میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی اور میں ایک پڑھی لکھی ہوں میرے شوہر کا نام عمر ہے اور مجھے عمر سے بدبو آتی تھی۔
میں اس کو پسند نہیں کرتی تھی اور میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ اے میرے خدا یا تو عمر کو مار دے یا پھر میری عمر سے جان
چھڑوا دے سچ بتاوں تو میں اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی جو خوبصورت بھی ہو پڑھا لکھا ہو اور اچھا کماتا ہو لیکن کچھ مجبوریوں
کی وجہ سے میری شادی عمر سے ہوگئی جو ایک بدصورت اور ان پڑھ انسان تھا۔ عمر ایک غریب لڑکا تھا اسکا کام اچھا نہیں تھا وہ
مزدوری کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا۔
ایک دن میں جان بوجھ کے عمر سے لڑائی کر کے میکے چلی گئی جب امی ابو نے پوچھا کیا ہوا ہے تو میں نے جھوٹ بولا کہ عمر
مجھے خرچہ نہیں دیتا تو میرے والدین نے کہا بیٹا عمر ایک یچھا لڑکا ہے ہو تم کو خرچہ کیوں نہیں دیتا۔ بس پھر میرے والد نے عمر
کو بلایا اور کہا کہ تم شہزادی کو خرچہ کیون نہیں دیتے تو عمر نے جواپ دیا کہ میں جو بھی کماتا ہوں اس میں سے گھر کا سارا خرچہ
نکال کے جو باقی بچتا ہے وہ میں شہزادی کہ ہاتھ پہ رکھتا ہوں۔ میرے والد نے کہا کہ اچھا تم میری بیٹی کو تیس ہزار روپے
ہر مہینے خرچہ دو گے تو اس پر عمر پریشان ہوگیا کیوں کہ اسکا اتنا کام نہیں تھا لیکن پھر بھی عمر نے خرچہ دینے کی
ہامی بھر لی اور میرے والد نے مجھے عمر کےساتھ گھر بھیجنےلگے تو اس وقت مجھے عمر پر بہت غصہ آیا اور میں نے دل میں کہا
کہ اچھا تم گھر چلو میں تمہارا کیا حال کرتی ہوں۔
میں عمر کے ساتھ گھروا پس آجاتی ہوں اگلے دن عمر کام پر چلا جاتا ہے کچھ دیر بعد میں بھی اپنی دوست کے ساتھ شوپنگ کر نے چلی جاتی
ہوں راستے میں اچانک نظر عمر پر پڑتی ہے۔ عمر سخت گرمی میں مزدوری کر رہا تھا کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور پاوں میں جوتی ٹوٹی ہوئی
تھی اور پسینے میں نہایا ہوا تھا میں دیکھ رہی تھی کہ عمر میرے سامنے تھک کر ایک جگہ پر بیٹھ کر کچھ کھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہاں
پر مجود ایک شخص عمر کو کہتا ہے اٹھو کام کر بیٹھ کیوں گئے ہو یہ سب دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے عمر سب کچھ میرے لیے کر
رہا تھا اور میں شوپنگ کیئے بغیر گھر واپس آگئی۔
میں گھر واپس آ کے رونے لگ گئی مجھے اس دن مجھے احساس ہوا کہ عمرے میرے خرچے پورے کرنے کیلیے کتنی مشکالات سے گزرتا ہے
اور میں اس کو گھر میں کھانا تک نہیں دیتی اور نہ اس سے ٹھیک سے بات کرتی ہوں اس دن میں بہت شرمندہ تھی میں پڑھی لکھی ہو کے بھی
اپنے شوہر کو نہں سمجھ سکی عمر پلاو شوق سے کھاتا تھا میں نے اس کےلیے پلاو بنایا جب عمر گھر آیا تو سیدھا کچن میں چلا گیا اس نےدیکھا
کہ پلاو بنا ہوا تھا تو وہ بہت خوش اور کھانا لے کر میرے پاس آ کے بیٹھا اور کہا ایک سال بعد پلاو کھا رہا ہوں عمر کی انکھوں میں تھکا وٹ
صاف دیکھائی دے رہی تھی۔ عمر نے کھانا کھانے کے بعد تیس ہزار روپے مجھے دینے لگا تو میں پھر رونے لگ گئی اور عمر کے ہاتھ پاوں
چومنے لگ گئی میں نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔
عمر حیران تھا کہ آج اس کوکیا ہوگیا ہے اس مجھ سے پوچھا کہ اگر پیسے تھوڑے ہیں تو اور بھی لا دوں گا لیکن مجھے چھوڑ کے نہیں جانا
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں نہ میں نے عمر سے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیئے اور میں اب کپھی تم کو چھوڑ کے نہں جاونگی۔
شکریہ۔