* سکون قلب *
رائٹر= بہرام علی وٹو
بابو حسب معمول صبع سویرۓ نماز سے فارغ ہوتے ہی ناشتہ کرکے دوپہر ٹایم کی روٹی تھامے اپنی محنت مزدوری کی تلاش میں اڈہ مزدوراں پر پہنچ گیا تھا۔جہاں اس جیسے کئ لوگ غربت کی چکی رزق حلال کے ذریعے پیسنے کے لیے تیار کھڑۓ تھے۔چند لمحات بعد بابو کو ایک جان پہچان والا مستری تین دن کے کام پر لے گیا۔بابو نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوۓ گرمی کے عروج والے دن میں خون پسینہ ایک کرکے روکھی سوکھی دوپہر ٹایم روٹی کھاکے اپنے فیملی کے لیے 500 روپے رزق حلال کما کر جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی رجو نے اطلاع دی کہ ان کے بیٹے ببلو کا پیٹ درد پیچھلے 3 دن سے کم نہیں ہورہا۔میرۓ خیال سے ہمیں انہیں سرکاری ہسپتال لے کر جانا چاہیے۔گھریلو سارۓ ٹوٹکے آزما چکی ہوں۔لیکن کوئ افاقہ نہیں ہوا ۔۔۔ٹھیک ہے تم وہ جو 1000 روپے ہم نے پورۓ ماہ میں بچت کرکے اکھٹےکیے تھے وہ لیکر آؤ 500 آج کی مزدوری والے ہیں ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے رجو نے کہا ۔ اور وہ ببلو کو ہسپتال لے کر چلے گے۔۔۔۔۔۔۔۔
******
ڈاکٹر عرفان کی آج نئ میڈیسن کمپنی سے ملاقات اس کے پرائیوٹ کلنیک میں طے تھے ۔لہذا اسے سرکاری ہسپتال سے اپنی ڈیوٹی ٹایم سے پہلے نکلنا پڑنا ۔۔۔۔۔۔۔پہلے بھی وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی نبھانے شازونادر ہی سرکاری ہسپتال میں ٹک کر بیٹھتا تھا۔ ۔۔۔
میٹنگ میں نئ میڈیسن کمپنی کے سیلر نے کہا ۔۔۔سر ہم اپکو اپنی میڈیسنز میں 50٪ بچت ۔ایک فیملی ٹریپ مری فری اور ایک کار ہنڈا سونک دۓ گے۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عرفان نے کہا۔۔آپکی میڈیسن کا معیار اچھا نہیں ۔۔۔۔
اور آفرز بھی بہت قلیل ہیں۔۔۔۔
کچھ روز قبل دوسری کمپنی سے معاہدہ ہوا ہے ان کی سیل بھی لاکھوں میں ڈیلی پورۓ شہر میں کروا رہا ہوں۔ان کا معیار بھلے کم ہے لیکن ان کی آفرز ویک میں تین بار پی۔سی ہوٹل ڈنر ۔فیملی وزٹ یورپ ۔ہنڈا سونک کے ساتھ پوش علاقے میں ایک کوٹھی شامل ہے ۔۔۔۔۔۔دیکھ لیے میں اس شہر میں واحد مشہور ڈاکٹر ہوں ۔۔۔۔۔
اور ڈیل کے لیے کمپنیاں بہت۔۔۔ جی سر ہم جانتے ہیں ۔۔۔اس وجہ سے آپ سے گزارشات کررہے ہیں۔۔۔میڈیسن کمپنی کے سیلر نے کہا۔۔۔سر ہم ان آفرز کے ساتھ ہسپتال اور اپکی رہایش گاہ کے بجلی بل کا اضافہ کرتے ہیں۔۔۔اور سیل بڑھنے پر ایک کوٹھی بھی آفر میں شامل کرتے ہیں۔۔
ٹھیک ہے ڈن ۔۔ڈاکٹر عرفان نے کہا۔۔۔۔۔۔
*******
بابو اور اس کی بیوی جیسے ہی سرکاری ہسپتال پہنچے تو عملے نے کہا ڈاکٹر صاحب تو اپنے پرائویٹ ہسپتال گٔے ہوۓ ہیں۔ اپ مریض وہاں لے جاۓ۔۔۔۔۔۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا حکم ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر ہم خود مریض چیک نہیں کرسکتے۔۔وہ دواییں لکھ دۓ وہ آپ لے آۓ وہ ہم لگا دۓ گے۔
