وہ وقت بھی کیا وقت ہوا کرتا تھا جب کوئی کسی کی ایک آہ پر تڑپ جاتا تھا،
(بوڑھے ہارون نے جیسے اپنے دل میں چھپی بات کا اظہار کرتے ہوئے شارک سے کہا)
اب ان لفظوں کا درد کون پہچانے ہارون صاحب، آج کل وقت ہی کہاں ہے کسی کے پاس۔ چلیں اب چلتا ہوں میں بھی۔ آپ کا تو روز کا کام ہے ہمارا وقت ضائع کرنا۔ خدا حافظ۔
(شارک نے تلخی سے جواب دیتے ہوئے اپنی بات مکمل کی اور اپنا وجود اس ڈہلتی شام کے سرخ اندھیرے میں کہی گم سا کر دیا)
ו•••×
,
یا اللہ میری توبہ کو قبول فرما۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں کس ازیت سے گزر رہا ہوں، موم کی طرح پگہل رہا ہوں، ہر وقت وہ لمہے ستاتے ہیں مجھے۔ معاف کردے مالک
(منیر اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر اپنے بیتے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا کہ اس کی بیوی نے خاوند کا دھیان اپنی طرف مرکوز کیا)
آپ جاکر خود معافی کیوں نہیں مانگتے ان سے؟
(رمشا نے ہمیشہ کی طرح منیر کو سمجھاتے ہوئے مشورہ دیا)
تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب بہت آسان ہے میرے لیے؟
جس طرح آپ گڑگڑا کر آپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگتے ہیں تو اس کے بندے سے کیا غرض؟ پچیس سال اس انتظار میں گزار دیے کہ اپکو کبھی تو معافی ملے گی، پچیس سال؟ اہمیت جانتے ہیں اپ؟ نانی دادی بننے کے خواب تھے میرے۔ کیا خوب ہوتا کہ ان خوابوں کی تعبیر بھی ہوتی ہوئی پر کیا ملا گناہوں کی پرورش کر کے؟ وہی دکھ درد, وہی ازیت؟
ו••••×
تجھے یاد ہے وہ شوخ چنچل آدمی، جو لڑکیوں کی طرح چلا کرتا تھا؟
{پنکی نے اپنے (خسرا) باجی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا}
ہاں ہاں۔ وہ حسین بالوں والا نا؟ پنکی رے دوسروں کا مزاق اڑایا چھوڑ دے۔ اس بیچارے کی زندگی تو سمجھو تباہ ہی ہو چکی ہے تجھے خدا دا واسطہ اسے چھوڑ دے۔
ו••••×
وہوہ خوبصورت ترین صبح کس قدر حولناک ہو سکتا تھا شاید اس کا اندازہ میں کیا اس دنیا کا کوئی دوسرا شخص بھی نہیں لگا سکتا تھا۔
میری بیوی مجھ سے پیار کرتی ہیں اور ایک میں ہوں کہ حسینوں سے نظر نہیں ہٹتی میری۔ یار ویسے آج پنکی اور نوری سے ملنے کا بڑا دل کر رہا۔ (ایک تندرست آدمی روز کی طرح ورزش کے لیے آچکا تھا اور اب اسے کسی کا انتظار تھا کہ پیچھے سے پریس والے اپنے حواس سنبھالتے ہارون تک پہنچنا چاہتے تھے) وہ وقت بہت قریب تھا کہ کسی نے ہارون کے سر پر زور سے ڈنڈا مارا۔
آنکھ کھلتے ہی شدید روشنیوں کا میلہ اسکے سامنے تھا،بہت گہمہ گہمی سی ہرجگہ جیسے سوالوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، وقت کے گزرتے احساس ہوا کہ میرے سامنے پریس والے موجود ہیں۔ مجھ میں بہت سے سوال سمندر کی لہروں کی طرح اٹھ رہے تھے۔ اتنے میں مجھ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو شرم نہیں آئی اپنی بیوی کا قتل کرتے ہوئے؟ (میں حیران تھا کہ یہ کیا کہے جا رہے ہیں،) کہ کسی کا ایک اور سوال کانوں سے ٹکرایا۔ اپکو یہ تک احساس نہیں ہوا کہ جوان بیٹا گھر میں موجود تھا۔ اس کے سامنے اپنے آسکی ماں کی جان لے لی؟ ( یہ سسنا میرے لیے قیامت جیسا تھا، میرا جی چاہا کہ بھاگ کر اپنے بیٹے سے مل آؤں اور ان کے گھٹیا سوالوں کے جواب ان کے چہرے پر تہپڑ کی طرح دوں) پریس والوں کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ جگہ سناٹے میں تبدیل ہوتی گئی۔ اور مجھ میں سوالوں کا شور گونجنے لگا۔
رات کے 2:15 بجے مجھے آہٹ محسوس ہوئی ،کوئ بند کمرے میں داخل ہوا۔ چوکیدار مجھے گور گور سے دیکھنے لگا اور ساتھ ہی کہہ ڈالا کہ حقیقت جاننا چاہتے ہو ؟ اسکے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔ ہاں۔ چوکیدار نے اپنی بات شروع کی۔ آپ نے غلطی کی کہ اپنے بیٹے کی پسند کو ٹھکرایا۔ کاش کہ آپ اس کی ضد مان لیتے۔ اور اپنی بیوی کو نہ کھوتے۔ خیر اب افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ پر میں اپکو حقیقت سے محروم نہیں رکھنا چاہتا اس لیے سنیں آپ جہاں ہیں نہ آج اس کا زمیدار صرف اور صرف آپ کا اپنا بیٹا ہے۔ جی ہاں آپکی بیوی کا قتل کرنے والا منیر ہے۔ اور اس نے اس بات کا الزام آپ پر لگایا ہے ، بے ساختہ باپ کے لبوں سے نکلا ” یا اللہ ایسا بیٹا کسی کو نہ دے اور اسے بچوں کا پیار کبھی نصیب نہ ہو” یہ بولنا تھا کہ وہ زور زور سے رونے لگا۔ آپ حوصلہ رکھیں، صبر سے کام لیں اور بے فکر ہو جائیں کیونکہ جس وقت قتل کیا گیا آپ اس وقت گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے پوچھ گچھ کے بعد آپ رہا ہو جائیں گے۔
(عثمان کی بند آنکھوں سے آنسوں نکلا اور ایک جملہ تھا جو وہ بار بار بول رہا تھا)
❤️”اللہ بڑا انصاف والا ہے۔ اللہ بڑا انصاف والا ہے”❤️