Skip to content

ماں کے 4 جھوٹ ! پارٹ 2

عربی نظم نگار (لکھاری) مصطفی اکاد کے الفا ظ کا ترجمہ
پارٹ 1 کے بعد اب پارٹ 2
1# ایک وہ وقت بھی آگیا جب میری مدرسے کی تعلیم مکمل ہوگئی اور میرے آخری امتحان شروع ہوئےجب میں پیپر دینے جاتا تو میری ماں بھی میرے ساتھ جایاکرتی میں اند ر کمرہ امتحان میں پیپر دیتا اور ماں باہر گرمی اور تیز دھوپ میں کھڑی میرا انتظار کرتی اور جب میں پیپر حل کرکے باہر آیا ماں نے ایک ٹھنڈی مشروب کی بوتل خریدی اور مجھے دی ۔میں خوشی خوشی سے غٹ غٹ لگا کر پینے لگا اور اچانک میری نظر ماں کے چہرے پر پڑی ماں کے چہرے پر پسینے کے قطرے دیکھائی دیے میں نے بوتل ماں کو دی اور بولا”تم بھی پیو نا ماں ”
لیکن ماں نے کہا !
میرے بیٹا مجھے تو پیاس ہی نہیں ہے تم پیو
2# اوراس کے بعد میں نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی اور مجھے ایک نوکری ملی پھر میں نے سوچا کہ چلو اب اپنی ماں کو کام کاج نہیں کرنے دوں گاکیوں کہ اب ماں کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی مگر اب تو ماں گلی گلی نہں بلکہ بازار میں ایک جگہ پر ہی ٹھیلہ لگا کرردی (کاغذات ) بیچتی ہے ۔ایک دن میں نےاپنی پہلی تنخواہ ماں کو دی اس نے نرم لہجے میں مجھے کہا کہ !
میرے بیٹے اپنی کمائی کو ابھی محفوظ کر کے رکھوں ۔میرے پاس اپنے گزر بسر کے لئے ہیں
3# آہستہ آہستہ میں نے اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اور ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اس کے ساتھ ہی مجھے ترقی حاصل ہونے لگی اور میں ایک جرمن کمپنی میں کام کرتا تھا مگر انہوں نے مجھے اپنے ہیڈ آفس میں بلالیا اور وہاں کام کرنا شروع کردیا ۔ایک دن میں نے گھر ماں کو فون کیا اور ہال احوال دریافت کرنے کے بعد انہیں اپنے پاس آنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ
تمہیں تو علم ہے کہ میں اسی جگہ رہنے کی عادی ہوں
4# اس کے بعد ماں زیادہ بوڑھی ہو گئی اور مجھے ایک دن خبر ملی کہ ماں کو سرطان کی بیماری لاحق ہوگئی ہے اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا ہے میرےسے رہا نہ گیا میں سب کچھ چھوڈ کر وطن واپس اپنی ماں کے پاس آگیا اور مجھے دیکھ کراس کے ہونٹوں پر تندرستی والی ہنسی شروع ہوگئی ۔جب میں نے اسے دیکھا اور مجھے ایک دھچکہ سا لگا کہ یہ تو وہ ماں نہیں رہی جسے میں جانتا تھااتنی کمزور اور بیماری سے لڑتی ہوئی زندگی کی آخری سانسوں میں کشمکش تھی ۔اور اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسوں آگئے مجھے روتا دیکھ کر ماں ہنس پڑی اور بولی !
بیٹا تم مت رووں میں بالکل ٹھیک ہوں اور اچھا محسوس کر رہی ہوں
یہ اس ماں کہ آخری الفاظ تھے اور اس کے بعد اس نے اس جہان فانی سے آنکھیں موند لیں اور پھر کبھی نہ کھولیں ۔
دعا
اللہ تعالی ہم سب کو والدین کی خدمت اور پر خلوص نیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا کرے (آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *