احساس محبت

In افسانے
December 18, 2021
احساس محبت

احساس محبت

تمام گھر کی فضاء خاموش اور پرسکون تھی. نہایت تندہی کے ساتھ وہ سل پرشامی کبابوں کا مصالحہ پیس رہی تھی رات خاصی بیت چکی تھی پر اس نے جانتے بوجھتے یہ کام سب سے آخر میں رکھا تھا کیونکہ سل پر پیسنے کی مشقت کے بعد کسی اور کام کی ہمت نہیں رہتی تھی اور دن میں تو اس کے کام کبھی ختم ہی نہ ہوئے تھےاسی لیے اسنے سوچا تھا مصالحہ پیستے ہی سونے کے لیے چلی جائے گی

پر اب وہ کچھ دیر سے الجھن میں مبتلا تھی اسے اپنی کمر پر کسی کی نگاہوں کا ارتکاز مسلسل محسوس ہورہا تھا اور یقینا وہ نگاہیں ارتضی احمد کی ہی تھیں کئی دنوں سے وہ ارتضی کا یہ نیا انداز محسوس کر رہی تھی زبان کی بجائے وہ اکثر آنکھوں سے باتیں کرنے لگے تھے پر اب اس کے پاس ان باتوں کے جواب میں سوائے تاسف کے اور کچھ نہیں تھا وہ ان کی نگاہوں سے نگاہیں پھیرلیتی تھی اور وہ دل مسوس کر رہ جاتے تھے.

” کچھ چاہیے آپ کو ” .
کچھ کہنے کے لیے ان کا منہ کھلا پھر بند ہوگیا نجانے کیا کہنا چاہتے تھے .پر کہا تو صرف اتنا
” اور کتنا ٹائم لگے گا ”
” پندرہ بیس منٹ تو لگ جائیں گے ”
” اکیلی ہی لگی رہتی ہو فری سے بھی کہا کرو اس طرح جلد کام نبٹ جائے گا ”
ان کی بات پر وہ چند لمحے خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی. ” آپ کہتے ہیں تو کہہ دونگی “.
وہ اس کی بات اور اس سے پہلے والی خاموشی لمحوں میں سمجھ گئے اور کچھ شرمندگی سے سر جھکا کر اپنے کمرے کی طرف چلدئیے.انھیں یاد آگیا تھا کہ چند روز قبل وہ فری سے کچن میں کسی کام کے لیے ہی کہہ رہی تھی پر فری اس سے بحث کرنے لگی پھر تیز تیز چلتی اماں جان کے پاس چلی آئی اور دادی سے ماں کے روئیے کی شکاہت کرنے لگی ارتضی اس وقت اماں جان کے پاس ہی بیٹھے تھے.

فری اماں جان کی بے حد لاڈلی پوتی تھی اور انھیں یہ قطعا گوارا نہیں تھا کہ کوئی ان کی پوتی کو سخت بات کہے انھوں نے ارتضی سے کہا ” بلاو اپنی بیوی کو فورا اور کہو اس سے کہ خبردار جو آئندہ فری کو کسی کام کے لیے کہا بھلا سکول کالج پڑھنے والی لڑکیاں اپنی پڑھائی کریں گی یا چولھے چوکے میں اپنی جان کھپائیں گی “.اماں جان کا حکم اور ارتضی نہ مانیں ،یہ تو ہو نہیں سکتا تھا سو فورا چلا چلا کر اسے آوازیں دینے لگے ” نیہا ، نیہا ” وہ ائی تو حسب معمول انھوں نے ماں بیٹی کے سامنے اسے ڈانٹ کر رکھ دیا.شروع شروع وہ جب اسے اپنی ماں بہنوں اور بھائی کے سامنے ڈانٹثے تو دل کو بڑی تکلیف ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ ایک ٹیس بن گئی اور اب تو وہ ٹیس بھی نہیں اٹھتی تھی نجانے وجود میں کہاں جا دبی تھی اب اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا بھلا انسان کتنا اور کہاں تک برا مانتا چلا جائے.
*******

