Skip to content

میرا آخری وزیراعظم

میرا ایک دوست بہت مایوس بیٹھا تھا۔ سوچا حال ہی پوچھ لوں، دلاسہ ہی دے دوں۔ عرض کیا بھائی کیوں پریشان ہو، مایوسی گناہ ہے، کیوں گھبرایا ہواہے؟ وہ کہنے لگا مایوسی اور گناہ بعد کی باتیں ہیں’ شاید اتنا دکھ گناہ ہونے کا نہ ہو جتنا دکھ انسان کو اپنی توقعات کے پورا نہ ہونے پر ہوتاہے۔وہ بولتا چلا گیا۔ اس نے کہا مجھے اس نئی حکومت پر بہت زیادہ امیدیں تھیں۔ مجھے ہی نہیں ہم پوری ینگ جنریشن کو بہت سی توقعات وابسطہ تھیں۔پڑھائی سے لے کر کاروبار تک کس کی حکومت آئی ، کس کی گئی؟ کون وزیراعظم بنا، کون اس کرسی سے اتر گیا؟ ان معاملات میں کبھی دلچسپی لی نہ کسی کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ نہ دکھ تھا نہ ہی کوئی ملال تھا۔
پھر موجودہ وزیراعظم نے اپنے قول و اقرار سے ہم ینگ جنریشن کے د ل موہ لیے یا شاید سبز باغ دیکھنا ہماری شروع سے کمزوری رہا ہے پس وہ سبز باغ دیکھنے لگے۔ ہم بھی آنے والے وزیراعظم کو دیکھنے، سننے اور پسند کرنے لگے۔ دعائیں مانگیں، کمپئن کی۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ آخر ان کی حکومت آگئی۔ سکھ کا سانس آئے گا یہ امید بھی بندھ گئی۔
شروع شروع اور موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ٹی وی اور ٹاک شوز دیکھنا چھوڑدیے کہ میڈیا نے تو بس اپنا چورن بیچنا ہوتاہے۔ حکومت مخالف پراپیگنڈاہوتا ہی ہے، بہتر ہے کہ وقت دیا جائے۔ وقت دیا۔
اب آدھی مدت گزر چکی ہے پھر بھی دو قدم آگے جانے کی بجائے ملکی حالات چار قدم پیچھے کی طرف دھکیلے جارہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن کی سب سے خوش آئند بات یہ تھی کہ پہلی بار نوجوان نسل میں سیاسی شعور امڈ آیا تھا۔ عمران خان کو وزیراعظم کم مسیجا زیادہ سمجھا جانے لگا تھا۔
اڑھائی سال ، جناب عالیٰ اڑھائی سال کی عمر میں بچہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے جبکہ اڑھائی سال بعد پاکستان وینٹی لیٹر پر پڑا محسوس ہو رہاہے۔ ہمارے وزیراعظم کے دو ہی اعلیٰ ترین مقاصد تھے، جن میں پہلا اپوزیشن کو بازومروڑنا تھا جو بہت خوب اور اچھے طریقے سے مروڑا بھی گیا۔ جبکہ دوسرا مقصد ملکی اصلاحات لانا تھا۔ دوسرا مقصد تو اب پتہ نہیں کہاں راہ گیا ہے۔ جب اس حقیقت کو دیکھنے ہیں تو ملی ہوئی روحانی خوشی بھی دکھ میں بدل جاتی ہے۔ اب بھلا وزیراعظم کو کون بتائے کہ جناب عالیٰ، عزات مآب آپ پائلٹ ہیں ، اس وقت پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کے آپ ہی کرتا دھرتاہیں۔ ہماری ساری امیدیں آپ سے وابسطہ ہیں۔ لوگ گاڑی سے زیادہ ڈرائیور کو دیکھتے اور اعتماد کرتے ہیں کہ یہ درست اور صحیح منزل کی طرف ہی لے کر جائے گا۔
اگر مزید اگلے اڑھائی سال اسی رسہ کشی میں گزرے تو ہمارا رہتا اعتماد اور یقین بھی اٹھ جائے گا پھر ہمیں آصف علی ذرداری ، میاں نواز شریف اور عمران خان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا۔پھر وہ دن دور نہیں رہے گا جب میری طرح ہو آدمی سیاست کو ایک گالی سمجھے گا اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب بس۔یہ میرا آخری وزیراعظم تھا۔ شاید ہم پھر اپنی نوجوان قوم میں پہلے جیسا اعتماد بحال نہ کر سکیں۔

1 thought on “میرا آخری وزیراعظم”

  1. Pingback: ریاست مدینہ اور ناحق قتل - نیوز فلیکس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *