کہتے ہیں کہ ایجاد سے پہلے ضرورت وجود میں آتی ہے یعنی ایجاد کی تخلیق کے پیچھے ضرورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انسان نے وقت اور اس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ وقت سے آگے نکلنے کی کوشش کی ہے، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔ زمین کے رقبے اور آبادی کے تناسب میں واضع کمی اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی رفتار اور تیز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن اشرف المخلوقات کا تاج پہننے والی یہ مخلوق آج بھی اپنے تاج کی لاج رکھنے میں کسی نہ کسی طرح ناکام ضرور ہے۔ جس کی چند مثالیں آپ کے سامنے ہیں
نمبر1. جب کوئی تخلیق اپنے خالق کے ہونے کا انکار کرے، یا اسے پہچاننے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے، تو سمجھ لیں کہ وہ مخلوق اپنے پہلے ہی امتحان میں بری طرح فیل ہو چکی ہے۔ کیونکہ جب بھی کوئی تخلیق ہوتی ہے اس کے خالق کا وجود ہونا ایک فطری سی بات ہے اور انسان اپنے اس بنیادی سبق کو ہی بھلا بیٹھا ہے۔
نمبر2. واضح نشانیوں اور ہدایات کے باوجود جب انسان صراطِ مستقیم چھوڑ کر دوسرے رستوں پہ اپنی منزل ڈھونڈنے نکل پڑے تو سمجھ لیں کہ عقل کی دوسری سیڑھی سے بھی اس کا پاؤں پھسل چکا ہے۔
نمبر3. کامیابی ، جو کہ روز ازل سے اشرف المخلوقات کی کوششوں کا محور اور اس کی منزل ہے۔ لیکن جب اسی کامیابی کی طرف اسے بلایا جاتا ہے تو وہ ، نہ صرف اس دعوت کو نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس بلاوے کو اپنی کامیابی کے رستے میں رکاوٹ بھی سمجھتا ہے۔
انسان چاہے جتنا بھی بلندیوں کو چھو لے ، وہ چاہے سمندروں کا سینا چیر دے یا چاند کا سفر ہموار کر لے، چاہے فضاؤں میں اڑ لے یا ہواؤں کا رخ موڑنا سیکھ لے وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے سب کچھ اپنی زندگی آسان بنانے کے لیے کر رہا ہے۔ اس کی یہ ساری تگ و دو اپنے وجود کو اس کرہ ارض پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم دیکھنے کی کوشش ہے۔ لیکن جب پتنگ اپنی ڈور سے کٹ کر خود اڑان بھرنا شروع کر دے تو وہ زیادہ دیر ہوا میں نہیں رہ سکتی، جب مخلوق اپنے خالق کو چھوڑ کر کامیابی اور ناکامی کے اپنے اپنے رستے بنا لیں تو پھر سمجھ لیں وہ اشرف المخلوقات ہونے کے شرف سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
کیٹگری میں : افسانے