ماں
آپ شاید میری اس بات سے اتفاق نہ کریں مگر میرا یمان ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ان سے زیادہ جانتی اور سمجھتی ہے۔ جب بچے کو ابھی بولنا بھی نہیں آتا ماں تو تب سے ہی اس کے اندر چھپی طلب کو سمجھ لیتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارا بچپن بھی ہے کہ جب ہم بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور بولناتک نہیں جانتے لیکن پھر بھی ماں ہماری سب تکالیف سمجھ لیتی ہے۔ ہماری بھوک کو محسوس کرتی ہے۔
کبھی آپ نے ایک لمحے کے لیے تخیل کیا کہ سردیوں کی رات میں جب کو ئی بچہ بستر گیلا کر دیتا ہے تو ماں خود اس گیلی جگہ پر لیٹ جاتی ہے اور بچے کو اپنی خشک جگہ پر لٹا دیتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں خود گرمی جھیلتی ہے ،نیند خراب کرتی ہے مگر اپنے بچے کو ہوا دیتی رہتی ہے اور اس کے آرام کا پورا بندوبست کرتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ماں اپنے بچے کے لیے دعا گو رہتی ہے
بچپن سے جوانی تک میرے سارے عمل خطا کے تھے
ایسے میں میری ماں کے حوصلے بلا کے تھے
میں چلتا رہا ، گرتا رہا اور سنبھل کے آگے بڑھتا رہا
میری کامیابیوں کے پیچھے ہاتھ میری ماں کی دعا کے تھے
باپ
باپ اپنے بچے کو نہ صرف بچپن میں انگلی پکڑ کر چلنا سیکھاتا ہے بلکہ زمانے کی سختی اور تند و تیز دھوپ میں بھی اسے جینا سیکھاتا ہے۔ جب کبھی ہارا ہوا انسان گھر لوٹتا ہے تو باپ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ اسے پھر سے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کو تیار کرتا ہے اور پھر جب وہ جیت جاتا ہے تو باپ اپنے بیٹے کی کامیابی پر فخر سے جینے لگتا ہے۔ باپ کی قربانی کی مثال اس سے بڑی اور کیا دوں کہ کڑی دھوپ میں وہ سارا سارا دن محنت کرتا ہے۔ اپنے خون پسینے کی کمائی سے بچت کر کے اپنی اولاد کے مستقبل کو بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ صرف اپنی اولاد کے لیے ہی لوگو ں سے زیادہ سے زیادہ لین دین کرتا ہے اس دوران کبھی کبھی اسے جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے اپنی عاقبت خراب بھی کرنا پڑتی ہے۔ مگر اس کے باوجود باپ کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کر لے تاکہ وہ بعدمیں اچھی اور بہتر سے بہتر زندگی گزار سکے۔ خود بھوکہ رہ کر بڑی مشکل سے گزر بسر کرکے اپنی اولاد کا مستقبل روشن اور یقینی بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔
باپ کی ہر وہ نصیحت جو تم کو کڑوی لگے وہی ان کی محبت ہوتی ہے اور باپ کی محبت تمہیں زمانے میں رسوا نہیں ہونے دیتی۔انسان جب حالات اور دنیا کے دھکے اور بار بار ٹھوکریں کھا چکا ہوتا ہے ۔ تھک ہار جاتا ہے تو اک لمحے کے لیے اسے خیال آتا ہے کہ میں نے جس کے ساتھ بھی اچھا کرنے کرنے کی کوشش کی، جس کے ساتھ بھی نیک نیت سے چلنے کی کوشش کی، سب نے دھوکہ ہی دیا، سب نے میر ی جڑ تک کاٹنے کا منصوبہ بنایا۔ اگر کسی سے تعلق بنا یا بنایا کوئی وجہ تھی، کوئی غرض تھی۔ جو کوئی ساتھ چلا اسے بھی مجھ سے کسی نا کسی طرح کا طمع تھا۔ سب لالچی تھے۔ سب مطلب پرست تھے۔ پھر حالات سے ستایا ہوا شخص ٹھنڈی ہاہ بھرتے ہوئے کہتا ہے ہائے میں قربان جاؤں پانے ماں باپ پہ جن کو کوئی طمع کوئی لالچ نہ تھا۔ جن کی محبت میں کوئی بناوٹ نہ تھی۔ سنا تھا مگراب جان بھی لیا کہ واقعی والدین ایسے ہوتے ہیں جو سراپا محبت اور محض محبت ہوتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے والدین کو ہمیشہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