Home > Articles posted by ندیم چوہدری
FEATURE
on Feb 3, 2021

کبھی کبھی ہماری لڑائی اپنے آپ سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً جب کبھی ہم کوئی غلط کام کرنے لگتے ہیں توہمارے اندرسے ایک آواز اٹھتی ہے کہ یہ کام نہ کریں اس سے نقصان ہوسکتاہے۔ اسی طرح کبھی ہم کام اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اگر ہم کسی مقصد کو پانے کے لیے آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں توکیوں نہ دس گھنٹے کام کیا جائے تاکہ کارکردگی مزید بہتر ہو جائے۔ کبھی بیٹھے بیٹھے ہمیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں ‘ ہمیں اس سے بھی بہتر اور اچھا کرنا چاہیے۔ ہم پہلے سے زیادہ محنت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم اپنے معمول سے اتنے تھک جاتے ہیں کہ کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کر رہا ہوتاحتیٰ کہ ہمت ہار جاتے ہیں لیکن پھر ایک دم سے ہمارا دل اسی کام کو زیادہ جوش سے کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور ہم پھر ہمت پکڑ لیتے ہیں۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے ہم میں ہی ایک ایسا شخص بستا ہے جودرحقیقت ہمارا اصل ہوتاہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ ہر فر د کے اندر ایک اچھا اور باصلاحیت انسان چھپا ہوتاہے جوتھک تو سکتا ہے مگر ہار نہیں سکتا۔ ہر ناامیدی میں امید کی کرن بنتا ہے۔ جب حالات خراب ہوں تو ہم کو حوصلہ دیتا ہے۔ ہم کو یقین دلاتا ہے کہ کوئی بھی کا م نا ممکن نہیں ہے۔ اچھا ئی اور برائی میں فرق کو واضح طور پر دیکھ سکتاہے۔ جو ہمیں حوصلہ دیتاہے اک بار اور کوشش کرکے تو دیکھو۔ ہمارے اندر کی آواز ہوتا ہے جو ہم کو بھٹکنے سے بچا لیتا ہے۔ الغرض جو تم کو تمہارے اندر چھپی بے شمار صلاحیتوں کا احساس دلاتا ہے کہ“تم یہ کر سکتے ہو” وہی اصل ہیرو ہوتاہے۔ ہم کو صرف اسے اپنے اندر سے پہچاننا ہوتا ہے اور ایسا ہی بننا ہوتاہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ بہت آسان ہے صرف اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ ہم باصلاحیت ہیں‘ صرف ایک بار کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر مقصد کے نہیں ہوتی ۔ ایک چھوٹی سی اور عام سی مثال ہی لے لیں کہ کوڑا کرکٹ جو بظاہر ہماری نظر میں صرف اور صرف گندی کے سوا کچھ نہیں مگر وہ بھی ایندھن کے طور پر استعما ل ہوتاہے ۔ اسی طرح ہر چیز کے دنیا میں ہونے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ ان چیزوں سے کسی نہ کسی طرح فائدہ ضرور حاصل ہوتاہے۔ مگر ہم تو الحمدللہ اشرف المخلوقات ہیں۔ صاحبِ شعور بھی ہیں۔ ہمارے پیدا کیے جانے کا بھی کو ئی نہ کوئی مقصد اور فائدہ ضرور ہے۔ ہمیں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی خودی کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت جس کا کوئی نعم البدل نہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز ہمارے اختیار میں دی ہے۔ عقل بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہی ہے جس سے انسان شیر جیسے طاقتور ‘ہاتھی جیسے بڑے جانور پر قابو پا لیتا ہے اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کر رہا ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ ہم آج تک جس سے بھی ملے ہیں اس میں کو ئی نہ کوئی انوکھی بات ضرور تھی۔ کوئی پڑھائی میں بہت اچھا تھا تو کوئی اپنے ہنر میں بلا کی مہارت رکھتا تھا۔ ہم جب بھی غور کریں گے تو ہم کو احساس ہو گا کہ جو کام ہم کو شروع شروع میں ناممکن اور مشکل لگتا تھااسے ہم مکمل کرنے کے بالکل قریب ہیں۔ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ تو کوئی مشکل ہی نہ تھاایسے ہی اس کو کرنے سے ڈر رہے تھے۔ اب ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ اس لیے کہ ہم نے کوشش کی تھی اور مستقل مزاجی اختیار کی تھی پھر ہمارے اندر سے حوصلہ اور ہمت بڑھتی رہی اور آخر ہم نے اپنے مقصد میں کا میابی حاصل کر لی۔ یعنی اس کام کو کر دکھایا۔ میرا ایمان ہے کہ ہم کسی نہ کسی صلاحیت کے مالک ضرو رہیں۔ بس اسے تلاش کیجیے اور ڈٹ جایئے کیوں کہ کامیاب انسان کی فطرت سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ تھک تو سکتا ہے مگر ہار نہیں سکتا۔

FEATURE
on Jan 29, 2021

گزشتہ شب لاہور جانے کا اتفا ق ہوا۔ دوران سفر اندرون شہر ایک ٹریفک سگنل پر کھڑا ہونا پڑا۔ اس دوران ایک شخص اچانک گاڑیوں سے ٹکراتا ہوا ، گرتا، لڑکھڑاتا سڑک کے ایک کنارے تک پہنچا اور پھر کچھ دیر بعد عالم مستی میں میں چلا گیا۔ بے جا ٹریفک کی آواز، گاڑیوں کے ہارن کی کانوں کو اڑا دینے والی آوازیں بھی تھیں مگر وہ نوجوان اپنی مستی اپنی نیند میں گرتے ہی دنیا و مافیہا سے لاپرواہ اور بے خبر ہو کر گہری نیند میں چلا گیا تھا۔ ایسے “بیمارِ قوم” بڑے شہروں کی بڑی شاہراہوں کے پل کے نیچے اپنا مسکن بنائے بیٹھے ، تکیہ لگائے لیٹے رہتے ہیں۔یہی نہیں ہمارے معاشرے میں بہت سے گھروں میں ایک عد د ایسا کردار ضرور موجود ہوتاہے جسے سوائے روٹیاں توڑنے ، محلے میں لڑایاں لینے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں آیا۔ بعض گھروں میں فرد واحد کی کمائی اور محنت سے پورا گھر چل رہا ہوتاہے اور باقی ‘ککھ پن کے دہرا نہ کرنے’ کی پالیسی پر وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔نہ مناسب تعلیم حاصل کر سکے اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھ سکے۔ بوجھ بننے کی بجائے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ جب کمانے والے ہاتھ کم اور خرچ کرنے والے زیادہ ہو جائیں تو کیا پھر وہاں آئے روز مہنگائی کا رونا نہیں رویا جائے گا؟ ایسا کیوں ہے؟ آخر یہ سب لوگ کیوں ‘سروائیو’ کر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔ جس طرح اولاد جیسی بھی ہو ، ماں کی گود سب کے لیے یکساں ہوتی ہے۔ ہر بچے کے لیے ماں کی گود میں ایک جیسا ہی خیال اور پیار ہوتاہے ۔ بالکل اسی طرح “ریاست” کی گود میں بھی اس کا ہر باشندہ ایک جیسا ہے کہ اس میں ہر بھنگی، نشئی ، چور ، ڈاکو اور لٹیرا سما جاتا ہے۔ یہ کسی کوبھی نہیں نکلاتی بلکہ یہ ماں کی طرح انہیں پالتی رہتی ہے۔ آپ یقین کریں نہ کریں یہ کما ل صرف اور صرف “ریاست پاکستان ” کا ہے۔ اس ریاست کو گالیاں دینے والوں کو بھی یہ ریاست اپنے داماد کی طرح رکھتی اور برتاؤ کرتی ہے۔ کوئی کریمنل ، چور، ڈاکو اگر جیل میں ہویہ ریاست اسے بھی داماد کی طرح رکھتی ہے، انہیں بھی زندہ رہنے کے لیے ہر طرح کی ضروری اشیاء فراہم کرتی چلی آ رہی ہے۔ آپ دیکھ لیں حاجی، نمازی اور امام مسجد سے لے کر ظاہر و باطن بے ایمانی اور بدعنوانی کرنے والا بھی اسی ریاست میں پل رہا ہے۔ یہ ریاست اپنے ہر باشندے کو ماں کی گود کی طرح ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کی گود میں جہاں ‘معمار قوم’ پلے ہیں وہاں اسی ہی کی گود میں آستین کے سانپ نے بھی پرورش پائی ہے۔ چونکہ ہمارا ماننا ہے کہ یہ دنیا چند اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم ہےتو ریاست کی گود میں بھی ایسے ایسے محب وطن ہیں جن کی وجہ سے اس کے ہر باشندے کو عزت اور مال و جان کا تحفظ مل رہاہے۔ بس دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ ہماری اس انمول گود کو ہمیشہ آباد رکھے۔ آمین۔

FEATURE
on Jan 28, 2021

جو ایک کسان کو اپنی بوئی گئی فصل سے ملنے والے پھل کے لیے سال بھر مشقت کرنے پر اکسائے رکھتی ہے۔جوایک طالب علم کو محنت کرنے پر رضامند کرتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھا سکتاہے۔جو کسی مریض کو زندگی کا پیغام دیتی ہے جس سے وہ اپنی مرض کا علاج کرواتا ہے-جو ہم میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ ہم اپنے آ پ سے کہہ سکیں کہ ”ہاں ہم یہ کام کر سکتے ہیں“۔ جو کسی بے روز گار کو روز گار کی تلاش میں مایوسی کے باوجود متحرک رکھتی ہے۔جو ایک سپاہی کو جیت کا احساس دلاتی ہے جس سے و ہ اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے میدان میں اترتاہے۔الغرض دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی امید میں جی رہا ہے۔ ہر آنے والے دن سے بے شمار لوگوں کی لاتعداد امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں وہ دن تمام لوگوں کی امیدیں کب پوری کرتاہے۔ پھر ایک نئے دن کا انتظار شروع ہو جاتاہے اور ہم پھر امید کرنے لگتے ہیں۔یعنی.امید ہمیشہ اچھی اور مثبت رکھومایوسی اکثر اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب ہم امید تو رکھتے ہیں مگر وہ منفی قسم کی ہوتی ہے ۔ یعنی یہ سوچ لینا کہ کچھ غلط ہی ہوگا۔ ایسی امید ہمیں وقت سے پہلے ہار تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس لیے امید ہمیشہ اچھاہی ہونے کی رکھو۔ ہمیشہ مثبت امید رکھو۔ اگر ہم اچھا ہونے کی اور مثبت امید رکھیں گے تو ہم میں کچھ مزید کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا جو ہمارے اندر کے یقین کو پختہ کر دے گااور اس طرح ہم آخر کار کامیاب ہو ہی جائیں گے۔امید سے یقین اور یقین سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ قائم ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتا۔جب اللہ تمہیں کسی مشکل کے کنارے پر کھڑا کردے تواللہ پر پوری طرح اعتماد رکھو کہ دو چیزیں واقع ہو سکتی ہیں یا تو وہ جب تم گرنے والے ہوئے تو فوری تھام لے گا یا پھر تمہیں اڑنا ضرور سیکھا دے گا۔چونکہ امید تمہارے اندر سے اٹھنے والی سرگوشی ہوتی ہے جو ”شاید“ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یعنی تم کو لگنے لگتا ہے کہ شاید تم حالات پر قابو پا لو گے تو بس ایسی مثبت والی امید کو کبھی کھونے مت دینا۔ محنت کرنا اور بس محنت کرنا اس امید کے ساتھ کہ تم ہی فتح یاب ہو گے۔

