*غربت کے قانون*
(بہرام علی وٹو)
جون کے مہینہ میں سورج آگ کے شعلے برسا رھا تھا۔بابا بشیر پسینے سے شربور سبزی والے ٹھیلے کو تیز دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کا سارا جسم پسینے سے گیلا ہوچکا تھا۔لیکن وہ اپنا آخری زور تک لگا کر ٹھیلہ تیز سے تیز چلا کر محلہ قائد آباد پہنچنا چاہتا تھا۔کیونکہ اسے امید تھی کہ وہاں اس کی کچھ سبزی بک جاۓ گی ۔
وہ ٹھیلہ چلاتے چلاتے سوچ میں گم ہوگیا کہ ابھی اس نے صبح کے صرف 2 سو روپے کماۓ ہیں ۔جو وہ ریڑی کا کرایہ دۓ گا۔اورگھر میں تمام راشن ختم ہے۔ آٹا بھی ختم ہے۔نیک بختاں کی ادویات بھی لے کر جانی ہیں۔چھوٹےسلطان کی جوتی 1 ماہ سے جواب دۓ چکی ہے۔ اب تو جوتی پر ٹانکے اتنی جگہ لگ چکے ہیں۔کہ جوتی میں کوئ جگہ باقی نہیں رہی۔ایک ماہ سے کل کا وعدہ کر آتا ہے۔اچانک ڈھڑک کی آواز سے بابا بشیر سوچوں سے باہر آیا۔تو اس کی ٹھیلے سے ایک گاڈی ٹکرا چکی تھی۔اور ریڑی سے ساری سبزی سڑک پر گر گئ۔گاڑی والے گاڈی والے کا شیشہ تھوڈا سا ڈون کیا (زیادہ اس وجہ سے نہ کیا کہ کہیں گاڈی میں گرمی داخل نہ ہوجاۓ اور اے سی کی کولنگ کم نہ ہوجاۓ)اور کہتا اوہ بابا ہوش کر میری گاڈی کا بمپر ٹوٹ جاتا تو میں تیرا باپ بمپر کے پیسے ادا کرتا۔اور تجھے ملکی قانون کا نہیں پتہ کہ ٹھیلہ کس جانب لے کر چلتے ہیں۔بابا بشیر سڑک سے سبزیاں اُٹھاتے ہوۓ ۔روتے ہوۓ آہستگی سے کہا۔
بیٹا “غربت کا قانون ملکی قانون کو کہاں سمجھنے دیتا ہے”
Nice