بابو اور اس کی بیوی ہسپتال پیہنچے تو بابو نے ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے لیے پرچی لی تو کمپاوڈر (پرچی دینے والے) نے کہا 1000 روپے چیکگ فیس دیجے ۔بابو کے طوطے اڑ گۓ۔اور کہا بھائ غریب مزدور آدمی ہوں۔کمپاونڈر نے کہا 1000 روپے دیں اگر بچے کا چیک اپ کروانا ہے تو ورنہ ہسپتال سے نکل جایں ۔۔۔ آخر بابو نے 1000 روپے دیے کر چیک اپ کروانا غنیمت سمجھا ۔کیونکہ اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
بابو ڈاکٹر کے پاس گیا تو چیک اپ کروانے کے دوران اس نے فریاد سنائ کہ مزدور بندہ ہوں ڈاکٹر صاحب 1000 روپے تو چیکنگ فیس ادا کی ہے ۔۔۔۔ڈاکٹر عرفان نے کہا۔۔یہ کوئ خیراتی ادارہ نہیں ہے۔ ۔۔ببلو کا سرسری چیک اپ کرنے کے بعد کہا ۔یہ 10 دن کی دوائیں لکھ دی ہیں یہ بچے کو دۓ ۔۔اور 10 دن بعد بچے کو پھر چیک اپ کروانا۔۔۔۔
اپ جا سکتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر نے بابو کو کہا اور خود موبایل چلانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔کچھ لمحات بعد ڈاکٹر عرفان کو یاد آیا ۔۔۔۔
اوہ آج تو ڈنر پر جانا تھا اور وہ فوری ہسپتال سے گاڈی لے کر گھر کی طرف چل دیا۔۔۔۔
گھر میں اس کی بیوی اور اکلوتی بیٹی اس کے انتظار میں تھے کیونکہ ویکلی تین ڈنر تو پی۔سی ہوٹل پر شیڈول تھے اور آج ویکلی تیسرا ڈنر تھا۔۔۔۔۔بہترین ڈنر کے بعد مووی دیکھ کے نکلے تو مسز عرفان کو اپنے کتے کے لیے ایک لیے ایک بہترین سوٹ نظر آگیا۔۔۔مسز عرفان نے کہا ڈاکٹر صاحب اس سوٹ میں میرا ڈوگی کتنا کیویٹ لگے گا اور ہے بھی سوٹ بھی صرف چار ہزار کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تین دن پہلے بھی ڈوگی
کے لیے لیا تھا لیکن یہ اس سے خوبصورت لگ رہا۔۔۔ اور انہوں نے وہ خرید لیا۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر ڈاکٹر صاحب نے بیڈ پر لیٹتے ہوۓ کہا کہ بیگم صاحبہ مجھے نیند کی گولی دو ۔۔ورنہ نہ نیند آنی اور نہ ذہنی اور دلی سکون میسر ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عرفان نے جیسے خود سے شکوہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں قلبی سکون کہاں کھو گیا۔۔۔۔
لیکن آگر ڈاکٹر صاحب اپنے ضمیر سے پوچھنے کی جرت یا زحمت کرتے کہ مجھے قلبی سکون کیوں میسر نہیں تو یقینًا ضمیر اسے جھنجھوڈتے ہوۓ جواب دیتا کہ :”کہ ذہنی اور دلی سکون خلق الہی کی خدمت اور ذکر الہی سے ملتا ناکہ دنیا کی غرض اور لالچ میں ضمیر کا سودا کرنے سے ملتا ہے “