FEATURE
on Jan 22, 2021

میرا ایک دوست بہت مایوس بیٹھا تھا۔ سوچا حال ہی پوچھ لوں، دلاسہ ہی دے دوں۔ عرض کیا بھائی کیوں پریشان ہو، مایوسی گناہ ہے، کیوں گھبرایا ہواہے؟ وہ کہنے لگا مایوسی اور گناہ بعد کی باتیں ہیں’ شاید اتنا دکھ گناہ ہونے کا نہ ہو جتنا دکھ انسان کو اپنی توقعات کے پورا نہ ہونے پر ہوتاہے۔وہ بولتا چلا گیا۔ اس نے کہا مجھے اس نئی حکومت پر بہت زیادہ امیدیں تھیں۔ مجھے ہی نہیں ہم پوری ینگ جنریشن کو بہت سی توقعات وابسطہ تھیں۔پڑھائی سے لے کر کاروبار تک کس کی حکومت آئی ، کس کی گئی؟ کون وزیراعظم بنا، کون اس کرسی سے اتر گیا؟ ان معاملات میں کبھی دلچسپی لی نہ کسی کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ نہ دکھ تھا نہ ہی کوئی ملال تھا۔ پھر موجودہ وزیراعظم نے اپنے قول و اقرار سے ہم ینگ جنریشن کے د ل موہ لیے یا شاید سبز باغ دیکھنا ہماری شروع سے کمزوری رہا ہے پس وہ سبز باغ دیکھنے لگے۔ ہم بھی آنے والے وزیراعظم کو دیکھنے، سننے اور پسند کرنے لگے۔ دعائیں مانگیں، کمپئن کی۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ آخر ان کی حکومت آگئی۔ سکھ کا سانس آئے گا یہ امید بھی بندھ گئی۔ شروع شروع اور موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ٹی وی اور ٹاک شوز دیکھنا چھوڑدیے کہ میڈیا نے تو بس اپنا چورن بیچنا ہوتاہے۔ حکومت مخالف پراپیگنڈاہوتا ہی ہے، بہتر ہے کہ وقت دیا جائے۔ وقت دیا۔ اب آدھی مدت گزر چکی ہے پھر بھی دو قدم آگے جانے کی بجائے ملکی حالات چار قدم پیچھے کی طرف دھکیلے جارہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن کی سب سے خوش آئند بات یہ تھی کہ پہلی بار نوجوان نسل میں سیاسی شعور امڈ آیا تھا۔ عمران خان کو وزیراعظم کم مسیجا زیادہ سمجھا جانے لگا تھا۔ اڑھائی سال ، جناب عالیٰ اڑھائی سال کی عمر میں بچہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے جبکہ اڑھائی سال بعد پاکستان وینٹی لیٹر پر پڑا محسوس ہو رہاہے۔ ہمارے وزیراعظم کے دو ہی اعلیٰ ترین مقاصد تھے، جن میں پہلا اپوزیشن کو بازومروڑنا تھا جو بہت خوب اور اچھے طریقے سے مروڑا بھی گیا۔ جبکہ دوسرا مقصد ملکی اصلاحات لانا تھا۔ دوسرا مقصد تو اب پتہ نہیں کہاں راہ گیا ہے۔ جب اس حقیقت کو دیکھنے ہیں تو ملی ہوئی روحانی خوشی بھی دکھ میں بدل جاتی ہے۔ اب بھلا وزیراعظم کو کون بتائے کہ جناب عالیٰ، عزات مآب آپ پائلٹ ہیں ، اس وقت پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کے آپ ہی کرتا دھرتاہیں۔ ہماری ساری امیدیں آپ سے وابسطہ ہیں۔ لوگ گاڑی سے زیادہ ڈرائیور کو دیکھتے اور اعتماد کرتے ہیں کہ یہ درست اور صحیح منزل کی طرف ہی لے کر جائے گا۔ اگر مزید اگلے اڑھائی سال اسی رسہ کشی میں گزرے تو ہمارا رہتا اعتماد اور یقین بھی اٹھ جائے گا پھر ہمیں آصف علی ذرداری ، میاں نواز شریف اور عمران خان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا۔پھر وہ دن دور نہیں رہے گا جب میری طرح ہو آدمی سیاست کو ایک گالی سمجھے گا اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب بس۔یہ میرا آخری وزیراعظم تھا۔ شاید ہم پھر اپنی نوجوان قوم میں پہلے جیسا اعتماد بحال نہ کر سکیں۔

FEATURE
on Jan 22, 2021

کبھی کبھی ہم اپنی زندگی سے بہت جلد اور بہت زیادہ اکتا جاتے ہیں ۔ہمیں یوں لگنے لگتا ہے کہ شاید دنیا میں صرف ہم ہی ہیں جن کے ساتھ زندگی کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی ۔ ہمیں ہر وقت زندگی سے شکوہ رہتاہے کہ اس نے خوشیاں کم اور غم زیادہ دیے ہیں۔ ہم زندگی کے بارے میں ایسا سوچ سوچ کر اپنے آپ کو اتنا کمزور سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم میں حالات کاسامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں رہتی ۔ زندگی کے بارے میں منفی سوچ خودکشی جیسے عظیم گناہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور یوں پست حوصلہ لوگ بہت جلد زندگی کی وقتی پریشانی کو برداشت کرنے کی بجائے اپنی عاقبت ہی خراب کر بیٹھتے ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ ”زندگی کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی“ ”زندگی مسلسل اتار چڑھاﺅ کا نام ہے“ ”زندگی مسلسل مسائل کا نام ہے“ جی ہاں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی۔ اس میں اگر چار دن خوشیاں ہیں تو چار دن غم بھی۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو زندگی عطا کرتا ہے تو اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اسے قبول کرے گا یا نہیں۔ بلکہ زندگی کے بارے میں اللہ کا ایک خاص انعام ہوتاہے اور وہ ہے ۔”انتخاب کی قوت“ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکمل آزاد پیدا کیا اور اسے مکمل آزادی دی کہ وہ اپنی مرضی سے جیسے چاہے زندگی گزار ے۔ یعنی انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو گزارنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرتاہے اوراس کے ساتھ ساتھ درست و غلط راستے کے انتخاب کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعوربھی بخشاہے۔ یہ بات سچ ہے کہ زیادہ آسودگی والی زندگی گزارنے کے لیے محنت بھی اتنی ہی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح انسان کو سہل زندگی گزارنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے یا پھربہت جلد ہار تسلیم کر لیتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں وہ سب کچھ قبول کرنا ہی پڑتاہے جو زندگی ہمارے لیے لاتی ہے۔ مگرآپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جب یہ زندگی ہمیں خوشی دیتی ہے تو ہم کسی سے بھی اجازت نہیں لیتے اور اس خوشی کو بھرپورطریقے سے مناتے بھی ہیں اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ جب یہی زندگی ان خوشیوں کی قیمت چند پریشانیوں کی شکل میں لینے لگتی ہے تو ہم بھاگنے اور شکوے کرنے لگتے ہیں؟ یاد رکھیں زندگی میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی۔ ہر چیز کی قیمت ادا کرناپڑتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی زندگی میں خوشی کے لیے کسی نہ کسی غم یا پریشانی کا سامنا تو کرنا ہی پڑتاہے زندگی کٹھن کب لگتی ہے؟ دراصل زندگی کے بارے میں جیسا ہمارا رویہ ہوتا ہے ہمیں زندگی بھی ویسے ہی لگتی ہے۔ جب ہم زندگی کے بارے میں منفی رویہ اپناتے ہیں تو زندگی ہمیں مشکل سے مشکل اور درد دینے والی محسوس ہونے لگتی ہے۔اسی طرح ہم زندگی کے بار ے میں جس قدر منفی رویہ اپنا تے جاتے ہیں یہ اسی نسبت سے ہمیں کٹھن لگنے لگتی ہے۔ پھر ہم مایوسیوں کی وادی میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ زندگی کا تصور بھی ہمار ے لیے بے معنی ہو جاتاہے ۔ ”جب ہم زندگی کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں تو پھر ہمیں کو ئی بھی چیز فائدہ دینے والی نہیں لگتی۔ہمیں لگتا ہے کہ پورا نظام ہی ہمارے خلاف ہے“ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ سب سے پہلے تو اس بات پر یقین کرنا ہوگا کہ زندگی کٹھن ضرور ہے مگر قابل حل ہے مثبت سوچ یا رویہ ہی ہم کو حوصلہ دیتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کٹھن ہوتی ہے اس میں کئی نشیب وفراز بھی ہوتے ہیںمگر انسان ہر وقت ان میں گھرا تو نہیں رہ سکتا۔ اسے اپنے لیے اور اپنے سے جڑے دوسرے لوگوں کے لیے جینا بھی پڑتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسی زندگی کو بسر بھی کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم اسے خوشی سے گزاریں یا دکھ سے اسے گزرنا تو ہو گا اور جب گزارنا ہی ہے تو پھر خوشی ہی سے گزارنے کی کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں مثبت سوچ پیدا کرنا ہوگی ۔ ہمیں اپنے آپ کو حوصلہ دینا ہوگا کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ہم ابھی بھی سب کچھ سنبھال سکتے ہیں۔ابھی بھی بہت کچھ ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم اب بھی تھوڑی سی مزید کوشش کرکے بہت کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔

FEATURE
on Jan 19, 2021

کبھی کبھی ہم اپنی زندگی سے بہت جلد اور بہت زیادہ اکتا جاتے ہیں ۔ہمیں یوں لگنے لگتا ہے کہ شاید دنیا میں صرف ہم ہی ہیں جن کے ساتھ زندگی کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی ۔ ہمیں ہر وقت زندگی سے شکوہ رہتاہے کہ اس نے خوشیاں کم اور غم زیادہ دیے ہیں۔ ہم زندگی کے بارے میں ایسا سوچ سوچ کر اپنے آپ کو اتنا کمزور سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم میں حالات کاسامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں رہتی ۔ زندگی کے بارے میں منفی سوچ خودکشی جیسے عظیم گناہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور یوں پست حوصلہ لوگ بہت جلد زندگی کی وقتی پریشانی کو برداشت کرنے کی بجائے اپنی عاقبت ہی خراب کر بیٹھتے ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ ”زندگی کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی“ ”زندگی مسلسل اتار چڑھاﺅ کا نام ہے“ ”زندگی مسلسل مسائل کا نام ہے“ جی ہاں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتی۔ اس میں اگر چار دن خوشیاں ہیں تو چار دن غم بھی۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو زندگی عطا کرتا ہے تو اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اسے قبول کرے گا یا نہیں۔ بلکہ زندگی کے بارے میں اللہ کا ایک خاص انعام ہوتاہے اور وہ ہے ۔”انتخاب کی قوت“ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکمل آزاد پیدا کیا اور اسے مکمل آزادی دی کہ وہ اپنی مرضی سے جیسے چاہے زندگی گزار ے۔ یعنی انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو گزارنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرتاہے اوراس کے ساتھ ساتھ درست و غلط راستے کے انتخاب کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعوربھی بخشاہے۔ یہ بات سچ ہے کہ زیادہ آسودگی والی زندگی گزارنے کے لیے محنت بھی اتنی ہی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح انسان کو سہل زندگی گزارنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے یا پھربہت جلد ہار تسلیم کر لیتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں وہ سب کچھ قبول کرنا ہی پڑتاہے جو زندگی ہمارے لیے لاتی ہے۔ مگرآپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جب یہ زندگی ہمیں خوشی دیتی ہے تو ہم کسی سے بھی اجازت نہیں لیتے اور اس خوشی کو بھرپورطریقے سے مناتے بھی ہیں اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ جب یہی زندگی ان خوشیوں کی قیمت چند پریشانیوں کی شکل میں لینے لگتی ہے تو ہم بھاگنے اور شکوے کرنے لگتے ہیں؟ یاد رکھیں زندگی میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی۔ ہر چیز کی قیمت ادا کرناپڑتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی زندگی میں خوشی کے لیے کسی نہ کسی غم یا پریشانی کا سامنا تو کرنا ہی پڑتاہے زندگی کٹھن کب لگتی ہے؟ دراصل زندگی کے بارے میں جیسا ہمارا رویہ ہوتا ہے ہمیں زندگی بھی ویسے ہی لگتی ہے۔ جب ہم زندگی کے بارے میں منفی رویہ اپناتے ہیں تو زندگی ہمیں مشکل سے مشکل اور درد دینے والی محسوس ہونے لگتی ہے۔اسی طرح ہم زندگی کے بار ے میں جس قدر منفی رویہ اپنا تے جاتے ہیں یہ اسی نسبت سے ہمیں کٹھن لگنے لگتی ہے۔ پھر ہم مایوسیوں کی وادی میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ زندگی کا تصور بھی ہمار ے لیے بے معنی ہو جاتاہے ۔ ”جب ہم زندگی کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں تو پھر ہمیں کو ئی بھی چیز فائدہ دینے والی نہیں لگتی۔ہمیں لگتا ہے کہ پورا نظام ہی ہمارے خلاف ہے“ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ سب سے پہلے تو اس بات پر یقین کرنا ہوگا کہ زندگی کٹھن ضرور ہے مگر قابل حل ہے مثبت سوچ یا رویہ ہی ہم کو حوصلہ دیتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کٹھن ہوتی ہے اس میں کئی نشیب وفراز بھی ہوتے ہیںمگر انسان ہر وقت ان میں گھرا تو نہیں رہ سکتا۔ اسے اپنے لیے اور اپنے سے جڑے دوسرے لوگوں کے لیے جینا بھی پڑتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسی زندگی کو بسر بھی کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم اسے خوشی سے گزاریں یا دکھ سے اسے گزرنا تو ہو گا اور جب گزارنا ہی ہے تو پھر خوشی ہی سے گزارنے کی کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں مثبت سوچ پیدا کرنا ہوگی ۔ ہمیں اپنے آپ کو حوصلہ دینا ہوگا کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ہم ابھی بھی سب کچھ سنبھال سکتے ہیں۔ابھی بھی بہت کچھ ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم اب بھی تھوڑی سی مزید کوشش کرکے بہت کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔

FEATURE
on Jan 17, 2021

یہ کہانی شاید آپ نے پہلے کہیں سے سنی یا پڑھی ہو۔ بہت چھوٹی سی کہانی ہے مگر اس کے ایک ایک لفظ میں ہماری زندگی اور دنیا کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ ایک صاحب نے موبائل ریپئرنگ کی دکان کھول رکھی تھی۔ رات کے دس بجے رہے تھے۔ وہ دکان بند کرنے ہی والے تھے کہ ایک گاہک آ گیا۔ اس گاہک نے موبائل آگے بڑھایا اور کہا کہ یہ آن نہیں ہو رہا۔ موبائل ریپئر کرنے والے نے موبائل ہاتھ میں لیتے ہی کہا چیکنگ فیس تین سو روپے ہے۔ گاہک راضی ہو گیا۔ ان صاھب نے موبائل کھولا اور خامی ایک نظر میں پکڑ لی۔ انہوں نے نہات پھرتی سے موبائل کے مائیک کا اسکریوڈھیلا کیا اور مائیک کو دراز میں گرادیا۔ مائیک جو ایک ننھا سا پرزا تھا ، گاہک کو کیسے نظر آنا تھا کہ کب دراز میں گرا۔ پھر ان صاحب نے موبائل کا معانہ کرتے ہوئے کہا۔ ایل سی ڈی اڑ گئی ہے۔ پاور سسٹم بیٹھ گیا ہے۔ کل ملا کر چار سے پانچ ہزار کا خرچ آئے گا۔ اتنی رقم میں بالکل نیا سیٹ بھی مل جائے گا۔یہ دیکھئے بالکل ایسا ہی سیٹ، قیمت صرف ساڑھے تین ہزار۔ چائنا کا ہے اس لیے سستاہے مگر کمال کا ہے۔ گاہک نے موبائل واپس لے لیا۔ ساڑھے تین ہزار میں نیا سیٹ خریدا چیکنگ کی فیس تین سو روپے دی۔ روپے لے کر ان صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ دکان بند کرتے کرتے بھی چیکنگ کے تین ، مائیک پانچ سو تک بک جائے گا اور ساتھ ساتھ ایک ہزار نئے سیٹ پر منافع بھی مل گیا۔ اس نے دکان بند کی اور برابر والے آصف کی دکان پر پہنچا۔ وہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے اس لیے رات میں ساتھ ہی نکلتے تھے۔ آصف نے کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے کہا ایک محترمہ نے تو آج جان کھا لی تھی۔ جو کپڑا دکھاؤ وہ اس کی سو دو سو قیمت کم لگاتی۔ بڑی مشکل سے تین سو روپے میڑ والا پانچ سو روپے میٹر تھمایا۔ دونوں نے قہقہ لگایا اور دکان کو تالا لگا کر بس اسٹاپ کی طرف چل پڑے۔ رکشے والے سے پوچھا کہ نیو کراچی چلو گے۔ رکشے والے نے ہاں میں سر ہلا کر کہا لیکن تین سو لوں گا کیونکہ آج سی این جی بند ہے رات بھی زیادہ ہو رہی ہے خالی آنا ہو گا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور بڑبڑانے لگے۔ “ہر ایک نے لوٹ مچا رکھی ہے، کیا ہو گا اس ملک کا” رکشا ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ دو بائیک سواروں نے انہیں روک لیا۔ پستول دکھا کر ان کے پرس اور موبائل چھین لیے ان دونوں نے اپنے خریداروں کو لوٹا تھا، رکشہ والے نے سی این جی کی بندش کے بہانے ان کو لوٹا اور ڈاکوؤں نے سرِ راہ ان تینوں کو ہر چیز سے محروم کر دیا۔جو جیسے آیا تھا ، ویسے ہی چلا گیا۔ کیا یہ سب نہیں ہو رہا، کیا اسی طرح ہر طرف لوٹ مار نہیں مچی ہوئی۔ صبح سے شام تک ہم کسی نہ کسی کو ٹھگنے میں لگے رہتے اور کوئی نہ کوئی ہمیں ٹھگنے میں لگا رہتا ہے۔ جب ہم خود ہی اپنا احتساب نہیں کر رہے ہوں گے تو وزیراعظم اناڑی ہو یا کھلاڑی کیا فرق پڑتاہے۔ ایمان اللہ رب العزت کی دین ہے، اگر اللہ کے عذاب کا مزہ چکھنے کا ڈر بھی ہمیں نہیں بدل سکا تو پھر چاہے آپ عمران خان کو چھوڑ کا طیب اردگان بھی لے آئیں ہم یوں کے توں ہی رہیں گے۔ بس پھر ہم کسی دوسرے کو لوٹتے رہیں گے اور پھر کوئی تیسرا ہمیں لوٹتا رہے گا۔

