غیر اخلاقی رویہ اور گالیاں دینا

In ادب
January 17, 2021

اخلاقیات ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ انسان کبھی بھی اپنی حاصل کی گئی ڈگریوں سے پہچانا نہیں جاتا۔ ایک مہذب اور اچھے انسان کی پہچان اس کا اچھا اخلاق سے ہوتاہے۔ روز مرہ زندگی میں ہمیں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ان سے ہماری گفت و شنید بھی ہوتی ہے۔ اس دوران ہم غور کرتے ہیں کہ دوسرا ہمیں کونسے الفاظ سے مخاطب کرتاہے اور وہ اپنے الفاظ میں ہمیں کتنی عزت و تکریم بخشتاہے۔ اس طرح ہم اس بات کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگلا شخص کس حد تک بااخلاق ہے۔
اخلاق اچھا ہو یا برا ۔ ا س کے بارے میں میں جتنا کچھ سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاق نیوٹن کے قوانین حرکت میں تیسرے قانون کی طرح ہوتاہے۔ اگر تم کسی سے اچھے اخلاق سے پیش آتے ہو تو وہ بھی بدلے میں تم سے ویسے ہی اخلاق کا مظاہرہ کرتاہے۔ ایسا تو ہرگز دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہم نے کسی کو گالی دی ہواور اس نے بدلے میں دعا یا شاباش دی ہویا ہم نے کسی کو دعا دی ہو اور دوسرے شخص نے بدلے میں بد دعا ۔
اخلاقی اعتبار سے ہمیں یقینا وہی کچھ ملتاہے جو ہم دینے کی کوشش کرتے ہیں””

کسی کی عزت اور احترام کیسے کیے جائیں ان سے ہم سب باخوبی واقف ہیں۔ ہم نے یہ بھی بہت سیکھاہواہے کہ چھوٹوں سے لیکر بڑوں تک کیسے مخاطب ہو ا جائے۔مگر میرا مقصد یہاں کچھ غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں بات کرنا ہے جو ہم کبھی کبھی نا چاہتے ہوئے بھی اپنا لیتے ہیں اور یہ ہماری شخصیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔پھر یوں لوگ ہماری عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
گالیاں دینا:
بعض لوگ بہت جلد غصہ کرنے والے ہوتے ہیں کہ معمولی سا بھی کام بگڑا نہیںاور گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔غصہ کی حالت میں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس کو گالی دے رہے ہیں اس سے کتنا مقدس اور قریبی رشتہ ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ اکثر گالیا ں ہی دیتے ہیں۔ مگر اس میں انتہائی افسوس ناک پہلو یہ کہ اس بیماری میںپڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ جس کی واضح مثال آپ کو ان طلبہ کی بھی مل سکتی ہے جو آئے روز سڑکوں پہ بسوں والوں سے الجھتے رہتے ہیں اور پھر ذاتی انا کی وجہ سے لڑتے رہتے ہیں۔ خوب گالی گلوچ بھی کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گالیاں دینے کی ضروت پڑتی ہی کیوں ہے؟
آخر ایسا کون سا محرک ہے جو ہمیں گالیاں دینے پر مجبور کرتاہے؟
وہ ہے”غصہ“
ہم جتنی طاقت جتنا زور کسی بات پر غصہ ہونے پر اور پھر اس پہ ردِعمل کرنے پر لگاتے ہیںاگر یہی طاقت اور زور اسی غصہ پر قابو پانے پر لگا دیں تو ےقینا بات کے مزید بگڑنے سے بچ سکیں گے۔ ہم اکثر بہت جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ کیاایسا ہونے سے مسئلہ حل ہو جاتاہے؟ ہاں اگر کبھی اس طرح آپ کا مسئلہ حل ہوا ہو تو پھر آپ کا غصہ کرنا جائز بھی ہے۔ ہم یقین تو رکھتے ہیں کہ ہم اپنے غصے پر قابو پا سکتے ہیں مگر کوشش نہیں کرتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارا نقصان کر دے یا ہماری کوئی چیز توڑ دے تو ہم بدلے میں فوراًگالی دینے کو کرتے ہیںجبکہ اس سے وہ نقصان بھی پوراکرنے کو نہیں کہتے بلکہ کبھی کبھی تو اتنا بڑا پن دکھاتے ہیں کہ اسے معاف تک کردیتے ہیں اور جو بھی نقصان ہوا ہو وہ برداشت بھی کر لیتے ہیں۔
ایسے میں میراعاجزانہ سوال بس اتنا سا ہے کہ
اگرنقصان پورا کروائے بغیر رہا جا سکتا ہے تو وقتی طور پر گالیاں دیے بغیر کیوں نہیں؟
جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اگتے ہیں”

/ Published posts: 20

Teacher & Inspirational Story Writer

Facebook