کر جاتے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر اس کا چیک اپ کرنے کے بعد اس کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ ٹیسٹ رپورٹس دیکھنے کہ وہ انہیں کہتا ہے کہ آپ اپنے بیٹے پہلے کیوں نہیں لے کر آئے تو وہ کہتے ہیں کہ اسے ہلکا ہلکا بخار ہوتا تھا تو ہم پاس واقع کلینک سے دوائی لے دیتے تھے جس سے یہ ٹھیک ہو جاتا تھا ۔ ہم سمجھے معمولی بخار ہے۔ لیکن اب اس کو آرام ہی نہیں آ رہا تھا تو یہاں لے کر آئے ہیں ۔ کیوں کیا ہوا ماں چونک کر ڈاکٹر سے مخاطب ہوئی ڈاکٹر نے بتایا انکا بیٹا پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہو چکا ہے اور وہ آخری اسٹیج پر ہے۔یہ سننا تھا کہ والدین کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی انہیں لگا جیسے ان پر آسمان آ گرا ہو ۔ والدین کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے پھر بھی علاج کروانے کا سوچا جو والدین اپنی اولاد کے لئیے کرتے ہیں ۔ انہوں نے رات دن ایک کر دیئے پر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ انکا بیٹا اس جہانِِ فانی سے کوچ کر گیا ۔ ماں اس کے صدمے میں نہال پاگل ہو گئی ہر وقت بس یہی کہتی رہتی میرا بیٹا لا دو کبھی کہتی وہ آ گیا ہے ۔ اس کے لئیے کھانا بناتی اس کا یونیفارم تیار کرتی اور کہتی اس نے سکول جانا ہے اسے لیٹ ہو رہی ہے ۔ پر جو چلے جائیں وہ بھلا کہا واپس آتے ہیں۔ باپ ایک طرف بیٹے کی جدائی کا غم دوسری طرف بیوی کی حالت دیکھ کر اور غمگین ہو جاتا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر گاؤں واپس گاؤں چلا جاتا ہے اور اپنی بے بسی پر روتا ہے کہ کاش میں شہر نہ جاتا اور بیٹے کو نہ گنواتا۔ پر ہوتا وہی جو رضائے الٰہی ہے۔