نیہا کا تعلق ایک پڑھے لکھے مہذب گھرانے سے تھا وہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی شکل و صورت میں زیادہ حسین نہیں تھی بس قبول صورت تھی مالی حالات بہت اچھے نہیں تھے تو بہت برے بھی نہیں تھے سو رشتے بھی کچھ خاص نہیں آئے اور جو آتے وہ ابو کو پسند نہیں آتے تھے .ہوتے ہوتے تینوں بھائیوں کی شادی ہوگئی بھابیاں الگ الگ مزاج کی تھیں پر امی ابو کے رعب میں رہتی تھیں نیہا کو پڑھنے کا شوق تھا اور ابو کو پڑھانے کااس لیے پڑھنے پڑھنے ڈبل ایم اے بھی کر لیا پر کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں آیا ابو کے گزرنے کے بعد چند ماہ تو حالات کنٹرول میں رہے پھر آہستہ آہستہ معاملات امی کے ہاتھ سے نکل کر بھابیوں کے ہاتھ میں جانے لگے.اس سے پہلے کے سب کچھ امی کے بس سے باہر ہو جاتا آخری آنیوالا عمر میں بارہ سال بڑے ہونے کے باوجود ارتضی احمد کا رشتہ قبول کر لیا گیا .

ارتضی چھ بہنوں اور ایک بھائی کے سب سے بڑے بھائی تھے چھوٹا مرتضی ان سے عمر میں سولہ سال چھوٹا تھا اس کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی ارتضی کے ابا گزر گئے تھے اماں نے کڑی محنتوں سے آٹھ بچوں کو پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا .ارتضی کی جاب لگی تو اماں نے پہلے دن ہی ان کے کان سے نکال دیا کہ جب تک چھ کی چھ بہنیں پار نہیں لگیں گی بہو گھر نہیں آئے گی چھ بہنوں کو پار لگاتے لگاتے ارتضی عمر کا پینتیسواں سال بھی پار کر گئے تھے لطیف جذبات کی جگہ چڑے چڑے پن اور بیزاریت نے دل میں گھر کرلیا اماں نے انھیں دنیا سے سینت سنبھال کر پالا تھا کیونکہ وہ اماں کے بڑھاپے کا سہارا اور سات بھائی بہنوں کے واحد کفیل تھے اس لیے اماں نے انھیں زمانے کی ہوا نہیں لگنے دی تھی گھر سے آفس اور آفس سے گھر ہی ان کی کل کائنات بن کر رہ گئے تھے زیادہ دوستوں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں تھی اماں کی مشکلوں اور تکلیفوں کا زمانہ انھوں نے دیکھا تھا سو خود سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی اپنی ذات سے اماں کو دکھی نہیں کریں گےاماں کا ہر حکم ان کے لیے حرف آخر تھا

وہ ان کی زندگی کے ہر معاملے میں تھیں شادی کی پہلی رات بھی انھوں نے ارتضی کو سمجھا دیا تھاکہ ” مرد کی زندگی میں یہ رات فیصلہ کردیتی ہے کہ آج کے بعد وہ پیرو مرشد ہوگا یا زن مرید ” .یہ بات ارتضی کی مردانہ انا پر کاری ضرب کی طرح لگی تھی اور انھوں نے پہلی رات ہی یہ منوا لیا کہ حکمرانی صرف انھیں کی چلے گی .نیہا چپ چاپ ان کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی.
*******

بعد کی زندگی بھی بڑی عجیب تھی شادی سے پہلے کی زندگی نیہا نے بڑے سکون سے گزاری تھی پر بعدکی زندگی ایک ہنگامہ خیز دور میں داخل ہوگئی تھی. چھ بہنوں کا آئے دن گھر میں آنا جانا لگا رہتا اماں خود تیز اور گرجدار آواز میں بات چیت کی عادی تھیں ہفتے بعد نیہا کا کام میں ہاتھ لگا تو اسنے ان ہنگاموں سے بچنے کے لیے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کر لیا اس پر نندوں کو سخت اعتراض ہوا کہ شاید زیادہ پڑھی لکھی بھابی انھیں اہمیت نہیں دے رہی اور جان چھڑا کر کام میں لگ جاتی ہے اماں نے یوں سزا دی کہ سارے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیااور پورے گھر کا بوجھ اکیلی نیہا کے کاندھوں پر ڈال دیااگر جو وہ تھوڑی دیر ساس نندوں کے پاس آبیٹھتی تو ان لوگوں کی چیختی چلاتی آوازوں میں اسے کوئی بات سمجھ نہیں اتی تھی وہ زیادہ تر چپ ہی رہتی پر یہ اماں کے نزدیک گھنا میسنا پن تھا.

اماں کا یہ معمول تھا کہ وہ روز ارتضی کو آفس سے گھر آنے پر اسکے کردہ نہ کردہ گناہ گنواتی تھیں اور پھر کہتی تھیں بلاو اپنی بیوی کو اور سمجھاو اسے کہ ہمارے گھر میں یہ سب نہیں چلے گا اور پھر ارتضی اماں کا حکم بجا لاتے ہوئے تقریبا روزانہ اسے سب کے سامنے ڈانٹتے تھے اور وہ حیرت سے انھیں تکتی رہتی تھی.ہر لڑکی کی طرح اس کے دل میں بھی ایک چاہنے والے شوہر کا تصور تھا پر نہیں جانتی تھی کہ اسکی قسمت میں صرف ڈانٹنے والا شوہر ہے.مزید ستم یہ ہوا کہ اولاد بھی باپ اور دادی کے رنگ میں ہی رنگتی چلی گئی بچے بھی اسے چیخ چیخ کر آرڈر دینے لگے .خاص کر فری تو پوری دادی پر گئی تھی اکلوتی ہونے کی وجہ سے دادی نے اسے ہتھیلی کا چھالا بنا لیا تھا شاہ میر اور شہیر ابھی چھوٹے تھے.

نیہا ہر ایک کی بات مان لیتی تھی پر اب جیسے جیسے فری بڑی ہو رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ فری اچھی سلیقہ مند بیٹیوں کی طرح گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائے.پر پہلے ہی قدم پر دادی پوتی اور ارتضی نے مل کر اسے اس کی اوقات بتادی تھی وہ چپ چاپ اپنے آپ سے ہی لڑ کر رہ گئی.پر اب ارتضی کا یہ نیا انداز اسے شدید حیرت میں مبتلا کیے دے رہا تھا یہ تب سے ہوا تھا جب سے وہ مرتضی کے پاس پندرہ دن دبئی میں رہ کر آئے تھے.دس سال قبل مرتضی جاب کے لیے دبئی گیا تھا ایک سال بعد اسنے وہیں ایک پاکستانی فیملی میں شادی کرلی .اماں پاکستان میں اس کے لیے لڑکی تلاش کیے بیٹھی تھیں یہ سنتے ہی کے اسنے وہاں شادی کرلی ہے آگ بگولہ ہوگئیں اور اسکی بیوی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اس لیے وہ خود سال دو سال بعد چند دن کے لیے پاکستان اجاتا تھا پر اپنی بیوی کو کبھی نہیں لایا.
**********
” یہ کیا پہن لیا ہے تمھارے پاس کوئی ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہیں”.
پچھلے سال عید پر بنایا جانے والا سوٹ پہن کر وہ شاہ میر اور شہیر کے اینول ڈے پر جانے کے لیے تیار تھی.ارتضی کی بات سن کر وہ حیرت سے اپنے آپ کو دیکھ کر چپ کی چپ رہ گئی کیا ارتضی نہیں جانتے تھے کہ زمانوں سے اس کی ضرورتیں اماں اپنی بیٹیوں سے پورا کرواتی تھیں وہ خود بھی اپنی طرف سے بےحد لاپرواہ ہو گئی تھی شادی کے بعد عورت کی خواہشات اس کے مرد کی خواہش کے تابع ہو جاتی ہیں. مرد خوش مزاج اور پرواہ کرنے والا ہو تو لاپرواہ عورت بھی خود پر توجہ دینے لگتی ہے اور اگر مرد ہی دھیان نہ دے تو عورت کی تمام خواہشات اس کے اندر ہی دم توڑ دیتی ہیں.
اسے خاموش دیکھ کر وہ خود اس کی الماری کی طرف بڑھ گئے پر اندر کا حال دیکھ کر انھیں اس کی خاموشی سمجھ آگئی ” اتنا گیا گزرا تو نہیں ہوں میں کہ میری بیوی سال میں ڈھنگ کے دو چار جوڑے بھی نہ بنوا سکے “.

