میرا چاند کہیں کھو گیا۔۔۔!

In افسانے
January 03, 2021

کل میرا ایک جگہ کسی گاؤں میں جانا ہوا میں جس دوست کے پاس گیا تھا اسے خود کسی کام سے اچانک کہیں جانا پڑ گیا میں اس کے انتظار میں گلی میں ہی کھڑا ہو گیا اور گلی میں کھیلتے ہوئے ایک بچے کو دیکھنے لگ گیا جس کی عمر تقریبا پانچ چھے سال کے لگ بھگ ہو گی۔بچے کے ہاتھ میں ایک ٹوٹا ہوا قلم تھا جس سے وہ کچی زمین پر لکیریں کھینچ کر مخلتف قسم کے نقش و نگار بنا رہا تھا وہ اپنے کام میں بہت مگن تھا اور میں اس دم یہ ادراک کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ بچہ اپنے معصوم دل و دماغ میں کیا سوچ رہا ہو گا۔۔۔؟

کیونکہ یہ وہ عمر ہوتی جب بندہ اپنی دنیا کا خود ہی بادشاہ ہوتا ہے اور بادشاہ بھی ایسا کہ جو جی میں آئے تو بڑے سے بڑے شہنشاہ کے تاج کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا کر رکھ دے۔اپنے پاؤں پہ گیلی ریت کی ڈھیری لگا کر ایسا گھروندا بنا ڈالے جس کے سامنے تاج محل بھی اپنی قیمت کھو بیٹھے۔اپنے انگلی سے مٹی پہ لکیریں لگانے بیٹھے تو دنیا کا جغرافیہ ہی بدل دے۔سمندروں کے وسیع سینے پہ تیرتے ہوئے دیوہیکل بحری جہازوں کی کیا مجال کہ اس کی کاغذ کی بنی کشتیوں کا مقابلہ کر پائے۔بچہ اپنے کام میں محو تھا اور میں اس کی کاریگری دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ساتھ والے گھر سے اسے آواز پڑی۔میں نے دیکھا تو وہ ایک اور چھوٹا سا بچہ تھا جو دروازے کی چوکھٹ پکڑے کھڑا تھا وہ شاید اس بچے کا بھائی تھا ان کی شکلیں اور لباس بھی آپس میں کافی مل رہے تھے وہ آواز اس بچے نے ہی دی تھی۔ اِس بچے کی جب اپنے بھائی پہ نظر پڑی تو وہ بھاگتا ہوا گیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے آیا۔ہیں یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟ میں یہ دیکھ کر دل تھام کے رہ گیا کہ وہ دوسرا چھوٹا سا معصوم بچہ نابینا تھا۔بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور لا کر اپنے پاس زمین پہ ہی بٹھا لیا اور اسے کہا کہ ادھر ہی میرے پاس بیٹھ جاؤ میں زمین پہ کچھ بنا رہا ہوں اور وہ نابینا بچہ خاموشی سے پیروں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔

اس دم مجھے دنیا میں ان دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نا ہی میں اس وقت کچھ اور دیکھنا چاہتا تھا۔اب پہلے والا بچہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا اور دوسرا نابینا بچہ بڑی فکر اور چاہت سے اس سے پوچھنے لگا کہ بھائی بتاؤ تو سہی تم بنا کیا رہے ہو۔۔۔؟اس کی حسرت بھری یہ آواز سن کر سچ مچ میرا جی بھر آیا۔۔۔!!!پہلے والے بچے نے جواب دیا کہ میں چاند ستارے بنا رہا ہوں۔۔۔!نابینا بچے کے چہرے پہ ایک بجھی بجھی سی رونق ابھری اور اس بے چارے نے بے اختیار ہاتھ بڑھا کر اپنے بھائی کے بنائے ہوئے چاند ستاروں کو ٹٹولنا چاہا۔اس کا ہاتھ آگے بڑھا ہی تھا کہ اس کے بھائی نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ نا بھائی! انہیں ہاتھ نا لگا! ورنہ میرے چاند ستارے مٹ جائیں گے۔۔۔!اور اس نابینا بچے نے جلدی سے ہاتھ واپس کھینچ لیا اور اس کے چہرے پہ ایسی بےچارگی ابھر آئی کہ جس نے مجھ جیسے پتھر دل انسان کو بھی پسیج کے رکھ دیا۔اس نے بھی دوبارہ ہاتھ بڑھانے کی کوشش نا کی، وہ بھی شاید اپنےبھائی کی محنت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ شاید اس لئے کہ اسے چلنے پھرنے کے لیے اپنے بھائی کا ساتھ چاہیے تھا اس لئے وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

