آج کل کی ٹھنڈی دھوپ کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتاہےٗ کیوں نہ آج ایک دن ،ایک لمحے کے لیے ٹھنڈی دھوپ میں بیٹھیں، کچھ دیر کے آنکھیں بند کریں اور چلملاتی ہوئی دھوپ میں کچھ دیر کے لیے اپنے ماضی، اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں۔اپنی ذات کا تجزیہ کریں اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیں جینے کے لیے نیا دن کیوں دے دیتا ہے۔
کائنات کی ہر جاندار اور غیرجاندار چیز کاآپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے محتاج اورلازم و ملزوم ہیں۔ اگر اس میں انسان ہی کی بات کی جائے تو یہ الحمداللہ اشرف المخلوقات ہے یعنی قدرت کی بنائی ہوئی ہر چیز سے افضل ۔ اب ذرہ سوچیں اگر کوئی بے جان سی چیز بھی کسی کے کام آ سکتی ہے تو پھر انسان کا کیا مقام ہو گا مثلاً اگر عام سی چیز بھی قدرت نے اگر بغیر مقصد کے پیدا نہیں کی تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قدرت نے انسان جیسی چیز کو بنا کسی مقصد کے پیدا کر دیا ہو۔
ہم ہرروز موت کے منہ سے بچ کے نکلتے ہیں، ہم روز موت کو چھوتے ہیں مثلاً اکثر ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آپ روڑ پر کھڑے ہوں یاکوئی سڑک پار کر رہے ہوں تو کسی نہ کسی موٹر سائیکل یا گاڑی وغیرہ سے بڑی مشکل سے بچتے ہیں اور اگر آپ خود ڈرائیو کر رہے ہوں یا سفر کر رہے ہیں تو کئی بار حادثہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی یہ بھی غور کیا ہوگا کہ گاڑی تک تباہ ہو جاتی ہے مگر آپ معجزاتی طور پر سلامت بچ جاتے ہیں۔اس سب کے پیچھے بھی اک راز ،اک حکمت چھپی ہوتی ہے جسے ہم کبھی غور نہیں کرتے۔
بعض اوقات ہم کسی ایسے مقام یا جگہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارا جانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہوتا مگر وہاں ایک ایسا ضرورت مندملتا ہے جس کی کسی نہ کسی صورت میں آپ مدد کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور اس شخص کوآپ نے دوبارہ دیکھا بلکہ اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔اسی طرح بعض اوقات آپ کسی مصیبت یا سفر میں پھنس جاتے ہیں تو کوئی اجنبی سا ملتا ہے اور آپ کی مشکل حل ہو جاتی ہے اور ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ “شکریہ یار تم تو میرے لیے فرشتہ بن کر ہی آئے ہو” اور کبھی کبھی وہ فرشتہ ہمارے شکریہ کہنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتاہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ فقیر کو پیسے یا کوئی اور چیز کیوں دیتے ہیں اور اگر کسی فقیر کو نہیں دیتے تو “معاف کرو” والا جملہ بول کر کیوں ٹال دیتے ہیں؟ آخر یہ آپ خود سے ہی کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ پہلاحاجت مند ہے اور دوسرا نہیں۔ یہ بھی ایک فلاسفی ہے کہ فقیر دیکھنے میں تو سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس فقیر کو دینے ہیں اور دوسرا کوئی آئے تو ٹال دینا ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ میکانزم(طریقہ کار) ہے ، مثلاً آپ ذرہ تصور کریں کہ دینے والا کون ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہے۔ اور جب فقیر گھر سے نکلا تھا تو کس آس، کس امید پر تھا، ظاہر ہے یہی کہ اللہ میری مددفرمانا، پھر وہ اللہ کا نام لیتا جاتا ہے اور اللہ ہمارے دل میں جس شخص کو دلوانا چاہتا ہے اس کے لیے رحم ڈال دیتا ہے اور ہم بنا سوچے دے دیتے ہیں۔ پھر تھوڑی دیر میں ایک اور فقیر آتا ہے اور ہم ساتھ ہی ٹال مٹول کرنے لگتے ہیں۔
اس سب کا مطلب کیا ہے؟یہی کہ دینے والی اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے مگر وہ اپنے بندے کو وسیلہ بناتا ہے اور اپنے ہی کسی پسند کے بندے کو مخصوص وقت میں کبھی بھی اور کسی سے بھی نواز دیتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم کبھی اپنی ذاتی سواری پہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نہ کسی کو لفٹ دلوا کر انسانیت کی خدمت کرتے ہوتے نیکی کرنے کا موقع دیتا رہتاہے۔ ہمارے کسی عزیز، کسی دوست کےکسی نہ کسی کام کے آنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ہمیں زندہ رکھنے کا مقصد سمجھانا چاہتاہے۔
اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اکیلی میری ذات سے اللہ تعالیٰ نے کتنے لوگوں کو منسلک کیا ہوا ہے۔ گھرسے لے کر آفس، آفس سے بازار تک کسی نہ کسی کاکا م ہماری وجہ سے مکمل ہونا ہوتاہے۔ بس کوشش کریں کہ جو زندگی اللہ نے دی ہے یہ بامقصد ہو ، ایسا مقصد جس سے انسانیت کی خدمت کی جائے۔ آپ آج جس مقام پر ہیں جس بھی منصب پر فائض ہیں، ہم اللہ کی دی ہوئی اس زندگی کا شکرانہ کسی کے کام آ کر ادا کر سکتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے بھی کہ شاید یہی وہ مقصد تھا جس کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔
Thursday 7th November 2024 8:39 am