کبھی کبھی ہماری لڑائی اپنے آپ سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً جب کبھی ہم کوئی غلط کام کرنے لگتے ہیں توہمارے اندرسے ایک آواز اٹھتی ہے کہ یہ کام نہ کریں اس سے نقصان ہوسکتاہے۔ اسی طرح کبھی ہم کام اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اگر ہم کسی مقصد کو پانے کے لیے آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں توکیوں نہ دس گھنٹے کام کیا جائے تاکہ کارکردگی مزید بہتر ہو جائے۔
کبھی بیٹھے بیٹھے ہمیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں ‘ ہمیں اس سے بھی بہتر اور اچھا کرنا چاہیے۔ ہم پہلے سے زیادہ محنت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم اپنے معمول سے اتنے تھک جاتے ہیں کہ کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کر رہا ہوتاحتیٰ کہ ہمت ہار جاتے ہیں لیکن پھر ایک دم سے ہمارا دل اسی کام کو زیادہ جوش سے کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور ہم پھر ہمت پکڑ لیتے ہیں۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے ہم میں ہی ایک ایسا شخص بستا ہے جودرحقیقت ہمارا اصل ہوتاہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ ہر فر د کے اندر ایک اچھا اور باصلاحیت انسان چھپا ہوتاہے جوتھک تو سکتا ہے مگر ہار نہیں سکتا۔
ہر ناامیدی میں امید کی کرن بنتا ہے۔
جب حالات خراب ہوں تو ہم کو حوصلہ دیتا ہے۔
ہم کو یقین دلاتا ہے کہ کوئی بھی کا م نا ممکن نہیں ہے۔
اچھا ئی اور برائی میں فرق کو واضح طور پر دیکھ سکتاہے۔
جو ہمیں حوصلہ دیتاہے اک بار اور کوشش کرکے تو دیکھو۔
ہمارے اندر کی آواز ہوتا ہے جو ہم کو بھٹکنے سے بچا لیتا ہے۔
الغرض جو تم کو تمہارے اندر چھپی بے شمار صلاحیتوں کا احساس دلاتا ہے کہ“تم یہ کر سکتے ہو”
وہی اصل ہیرو ہوتاہے۔ ہم کو صرف اسے اپنے اندر سے پہچاننا ہوتا ہے اور ایسا ہی بننا ہوتاہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟
بہت آسان ہے صرف اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ ہم باصلاحیت ہیں‘ صرف ایک بار کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر مقصد کے نہیں ہوتی ۔ ایک چھوٹی سی اور عام سی مثال ہی لے لیں کہ کوڑا کرکٹ جو بظاہر ہماری نظر میں صرف اور صرف گندی کے سوا کچھ نہیں مگر وہ بھی ایندھن کے طور پر استعما ل ہوتاہے ۔ اسی طرح ہر چیز کے دنیا میں ہونے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ ان چیزوں سے کسی نہ کسی طرح فائدہ ضرور حاصل ہوتاہے۔
مگر ہم تو الحمدللہ اشرف المخلوقات ہیں۔ صاحبِ شعور بھی ہیں۔ ہمارے پیدا کیے جانے کا بھی کو ئی نہ کوئی مقصد اور فائدہ ضرور ہے۔ ہمیں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی خودی کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت جس کا کوئی نعم البدل نہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز ہمارے اختیار میں دی ہے۔ عقل بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہی ہے جس سے انسان شیر جیسے طاقتور ‘ہاتھی جیسے بڑے جانور پر قابو پا لیتا ہے اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کر رہا ہے۔
کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ ہم آج تک جس سے بھی ملے ہیں اس میں کو ئی نہ کوئی انوکھی بات ضرور تھی۔ کوئی پڑھائی میں بہت اچھا تھا تو کوئی اپنے ہنر میں بلا کی مہارت رکھتا تھا۔ ہم جب بھی غور کریں گے تو ہم کو احساس ہو گا کہ جو کام ہم کو شروع شروع میں ناممکن اور مشکل لگتا تھااسے ہم مکمل کرنے کے بالکل قریب ہیں۔ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ تو کوئی مشکل ہی نہ تھاایسے ہی اس کو کرنے سے ڈر رہے تھے۔ اب ایسا کیوں سوچتے ہیں؟
اس لیے کہ ہم نے کوشش کی تھی اور مستقل مزاجی اختیار کی تھی پھر ہمارے اندر سے حوصلہ اور ہمت بڑھتی رہی اور آخر ہم نے اپنے مقصد میں کا میابی حاصل کر لی۔ یعنی اس کام کو کر دکھایا۔
میرا ایمان ہے کہ ہم کسی نہ کسی صلاحیت کے مالک ضرو رہیں۔ بس اسے تلاش کیجیے اور ڈٹ جایئے کیوں کہ کامیاب انسان کی فطرت سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ تھک تو سکتا ہے مگر ہار نہیں سکتا۔