بڑا بھائی دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گیا تھا اور نابینا بچہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ شاید سوچ رہا تھا اور اندازہ لگا رہا تھا کہ کہ چاند کیسا ہوتا ہو گا؟ کیونکہ اسی دوران میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنی انگلی سے زمین پہ ایک ٹیڑھا سا خط کھینچ دیا۔مگر اس جگہ زمین کچھ سخت تھی اس لئے وہاں کوئی لکیر نا بن سکی مگر اس بے چارے کو کیا علم کہ لکیر بنی یا نہیں۔اور اس دوران اس کا بھائی زمین پہ لکیریں کھینچتا کھینچتا دوسری طرف مونہہ کر چکا تھا۔اس نابینا بچے نے بڑے اشتیاق سے اپنے بھائی کو مخاطب کیا اور اسے کہا کہ بھائی دیکھو میں نے بھی چاند بنایا ہے۔۔۔! کیسا ہے۔۔۔؟ اچھا ہے ناں۔۔۔؟بھائی نے اپنے دھیان لکیر کھینچتے ہوئے کہا کہ اچھا میں ابھی دیکھتا ہوں کہ تیرا چاند کیسا ہے!اس وقت اس نابینا ںچے کے چہرے پہ خوشی کے آثار اور مسرت کی ایسی چمک نظر آ رہی تھی کہ اس کے سامنے تو شاید وہ آسمان والا چاند بھی چندھیا جاتا۔بڑے بھائی نے اپنا کام مکمل کر کے واپس مڑتے ہوئے چھوٹے سے پوچھا کہ ہاں بھائی کدھر ہے تمہارا چاند۔۔۔؟اس نابینا بچے نے اندازے سے اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ دیکھو یہاں بنایا ہے میں نے۔بڑے بھائی نے ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے کہا کہ نہیں یار یہاں تو کوئی چاند نہیں بنا ہوا۔

چھوٹا یہ سن کر بڑا پریشان ہوا کہ ہیں میرا چاند کدھر گیا۔۔۔؟ میں نے ابھی بنایا تو تھا یہاں۔۔۔! اور ساتھ ہی زمین پہ ہاتھ پھرنے لگ گیا کہ شاید اس طرح وہ اپنے چاند کو ڈھونڈ لے گا۔اسی وقت گھر اسے ان کی اماں نے ان کو آواز دے دی۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ چلو بھائی چھوڑو یہ سب، گھر چلتے ہیں اماں بلا رہی ہے۔ اور وہ نابینا بچہ حیران و پریشان اپنے بھائی کے ساتھ گھر کو چل دیا۔۔۔!ان کے جانے کے بعد میں نے بھی چلنا چاہا مگر چلتے چلتے اچانک ہی بےاختیار ٹھٹھک کے رک گیا۔ کیونکہ آگے زمین پہ ان بچوں کے بنے چاند ستارے موجود تھے لہذا میں ایک طرف سے ہو کر گزر گیا۔مجھے وہاں کافی دیر ہو گئی تھی، میرے دوست کو شاید ابھی مزید دیر تھی اور مجھے واپس چلنا تھا میں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی واپسی کے لیے پلٹا تو دیکھا کہ انہی چاند ستاروں پہ دو آدمی کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔میں چاہنے کے باوجود بھی انہیں نا کہہ پایا کہ یہاں کسی کے چاند ستارے پڑے ہوئے ہیں اور کسی کا چاند یہیں کہیں کھویا ہوا ہے یہاں سے ہٹ جاؤ۔۔۔! “زبیرسلیم”

/ Published posts: 1

ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم جو اردو ادب کی تمام اصناف میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔

Facebook