Skip to content

اسامہ ستی یا اسامہ بن لادن

“اسامہ جب گھر سے گیا تو اس نے مجھے یہی کہا کہ میں نے ایک دوست کو چھوڑنا ہے اور’ بس چھوڑ کے میں جلدی آجاؤں گا’۔ میں نے اسے کہا کہ جلدی گھر آناٗ اس نے کہا ٹھیک ہے۔پھر میں نے 12:30پر فون کیا تو اس نے کہا میں 10 منٹ میں آتا ہوں۔ انتظار کے بعد پھر دوبارہ 1:15 پر کال کی تب وہ شاید ڈرائیونگ کی وجہ سے کال اٹھا نہیں رہا تھا۔ پھر 1:30 پر دوبارہ فون کیا تو فون بند جا رہا تھا۔ پھر 4 بجے ایک ایس ایچ او کا فون آتا ہے کہ اسامہ کے والد سے بات کروائی جائے جب کروائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس مقابلہ ہوا تھا، فائرنگ ہوئی ہے اور آپ کے بچے کو گولی لگ گئی ہے وہ پمز ہسپتال ایمر جنسی میں ہے آپ وہاں پہنچیں۔ہم مطمئن تب ہوں گے جب ہمیں انصاف ملے گا۔ پاکستان میں بہت جے آئی ٹی بنتی ہیں۔ بچوں کو مار کر یہ پولیس ان پر اور کیس ڈال دیتی ہےاور اپنے آپ کو چھپا لیتی ہے۔ اپنی نوکریاں بچا لیتی ہے۔ میرا اسامہ بہت معصوم بیٹا تھااس کو انہوں نے جانوروں کی طرح مارا ہے ۔ اس کا سینہ چھلنی چھلنی کر دیا ہے۔ انہوں نے نہیں سوچا کہ اس کی ماں ہو گی، اس کا باپ ہو گا۔ ہماری کتنی امیدیں اور خواہشیں وابسطہ تھیں اس سے مگر انہوں نے کس طرح اسے ذبح کر دیا۔عمران خان کہتے ہیں کہ یہ مدینہ کی ریاست ہے۔ کیا مدینہ کی ریاست ایسی ہوتی ہے؟”
یہ الفاظ چار روز قبل پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسامہ ستی کی والدہ کے ہیں۔ پولیس کے بارے جو اس دکھیاری ماں نے اظہار کیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ایک عام شہری کے لیے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اور جب ریاست کے محافظ ہی ریاست کے بچوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہر ماں کو اپنا لختِ جگر کھونے میں دیر نہیں لگے گی۔
یو اے ای اور سعودیہ جیسی ریاست میں سخت ترین قوانین ہونے کے باوجود بھی پولیس بڑے سے بڑے مجرم کا پیچھا ہیلی کاپڑ سے تو کر سکتی ہے مگر گولیاں نہیں مارتی۔ چلیں اسامہ کے والد کے موقف کے مطابق یہ بات مان بھی لیں کہ اسامہ کا پولیس والوں سے ایک دو دن پہلے جھگڑا ہو گیا تھا کیا تب بھی رنجش اتنی زیادہ تھی کہ کسی کی جان لے لی جائے۔ کیا یہ سیدھی سیدھی ریاستی دہشت گردی نہیں۔ جس طرح ریاست ِ امریکہ اسامہ بن لادن کی دشمن بنی ہوئی تھی کیا اسی طرح ہمارے ریاست بھی اسامہ ستی سے اتنی ہی خفا تھی اس کی جان ہی لے لی جائے۔
آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک میں پولیس اور سکیورٹی کے اداروں کی وجہ سے عام آدمی خودکو محفوظ ترین سمجھتا ہے مگر ہمارے ملک میں عام اور شریف آدمی اگر کسی سے سب سے زیادہ خوف زدہ ہے تو وہ پولیس ہے۔ کیایہ سب ان کی تربیت کا فقدان ہے یا ان سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جہاں بھرتیاں رشوت اور ایک عدد فون کال پر ہوں گی وہاں کیسے ممکن ہے کہ یہ سب تماشہ نہ ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ سب محکمے غلط اور کرپٹ ہیں ، پولیس ہی کے محکمہ میں بہت بہتری بھی آنے لگی ہے جہاں کہیں میرٹ پر نوجوان پڑھی لکھی نسل آفیسر بننے لگی ہے۔ مگر اصل مسئلہ “جڑ” کا ہے وہ جڑ جو صدیوں سے ہمارے سیاستدانوں اور وڈھیروں سے جڑی ہیں۔ ان کا اثر رسوخ مدتوں سے چل رہا ہے بس کہیں نہ کہیں جا کر ایک ایماندار آفیسر بھی بے بس ہوتا نظر آتا ہے۔
ہم آخر یہ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے کہ ہمارے لیے ہر عام آدمی کا مبینہ قصور بھی امریکہ کے مطابق اسامہ بن لادن سے کیوں بڑا ہو جاتا ہے ۔ سڑک پہ کھڑا ہوا عام سپاہی بھی کس طرح یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ جعلی پولیس مقابلہ کر کے میں ریاست میں انصاف کی رٹ قائم کر سکتا ہوں۔کاش ہمیں ہی سمجھا دے کوئی !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *