گاوں میں بکھرے کردار، وہ شیدا ٹلی ہو یا فریدا نائی، شیدو کٹمار ہو یا جھلی زیتون،
انہی کرداروں میں ایک نام جھلی زیتون بھی تھا، اس کی کہانی کچھ یوں سننے میں آتی ہے، مرغیاں پالتی اور انڈے بیچتی، اور پیسے جمع کرتی، اپنے پیسے ہر ایک سے چھپا کے رکھتی، اس کے پاس ایک بڑی رقم جمع ہو گئی تھی، زیتون کسی سے بھی اس رقم کاذکر نہ کرتی، بلکہ اگر کوئی اس سے پوچھتا تو زیتون کا یہی جواب ہوتا میرے پاس تو ایک بھی پیسہ نہیں۔
وقت گزرتا گیا۔
اب ملک میں کرنسی بدلنے لگی تھی، یہ وہ دور تھا، جب خبریں ریڑیو یا اخبار مین ہی آتی تھیں۔زیتون کے گاوٴں میں بھی کسی نے یہ خبر پھیلا دی،
زمانہ وہ تھا، کہ پیسہ عام نہ تھا، لوگوں نے زیتون سے بہت کہا کہ کرنسی بدل رہی ہے، تمہارے پاس کچھ رقم ہے تو بینک جا کے بدلوالو، پر زیتون کا جواب وہی تھا، میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔
زیتون کا شوہر ملک آغا جی کے پاس آیا کہ حقیقت پوچھوں۔ آغا جی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ کرنسی بدل رہی ہے، زیتون کے شوہر نے کہا آغا جی میں کیا کرو ں زیتون نے بہت پیسے جمع کیے ہوے ہیں، پر وہ ہمین بتاتی نہیں ، آپ ہی ملک صاحب اسے سمجھائیں۔
دوسرے ہی دن آغا جی نے زیتون کو بلوا کے سمجھایا، یہان بھی زیتون کا جواب وہی تھا، میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں آغا جی۔
کچھ اور وقت گزرا، کرنسی بدل گئی تھی، زیتون کو کچھ رقم خرچ کرنے کی ضرورت پڑی، اب کوئی اس کے پیسے لینے کو تیار نہ تھا، کیوں کہ کرنسی بدل گئی تھی۔
زیتون یہ صدمہ سہہ نہ پائی، اور ذہنی توازن برقرار نہ رکھ پائی۔ اسی دن سے اس کا نام جھلی زیتون پڑ گیا۔
زیتون سب سے کہتی کہ ایک عورت ہے جو ہر وقت میرے کان مین بولتی رہتی ہے۔
یہاں زیتون کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہو گیا زیتون جس چیز کو بہت غور سے دیکھتی اور اس کی تعریف کرتی، اس کو کچھ ہو جاتا۔
اسی وجہ سے گاوٴں کے لوگ زیتون سے ڈرنے لگے، کوئی زیتون کو اپنے گھر گھسنے نہ دیتا،
زیتون کی بیٹی اسے گھر میں کمرے میں بند رکھتی، پر زیتون کسی نہ کسی طرح گھر سے نکل ہی جاتی۔ اب زیتون ہڈیاں جمع کرتی، اور انہیں اپنے پیٹ کے ساتھ باندھے رکھتی۔
Thursday 7th November 2024 7:46 am