Skip to content

کھلا خط قائد بنام عوام

کھلا خط قائد بنام عوام (شبانہ اشرف)

25 دسمبر 2020
اے ہم وطنو! السلام وعلیکم

آ ج 25 دسمبر ھے میرا یوم پیدائش تم میں سے کچھ لوگ مجھے خراج پیش کر رھے ہیں تو کچھ مجھے برا بھلا بھی کہہ دیتے ہیں۔ مگر مجھے آ ج بھی ایک ھی فکر کھائے جا رھی ھے کہ تم کب سنبھلو گے۔ اقبال اکثر آ کے تمھا را تذکرہ کرتا ھے کہتا ھے اس کے پیغام کو آ پ عوام نے سرے سے فراموش ھی کر دیا اور اس کے نام و پیغام کو نصاب سے بلکل مٹا دیا۔ کہتا ھے تم میں سے کچھ لوگ پیسہ لے کے یہ کام کر رھے ہیں۔ کیونکہ وہ اقبال کے پیغام سے خوفزدہ ہیں کہ اک بار پھر تم سب خودی و عزت نفس کا درس جان لو گے۔

مگر میں کس کے آ گے جا کے شکوہ کروں آ ج بھی وہ بچی یاد ھے مجھے، جو ریشمی رومال پہ پاکستان کا نقشہ کاڑھ کے لائ تھی تب میں نے سوچا تھا میں نے پاکستان بنانے کی جدو جہد نہ کی تو اس بچی کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ مگر اب تو ھر دوسرے دن ایک بچی درد کرب میں مبتلا میرے پاس جنت میں آ کے کہتی ھے اے قائد ! دیکھ تیری قوم کے لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا؟ میں نظریں چرائے ایک طرف بیٹھ جاتا ہوں -تاریخ کی سب سے بڑی ھجرت کرنے والوں پے جانے کیا بیتی کہ وہ مہاجر کی رٹ لگا کے اپنے دیس کو اجنبی کر گئے ۔ سقوط ڈھاکہ میرے دل پہ چھری کی طرح پیوست ھے مگر تمیں سندھی ، بلوچی، پنجابی، پٹھان سے ھی فرصت نہیں ۔ اگر ایسا ھی کرنا تھا تو پاکستان کی کیا ضرورت تھی۔ میرے کچھ بچے آج بھی مودی کے یار ہیں اس سے مدد مانگتے ہیں یہ معصوم، مودی کو رکھشہ بندھن کے پیغام دیتے ہیں اور اسے دوست سمجھتے ہیں مگر صد افسوس مودی جیسے وطن دشمن انہیں کام نکلوا کے مکھن سے بال کی طرح نکال دیتا ھے اور اس پہ بھی کسی کی آ نکھ نہیں کھلتی۔

میں نے کہا تھا عورت کو ملک کی ترقی میں مکمل حق دے کے ساتھ لے کے چلنا کہ بہترین ماں بہترین قسم کو جنم دیتی ھے اور یہ عورتیں علم کے میدان میں خاطر خواہ کارنامے سر انجام دینے کی بجائے میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے لگیں ۔ کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا تھا فاطمہ جناح کس طرح تحریک آ زادی میں میرے ساتھ ساتھ تھی۔ ھاں تم سب کی مادر ملت جس کی قبر پہ بھی تم سب سیاست چمکانے چلے جاتے ھو۔ اس روز وہ بھی بہت اداس تھی میرے پاس دل گرفتہ آ کے کہنے لگی۔ کیا اب چور ، ڈاکو میرا نام استعمال کریں گے کیا مادر ملت کو حق حاصل ھو گا کہ ابامہ کی بیوی سے تعلیم کے نام پہ لی گئ رقم سے اپنے چہرے کی چھلائ، مرمت ڈینٹینگ ، پینٹنگ کرے اور مادر ملت بھی کہلائے۔بھائ جان آپ کو تو پاکستان بننے کے بعد اس کرسی پہ بھی اعتراض تھا جو دوسرے سامان کے ساتھ گورنر ھاؤس میں میں نے اپنے لئے منگوائی تھی۔ اور آ پ نے تو اس کی قیمت بھی مجھ سے دلوائی تھی۔ آ پ تو فالتو بتیاں بجھا کے کہتے تھے کہ اس پیسے پہ عوام کا حق ھے مگر اب تو چوری کی گیس اور بجلی میں آ پ کی قوم دھڑلے سے زندگی گزارتی ھے۔

میں وکیل ھونے کے باوجود تم سب کے کرتوتوں کی کوئی دلیل نہیں دے سکتا۔ تمارا کوئی سیاستدان میرے پاس ابھی تک نہیں پہنچا کہ اسی سے ھی کچھ پوچھ سکوں ۔ لیاقت علی خان سے سوال کروں تو کہتا ھے میں تو کہہ کے آیا تھا اے اللہ ! پاکستان کی حفاظت کرنا۔ میرا کہنے کو من نہیں کرتا اسلئے اے قوم ، سنبھل جاؤ۔ نہ تمہاری تجارت ایمانداری پہ منحصر ھے نہ تمہیں علم سے لگاؤ ھے ۔ 72 برسوں کے بعد بھی تمہارے پاس اپنا تعلیمی سسٹم نہیں ، پولیس کی ریفارم نہیں۔ جوڈیشری میں ابھی تک برٹش لاء کو لے کے بیٹھے ھو۔ تمارا بیوروکریٹ سسٹم بھی ان ھی خطوط پہ چلتا ھے جن سے تمہیں چھٹکارا دلانے کی کوشش کی تھی۔ عوام سرونٹ ھے تم مالک ھو۔

میرے بچو میں اور کتنا جی لیتا کہ تم لوگ بلوغت کو پہنچ جاتے مجھے تو آ نا ھی تھا مگر تم کیوں بکھر گئے۔ میں تو سمجھا تھا آ زاد وطن پا کے تم خود ھی اس کی قیمت جان لو گے مگر تم تو آذادی کے ھی درپے ھو گئے۔ آ ج سوچا تم لوگوں کو بتا دوں میں یہاں خوش نہیں ھوں جو تمہیں محنت و کوشش سے دے کے آ یا تھا تم لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی۔ اپنے آ باؤ اجداد کی قربانیوں کا اچھا صلہ نہیں دیا مگر دعا ھے اللہ تم لوگوں کو عقل سلیم عطا کرے۔

تمارا دلگرفتہ قائد
محمد علی جناح

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *