Skip to content
  • by

مشرقی عورت

زیب نامی ایک تھی جوکہ بہت خوبصورت لڑکی تو تھی ہی لیکن سیرت کی بھی بہت اچھی تھی بڑوں کی عزت کرنا اسے خوب آتا تھا ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور مذہبی لڑکی تھی اپنا ہر عمل خداواحدد اور رسول ص کے مطابق کرتی یاد نہیں پڑتا کہ اس نے کبھی بھی نماز قضا کی ہو روزے چھوڑیے ہوں تہجد کی نماز میں آنکھ نہ کھولی ہو سائل کبھی خالی ہاتھ دروازے گزر گے ہوں پورا محلہ زیب کی نیک سیرت کی بات کرتے رہتے اس کے منہ پر بھی کئی بار لوگوں نے اس کی تعریف کی مگر اللہ کا کرم اس نے کبھی غرور نہیں کیا چھپ کر نمازیں ادا کرتی لیکن اللہ خود ہی اسکی نیک سیرت سب پر واضح کرتا رہتا.

خاندان کی ہرعورت اسے اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتی تھی مگر اسی خاندان کے لڑکے اس نیک سیرت والی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتے جیساکہ میں پہلے عرض کیا کہ وہ خوبصورت بھی بہت تھی مگر پردے کی پابند تھی اس لیے کسی بھی نامحرم نے آج تک زیب کو نہیں دیکھا مردوں کا کہنا تھا کہ آج کے اس دور میں انھیں شریکِ حیات اسی چاہیے جو قدم قدم سے ان کے برابر چل سکے اس ہی وقت گزرتا گیا اور ایک کی عمر 29 برس تک جاپہنچی والدین پریشان بھائیوں کی شادی ہوگی بھابیاں ایک اکلوتی نند بھی برداشت نہیں کرسکتی ہے اچانک ایک دن زیب کے گھر پر دروازے پر دستک ہوئی سلطانہ بی آئی تھی جوکہ رشتے کرواتی تھی زیب کے لیے مناسب سے رشتہ لےکر آئی گھر پر سب ہی بہت خوش اللہ نے کرم فرمایا لڑکے کی ایک جگہ پہلے بھی شادی ہوچکی مگر زیادہ چل نہ سکی دو سال میں طلاق ہوگی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ عورت کردار کی خراب تھی ناجائز تعلقات تھے اسکے زیب کے والدین اس بات پر راضی نہیں ہوپارہے تھی لیکن بیٹے اور بہوؤں کے مجبور کرنے پر انھوں نے بنا تفتیش کیے اپنی پھول سی پچی زیب کی شادی کردی 20 جون1980 کو وہ شادی کرکے سسرال چلی گئی شادی کی رات زیب پر سب سے پہلی بات جو واضح ہوئی وہ یہ عمران جوکہ زیب کا شوہر تھا شراب پی کر کمرے داخل ہوا زیب عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی لیکن اس نے اسکی نماز ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اس بات بر ہی نئی دلہن کے گال پر تھپڑ دے پڑا کہ وہ اس کا انتظار کیوں نہیں کررہی تھی زیب حیران رہ گیا اس کے ساتھ ہوا .

کیا صبح فجر کے وقت اسنے خوف کے عالم میں صرف دو رکعت فرض ادا کیے اور کمرے سے باہر چلی گئی باہر گی تو بڑی بی یعنی زیب کی ساس جہز میں کچھ نہ لانے کے لیے طعنے دینے کو تیار ہی تھی کچھ ہی میں زیب کی والدہ اور ایک بھائی بھابھی ناشتہ لےکر ان کے گھر آئے ناشتے دوران زیب کی ساس اور اس کا میاں دونوں نے ہی زیب کے گھر والوں سے زیادہ کچھ آچھا سلوک نہیں زیب کی بھابی نے ذیںمب سے کہا تمھارے سسرال والوں ظرف کا اندازہ ہوگیا تو لہذا کسی بھی صورت ہمارے گھر آنے کی سوچنا بھی مت وہ چلے گے زیب سسرال والوں کے طعنے شوہر کی ماں کھاتی رہے تمام تر نفلی عبادات کی اجازت سے شوہر سے مانگی اسنے منع کردیا تو وہ صرف انجام ادا کرتی چھپ زیادہ تر نمازیں جمع کرکے ادا کرتی اکثر آخری پہر میں نمازیں ادا کرتی وقت گزرتا گے یہاں دو سال گرزگے اس دوران زیب کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی لیکن عمران اور اسکی ماں کی پیدائش سے خوش نہ ہوتا یہاں زیب نے ہیٹی کو جنم دیا اور اسی کے دو گھنٹے بعد شوہر سے غصہ برداشت نہ ہوا کہ بغیر دکٹر کی اجازت کے زیب کو گھر لے آیا اور خوب مارا .

