پتھر کا بھوت
رمضانی آج بھی روزگار کی فکر میں برکت صحرائے لالہ ذار آ نکلا
ادھر ادھر اس نے دیکھا صحرائے لالہ زار کی چیکنی مٹی سے عمدہ برتن بنائے جا سکتے تھے
اس نے تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد ایک جگہ کا انتخاب کیا اور پھر ہمت کرکے کسی تھامی سے زمین کو کھودنے لگا
ٹھہرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن رمضانی نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا وہم سمجھ کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا
رمضانی ٹھہرجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔
کون ہے اب مجھے دھوکا نہیں ہوا یقینا یہاں کوئی ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا اگر کوئی ہے تو سامنے آئے اس نے جرات کا مظاہرہ کیا
میں بھوت ہوں سامنے نہیں آ سکتا
بھوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
رمضانی ڈر گیا۔۔۔۔۔۔
ڈرو نہیں میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں تم بہت غریب ہوں میں تمہیں مالامال کر دوں گا
اچھا میری غربت دور ہو جائے گی تو مجھے کیا دو گی
جو تم چاہو۔۔۔؟
پھر مجھے اچھا سا مکان اور کھانے کے لیے روٹی تو میرے بچے دو دن سے بھوکے ہیں ہاں ضرور دوں گا بلکہ عالیشان محل اور عمدہ کھانا دؤں گا
لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔۔؟
ہاں ہاں بولو کیا شرط ہے تم یہ راز کسی کو نہیں بتاؤ گے
نہیں بتاؤں گا
اگر بتا دیا تو پھر سے غریب ہو جاؤ گے نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گا تو میرے قریب آو
کہاں ہو تم تم۔۔۔۔؟
پتھر کے اندر
پتھر کے اندر
رمضانی نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر آگے بڑھا
اور اس وقت حیرت سے گرتے گرتے بچا
جبکہ چند اشرفیاں اور عمدہ قسم کا کھانا اس کے سامنے تھا
اس نے خوشی خوشی کھانا اٹھایا اشرفیاں جیب میں ڈالی اور گھر آگیا
خوشی سے رات بھر نیند نہیں آئی بیوی نے طرح طرح کے بے شمار سوالات کر ڈالے لیکن اس نے پتھر کے بھوت سے پکا وعدہ کیا تھا کہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا
آرام سے دن گزرنے لگے
اچھے اچھے کھانے کھا کر اس کی بیوی بچے اور خود صحت مند ہوگیا
اشرفیاں جمع کرتا رہا اور جب بہت ساری ہوگئی تو ایک عالیشان محل بنوایا رمضان نے اتنا عالیشان محل بنوایا کہ گاؤں کا ہر فرد حیران تھا
کی رمضان کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا
ہر روز سو سوال رمضانی کے سامنے آتے وہ جھوٹ بول بول کر گیا تھا
اس کی بیوی اور بچے الگ پریشان تھے لوگوں نے تو ان کا جینا حرام کر دیا تھا
جب رمضان لوگوں کو مطمئن نہ کر سکا تو سب اس سے نفرت کرنے لگے اور اسے چور کہہ کر پکارنے لگی
رمضانی کے بچوں کو چور کی اولاد کہا جاتا اب تو رمضانی کی بیوی ہر روز اس سے جھگڑتی
رمضان یہ اشرفیاں اور کھانا تم کہاں سے لاتے ہو
اگر آج بھی تم نے مجھے نہ بتایا تو میں میکے چلی جاؤں گی لوگوں کے طعنے نہیں سنے جاتے مجھ سے
ہاں بابا ہم اب ہم بھی اب تنگ آگئے ہیں لڑکے مجھے چور کی اولاد کہہ کر پکارتے ہیں اگر آپ نے اشرفیاں اور کھانے کا راز نہ بتایا تو میں بھی گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا
رمضانی بیوی اور بیٹے کی دھمکی پر بہت پریشان ہوا ایک روز جب وہ صحرا لالہ زار پہنچا تو گل شیر اس کے بیٹے نے راز جاننے کی ٹھان لی
وہ بھی باپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا صحرا میں پہنچ کر وہ پتھر کے بھوت کے قریب بیٹھ کر رونے لگا
بھوت بھائی میں کیا کروں تمہاری اشرفی اور کھانے نے میرا جینا حرام کر دیا ہے گاؤں والے تو کیا میری بیوی اور بیٹا بھی خفا ہے
تمہارا بہت بہت شکریہ آئندہ تم مجھے اشرفیاں اور کھانا نہ دیا کرو تاکہ میں محنت مزدوری کرکے کمائی کرو
بھوت
نہیں رمضانی تم اچھے اور نیک آدمی ہو ہم تمہاری پریشانی سمجھتے ہیں پیچھے مڑ کر دیکھو تمہارا بیٹا تمہارا پیچھا کر رہا ہے اسے ہماری آواز سنائی نہیں دے رہی ہیں اب تم ایسا کرو کہ یہ رسی اور کلہاڑا لے لو اسے سامنے کے جنگل میں لے جاؤ
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بقیہ حصہ اگلی پوسٹ میں
فیضان شفیق????
????????
جزاک اللہ