اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کے درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے ۔یہ فقرہ بظاھر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے ۔اس سے خوشی کیسے حاصل ہو گی ۔لیکن یہ ہمارے متدا دل الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے ۔اصّل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ؛درد ؛ کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کے بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں ۔بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہے کے لوگ ان کے وصول کے لئے جدو جہد کرتے ہیں اور ان میں اپنی مسر ڈھونڈ لیتے ہیں