اور جس کی وجہ سے زیب دوبارہ ماں بنے سک سے ہمیشہ کےیے محروم ہوگی مگر اس بات کا علم انھیں ابھی نہیں ہوا بیٹی کی پیدائش کے چار ماں زیب کے والد کا انتقال ہوگیا بڑی مشکل صرف والد منہ دیکھنے کی اجازت دی عمران نے زیب کو ماں نے بیٹی کو سال بعد دیکھا اور نواسی نا تو اس بےبس ماں کو علم ہی نہ تھا بلکہ اس گھر میں زیب کی بات ہی کبھی کسی نہ کی یہ تو ماں نے ایک بار کہا کہذیب کو باپ کے مرنے اطلاع دے دو تو ناجانے کیسے چھوٹے بھائی رحم آگیا اور زیب کے سسرال میں فون کرکے اطلاع کردی مشکل آدھا گھنٹہ لگا اور زیب اور بچی گھر واپس آگے پچی کی پیدائش کے چار ماہ بعد بھی پچی نام کسی نے نہیں رکھا زیب نے خود ہی دل میں اپنی پچی کو مریم کے نام سے جانتی زیب میں وہ بات نہیں رہی پچی روئے وہ کانپنا شروع ہوجاتی کہ اسکی ساس اور عمران اس کے رونا برادشت نہیں کرسکتے زیب بغیر اچھی تو دور تین وقت کی مکمل خوراک کے بچی کو دودھ پلاتی گی جسکی وجہ اس کے جسم سے زور ختم ہوتا گیا خوبصورتی اس کا ساتھ چوڑتی چلی جارہی میاں کی مار الگ زیب میں وہ خوبصورتی۔ ہ رہی تو میاں نے بس اسے ایک بےجان نوکرانی سے اوپر نہیں سمجھا ہوا تھا اور دیکھتے دیکھتے مریم 2سال کی ہوگی.

مگر صرف زیب کے لیے کیونکہ اس کے باپ اور دادی تو اول تو کبھی مخاطب ہی نہیں کیا اور کیا بھی بےمراد اتنی بچی کو گالی دے کر ہی بولاتے اب بڑی بی اور عمران کو یہ پریشانی ہونے لگی کہ زیب دوبارہ ماں کیوں نہیں بن رہی اب بڑی بی زیب کو لے کر ایک حکیم کے باس گئی حکیم نے حکمت شروع کردی جس سے زیب دن گزرنے ساتھ بہت بیمار ہوتی گی کمزور ہوتی چلی جارہی تھی گھر کے کام اب اس سے نہیں ہورہے تھے ایک دن عمران نے سوچا کہ ڈاکٹر سے چیک کروالیا جائے جب ڈاکٹر کے پاس گے ٹیسٹ ہوئے معلوم ہوا زیب اب کبھی ماں نہیں بن سکتی اور حکمت کی وجہ سے زیب کی دونوں گردے فیل ہوگے ہیں اگر نیا نہ لگایا تو اس کے پاس مشکل سے چند ماہ ہی ہیں یہ بات عمران نے ماں کو بتائی ماں نے بولا اب یہ بنجر زمین ہمیں کچھ نہیں دے سکتی اور اگلے دن ہی عمران نے زیب کو طلاق دے دی زیب بہت مشکل سے اپنے گھر پہنچی ساری حقیقت اپنے گھر والوں کو بتائی تو بھابیوں نے اس اپنی پچی کے ساتھ جانے کو کہہ دیا بوڑھی ماں بہوؤں کے سگے جھکتی چلی گی.

لیکن وہ نہ مانے زیب نے کہا کہ مجھے عدت کی مدت گزارنے کی صرف اجازت دے دو میں چلی جاؤں گی لیکن بھابیاں سنے کو تیار نہ تھیں اتنے میں زیب کے بھائی جان واپس آگے بھائیوں نے زیب کی بہت میں آکر۔ ہیں بلکہ عزت کے چلتے اس سے روکنے اجازت دے دی زیب پردہ باقاعدہ کرتی تھی وقت کے ساتھ اسکی طعبیت خراب ہوتی چلی گی اور ایک دن آیا کہ زیب اس دنیا فانی سے کوچ کرگئی مریم اپنی نانی پاس رہنے لگی بڑی مشکلوں سے مریم وقت گزار رہی تھی نانی وقت بھی قریب ہی آرہا تھا وہ چاہتی کہ کسی طرح بھی مریم کی شادی کردی ان ہی دنوں میں مریم کے بڑے ماموں کی بیٹی شاذیہ کا رشتہ آنا تھا شاذیہ بہت اچھی لڑکی تھی آپنے والدین سے مختلف مریم کی ہی ہم راز بھی تھی مریم کبھی بھی اسکول نہیں گی مگر علم رکھتی تھی شاذیہ کی بدولت شاذیہ جو کچھ اسکول اور کالج سیکھ کر آتی مریم کو کو وہ سیکھا دیتی شاذیہ کا رشتہ جب آیا تو انھوں نے شاذیہ پسند کرلیا شادی کے کچھ عرصے بعد اس نے اپنی ساس سے مریم اوراپنے دیور کیف کی رشتے کی بات کی شاذیہ کی ساس مریم بہت پسند تھی.

مگر کیف نے بھی ایک بار ہی مریم کو دیکھا تھا اور اسے تو پہلے دن سے ہی اچھی لگتی تھی لیکن مریم بھی زیب کی طرح پردہ کرتی ایک اتفاق سے کہف اور مریم کا سامنا ہوگیا تھا بس شاذیہ بات ہی کی شاذیہ اور اس کی ساس مریم کا رشتہ لے کر ان کے گھر گے لکین یہ بات شاذیہ کی ماں اور اس کی چاچی کو اچھی نہیں لگی مریم کے والد اور چچا نے یہ سوچا کہ اب چلو یہ پریشانی سر سے اتر جائے گی دادی بھی شاذیہ کی بہت خوش ہوئے لیکن شاذیہ کی ماں اور چاچی خوش ۔ہ تھے اور انھوں نے مخالفت کی لیکن شاذیہ تھی بہت اچھی مگر ہوشیار بھی خوب تھی اس نے اپنے گھروالوں پر یہ ظاہر کیا اگر وہ مریم کا رشتہ نہیں دیں گے تو سسرال میں اسے تنگ کیا جائے گا شاذیہ کے گھر والے یہ بات سن کر مان گے کہ شاذیہ کے گھر آباد رہے انھیں مطمئن کراوانے کے لیے اس نے کہف کی ایک دو برائی بھی کردی کہ وہ ایسا ہے ضد کا پکا غصے کا تیز وغیرہ وغیرہ یہ سن نامی دونوں خوش ہوگی کہ تھیک یہ مریم اس کی لائق ہے شاذیہ یہ جان کر بہت مایوس ہوئی اسکی ماں کیسی سوچ رکھتی ہے وہ خود بیٹی والی خیر یہ سرگوشیاں مریم اور اسکی نانی تک پہنچی وہ اپنی جگہ پریشان ہوگی کہ کہی مریم کے ساتھ بھی زیب والا حال نہ ہو جائے شاذیہ سے جب دادی نے بات کی تو اس نے انھیں یقین دیا ایسا کچھ نہیں لیکن دادی کو مطمئن نہیں ہو پارہی تھی مگر شادی کی تیاریاں عروج پر تھی.

شاذیہ کے سسرال میں کیونکہ مریم کی ماموں اور مامیاں نے کبھی بھی بچی کو دینا نہیں تھا اور کبھی چند جوڑے دیے بھی تو اترن یہاں کہف تیاری پر مشغول تھا شاذیہ کو پتہ ہے کہ کہف مریم کو پسند کرتا ہے لیکن وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کا تصور ہی کرتا تھا ہمیشہ شاذیہ نے کہف کو بتایا کہ مریم کے پاس ڈگری تو نہیں لیکن علم اسکا میرے برابر یا شاید مجھ سے بھی بہت زیادہ ہے کہف بولا بھابھی میں سمجھا نہیں تو شاذیہ اپنے گھر کی مریم کے بچپن کی تمام حقیقت کہف کو بتادی کہف یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ مریم میری چاہت تھی پسند تھی مگر وہ میرے لیے وہ جسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا بھابھی آپ بے فکر رہے میں تا عمر مریم کا ساتھ دوں گا آخر کا وہ گھر آگی جب مریم سرخ جوڑے میں ملبوس کہف کے گھر شادی کرکے چلی گی مریم بہت خوش تھی کہف بھی دین کی جان بہت راغب تھا بہت کرسکوں فضا تھی مریم کے سسرال شاذیہ بھی بہت خوش تھی .

