سیاسی کشیدگی ۔۔۔حکومت اور اپوزیشن کاسمجھوتا

In دیس پردیس کی خبریں
December 31, 2020

ہمارے ملک کا بڑا عجیب المیہ ہے کہ کرسی کی جنگ نے ہمیں ہر طرح کی انسانیت سے گرا دیا ہے۔ بنتے ہوئے سیاسی گرداب کی وجہ سے ملکی سلامتی سے لے کر ملکی معیشت تک خوفناک حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور حکومت بے بسی کے عالم میں ہیں۔عام آدمی اس سوچ میں پڑا ہوا ہے کہ حالات کب سدھریں گے؟ کب ملک کے ان تینوں بڑے سٹیک ہولڈرز کو ہماری فکر ہوگی۔ کب ایسی پالیساں بنیں گی جس سے آنے والا وقت سکون لا سکے گا۔آگ کو آگ سے بجھانے کی غلطی مزید کئی غلطیاں اور نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

اس وقت یہی صورتِ حال چل رہی ہے۔ حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کواپنی اپنی انا کی کسوٹی پر پرکھ رہی ہے۔ دونوں فریقین کے ذہنوں میں ملک کے عام عوام کے حالات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہاں اگریہ مان بھی لیاجائے کہ موجودہ وزیر اعظم بہت ایماندار ہیں اور عوام کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ عوام کے لیے ہی یہ روز روز کی بک بک سے سمجھوتا کر کے جان کیوں نہیں چھڑوا لیتے اور پوری توجہ صرف عام آدمی کے مسائل پہ کیوں نہیں دے دیتے؟ایک وزیر اعظم اپنے ملک کے عوام کا مائی باپ کا درجہ رکھتا ہے تو اگر ایک گھر کا سربراہ اپنے گھر والوں کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے سمجھوتے کر سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔

اسی طرح کیا اپوزیشن ایسے حالات پیدا کرنے سے کیوں گریز نہیں کر رہی کہ ملک میں کچھ استقامت آ سکے۔ ایسا ماحول پیدا ہو سکے جس سے کم از کم یہ تو محسوس ہو کہ آ ج نہیں تو کل ضرور حالات بدل جائیں گے۔ اپوزیشن کا حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دینا کیا یہ ثابت نہیں کررہا کہ ان کو بھی اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عام آدمی اور مڈل کلاس والا کام کرنے والا طبقہ روز بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال سے کتنا پریشان ہے۔

لاڑکانہ کے جلسے میں مریم نواز کی تقریر کے ردِ عمل کے طور پر حکومتی کئی وزیروں نے پریس کانفرنسیں کھڑکا دیں، پھر رہی کسر خواجہ آصف کی تازہ ترین گرفتاری نے پوری کر دی۔ اب اپوزیشن اٹھے گی تین چار وہ بھی پریس کانفرنسیں کرے گی۔ ایکشن کا ری ایکشن آیا پھر ری ایکشن کا ری ایکشن آئے۔ یوں دونوں فریقین نے ہم عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ اپنے وزراء کیا نئی پالیسی بنا لیں گے جس سے مہنگائی کا جن قابو میں آ جائے۔

ہمارے سیاستدانوں نےآخر یہ کیوں اہم بنا رکھا ہے کہ کرسی کا حصول ہی ان کی زندگی کا آخری فیصلہ اورمعرکہ ہے؟ یہ سیاسی کشیدگی ملک کے اہم اور مقدس ترین ادارے سمیت ملکی سلامتی کو بھی ہر گزرتے وقت کے ساتھ نئے امتحان اور مشکل میں ڈال رہی ہے۔خداراہ رحم کیجیے۔ اب بہت ہو گیاٗ اس ملک کو چلنے اور آباد رہنےدیں کیوں کہ گھر آباد ہی اچھے لگتے ہیں۔

/ Published posts: 20

Teacher & Inspirational Story Writer

Facebook