اکثر خوش مزاج انسان کے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جو ان کے لیے ایک ڈراونہ خواب بن کر ساری زندگی ان کا پیچھا کرتے ہیں ۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک شہر میں ایک بہت خوش مزاج لڑکی رہتی تھی عمر تقریبا 16یا17 سال تھی میٹرک کلاس میں پڑھتی تھی اور بہت ہی ذہین بھی تھی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے وہ لڑکی معمول کی طرح سکول سے گھر کی طرف روانہ ہوئی سکول اس کے گھر سے تقریبا 20 یا 25 منٹ کے فاصلے پر تھا وہ اکیلی تھی اور پیدل بھی گرمی کا موسم تھا اور گلیاں بھی سنسان اسے کیا پتا تھا کہ راستے میں کچھ ہوس پرست اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔ وہ جیسے ہی شاہراہ عام سے گھر کی طرف مڑی تو گلی کے اختتام پر کھڑے کچھ لڑکوں نے اسے پکڑ لیا اس نے شور مچانا چاہا پر ان لڑکوں نے اس کے منہ پرکپڑا رکھ کر اسے بے خوش کر دیا ۔ کافی دیر تک جب لڑکی گھر نہ پہنچی تو اس کے گھر والوں نے اسے ڈھونڈنا شروع کر دیا ہر جگہ اسے تلاش کیا پر اس کا کوئی سراغ نہ ملا پولیس نے ہر جگہ گمشدہ لڑکی کی تصویر شائع کروا دی تاکہ لڑکی کا جلد پتہ لگایا جا سکے۔ پورا ایک دن گزر گیا پر اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا پھر دوسرے دن شام کو ایک انجان نمبر سے اس لڑکی کے گھر پر کال آئی۔ کال پر کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود تھی وہ بہت ڈری ہوئی تھی اس کی آواز سے معلوم ہو رہا تھا اس نے بتایا کہ ومری شہر کے کسی پارلر میں موجود ہے وہ ڈاکو اسے کہیں دور لے جارہے تھے ۔ وہ لوگ کھانا کھانے کی غرض سے گاڑی سے اترے اسی دوران میں وہاں سے فرار ہو گئی۔ اس لڑکی کی قسمت تو اچھی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوا لیکن ہر کسی کی قسمت ایک جیسی نہیں ہوتی اس لیے سکول جانے والے بچے، بچیوں اور ان کے والدین سے گزارش ہے کہ احتیاط کریں اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھیں کیونکہ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ ہمارے درمیان ایسے کتنے ہوس پرست لوگ موجود ہیں ۔ اپنا اور اپنے آس پاس کے لوگوں کا بہت خیال رکھیے گا اور کمنٹ کر کہ ضرور بتائیے گا کہ آپ کو یہ کہانی کیسی لگی اور کیا آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو۔
ویسے تو انسان کی زندگی میں بہت سے حادثات ہوتے رہتے ہیں پر کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جو ہم کبھی بھی نہیں بھول پاتے۔ ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا حادثہ ہمارے پڑوس میں ایک عورت کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اسلام علیکم! آج سے تقریبا 25 سال پہلے کی بات ہے کہ کسی گاؤں سے ایک فیملی شہر ایک محلے میں شفٹ ہوئی چھوٹی سی فیملی تھی میاں بیوی اور ان کے چار بچے دو بیٹے اور دو بیٹیاں جس دن وہ رہنے آئے اسی دن رات کو ان کے گھر ایک اور بیٹے کی پیدائش ہوئی سب بہت خوش تھے محلے والوں کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں دوسرے دن ان ساتھ والے گھر سے ایک عورت ان کے گھر گئی تا کہ بات چیت کر کہ پتا لگا سکے کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ان کے گھر جا کر پتہ چلا کہ ایک نیا مہمان بھی آچکا ہے سب نے انھیں بہت مبارک دی اور ان سب کو اپنا تعارف کروایا اور ان سے بھی پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ پھر اسی طرح سلسلہ چلتا رہا وہ عورت بہت نیک اور خوش مزاج تھی ۔ کچھ ہی ماہ میں دونوں عورتوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی بالکل بہنوں جیسا رشتہ بن چکا تھا۔ ایک کا نام جمیلہ اور دوسری کا نام رخسانہ تھا۔ رخسانہ کے شوہر انگلینڈ میں تھے وہ بھی بہت اچھے انسان تھے وہ اپنے بچوں کے ویزا کے لیے مسلسل کوشش کر رہے تھے کہ ان سب کا ویزا ہو جائے اور وہ اپنی فیملی کو بھی اپنے ساتھ لے کر جا سکیں پر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ان سب میں سے کسی کا بھی ویزا نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ان کے والد کی عمر بہت زیادہ تھی۔ ویزا والے سمجھ رہے تھے کہ یہ بندہ جھوٹ بول رہا ہے کہ یہ اس کے بچے ہیں خیر یہ سب تو ہونا ہی تھا اصل بات کی طرف چلتے ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ رخسانہ بیگم پھر سے حمل سے تھی کیونکہ ان کا بچہ ابھی دو تین ماہ کا تھا اس لیے وہ اور بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی رخسانہ نے بغیر کسی کو بتائے اور بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے ایک دائی سے رابط کیا اور اس سے کہا کہ وہ اس کا کوئی حل کرے۔ پھر ہونا کیا تھا کم علمی میں اگر کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس کے نتیجے برے ہی نکلا کرتے ہیں ۔ اس نے یہ بات جمیلہ کو بھی نہ بتائی کہ وہ کسی سے علاج کروا رہی ہے۔اسی طرح دن گزرتے گئے رخسانہ نے سوچا کہ وہ کامیاب ہو جائے گی پر نہیں ایک دن اس کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہو گئی اور اسے اس کے شوہر ہسپتال لے گئے اس کی چھوٹی بیٹی نے آکر جمیلہ کو خبر دی کہ اس کی امی بہت بیمار ہیں اور ابو امی ہسپتال لے گئے ہیں جمیلہ نے سوچا کہ شاید رخسانہ کو بخار ہو گا اس لیے ہسپتال گئی ہو گی پر اسے کیا پتا تھا کہ اصل وجہ کیا ہے۔ تقریبا ایکگھنٹے کے بعد خبر آئی کہ رخسانہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ رخسانہ کہ بچوں کی تو جیسے دنیا ہی لٹ گئی ان پر تو قیامت ٹوٹ پڑی سارے بچے بہت رو رہے تھے کچھ ہی دیر میں خبر پھیل گئی کہ رخسانہ اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا جو ابھی صرف دس ماہ کا تھا اس نے تو ابھی ماں کہنا بھی نہیں سیکھا تھا اور اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی ۔ ان بچوں کا کیا حال ہوتا ہے جن ماں کم عمری میں انہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے یہ بات صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کی ماں نہیں ہے ۔ اللہ اس عورت کو جنت میں جگہ دے آمین ۔ آج بھی اس کے بچے جب بھی آتے ہیں تو وہ جمیلہ سے ملنے اس کے گھر ضرور جاتے ہیں اس محلے سے ان کی ماں کی یادیں جڑی ہیں ۔ میرا سب خواتین کو یہ مشورہ ہے کہ آپ کو اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر کو بلا جھجک ضرور بتائیں تاکہ آپ کسی بھی حادثے کا شکار ہونے سے بچ جائیں ۔ بہت شکریہ!