FEATURE
on Jan 17, 2021

اخلاقیات ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ انسان کبھی بھی اپنی حاصل کی گئی ڈگریوں سے پہچانا نہیں جاتا۔ ایک مہذب اور اچھے انسان کی پہچان اس کا اچھا اخلاق سے ہوتاہے۔ روز مرہ زندگی میں ہمیں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ان سے ہماری گفت و شنید بھی ہوتی ہے۔ اس دوران ہم غور کرتے ہیں کہ دوسرا ہمیں کونسے الفاظ سے مخاطب کرتاہے اور وہ اپنے الفاظ میں ہمیں کتنی عزت و تکریم بخشتاہے۔ اس طرح ہم اس بات کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگلا شخص کس حد تک بااخلاق ہے۔ اخلاق اچھا ہو یا برا ۔ ا س کے بارے میں میں جتنا کچھ سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاق نیوٹن کے قوانین حرکت میں تیسرے قانون کی طرح ہوتاہے۔ اگر تم کسی سے اچھے اخلاق سے پیش آتے ہو تو وہ بھی بدلے میں تم سے ویسے ہی اخلاق کا مظاہرہ کرتاہے۔ ایسا تو ہرگز دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہم نے کسی کو گالی دی ہواور اس نے بدلے میں دعا یا شاباش دی ہویا ہم نے کسی کو دعا دی ہو اور دوسرے شخص نے بدلے میں بد دعا ۔ اخلاقی اعتبار سے ہمیں یقینا وہی کچھ ملتاہے جو ہم دینے کی کوشش کرتے ہیں”” کسی کی عزت اور احترام کیسے کیے جائیں ان سے ہم سب باخوبی واقف ہیں۔ ہم نے یہ بھی بہت سیکھاہواہے کہ چھوٹوں سے لیکر بڑوں تک کیسے مخاطب ہو ا جائے۔مگر میرا مقصد یہاں کچھ غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں بات کرنا ہے جو ہم کبھی کبھی نا چاہتے ہوئے بھی اپنا لیتے ہیں اور یہ ہماری شخصیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔پھر یوں لوگ ہماری عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ گالیاں دینا: بعض لوگ بہت جلد غصہ کرنے والے ہوتے ہیں کہ معمولی سا بھی کام بگڑا نہیںاور گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔غصہ کی حالت میں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس کو گالی دے رہے ہیں اس سے کتنا مقدس اور قریبی رشتہ ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ اکثر گالیا ں ہی دیتے ہیں۔ مگر اس میں انتہائی افسوس ناک پہلو یہ کہ اس بیماری میںپڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ جس کی واضح مثال آپ کو ان طلبہ کی بھی مل سکتی ہے جو آئے روز سڑکوں پہ بسوں والوں سے الجھتے رہتے ہیں اور پھر ذاتی انا کی وجہ سے لڑتے رہتے ہیں۔ خوب گالی گلوچ بھی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گالیاں دینے کی ضروت پڑتی ہی کیوں ہے؟ آخر ایسا کون سا محرک ہے جو ہمیں گالیاں دینے پر مجبور کرتاہے؟ وہ ہے”غصہ“ ہم جتنی طاقت جتنا زور کسی بات پر غصہ ہونے پر اور پھر اس پہ ردِعمل کرنے پر لگاتے ہیںاگر یہی طاقت اور زور اسی غصہ پر قابو پانے پر لگا دیں تو ےقینا بات کے مزید بگڑنے سے بچ سکیں گے۔ ہم اکثر بہت جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ کیاایسا ہونے سے مسئلہ حل ہو جاتاہے؟ ہاں اگر کبھی اس طرح آپ کا مسئلہ حل ہوا ہو تو پھر آپ کا غصہ کرنا جائز بھی ہے۔ ہم یقین تو رکھتے ہیں کہ ہم اپنے غصے پر قابو پا سکتے ہیں مگر کوشش نہیں کرتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارا نقصان کر دے یا ہماری کوئی چیز توڑ دے تو ہم بدلے میں فوراًگالی دینے کو کرتے ہیںجبکہ اس سے وہ نقصان بھی پوراکرنے کو نہیں کہتے بلکہ کبھی کبھی تو اتنا بڑا پن دکھاتے ہیں کہ اسے معاف تک کردیتے ہیں اور جو بھی نقصان ہوا ہو وہ برداشت بھی کر لیتے ہیں۔ ایسے میں میراعاجزانہ سوال بس اتنا سا ہے کہ اگرنقصان پورا کروائے بغیر رہا جا سکتا ہے تو وقتی طور پر گالیاں دیے بغیر کیوں نہیں؟ جلال الدین رومی فرماتے ہیں: اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اگتے ہیں”

FEATURE
on Jan 15, 2021

کیا ہم وہی زندگی گزارتے ہیں جو ہم کتابوں اور مختلف قسم کی کہانیوں میں پڑھتے ہیں؟ شاید نہیں یا ہو سکتا ہے بعض لوگوں کے نزدیک اس سوال کا جواب ‘ہاں’ ہو۔یہ ایک لمبی بحث طلب بات ہے مگر ہم یہاں اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ میرے خیال میں ہم وہ زندگی نہیں گزارتے جس کے بارے میں ہم نے کتابوں یا فلموں میں دیکھا ہوتا ہے۔ زندگی کی اپنی ایک حقیقت ہوتی ہے اور اس حقیقت سے ایک زندہ انسان کو روز نئی صورت میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کسی بھی شخص کی زندگی اچھے اور تلخ تجربات کی کسوٹی پر چل رہی ہوتی ہے۔کیوں کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک شخص صرف کتابچے پڑھ پڑ ھ اور چند وڈیوذ دیکھ کر ڈرائیونگ سیکھ لے یا گاڑی صحیح طرح چلانے میں کامیاب ہو جائے۔یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔اسے ہر صورت عملی طور پر سب سیکھنا پڑتا ہے، اسے چھوٹے موٹے حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غلطیاں کرتا ، کٹھن اور تکلیف دہ تجربات ہوتے ہیں پھر ان سے سیکھ کر بالآخر ایک دن ڈرائیور بن جاتا ہے۔ ہم بھی پور ی زندگی چاہے جتنی بھی فلاسفی کی کتابیں پڑھ لیں اور زندگی گزارنے کے حوالے سے چاہے جتنی بھی موٹیویشنل وڈیوذ دیکھ لیں مگر ہم زندگی کو روزانہ کی بنیاد پر جیسی ہے ویسی گزار رہے ہوتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور برادری سسٹم میں اتنے پھنسے ہوئے لوگ ہیں کہ ہم ایک مخصوص سرکل سے باہر سوچ ہی نہیں سکتے۔ کیا یہ عام سی بات نہیں کہ ہمارے ہاں آج بھی خوشیوں اور شادی وغیرہ کے موقعوں پر ہماری چاچیاں ، پھوپھیاں روٹھ جاتی ہیں اور ہم آدھا فنکشن ان کو منانےمیں ضائع کر دیتے ہیں۔ کیا جو لوگ روٹھتے ہیں انہوں نے یہ کتابیں نہیں پڑھی ہوتیں کہ غصہ ناراضگی ختم کر دینا چاہیے، دوسرے کی غلطی ہو تو معاف کر دینا چاہیے اور اپنی ہو تو معافی مانگ لینا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ہم چونکہ انا کےاسیر ہوتے ہیں اور کچھ بھی ہو جائے ویسا ہی ری ایکٹ کریں گے۔ ہم غیبت بھی کر رہے ہوتے ہیں اور گالیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں جبکہ ہم نے کتابوں میں آداب کے لقمے بھی لفظ بہ لفظ حفظ کر رہے ہوتے ہیں۔مگر جہاں انا اور غصہ ہو وہاں کتابوں اور چند سطروں پہ لکھی ہوئی زندگی کی ترتیب بھلا کہاں یاد رہتی ہے۔ دوستی جسے ہم انمول رشتہ کہتے ہیں ، جس کے بارے میں ہم نے کتابوں اور ارسالوں میں ہزاروں قصیدے پڑھے ہوتے ہیں وہ دوستی بھی ہم تین چیزوں یعنی اعتماد، فائدہ اور نقصان پر بنیاد بنا کر کرتے یا نبھاتے ہیں۔ یونہی پتہ چلا کہ آپ کا راز فاش ہو گیا آپ اس شخص سے دوبارہ دوستی نہیں کرتے ۔ کیے جانے والی دوستی سے فائدہ ہو گا یا نقصان یہ سوچے بنا ہم دوستی نہیں کرتے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کا ہم مسلسل سامنا کرتے ہیں اور ہم بس اپنے اچھے اور برے تجربات کی روشنی میں زندگی کی ترتیب بناتے ہیں۔ الغرض ہمارے عملی تجربات، غلطیاں اور کتاہیاں ہی ہمارے زندگی کیسی ہو گی کا تعین کرتے ہیں جبکہ کتابی زندگی ہم سے بہت دور رہ چکی ہوتی ہے۔

FEATURE
on Jan 11, 2021

آج کل کی ٹھنڈی دھوپ کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتاہےٗ کیوں نہ آج ایک دن ،ایک لمحے کے لیے ٹھنڈی دھوپ میں بیٹھیں، کچھ دیر کے آنکھیں بند کریں اور چلملاتی ہوئی دھوپ میں کچھ دیر کے لیے اپنے ماضی، اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں۔اپنی ذات کا تجزیہ کریں اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیں جینے کے لیے نیا دن کیوں دے دیتا ہے۔ کائنات کی ہر جاندار اور غیرجاندار چیز کاآپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے محتاج اورلازم و ملزوم ہیں۔ اگر اس میں انسان ہی کی بات کی جائے تو یہ الحمداللہ اشرف المخلوقات ہے یعنی قدرت کی بنائی ہوئی ہر چیز سے افضل ۔ اب ذرہ سوچیں اگر کوئی بے جان سی چیز بھی کسی کے کام آ سکتی ہے تو پھر انسان کا کیا مقام ہو گا مثلاً اگر عام سی چیز بھی قدرت نے اگر بغیر مقصد کے پیدا نہیں کی تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قدرت نے انسان جیسی چیز کو بنا کسی مقصد کے پیدا کر دیا ہو۔ ہم ہرروز موت کے منہ سے بچ کے نکلتے ہیں، ہم روز موت کو چھوتے ہیں مثلاً اکثر ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آپ روڑ پر کھڑے ہوں یاکوئی سڑک پار کر رہے ہوں تو کسی نہ کسی موٹر سائیکل یا گاڑی وغیرہ سے بڑی مشکل سے بچتے ہیں اور اگر آپ خود ڈرائیو کر رہے ہوں یا سفر کر رہے ہیں تو کئی بار حادثہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی یہ بھی غور کیا ہوگا کہ گاڑی تک تباہ ہو جاتی ہے مگر آپ معجزاتی طور پر سلامت بچ جاتے ہیں۔اس سب کے پیچھے بھی اک راز ،اک حکمت چھپی ہوتی ہے جسے ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ بعض اوقات ہم کسی ایسے مقام یا جگہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارا جانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہوتا مگر وہاں ایک ایسا ضرورت مندملتا ہے جس کی کسی نہ کسی صورت میں آپ مدد کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور اس شخص کوآپ نے دوبارہ دیکھا بلکہ اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔اسی طرح بعض اوقات آپ کسی مصیبت یا سفر میں پھنس جاتے ہیں تو کوئی اجنبی سا ملتا ہے اور آپ کی مشکل حل ہو جاتی ہے اور ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ “شکریہ یار تم تو میرے لیے فرشتہ بن کر ہی آئے ہو” اور کبھی کبھی وہ فرشتہ ہمارے شکریہ کہنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتاہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ فقیر کو پیسے یا کوئی اور چیز کیوں دیتے ہیں اور اگر کسی فقیر کو نہیں دیتے تو “معاف کرو” والا جملہ بول کر کیوں ٹال دیتے ہیں؟ آخر یہ آپ خود سے ہی کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ پہلاحاجت مند ہے اور دوسرا نہیں۔ یہ بھی ایک فلاسفی ہے کہ فقیر دیکھنے میں تو سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس فقیر کو دینے ہیں اور دوسرا کوئی آئے تو ٹال دینا ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ میکانزم(طریقہ کار) ہے ، مثلاً آپ ذرہ تصور کریں کہ دینے والا کون ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہے۔ اور جب فقیر گھر سے نکلا تھا تو کس آس، کس امید پر تھا، ظاہر ہے یہی کہ اللہ میری مددفرمانا، پھر وہ اللہ کا نام لیتا جاتا ہے اور اللہ ہمارے دل میں جس شخص کو دلوانا چاہتا ہے اس کے لیے رحم ڈال دیتا ہے اور ہم بنا سوچے دے دیتے ہیں۔ پھر تھوڑی دیر میں ایک اور فقیر آتا ہے اور ہم ساتھ ہی ٹال مٹول کرنے لگتے ہیں۔ اس سب کا مطلب کیا ہے؟یہی کہ دینے والی اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے مگر وہ اپنے بندے کو وسیلہ بناتا ہے اور اپنے ہی کسی پسند کے بندے کو مخصوص وقت میں کبھی بھی اور کسی سے بھی نواز دیتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم کبھی اپنی ذاتی سواری پہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نہ کسی کو لفٹ دلوا کر انسانیت کی خدمت کرتے ہوتے نیکی کرنے کا موقع دیتا رہتاہے۔ ہمارے کسی عزیز، کسی دوست کےکسی نہ کسی کام کے آنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ہمیں زندہ رکھنے کا مقصد سمجھانا چاہتاہے۔ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اکیلی میری ذات سے اللہ تعالیٰ نے کتنے لوگوں کو منسلک کیا ہوا ہے۔ گھرسے لے کر آفس، آفس سے بازار تک کسی نہ کسی کاکا م ہماری وجہ سے مکمل ہونا ہوتاہے۔ بس کوشش کریں کہ جو زندگی اللہ نے دی ہے یہ بامقصد ہو ، ایسا مقصد جس سے انسانیت کی خدمت کی جائے۔ آپ آج جس مقام پر ہیں جس بھی منصب پر فائض ہیں، ہم اللہ کی دی ہوئی اس زندگی کا شکرانہ کسی کے کام آ کر ادا کر سکتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے بھی کہ شاید یہی وہ مقصد تھا جس کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔

FEATURE
on Jan 8, 2021

ہمارے بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو تعلیمی لحاظ سے کافی تعلیم یافتہ تو ہوتے ہیں مگر محنت سے زیادہ قسمت پر یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔مثلاًایک گریجوایشن ڈگری والا طالب علم اپنی زندگی کے قیمتی تین چا رسال قسمت کے رحم و کرم پر ضائع کرنے کو ترجیح دیتا ہے کہ کبھی قسمت میں ہوا تو کام مل ہی جائے گا۔ اس انتظار میں وہ اپنا وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور آگے پڑھائی کی طرف توجہ بھی نہیں دے پاتے۔ قسمت کے بارے میں ہمارے جو بھی نظریات ہیں ہم ان کو پس پردہ ڈال کر ایک بار پھر سے کوشش کر کے تو دیکھیں اور اپنی محنت پہ یقین رکھیں۔ جتنی بھی ہو سکے جیسے بھی ہو سکے محنت ایک بار ایسی ضرور کر ڈالیں کہ کوئی دوسرا ایسی نہ کر سکے۔ ہاں کچھ مصائب ضرور ہوتے ہیں ، کچھ رکاوٹیں ہوتیں ہیں مگر وہ ہم کو کبھی روک نہیں سکتیں بشرطیکہ ہم محنتی ہوں اور صرف محنتی۔ یہ ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور وہ یہ قسمت بنانا پڑتی ہے قسمت سے کچھ لیا نہیں جا سکتا اور قسمت بنانے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، حرکت کرنا پڑ تی ہے۔ مایوسیاں جہاں تک بات مایوس ہونے یا مایوسیوں کی ہے اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، اکثر اہم کام کیے جانے کا صحیح وقت گزرجانے کے بعد جب خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں تو ناکام اور مایوس ہونے کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ مایوسیوں اور ہمارے خوش نہ رہنے کی وجہ صرف یہ ہے۔جب ہم اپنی خواہشات کو حد سے زیادہ بڑھا لیتے ہیں اور ذرائع اتنے نہیں ہوتے۔ اسی طرح جب کبھی ہم بہت زیادہ اور مقررہ وقت سے پہلے چاہتے ہیں تو ہم صرف مایوس ہی ہوتے ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کو جتنا کم رکھیں گے اتنے ہی خوش رہیں گے اور خواہشات ہمیشہ محنت کرنے اور صبر وتحمل سے کام لینے سے ہی پوری ہوتی ہیں نہ کہ قسمت سے۔ ہمیشہ قناعت اختیار کرو قناعت کا مطلب ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنااور اسی میں اپنی خوشی تلاش کرنا۔ قناعت پسندی ایک بہت ہی اچھا اور پسندیدہ عمل ہے جو ہمیں لالچ اور بے ایمانی جیسی بیماریوں سے دور رکھتاہے۔ جب ہم جو کچھ ہمار ے پاس ہوتا ہے اس پر قناعت نہیں کرتے تو ہم کو چاہے جتنا کچھ بھی مل جائے نہ صبر آتا ہے اور نہ ہی تسلی ملتی ہے۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ ملا ہے اس سے بھی اچھا ہو ، بہت زیادہ ہو اور مشقت کے بغیر ہی حاصل ہو۔ پھر جب کچھ حاصل نہیں ہوپاتا تو ہم کہنے لگتے ہیں کہ ہمار ی قسمت بس یہاں تک ہی محدود تھی۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ہم کو قناعت پسندی اختیار کرنا ہی ہو گی۔ ہم کو اس پر اپنے رب کا شکر بجا لانا ہی ہو گا جو کچھ ہمارے پاس ہے کیوں کہ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو ہم کیا کر لیتے۔ ہم کو وہ سب ذرائع استعمال میں لانا ہی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو عطا کیے ہیں چاہے وہ قلیل مقدار میں ہی کیوں نہیں ہیں۔ یاد رکھیں: خوشیاں اور کامیابیاں ہم کو کوئی بھی اور کبھی بھی پلیٹ پہ رکھ کرپیش نہیں کرتا۔ہم کو ان کو پانے کے لیے سستی چھوڑنا ہوگی۔ ہم کو متحرک ہونا پڑے گا۔ ہم کو قسمت کے رونے دھونے سے نکلنا ہو گا۔ ذرہ سوچیں۔۔۔ اگر ہمارے پاس جو کچھ آج ہے یہ بھی نہ ہوتا تو ہم کیا کر لیتے؟ یقیناً کچھ بھی نہیں اس لیے شکر کریں کہ اللہ نے ہمار ے اندر ایسی صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ جس کو استعمال میں لا کر ہم جیت سکتے ہیں۔محنت کرکے وہ سب کچھ پا سکتے ہیں جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں بشرطیکہ ہماری محنت ہماری خواہش سے زیادہ ہو۔اللہ نے جو انعامات ہم پر کیے ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھاﺅ۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات کسی سے بھی ناانصافی نہیں کرتی۔ ناانصافی اگر کرتا ہے تو صرف انسان خود اپنے آپ سے کرتا ہے کہ بعض اوقات وہ اپنی سستی کی وجہ سے اپنی جیت کو ہار میں بدل دیتا ہے۔ آج ہم کو سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے لیے کیا منتخب کرتے ہیں ساری عمر بیٹھ کر وقت گزاری کے لیے قسمت پر شکوے کرتے ہیں یااپنی محنت اور سچے جذبے سے اپنی قسمت کو قابل ستائش بناتے ہیں۔

FEATURE
on Jan 7, 2021

“اسامہ جب گھر سے گیا تو اس نے مجھے یہی کہا کہ میں نے ایک دوست کو چھوڑنا ہے اور’ بس چھوڑ کے میں جلدی آجاؤں گا’۔ میں نے اسے کہا کہ جلدی گھر آناٗ اس نے کہا ٹھیک ہے۔پھر میں نے 12:30پر فون کیا تو اس نے کہا میں 10 منٹ میں آتا ہوں۔ انتظار کے بعد پھر دوبارہ 1:15 پر کال کی تب وہ شاید ڈرائیونگ کی وجہ سے کال اٹھا نہیں رہا تھا۔ پھر 1:30 پر دوبارہ فون کیا تو فون بند جا رہا تھا۔ پھر 4 بجے ایک ایس ایچ او کا فون آتا ہے کہ اسامہ کے والد سے بات کروائی جائے جب کروائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس مقابلہ ہوا تھا، فائرنگ ہوئی ہے اور آپ کے بچے کو گولی لگ گئی ہے وہ پمز ہسپتال ایمر جنسی میں ہے آپ وہاں پہنچیں۔ہم مطمئن تب ہوں گے جب ہمیں انصاف ملے گا۔ پاکستان میں بہت جے آئی ٹی بنتی ہیں۔ بچوں کو مار کر یہ پولیس ان پر اور کیس ڈال دیتی ہےاور اپنے آپ کو چھپا لیتی ہے۔ اپنی نوکریاں بچا لیتی ہے۔ میرا اسامہ بہت معصوم بیٹا تھااس کو انہوں نے جانوروں کی طرح مارا ہے ۔ اس کا سینہ چھلنی چھلنی کر دیا ہے۔ انہوں نے نہیں سوچا کہ اس کی ماں ہو گی، اس کا باپ ہو گا۔ ہماری کتنی امیدیں اور خواہشیں وابسطہ تھیں اس سے مگر انہوں نے کس طرح اسے ذبح کر دیا۔عمران خان کہتے ہیں کہ یہ مدینہ کی ریاست ہے۔ کیا مدینہ کی ریاست ایسی ہوتی ہے؟” یہ الفاظ چار روز قبل پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسامہ ستی کی والدہ کے ہیں۔ پولیس کے بارے جو اس دکھیاری ماں نے اظہار کیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ایک عام شہری کے لیے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اور جب ریاست کے محافظ ہی ریاست کے بچوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہر ماں کو اپنا لختِ جگر کھونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یو اے ای اور سعودیہ جیسی ریاست میں سخت ترین قوانین ہونے کے باوجود بھی پولیس بڑے سے بڑے مجرم کا پیچھا ہیلی کاپڑ سے تو کر سکتی ہے مگر گولیاں نہیں مارتی۔ چلیں اسامہ کے والد کے موقف کے مطابق یہ بات مان بھی لیں کہ اسامہ کا پولیس والوں سے ایک دو دن پہلے جھگڑا ہو گیا تھا کیا تب بھی رنجش اتنی زیادہ تھی کہ کسی کی جان لے لی جائے۔ کیا یہ سیدھی سیدھی ریاستی دہشت گردی نہیں۔ جس طرح ریاست ِ امریکہ اسامہ بن لادن کی دشمن بنی ہوئی تھی کیا اسی طرح ہمارے ریاست بھی اسامہ ستی سے اتنی ہی خفا تھی اس کی جان ہی لے لی جائے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک میں پولیس اور سکیورٹی کے اداروں کی وجہ سے عام آدمی خودکو محفوظ ترین سمجھتا ہے مگر ہمارے ملک میں عام اور شریف آدمی اگر کسی سے سب سے زیادہ خوف زدہ ہے تو وہ پولیس ہے۔ کیایہ سب ان کی تربیت کا فقدان ہے یا ان سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جہاں بھرتیاں رشوت اور ایک عدد فون کال پر ہوں گی وہاں کیسے ممکن ہے کہ یہ سب تماشہ نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ سب محکمے غلط اور کرپٹ ہیں ، پولیس ہی کے محکمہ میں بہت بہتری بھی آنے لگی ہے جہاں کہیں میرٹ پر نوجوان پڑھی لکھی نسل آفیسر بننے لگی ہے۔ مگر اصل مسئلہ “جڑ” کا ہے وہ جڑ جو صدیوں سے ہمارے سیاستدانوں اور وڈھیروں سے جڑی ہیں۔ ان کا اثر رسوخ مدتوں سے چل رہا ہے بس کہیں نہ کہیں جا کر ایک ایماندار آفیسر بھی بے بس ہوتا نظر آتا ہے۔ ہم آخر یہ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے کہ ہمارے لیے ہر عام آدمی کا مبینہ قصور بھی امریکہ کے مطابق اسامہ بن لادن سے کیوں بڑا ہو جاتا ہے ۔ سڑک پہ کھڑا ہوا عام سپاہی بھی کس طرح یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ جعلی پولیس مقابلہ کر کے میں ریاست میں انصاف کی رٹ قائم کر سکتا ہوں۔کاش ہمیں ہی سمجھا دے کوئی !

FEATURE
on Jan 6, 2021

قدرت کا تو پتہ نہیں مگر پاکستان میں کچھ ویل ٹرینڈ گروپس اپنے ویل ٹرینڈ لوگوں کے ذریعے آپ کو ہر نئے روز امیر ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہےآپ لوگ کیوں ان پر یقین نہیں کرتے۔ یہ گروپس یہ لوگ بلکہ یہ باقاعدہ نیٹ ورکس وہ ہیں جو آپ کو موبائل پر ایس ایم ایس اور کالز کے ذریعے بتاتے ہیں کہ فلاں ٹی وی کے پروگرام جن میں سرفہرست “پاکستان جیتو” اور ان سے بھی زیادہ مشہور “بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” وغیرہ کے حوالے سے آپ کو لاکھوں روپے، ڈیڑھ تولہ سونا اور ساتھ ایک عدد کار نکلی ہے۔ بس جلدی کیجیے اور دیے گئے متعلقہ نمبر پر اتنے روپے کا ایزی پیسہ یا لوڈ کروادیں تا کہ آپ کی فائل آخری مرحلے کے لیے بھیجی جائے۔ ایسی صورتِ حال میں ہم میں کچھ زیادہ سیانے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جن کو امیر ہونے کی غالباً ہم سے بھی زیادہ جلدی ہوتی ہے۔ میسج دیکھتے اور اس طرح کی پر اسرار کال سنتے ہی پر جوش کچھ زیادہ ہی ہو جاتے ہیں اور بنا تحقیق کیے جیسے کال والے نے ہدایات جاری کی ہوتیں ہیں ویسا کرنے دوڑ نے لگتے ہیں جیسے واپسی اسی برینڈ نیو کار پہ ہو گی جس کی کال پہ اطلاع دی گئی تھی۔یہ لوگ اسی لالچ میں فوری ردِ عمل دکھائیں گے اور اپنے جیب سے مزید پیسے بتائے ہوئے نمبر پر ایزی پیسہ یا بیلنس کی شکل میں کروا بیٹھیں گے۔کیو ں کہ اس وقت ان سیانے لوگوں کی خوشی کے احساسات ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔ شاید اتنی روحانی خوشی مقبوضہ کشمیر والوں کو آزادی ملنے پر نہ ہو جتنی اس وقت یہ لوگ محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔اس وقت ایک لمحے کے لیے خوابوں کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور ہمارے دماغ میں حقیقت کو سمجھنے کی بجائے لاکھوں روپے، سونا اور کار کے خیالات ابال کھا رہے ہوتے ہیں۔اس طرح جو کچھ جیب میں ہوتا ہے وہ بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اس طرح کی بے شمار فراڈ والی کہانیاں سنی ہوتی ہیں مگر پھر بھی ہم ایک میسج یا کال آنے پر اتنی جلدی یقین کیوں کر لیتے ہیں۔اس کی شاید دو بڑی وجوہات ہیں جن میں پہلی ‘لالچ’ اور دوسری یہ کہ ہم ہر کام میں جلدی کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ جذبات ہماری طبیعت کا حصہ ہیں اس لیے جذباتی اور جلدی کی کیفیت میں ہم بعض اوقات کسی بھی معاملے کی تحقیق کرنا بالکل بھی گوراہ نہیں کرتے اور بھاری نقصان اٹھا لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ منظم نیٹ ورک جو پورا پورا ویل ٹرینڈ لوگوں کے ایک خاص گروہ پر مشتمل ہوتا ہے یہ ہماری لالچی عادت، ہر کام میں جلدی اور ہمارے تجسس سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب آخر میں ایک فکری سوال کرنا چاہوں گا شاید اس سے کسی کا بھلا ہو سکے: ایک مزدور جسے سارا دن سخت محنت و مشقت کے بعد محض 600روپے دیہاڑی ملتی ہےوہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے کیا بھی کچھ نہ ہو حتی کہ کبھی میسج تک بھی نہ کیا ہوتو آپ کو کون اور کیسے لاکھوں روپے مفت میں دے سکتا ہے؟ سوچیئے گا ضرور!!!

FEATURE
on Jan 4, 2021

وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہ اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیںاور اس کا درست استعمال کرتے ہیںہمیشہ وہی کامیا ب ہوتے ہیں۔ جو لوگ وقت کی ناقدری کرتے ہیںاور اسے ضائع کرتے ہیںیا اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ وقت برف کی طرح ہوتاہے۔ جس طرح برف کو اگر استعمال میں نہ لایا جائے تو پگھل کر ضائع ہوجاتی ہے اس طرح وقت کو بھی اگر استعمال میں نہ لایا جائے تو یہ بھی ضائع ہوتا چلا جاتاہے۔ پوری کائنات کا نظام اور اس کا ہر ذرہ پابندی وقت کا داعی ہے۔ ایک ننھے پودے سے لیکر اس کے درخت بننے تک‘ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اور رات دن کے تبد ل میں پابندی وقت عیاں ہوتی ہے۔ پابندی وقت تمام پیغمبروں کا شیوہ بھی رہا ہے۔ ہماری ہر قسم کی کامیابی کا تمام تر انحصار بھی وقت کی پابندی ہی سے ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو وقت کا پابند رکھتے ہیںاور جو کام جس وقت کرنا ضروری ہو اسے اسی وقت ہی بہتر طریقے سے کرنے سے بہتر نتائج لے سکتے ہیں۔ اپنے بیرونِ ملک کے قیام کے دوران میرے دوسرے مشاہدات میں سے ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ میں نے جس کمپنی کو بہتر اور اعلیٰ کارکردگی کا حامل پایا۔ اس کے تمام سربراہ سمیت ملازمین کو وقت کا پابندبھی پایا۔ میں پابندی وقت سے زیادہ ترتیب وقت (ٹائم مینجمنٹ) کا حامی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری آج کی نوجوان نسل کو وقت کی پابندی سے زیادہ وقت کے صحیح استعمال(ترتیب وقت) کی سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ میرا مقصد بھی یہی سمجھانا ہے کہ وقت کو کس طرح سے درست طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔ یعنی ہم اسے کہاں گزارتے ہیں؟ کیا ہم اسے واقعی صحیح استعمال کررہے ہیں؟ اس کو کس طرح صحیح استعمال میں لاناہے؟ چند تلخ حقائق کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہم اپنا زیادہ تر وقت کن چیزوں یا سرگرمیوں میں گزارتے ہیں؟ہم اپنااکثر وقت غیر ضروری کاموں میں گزارتے ہیں مثلاً نمبر۱۔ کوئی سے چار دوستوں کا کسی سڑک کے کنارے بیٹھ کر گھنٹوں بے مقصد گپیں ہانکنا۔ نمبر۲۔ بازاروں کے موڑ پر کئی کئی گھنٹوں تک بغیر کسی خاص مقصد کے کھڑے رہنا۔ نمبر۳۔ فلموں اور ٹی وی کی دنیا کا اتنا شوقین ہونا کہ وقت کی کثیر مقدار اس میں ضائع کر دینا۔ نمبر۴۔ رات گئے تک بغیر کسی کام کے آوارہ گردی کرنا۔ نمبر۵۔ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ جیسی دیگر چیزوں کااور ضرورت سے زیادہ استعما ل کرنا۔ نمبر۶۔ موبائل فونز کا زیادہ دیر تک اور غیر ضروری استعمال کرنایعنی ایس ایم ایس کرتے رہنا۔ ایک سوال کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص بالخصوص اگر وہ طالب علم ہو اور وہ اس طرح فضول وقت کے ضیاع میں مصروف رہے گا تو وہ بہتر کارکردگی دکھا پائے گا؟ یاد رکھیں سال میں درحقیت ایک دن ہی ہوتا ہے جو ”آج“ کا ہوتا ہے اور اسی دن میں وقت کا صحیح استعمال کرنا ہوتاہے۔ اسی دن میں کی گئی محنت ہی تم کو سرخرو کرے گی اور یہی موجودہ وقت کا صحیح استعمال ہے جبکہ ہم گزرے ہوئے اور آنے والے کل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے جو ”آج“ کی شکل میں ہم کو وقت ملا ہے اسے ہی صحیح استعمال میں لانا ہوگا۔ اگر ہم آج کا دن گزرے ہوئے کل کی شکایتیں کرنے میں لگا دیں گےتو آنے والے کل کے لیے کچھ بھی بہتر نہیں کر پائیں گے۔

FEATURE
on Jan 3, 2021

ہم اپنی ساری زندگی دو چیزوں کی کسوٹی پر گزارتے ہیں۔ جن میں پہلی “سمجھوتا کرنا” اور دوسری”مان لینا یا تسلیم کر لینا” ہیں۔سمجھوتا چاہے حالات سے ہو یا لوگوں سے اس کی مدت قدرے کام ہوتی ہے، یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتاہے۔ کبھی کبھی دیر تک چل سکتاہے مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ یہ عارضی ہوتاہے۔ جبکہ زندگی میں دوسری چیزحالات، لوگوں اور حتی کے رویوں کو جیسے بھی ہوں قبول کر لینا ہوتاہے۔ یہ چیز پیدا ہونا مشکل ہوتی ہے مگر اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے زندگی سہل ہو جاتی ہے۔ ہم حالات کے ساتھ ساتھ جب دوسروں کو ان کے رویوں سمیت تسلیم کر لیتے ہیں تو ہم خود بھی بدلنے لگتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ ویسے ہی ڈھالنے لگتے ہیں۔مارچ 2020میں “کرونا” اپنے عروج کی طرف تھا۔ دیکھتے دیکھتے پاکستان سمیت پوری دنیا رک کے رہ گئی تھی۔ پاکستان میں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر محکمہ وینٹی لیڑ پہ ہے۔ تمام طرح کی سرگرمیاں تھم سی گئی تھیں۔ملک کے وزیراعظم تک ہفتے میں دو دو بار میڈیا میں آ کر ماسک دکھا دکھا کر “کرونا” سے بچنے کے لیے گزارشات کرتے رہے۔ ہم آخر ہم تھے۔ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے حسبِ روایت وقتی حالات سے سمجھوتا کرتے چلے گئے۔ نو ماسک نو انٹری کی تحریک اور پیغام کو ہم نے بغیر ماسک انٹری ہی انٹری میں بدل دیا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کسی ڈاکٹر کے پاس، ہسپتال اور سکول میں داخل ہوتے ہوئے اگر گیٹ پہ کھڑا سکیورٹی گارڈ کسی کو ماسک لگائے بغیر انٹری سے روک دیتا تھا تو وہ شخص کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگتا تھا اور تکرار کرکے اگر ماسک پہن بھی لیتا تو بھی ماسک کے اندر بڑبڑاتا رہتا تھا۔یہ سب کیا تھا؟ یہ سب سمجھوتا تھا جو ہم ہر آنے والے دن، ہفتے اور مہینے کے ساتھ کرتے تھے کہ بس اس ہفتے یا مہینے بعد “کرونا” سے جان چھوٹ جائے گی۔ مگر آپ دیکھ لیں دوبارہ مارچ کے قریب آ لگے ہیں مگر “کرونا” آج بھی ہمارے حواص پہ سوار ہے ۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت سے سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم تب ہی اس سے ہر ممکنہ احتیاط کر نے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔ ہمیں یہ مان لینا ہو گا کہ اب ہمیں اس کے ساتھ ہی چلنا ہوگا، اس کی حقیقت کو مان لینا ہو گا کہ یہ آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں ہے۔ جو چیز ایک سال تک 21ویں صدی میں بھی پوری دنیا کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ جس دن ہم اس حقیقت کو مان لیں گے اس دن ہم اسے مذاق نہیں سمجھیں گے اور ماسک لگانا اپنے لیے لازمی کر لیں گے۔ہمارا تعلق چاہے جس شعبے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ہم کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہزاروں سے لے کر عربوں کھربوں کا بزنس کرتے ہیں اور ایک ہی ٹارگٹ ہوتاہے کہ ہمیں فائدہ کیسے اور کتنا ہو گا۔ مگر ہم اپنی انمول زندگی کو اتنا بے معنی سمجھ بیٹھے ہیں کہ دس روپے کا ماسک والا سودا ہمیں نقصان میں لگتا ہے یہ سوچ کر کے کیا مصیبت ہے کہ ہر بار ہمیں دس روپے کا ماسک خریدنا پڑتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہسپتالوں میں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اپنے پیاروں تک کو کھو دیتے ہیں مگر محض دس روپے کا ماسک پہن کر احتیاط نہیں کر سکتے۔آج ہمیں یہ بات مان لینا ہو گی کہ اب “کرونا” سے احتیاط مجبوری ہی نہیں ضروری بھی ہے۔

FEATURE
on Jan 2, 2021

ماں آپ شاید میری اس بات سے اتفاق نہ کریں مگر میرا یمان ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ان سے زیادہ جانتی اور سمجھتی ہے۔ جب بچے کو ابھی بولنا بھی نہیں آتا ماں تو تب سے ہی اس کے اندر چھپی طلب کو سمجھ لیتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارا بچپن بھی ہے کہ جب ہم بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور بولناتک نہیں جانتے لیکن پھر بھی ماں ہماری سب تکالیف سمجھ لیتی ہے۔ ہماری بھوک کو محسوس کرتی ہے۔ کبھی آپ نے ایک لمحے کے لیے تخیل کیا کہ سردیوں کی رات میں جب کو ئی بچہ بستر گیلا کر دیتا ہے تو ماں خود اس گیلی جگہ پر لیٹ جاتی ہے اور بچے کو اپنی خشک جگہ پر لٹا دیتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں خود گرمی جھیلتی ہے ،نیند خراب کرتی ہے مگر اپنے بچے کو ہوا دیتی رہتی ہے اور اس کے آرام کا پورا بندوبست کرتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ماں اپنے بچے کے لیے دعا گو رہتی ہے بچپن سے جوانی تک میرے سارے عمل خطا کے تھے ایسے میں میری ماں کے حوصلے بلا کے تھے میں چلتا رہا ، گرتا رہا اور سنبھل کے آگے بڑھتا رہا میری کامیابیوں کے پیچھے ہاتھ میری ماں کی دعا کے تھے باپ باپ اپنے بچے کو نہ صرف بچپن میں انگلی پکڑ کر چلنا سیکھاتا ہے بلکہ زمانے کی سختی اور تند و تیز دھوپ میں بھی اسے جینا سیکھاتا ہے۔ جب کبھی ہارا ہوا انسان گھر لوٹتا ہے تو باپ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ اسے پھر سے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کو تیار کرتا ہے اور پھر جب وہ جیت جاتا ہے تو باپ اپنے بیٹے کی کامیابی پر فخر سے جینے لگتا ہے۔ باپ کی قربانی کی مثال اس سے بڑی اور کیا دوں کہ کڑی دھوپ میں وہ سارا سارا دن محنت کرتا ہے۔ اپنے خون پسینے کی کمائی سے بچت کر کے اپنی اولاد کے مستقبل کو بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ صرف اپنی اولاد کے لیے ہی لوگو ں سے زیادہ سے زیادہ لین دین کرتا ہے اس دوران کبھی کبھی اسے جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے اپنی عاقبت خراب بھی کرنا پڑتی ہے۔ مگر اس کے باوجود باپ کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کر لے تاکہ وہ بعدمیں اچھی اور بہتر سے بہتر زندگی گزار سکے۔ خود بھوکہ رہ کر بڑی مشکل سے گزر بسر کرکے اپنی اولاد کا مستقبل روشن اور یقینی بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ باپ کی ہر وہ نصیحت جو تم کو کڑوی لگے وہی ان کی محبت ہوتی ہے اور باپ کی محبت تمہیں زمانے میں رسوا نہیں ہونے دیتی۔انسان جب حالات اور دنیا کے دھکے اور بار بار ٹھوکریں کھا چکا ہوتا ہے ۔ تھک ہار جاتا ہے تو اک لمحے کے لیے اسے خیال آتا ہے کہ میں نے جس کے ساتھ بھی اچھا کرنے کرنے کی کوشش کی، جس کے ساتھ بھی نیک نیت سے چلنے کی کوشش کی، سب نے دھوکہ ہی دیا، سب نے میر ی جڑ تک کاٹنے کا منصوبہ بنایا۔ اگر کسی سے تعلق بنا یا بنایا کوئی وجہ تھی، کوئی غرض تھی۔ جو کوئی ساتھ چلا اسے بھی مجھ سے کسی نا کسی طرح کا طمع تھا۔ سب لالچی تھے۔ سب مطلب پرست تھے۔ پھر حالات سے ستایا ہوا شخص ٹھنڈی ہاہ بھرتے ہوئے کہتا ہے ہائے میں قربان جاؤں پانے ماں باپ پہ جن کو کوئی طمع کوئی لالچ نہ تھا۔ جن کی محبت میں کوئی بناوٹ نہ تھی۔ سنا تھا مگراب جان بھی لیا کہ واقعی والدین ایسے ہوتے ہیں جو سراپا محبت اور محض محبت ہوتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے والدین کو ہمیشہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔

FEATURE
on Dec 31, 2020

کچھ لوگ با صلاحیت اور ہنر مند ہوتے ہیں، مگر اپنی زندگی کا نصب العین اور مقاصد کا تعین نہیں کرتے۔ کھلی آنکھوں سے کامیابی کا خواب دیکھتے ہیں اور تصورات میں لطف لیتے رہے ہیں مگر عمل کی دنیا میں سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری ان کے لیے اور ان کی ترقی و کامیابی کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے بالکل اسی طرح سال کے پہلے دن کو ہم نے گرم جوشی ، جذبے اور ولولے سے خوش آمدید کہا تھا۔ نئے خواب، نئے منصوبے تھے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کے اس سال 2020 میں ہم نے یہ بھی کرنا ہے ، وہ بھی کرنا ہے۔ پھر کچھ یوں ہوا، فضا بدلی، حالات بدلے “کرونا “پاکستان میں داخل ہوا اور ہماری معیشت سے ہوتا ہوا ہمارے حواص پہ سوار ہو گیا۔ ہم میں سے بہت لوگوں نے بہت کچھ کھو دیا ۔ہم میں سے ہی بہت سے لوگ تھے جنہوں نے یہ سوچتے سوچتے 2020 کا پورا سال ضائع کر دیا کہ آج کچھ کرتے ہیں کہ کل کچھ کرتے ہیں۔ کاہل سال بھر کاہل رہے، سست سال بھر سست ہی رہے۔پورا 2020 کا سال ہم نے اس انتظار میں گزارا کہ کوئی خضر آئے گا ۔ بس وہ دن قریب آنے والا ہے کہ ہمارا وزیراعظم اپنے ہاتھوں سے نوالہ کھلائے گا۔ حکومت 12000 نہیں 24000روپے ہم نوجوانوں کا پکا پکا وظیفہ قائم کر دے گی بلکہ یوں کہیے کہ گھر ویلے بیٹھنے کی وجہ سے ہماری پینشن مقرر کر دے گی جس سے ہم بغیر کچھ کیے مزے سے یہ سال گزار لیں گے۔ پھر ہو ا کیا پینشن آئی نہ مزے آئے، ہاں سال ضرور گزر گیا کیو ں کہ اسے گزرنا ہی تھا۔ہم کسی بھی سال کے شروع ہونے سے پہلے اپنے آپ سے کتنے عہد کرتے ہیں ، توبہ کرتے ہیں ، استغفار کرتے ہیں کہ اگلے سال کچھ غلط نہیں کرنا بس ناک کی سیدھ میں زندگی گزارنی ہے۔ پھر اچانک دسمبر آجاتا ہے اور اگر کبھی ہم خواب غفلت سے جاگ ہی جائیں تو بس ہلکا سا جھٹکا محسوس ہوتا ہے کہ اف یار یہ سال بھی گزر گیا اور کچھ نہیں کر پایا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک “کرونا ” کی آڑ میں چھپے رہیں گے۔ ہم کب تک “اب کروں گا” یا”تب کروں گا” کی ناکام پالیسی پر رہیں گے؟ ہمیں اس دائرے سے باہر آنا ہوگا۔ عہد نہیں کوشش کرنا ہو گی۔ ہم اپنے گناہوں اور سست پن سے استغفار کیوں نہیں کر لیتے تا کہ کچھ نیاکچھ خاص کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔ آخر میں حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا قول مبارک پیش کرنا چاہوں گا، شاید یہ الفاظ ہمارے دل میں اتر کر ایسی تاثیر پیدا کر سکیں کہ اپنے آپ کو روحانی اور دنیاوی حوالے سے بدل سکیں۔ “خبر دار اللہ کے بندو!جب تک گلا گھٹنے میں مہلت ہے روح قید نہیں کی جاتی، عقل سلامت ، بدن میں آرام، حواس درست ارادہ موجود، توبہ کرنے کی فرصت ، گناہ سے پہلے غائب منتظر کے آنے اور اللہ تعالیٰ باقدرت کے حکم ِ فنا جاری ہونے تک توبہ کر لے۔”

FEATURE
on Dec 31, 2020

ہمارے ملک کا بڑا عجیب المیہ ہے کہ کرسی کی جنگ نے ہمیں ہر طرح کی انسانیت سے گرا دیا ہے۔ بنتے ہوئے سیاسی گرداب کی وجہ سے ملکی سلامتی سے لے کر ملکی معیشت تک خوفناک حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور حکومت بے بسی کے عالم میں ہیں۔عام آدمی اس سوچ میں پڑا ہوا ہے کہ حالات کب سدھریں گے؟ کب ملک کے ان تینوں بڑے سٹیک ہولڈرز کو ہماری فکر ہوگی۔ کب ایسی پالیساں بنیں گی جس سے آنے والا وقت سکون لا سکے گا۔آگ کو آگ سے بجھانے کی غلطی مزید کئی غلطیاں اور نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس وقت یہی صورتِ حال چل رہی ہے۔ حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کواپنی اپنی انا کی کسوٹی پر پرکھ رہی ہے۔ دونوں فریقین کے ذہنوں میں ملک کے عام عوام کے حالات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہاں اگریہ مان بھی لیاجائے کہ موجودہ وزیر اعظم بہت ایماندار ہیں اور عوام کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ عوام کے لیے ہی یہ روز روز کی بک بک سے سمجھوتا کر کے جان کیوں نہیں چھڑوا لیتے اور پوری توجہ صرف عام آدمی کے مسائل پہ کیوں نہیں دے دیتے؟ایک وزیر اعظم اپنے ملک کے عوام کا مائی باپ کا درجہ رکھتا ہے تو اگر ایک گھر کا سربراہ اپنے گھر والوں کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے سمجھوتے کر سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔ اسی طرح کیا اپوزیشن ایسے حالات پیدا کرنے سے کیوں گریز نہیں کر رہی کہ ملک میں کچھ استقامت آ سکے۔ ایسا ماحول پیدا ہو سکے جس سے کم از کم یہ تو محسوس ہو کہ آ ج نہیں تو کل ضرور حالات بدل جائیں گے۔ اپوزیشن کا حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دینا کیا یہ ثابت نہیں کررہا کہ ان کو بھی اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عام آدمی اور مڈل کلاس والا کام کرنے والا طبقہ روز بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال سے کتنا پریشان ہے۔ لاڑکانہ کے جلسے میں مریم نواز کی تقریر کے ردِ عمل کے طور پر حکومتی کئی وزیروں نے پریس کانفرنسیں کھڑکا دیں، پھر رہی کسر خواجہ آصف کی تازہ ترین گرفتاری نے پوری کر دی۔ اب اپوزیشن اٹھے گی تین چار وہ بھی پریس کانفرنسیں کرے گی۔ ایکشن کا ری ایکشن آیا پھر ری ایکشن کا ری ایکشن آئے۔ یوں دونوں فریقین نے ہم عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ اپنے وزراء کیا نئی پالیسی بنا لیں گے جس سے مہنگائی کا جن قابو میں آ جائے۔ ہمارے سیاستدانوں نےآخر یہ کیوں اہم بنا رکھا ہے کہ کرسی کا حصول ہی ان کی زندگی کا آخری فیصلہ اورمعرکہ ہے؟ یہ سیاسی کشیدگی ملک کے اہم اور مقدس ترین ادارے سمیت ملکی سلامتی کو بھی ہر گزرتے وقت کے ساتھ نئے امتحان اور مشکل میں ڈال رہی ہے۔خداراہ رحم کیجیے۔ اب بہت ہو گیاٗ اس ملک کو چلنے اور آباد رہنےدیں کیوں کہ گھر آباد ہی اچھے لگتے ہیں۔

FEATURE
on Dec 30, 2020

پنجاب کا ایک شہر اور ضلع ساہیوال سے بیس میل کے فاصلے پر مین ریلوے لائن پر دریائے راوی سے کچھ فاصلے پر دوآبے کے دامن میں واقع ہے۔ لاہو ر سے 110کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ قدیم زمانے سے قافلے اس بستی کے قریب سایہ دار درختوں میں سستانے کے لیے قیام کیا کرتے تھے۔ درختوں کا یہ جھرمٹ ”اوکاں والا“ کہلانے لگا۔ وقت کے ساتھ سا تھ بستی پھیلتی گئی اور اوکاں والا رفتہ رفتہ اوکاڑا بن گیا۔ انگریزوں کے عہد میں زرعی اہمیت کے پیس نظر اس بستی کو باقاعدہ طور پر آباد کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی اور ایک باقاعدہ نقشے کے مطابق لال اینٹوں کا ایک شہر ابھرکر سامنے آیاجسے اے ، بی ،سی ڈی ای اور ایف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا۔چار بڑے بازار بنے۔ ایک کا رخ ریلوے اسٹیشن کی جانب تھا اس لیے ریل بازار کہلاےا۔ ایک کا نام ہسپتال بازار، ایک کا رخ کچہری کی جانب تھا اس لیے کچہری بازار کا نام دیا گیا۔ چوتھا بازار چھاﺅنی کے رخ پر بنا اور صدر بازار کہلایا۔ چاروں بازار کے وسط میں چوک کا نام ”گول چوک“ رکھا گیا۔ 1852 میں اس کا ضلع گوگیرہ تھا۔مین بازار گول چوک (گول مسجد) صدر بازار، کچہری بازار، ہسپتال بازار، صمد پورہ بازار، ریلوے بازار، فوارہ چوک، گلہ منڈی، سبز منڈی، آٹو مارکیٹ یہاں کے تجارتی مراکز ہیں۔ گورنمنٹ کالونی، چوہدری کالونی، محلہ فیض آباد، فاروق آباد، اللہ داد کالونی، گارڑن ٹاؤن، غفور کالونی، مدینہ ٹاؤن سوسائٹی، کریم ٹاؤن، سیٹھ کالونی، فتح کالونی، عامر کالونی، رحمت پور، مصیبت پورہ، اسلام پورہ، شفیق ٹاؤن، پیپلز کالونی اور حسن پورہ وغیرہ یہاں کی رہائشی بستیاں ہیں۔ جب لاہو راور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی تو 1864 میں ضلع صدر مقام منٹگمری (ساہیوال) منتقل ہوگیا۔محمد طاہر حسین قادری ماہنامہ “آئینہ کرم” میں لکھتے ہیں: سنہ 1915تک مختلف انتظامی تبدیلیوں کے بعد یہ ضلع تحصیل پاکپتن، تحصیل اوکاڑا، تحصیل دیپالپور اور تحصیل منٹگمری کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ستمبر1893میں نوٹیفائیڈایریااور 1930 میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا اس وقت اس قصبے کا رقبہ تقریباًسوا دو مربع میل تھا۔ آبادی دولاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔1982 میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ شروع میں محض دو تحصیلیں اوکاڑا اور دیپالپور تھیں، بعد میں رینالہ خورد کو تیسری تحصیل بنا دیا گیا۔ اس ضلع کے شمال مشرق میں ضلع قصور اور مغرب میں ضلع ساہیوال ہے۔ شمال مغرب میں دریائے راوی کے پار ضلع ننکانہ صاحب اور ضلع فیصل آباد واقع ہیں۔ دریائے ستلج کے اس پار اوکاڑا کی حدیں ضلع بہاولنگر اور ہمسایہ ملک بھارت سے ملتی ہیں۔

FEATURE
on Dec 28, 2020

میرا تعلق ضلع اوکاڑا سے ہے۔ ٹیچنگ میں دس سالہ تجربہ ہے اور ایک کتاب کا مصنف بھی ہوں۔ آج کل سکولوں اور تعلیمی حالات سے آپ سب واقف ہیں۔ کسم پرسی کا عالم ہے۔ مجھ جیسے بہت سے نوجوان جو پرائیویٹ اداروں میں کئی سالوں سے مختلف نوکریاں کر رہے ہیں، کچھ اساتذہ کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہوں گے۔ آمدن کم اور وقت کے ساتھ ساتھ خرچے زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ نا حل ہونے والے مسائل نوجوان نسل کو مایوسی کی اندھیر نگری میں لے جا رہے ہیں۔ جس سے ہمیں بد قسمتی سے آئے روز خود کشی جیسے ناقابل معافی گناہ کرتے ہوئے لوگوں کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ ہمارے اخبارات ان قصوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔آج کا پڑھا لکھا نوجوان کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تلخ تجربات سے جو کچھ اس نے سیکھا ھے وہ دوسروں کو بتانا چاہتا ہے۔مجھ جیسے کئی نوجوانوں کو جو اس ملک کی حقیقی ترقی کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی کوئی آواز نھیں بن رہا تھا ۔ہمیں اپنے ملک کو کوئی دھکا نہیں لگانا، میرا ماننا ہے اگر ہم سب صرف اور صرف اپنے اپنے گھروں کے حالات بدل ڈالیں، یوں محلہ، گاؤں ، شہر، صوبہ اور پھر پورا ملک بدل جائے گا۔ تبدیلی ہم سے شروع ہو گی جس کے لیے صرف سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔ شاید ہم سب ایسا کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہوں گے مگر کسی نہ کسی پلیٹ فارم کا انتظار تھا۔ جو آسان اور سہل ہوتا۔ جس تک ہر خواص و عام کی رسائی ہوتی۔ وہ باآسانی اپنے نطریات کا اظہار کر سکتا۔مندرجہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں میں نیوز فلیکس کا بے حد مشکور ہوں کہ نیوز فلیکس کی ٹیم نے ہمیں ایسا پلیٹ فارم دے رہی ہے جس کی ہمیں مدتوں سے تلاش تھی ۔ جس کے ذریعے ہم اپنی مثبت سوچ دوسروں تک پہنچا سکیں گے۔اس لیے تمام پڑھنے والے قارئین سے گزارش ہے کہ اس پلیٹ فارم کو جوائن کریں اور کہہ دیں جو کہنا چاہتے ہیں، ہو سکتا ہے آپ کے الفاظ کسی کے دل میں اتر جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اس طرح کسی ضرورت مند کی آواز بن جائیں۔ ویسے آپس کی بات ہے اس سودے میں برائی ہے ہی کیا کہ آپ اپنی مثبت سوچ سے اپنے عظیم ملک کی خدمت بھی کرتے رہیں اور بدلے میں آپ کو عزت اور روزگار بھی ملتا رہے۔میں ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کےبعد نیوز فلیکس کی ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ اگر یہ اتنا سا بھی سہارا نہ ملتا تو شاید میرے یہ جذبات اور الفاظ میرے اندر ہی اٹکے رہ جاتے۔