ناکامی کا خوف

In افسانے
January 02, 2021

انسان کا سب سے بڑا دشمن خوف ہی ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں اور سب سےخطرناک قسم نا کامی کا خوف ہے۔ خوف انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔ انسان کی قوت فیصلہ مفلوج ہو جاتی ہے۔ انسان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچ کر ہی ہمت ہار دیتا ہے کہ اگر میں ناکام ہو گیا تو کیا ہوگا ؟ یہ سوچ ناکام آدمیوں کی سوچ ہے۔ میں کامیاب ہونے کے لیے نا کامی کے اس خوف پر قابو پانا ہوگا ۔ اس خوف کے نقصانات اور اس پر قابو پانے کے طریقے کو سمجھانےکے لیے میں اپنی ایک کتاب تاروں سے آنے کی ایک کہانی پیش کرتا ہوں جو آپ کو اس خوف پر قابو پانے میں بہت مدددے گی ۔ کہانی کا نام ہے اصل عفریت۔

کہانی کے مطابق ایک دور افتادہ جزیرے میں ایک بہت بڑے، خونحوار اور خطرناک عفریت کا بسیرا تھا۔ وہ تقریبا دس سے بارہ فٹ تک لمبا اور بہت چوڑی چھاتی کا مالک تھا۔ اس کےلمبے بال،سرخ آنکھیں، بڑھے ہوئے ناخن اور بڑھتی ہوئی داڑھی اسے مزید دہشت ناک بناتی تھی ہر نئے سال کے آغاز پرصبح سویرے وہ عفریت اپنے مسکن سے چنگھاڑتا ہوا نکلتا اورقریبی بستی کے دروازے پر جا پہنچتا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ بستی والوں کو للکارتا، ڈراتا اوردھمکاتا۔ وہ باآواز بلند للکارتا: اے بزدلو ! اپنے سب سے دلیر اور بہادر شخص کو میرے مقابلے پربھجو. میں اس سے مقابلہ کروں گا۔ ہے کوئی میرے مقابل؟اس عفریت کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی تلوار ہوتی جسے وہ ہوا میں لہراتا اوربستی والوں دھمکاتا کہ کسی نہ کسی کو میرے مقابلے کے لیے بھجو ورنہ میں ساری بستی کو تباہ و برباد کر دوں گا اورکسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ہرسال بستی کا دروازہ بہت آہستگی سے اور خوف زدہ انداز میں کھلتا۔ ایک کمزور خوفزدہ اور مسکین سا شحض عفریت کا سامنا کرنے کے لیے نکلتا ؛ جسے اس بات کا مکمل یقین ہوتا کہ وہ موت سے ہمکنار ہونے جارہا ہے۔

عفریت مد مقابل کو دیکھ کر حقارت اور غرور سے پولتا: بس یہی ہے بہادر شخص کیا تم لوگوں میں مجھ سے مقابلہ کرنے کے صرف یہی بچا ہے؟ تف ہے تم پر لعنت ہے بزدلو یہ کہتے ہوئے عفریت اپنے مد مقابل شخص کے سر پر جا پہنچتا اور اس کاکام تمام کر دیتا۔ عفریت اتنا خطرناک اور خوفناک تھا کہ اس کا مد مقابل اس کے مقابلے میں اپنی تلوار نیام سے نکالنے میں بھی ناکام رہتا۔ کئی سال عفریت اس بستی کے لوگوں کی بھینٹ لیتا رہا۔ اس کے ہاتھ کئی افراد کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ایک دن اس بستی میں ایک مجاہد کا آنا ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ہر بندہ خوف میں مبتلا ہے۔ہر طرف ہو کا عالم ہے، سناٹا چھایا ہوا ہے اور لوگوں کے چہروں کے رنگ اڑے ہوئے ہیں۔اس نے ایک را ہگیر سے اس خوف و ہراس کا سبب دریافت کیا۔ را ہگیر نے سارا معاملہ بتایا اور کہا کل وہ دن ہے جب وہ عفریت حملہ آور ہوگا۔ اور وہ عفریت کسی بھی انسان کے تصور سے زیادہ خطرناک اور خوفناک ہے۔ ہر سال کی طرح وہ عفریت اس سال بھی ہمارے بہترین آدمیوں کولکارے گا اور وہ عفریت کسی بھی انسان کے تصور سے زیادہ خطرناک ہے۔مردمجاہد نے کہا :کل آنے دو معاملہ بھی دیکھتے ہیں۔اگلے دن جب عفریت چنگھاڑتا ہوا آیا تو مر ومجاہد پہلے سے اس کا منتظر تھا۔ خوفناک عفریت بستی کے پاس کر للکارا اپنے بہترین مرد کو، اپنے بہترین لڑاکے کو، اپنے سب سےبہادر کو باہر بیجو میں اس سے لڑوں گا اور اسے شکست دوں گا۔

مر ومجاہد نے ٹھوکر مار کر بستی کا دروازہ کھولا اور آواز لگائی : میں تیرے لیے یہاں موجود ہوں اور یہ کہتا ہوا باہر میدان میں آ گیا۔ایک لمہے کے لیے عفریت اور مروجاہد نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ اگرچہ عفریت ابھی بہت دور تھا مگر مرد مجاہد کو اندازہ ہو گیا کہ پی لمبا تڑنگا، دیوقامتعفریت بہت خطرناک ہو گا۔ اس عفریت کی آنکھوں میں خون کی پیاس تھی اور وہ اپنی تلوار کو بیتابی سے لہرارہا تھا۔ عفریت کے حلیے اور قد و قامت کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے تو مجاہد کوبھی سن کر دیا لیکن مردمجاہد نے اپنی تمام تر ہمت جمع کی اور تلوار لی کر عفریت کی جانب قدم بڑھائے۔اچانک مر ومجاہد کو احساس ہوا کہ جیسے ہی وہ عفریت کے قریب جا رہا ہے عفریت کا قد و قامت بڑھنے کی بجائے کم ہوتا جا رہا ہے؟ اس عفریت نے مردمجاہد کی آنکھوں کے سامنے سکڑناشروع کردیا۔ مر وجابر رک گیا اور غور سے دیکھا تو عفریت صرف چھ فٹ کا نظر آیا۔ اس نے چند قدم اور آگے بڑھائے تو اندازہ ہوا کہ عفریت صرف چار فٹ کا ہے؛ چندمزید قدموں نے احساس دلایا کے عفریت دراصل دوفٹ کا ہے۔ مرد مجاہد آگے بڑھتارہا، یہاں تک کہ وہ عفریت کے سر پر گیا

یہاں آ کر معلوم ہوا کہ عفریت دراصل صرف چند انچ کا ہے۔مردمجاہد نے اپنی تلوار اس عفریت کے سینے میں اتار دی ۔ عفریت زمین پر گر گیا اور دوم توڑنے لگا۔ اس وقت وہ مرد مجاہد جھکا اور عفریت کے کانوں میں بولا تم کون ہو اور کہاں سے آئےہو؟آخری سانسوں کے درمیان عفریت نے آنکھ اٹھائی اور بولا :میرا نام خوف ہے اور میں انسان کے اندر رہتا ہوں …………..اور یاد رکھیے خوف کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