ان کے تیکھے انداز پر وہ سر جھکا کر رہ گئی ” اماں سے کہہ دونگی وہ بنوا دیں گی “. اس کی بات سن کر انھیں احساس ہوا کہ وہ اس سےشکوےکا حق نہیں رکھتے انھوں نے کبھی اس کے ہاتھ میں پیسہ دیا ہی نہیں تھا وہ اپنی ساری کمائی اماں کے ہاتھ میں دیتے تھے شروع شروع جب کبھی اس نے اپنی ضرورتوں کے لیے پیسے مانگےتو وہ کہہ دیتے تھے اماں سے مانگا کرو.اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے وہ کمرے سے باہر نکل گئے.گاڑی ڈرائیو کرتے وہ مسلسل سوچتے رہے نجانے کتنا عرصہ ہوا ہمارے درمیان سے میاں بیوی والا رشتہ تو جیسے ختم ہی ہوگیا سوائے ضرورت کے اور کوئی بات ہی نہیں رہ گئی.یہ عورت جو میرے ساتھ بیٹھی ہے اسے میں اپنی بیوی بنا کر لایا تھا کتنی اجنبی اور لاتعلق ہوتی جارہی ہے مجھ سے. نہ کسی ضرورت کے لیے کہتی ہے نہ کوئی شکایت کرتی ہے نہ ہی کبھی جھگڑتی ہے بیوی ایسی تو نہیں ہوتی.
بیوی تو ، بیوی تو ماریہ جیسی ہوتی ہے ہنستی کھلکھلاتی شوخ رنگوں میں سجی ،گھر میں رونق لگانے والی ،فرمائشیں کرنے والی ،بچوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے والی ،محبت کی خوشبو سے گندھی .یہ نیہا ویسی کیوں نہیں. انھیں ایک شکایت سی ہوئی پر اگلے ہی لمحے انھیں مرتضی کے کہے الفاظ ہاد آئے تو وہ اندر ہی اندر ندامت کے سمندر میں غرق ہونے لگے وہ جو اسے کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے دوبارہ اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ کرسکے.

*******
” بھائی آپ کو بریانی کیسی لگی “.
ماریہ نے بہت اشتیاق کے ساتھ ارتضی سے پوچھا تھا
” اچھی ہے “. اتنے مختصر جواب پر ماریہ کا منہ بن گیا اس نے اسی اشتیاق سے مرتضی سے پوچھا ” اوسم ، زبردست ، تم سے اچھی بریانی دنیا میں کوئی اور نہیں بنا سکتا “.
اسکی تعریف ہر وہ کھل اٹھی ” بس ،بس ،اب اتنا بھی نہ چڑھاو .پر لگتا ہے بھائی کو اتنی اچھی نہیں لگی شاید نیہا بھابی زیادہ اچھی بناتی ہونگی .کیوں بھائی ایسا ہی ہے نہ”. جوابا ارتضی خاموش رہے ایک تو وہ کچھ تھے ہی کم گو دوسرے عورتوں سے جلد فری نہیں ہوتے تھے مرتضی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ماریہ کو منع کر دیا
ارتضی کو ان کی کمپنی کی طرف سے پندرہ دن کے لیے ایک سیمینار اٹینڈ کرنے دبئی بھیجا گیاتھا مرتضی انھیں رسیو کرنے ائیرپورٹ آیا تھا اور ہوٹل کی بجائے اپنے گھر لے آیا انھوں نے منع بھی کیا پر خون کی کشش اور باپ کی طرح پالنے والی بڑے بھائی کو ہوٹل میں ٹہرانا اسے اچھا نہیں لگا ماریہ بھی اتنے سالوں میں پہلی بار کسی سسرالی رشتےدار کو اپنے گھر دیکھ کر خوش تھی اور خوب چہک رہی تھی
یہ ایک اور طرح کی دنیا تھی جس میں صرف مرتضی ماریہ اور ان کہ دو بچے تھے ایک دوسرے سے جڑے ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے .
ماریہ کچن میں کام کرتی تو مرتضی بھی اسکا ہاتھ بٹانے کھڑا ہوجاتا ، مرتضی لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتا تو ماریہ دو کپ کافی لے کر اجاتی اسکے ساتھ بیٹھ کر دیکھتی جاتی اور دنیا جہان کی باتیں بھی کرتی جاتی ،روز دونوں کسی نہ کسی بات پر ہلکا پھلکا جھگڑا کرتے روز کوئی نہ کوئی ایک دوسرے کو منا لیتا .مرتضی روزانہ آفس سے گھر آتے ہوئے کچھ نہ کچھ لے کر آتا کبھی ماریہ کے لیے کبھی بچوں کے لیے اور کبھی گھر کی سجاوٹ کا سامان .

ماریہ روز اسکی پسند کا کھانا بناتی اور روز اسکی پسند کا لباس پہن کر اسکے انتظار میں تیار رہتی جب وہ اتا تو پوچھتی میں کیسی لگ رہی ہوں جواب میں وہ اس کے کان میں کچھ ایسا کہتا کے وہ شرم سے گلنار ہو جاتی اور بناوٹی غصہ دکھانے لگتی .بظاہر ارتضی ان دونوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے پر ان کا والہانہ انداز اندر ہی اندر اس ارتضی کو جگاگیا جس میں محبت تھی چاہت تھی جو سوچا کرتا تھا جب میری شادی ہوگی تو ایسا ہوگا ویسا ہوگا محبت کے والہانہ انداز ہونگے پر بڑھتی عمر کے ساتھ ان جذبوں پر چڑچڑے پن اور بیزاریت کے پردے پڑ گئےبہنوں کی شادی کرتے کرتے ان کی اپنی شادی کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور جب شادی ہوئی تو پہلے دن سے ہی ماں اور بہنوں نے کان میں ڈال دیا کہ زیادہ پڑھی لکھی لڑکی سر چڑھ جاتی ہے بیوی کی زیادہ تعریف نہ کرناسو پہلے ہی دن سے نیہا کی ہر اچھی بات ان کے لیے ناقابل تعریف ہوگئی.
جب وہ پوچھتی میں کیسی لگ رہی ہوں تو وہ کہتے جیسی ہو.جب پوچھتی کھانا کیسا بنا ہے تو کہتے بس ٹھیک ہے اماں زیادہ اچھا بناتی تھیں آہستہ آہستہ اسنے پوچھنا ہی چھوڑ دیا ائے دن وہ اماں کے اس کی غلطیاں بتانے پر اسے ڈانٹتے رہتے تھے شروع شروع وہ اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتی تھی پر وہ آگے سے کہتے کیا اماں جھوٹ بول رہی ہیں تو وہ چپ ہو جاتی اور پھر وہ چپ ہی رہتی .وہ چپ چاپ سب کی مان لیا کرتی تھی اس لیے کبھی کسی سے جھگڑی نہیں. نا چاہتے ہوئے بھی وہ ہر ہر بات میں نیہا اور ماریہ کا موازنہ کر رہے تھے پر اپنا اور مرتضی کا نہیں.

جس دن ان کی وطن واپسی تھی اس سے ایک رات پہلے وہ شاید ٹوتھ پک لینے کچن کی طرف آئے تھے پر ماریہ اور مرتضی کی آوزیں سن کر چند قدم دور ہی رک گئے” تم دونوں بھائی کتنے مختلف ہو مرتضی. شکر ہے تم ارتضی بھائی جیسے بالکل نہیں ہو ورنہ میرا تمھارا ایک دن گزارہ نہ ہوتا. پتہ نہیں اپنی بیوی کے ساتھ کیسے بی ہیو کرتے ہوں گے “. وہ شاہد اس کے لیے کافی بنا رہی تھی ” ہونہہ ، جیسے ہیں ویسا ہی بی ہیو کرتے ہیں ” .یہ آواز مرتضی کی تھی

” یو مین روڈ ” . “سو مچ روڈ ، میں نے کبھی اپنے بھائی بھابی کوہنستے بولتے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ بھائی کو سب کے سامنے بھابی کو ڈانٹتے ہی دیکھا نہ ہی کبھی ان کے لیے کچھ لاتے دیکھا آفرین ہے ہماری بھابی پر جو پچھلے سترہ اٹھارہ برس سے بھائی کے خشک بے رنگ روئیے برداشت کر رہی ہیں پر ایک حرف شکایت زبان پر نہیں لاتیں اماں اور بہنوں کے مسلوں میں بھائی نے اپنی زندگی کبھی جی ہی نہیں اور نہ ہی بھابی کو جینے دی ” یہ وہ الفاظ تھے جو ارتضی کا دل کاٹ گئے واپس آنے کے بعد ایک ایک لمحہ ان کا احتساب بن گیا انھیں اپنی ازدواجی زندگی کی بےرونقی ہر طرف چھائی ہوئی نظر آئی .صبح سے لے کر رات تک وہ جذبات سے عاری گھریلو مشین کی طرح کاموں میں جتی رہتی ،رات کو بستر پر آتے ہی تھکن سے چور منہ پھیر کر سو جاتی .اس کی خاموشی ان کے لیے سزا بنتی جارہی تھی
********
سکول سے واپسی پر وہ اسے اور بچوں کو گھر چھوڑ کر چلے گئے. شام میں آئے تو کافی سارے شاپنگ بیگز ہاتھ میں تھے رات وہ کمرے میں آئی تو وہ اس کے انتظار میں جاگ رہے تھے بیڈ پر شوخ رنگوں والے نئے چار پانچ سوٹ بکھرے ہوئے تھے ایک ڈبہ ان کے ہاتھ میں تھا حیرت میں ڈوبی وہ ان کے قریب آئی تو انھوں نے ڈبہ کھول کر اس کے سامنے کیا جس میں رنگ برنگی چوڑیاں قرینے سے سجی تھیں حیرت میں گم صم دیکھتی رہی نہ کچھ پوچھا نہ کہا پر جب انھوں نے خود اس کا ہاتھ تھام کر چوڑیاں پہنانا چاہیں تو اسنے ایک دم اپنا ہاتھ کھینچ لیا” مجھے اب نہ ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی شوق “.
انھوں نے دکھ سے اسے دیکھا .” ضرورت ہے سہاگن ہو کوئی بیوہ نہیں اور سہاگنوں کے ہاتھ خالی اچھے نہیں لگتے ”
ایک استہزائیہ ہنسی اس کے چہرے پر چھا گئی .

” جسم ضرور سہاگن ہے پر میرے دل نے برسوں سے بیوگی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے “. وہ تڑپ سے گئے
” ایسی باتیں نہ کرو نیہا میں مانتا ہوں میں نے تمھارے ساتھ زیادتی کی ہے کبھی تمھیں محبت کا احساس نہیں دیا کبھی تمھاری ضرورتوں کا خیال نہیں کیا پر اب ایسا نہیں ہوگا . پلیز میرا یقین کرو تمھارے لیے خدا نے میرا دل بدل دیا ہے “. اسنے حیرت سے ارتضی کو دیکھا

” کیوں ، اب کیوں ، کیا بدل گیا مجھ میں ، وہی تو ہوں بلکہ اب تو پہلے سے بھی زیادہ بدحال ہوگئی ہوں. بڑی ہی مشکلوں سے احساس اور خواہشات کا گلہ گھونٹا ہے میں نے اپنے وجود میں ، اب مجھ پر مہربان ہوکر پھر سے اذیت میں مبتلا نہ کریں مجھے. ویسے بھی اب ہمارے اپنے لیے سوچنے کا کیا وقت رہ گیا اب تو بچے جوان ہوگئے ہیں “.
ارتضی ندامت کا گھونٹ بھر کر رہ گئے ” نیہا مجھے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کا ایک موقع تو دو “.
” آپ نے پہلے بھی اپنے دل کی کی اور اب بھی اپنے دل جیسی کرنا چاہ رہے ہیں پر کیا اٹھارہ سال کی زیادتیوں کا ازالہ کر پائیں گے آپ “. وہ ان کے دل پر چوٹ لگا کر ایک ایسا سوال ان کے لیے چھوڑ گئی تھی جس کا جواب اب انھیں زبانی نہیں عملی طور پر دینا تھا.
*******
اگلے دن وہ آفس سے واپسی پر اماں کے پاس بیٹھے چائے پی رہے تھے تبھی فری ہاتھوں میں کافی سارے کپڑے اٹھائے چلی آئی ” دیکھیں دادی جان کل یہ سارے کپڑے میں نے امی کو مرمت کرنے کے لیے دئیے تھے پر انھوں نے ابھی تک انھیں ہاتھ بھی نہیں لگایا “. وہ نروٹھے انداز میں دادی سے لگ کر بیٹھ گئی .جب بھی اسے کوئی کام جلد کروانا ہوتا تو وہ یہی طریقہ اختیار کرتی تھی.
” دیکھ رہے ہو اپنی بیوی کا نکما پن ، بلاو اسے اور کہو کوئی کام وقت پر بھی کردیا کرے ” .انھوں نے ایک نظر دونوں دادی پوتی کو دیکھا پھر بولے ” نہیں اماں یہ کام اس کا ہے اور اب اسے خود ہی کرنا ہے اور سمجھانے کی ضرورت اسے نہیں ہے اماں آپ کو ہے فری کو پرائے گھر جانا ہے بد سلیقہ اور پھوہڑ پن ساتھ لیکر گئی تو اگلے ساری عمر اسے بھی کوسیں گے اور ہمیں بھی.اسے سمجھائیں کے اپنی ماں پر بوجھ بننے کی بجائے اس کا سہارا بنے گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے .کالج میں پڑھنے والی لڑکیاں صرف پڑھتی ہی نہیں ہیں گھروں میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں “.
وہ ایک خشمگین سی نگاہ فری پر ڈالتے کمرے میں چلے گئےاور وہ ان کے سامنے نظر نہ اٹھا سکی جبکہ اماں بیٹے کے بدلے تیور دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھیں
ادھر نیہا کچن میں کھڑی سب کچھ سنتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ جن باتوں کا احساس ارتضی کو آج ہورہا ہے ان باتوں کی سمجھ انھیں پہلے کیوں نہ آئی .بس اپنی انا کے ہاتھوں اذیت ہی دیتے رہے .پھر اچانک ایک خیال سے چونک گئی کل تک جس انا کے ہاتھوں وہ مجبور تھے کیا آج اسی انا کے ہاتھوں وہ مجبور نہیں ہورہی .اٹھارہ سال لگے ارتضی کی انا کی دیوار ٹوٹنے میں پر اس کی انا کو کسی اماں اور چھ بہنوں نے سہارا نہیں دے رکھا تھا اس لیے وہ اس دیوار کو بلند ہونے سے پہلے ہی توڑ کر کمرے میں آگئی .ارتضی باتھ روم میں تھے باہر آئے تو وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی وہی چوڑیاں پہن رہی تھی جو وہ کل اس کے لیے بڑے ارمان سے لائے تھے اس نے شیشے میں انھیں دیکھا تو ان کی نگاہوں کے والہانہ پن کو محسوس کر کے ایک بار پھر سرنگوں ہوگئی.
**********
از
کرن نعمان