کچھ عرصے بعد مریم کی نانی کا انتقال ہوگیا مریم آخری بار اس گھر گئی اور نانی کے انتقال کے بعد اس کے تمام رشتوں ساتھ چھوڑ دیا شاذیہ اور اسکے شوہر بھی لندن آباد ہوگے مریم کی ساس بھی بہت اچھی اسکا کسی بیٹی سے کم پیار نہیں کرتی تھی پھر اللہ نے مریم مزید خوشی سے نوازا اور اسے ایک ننھی پری چاند سی بیٹی عطا کی بیٹی کی پیدائش کے وقت مریم بہت ڈر گی کہیں کہف بھی اسکے باپ کی طرح بٹی کو نہ پسند نہ کرتا ہو مگر ایسا نہ ہوا مریم اور کہف نے اپنی بیٹی نام عائشہ رکھا دو سال گزر گے مریم دوبارہ امید سے تھی اور اسی دوران مریم کی ساس کا انتقال ہوگیا شاذیہ لوگ بھی واپس آئے اور کچھ دنوں بعد مریم کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی اور اس کانام شاذیہ نے رکھا علی ان دوران شاذیہ بھی امید سے تھی اور اسکی بیٹی ہوئی اور اس کا نام بھی شاذیہ نے رکھا فاطمہ اور کہا فاطمہ تمہاری ہے اور عائیشہ میرے بڑے بیٹے احمد کی امانت ہے میں پوری خوش کروں گی کہمیں اپنے بچوں کی پرورش تمہارے بچوں کے مطابق کروں یہ سن کر مریم اتنا روئی اور کہا شاذیہ اگر تم نہ ہوتی تو میں نہ ہوتی مریم بچی کی پیدائش کے دو ماہ واپس چلی گی سب بہت خوش رہنے لگے کہف اور مریم کے پاس دنیا کی ہر خوشی تھی کچھ دنوں بعد کہف ایک بندے کو اپنے ساتھ لے کر آیا اور مریم کو کہا کہ میرے دفتر کے ملازم ہیں انکی طبعیت خراب رہتی ہے اکیلے ہوتے ہیں پیچھے ایک الگ کمرہ بنا ہوا ہے .

اگر تم مناسب سمجھو تو انھیں وہاں رہنے دیں تو مریم نے فوراً ہامی بھری اور وہ بہت خیال کرنے لگی اس شخص اس بات سے بےجان کہ یہ عمران اسکا باپ ہے عمران بھی مریم اور پچوں سے مانوس ہونے لگابچوں سے بہت محبت کرنے لگا ایک روز عمران مریم کے کمرے مریم کے بیٹی عائشہ کے پیچھے گیا اور وہ حیران رہ گیا زیب کی تصویر دیکھ کر مریم سے تصویر کے متعلق سوال کیا تو مریم نے اپنی ماں کا حوالہ دیا ساری حقیقت سامنے تھی عمران رورو کر اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہف نے بھی مریم سے کیا اور مریم نے عمران کو معاف کردیا عمران نے کہا مجھے اپنی ماں کی قبر پر لے جاؤ میں اسے معافی مانگا چاہتا ہوں اور میرے ساتھ اپنی دادی کی قبر چلو وہ روز میرے خواب میں آکر روتی ہے اور یوں ہی ہوا کہف نے مریم سے کہا کہ وہ اپنے ابو کو میری امی کے کمرے میں منتقل کردے کیونکہ وہ کمرہ امی کے لیے آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے یوں ہی ہوا مریم تہجد کی نماز میں شکرانے کے سجدہ ادا کرتی جارہی تھی روتی چلی جارہی تھی کہ اللہ نے اسے کہف جیسا شخص ہمسفر کے روپ میں عطا کیا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *