وہ بہت خوبصورت بچی تھی- ہلکے بھورے بال ،گورا رنگ ،چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ بالکل گڑیا جیسی لگتی تھی- اس کی ماں بھی اسے گڑیا ہی کہہ کر پکارتی تھی- گڑیا کا اصل نام امبرین تھا -جو بھی اسے دیکھتا پیار ضرور کرتا اسے دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ وہ کسی بڑے گھرانے کی بچی ہے- مگر گڑیا کا تعلق ایک انتہائی غریب اور مفلس گھرانے سے تھا- وہ لوگ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے- اس کا باپ ایک مزدور تھا اور اس کی ماں ایک بنگلے میں ملازمہ تھی-
گڑیا کی ماں جب کام پر جانے لگتی تو گڑیا کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جایا کرتی تھی- کیوں کہ گڑ یا گھر میں اکیلی رہ جاتی تھی- دونوں غریب میاں بیوی اپنی حسین بیٹی کو دیکھ کر جیتے تھے اور اس پر جان نچھاور کر تے تھے۔گڑیا عام بچوں کی نسبت کم بولتی تھی اور بہت سمجھدار بھی تھی -بہت سے جاننے والے کہتے تھے کہ گڑ یا کو تو کسی امیر گھرانے میں پیدا ہو نا چاہیے تھا- تا کہ وہ شہزادیوں کی طرح زندگی کزار سکتی -گڑیا کے ماں باپ کو بھی اس بات کا بہت احساس تھا اس لیے وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر گڑیا کو اچھے کپڑے پہناتے اور اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرتےتھے- جس بنگلے میں گڑ یا کی ماں نجمہ خاتون کام کرنے جا تی تھی وہ بہت امیر گھرانہ تھا -وہاں کی فیروزہ بیگم صاحبہ بھی بہت اچھی خاتون تھیں وہ اپنے ملا زموں کے ساتھ نرمی سے پیش آ تی تھیں- آج تک کسی نے فیروزہ بیگم کو ملازموں سے سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کے تلخ رویے سے ملازموں کی دل شکنی ہو۔ فیروزہ بیگم کی بھی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام کرن تھا- کرن بھی گڑیا کی ہم عمر تھی لیکن شکل و صورت میں عام سی تھی- گڑیا اور کرن میں خوب دوستی ہو گئی تھی- نجمہ خاتون صبح جب گڑیا کے ساتھ وہاں آ تی تو گڑیا کرن کے ساتھ کھیل کود اور باتوں میں لگ جا تی تھی دونوں میں بہت پیار تھا -کرن کا کوئی بھائی یا بہن نہیں تھی -وہ پہلے صرف کھلونوں سے اپنا دل بہلاتی تھی لیکن گڑیا کے آ نے کے بعد کرن کا دل بھی بہل گیا تھا- فیروزہ بیگم د ونوں کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر اکثر کہتی تھی کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں سگی بہنیں ہیں- گڑ یا جب چلی جاتی تو کرن اس وقت تک بے چین رہتی ہے جب تک دوبارہ گڑ یا نہ آ جا تی- ما شا ء اللہ دونوں میں بہت ایکا ہےبیگم صاحبہ ۔۔ اور نجمہ خاتون ان کی تائید میں سر ہلا دیتی تھیں اللہ نظر ِ بد سے بچا ئے گڑ یا کا بھی یہی حال ہے -گھر آ نے کے بعد گھڑی گھڑی پوچھتی ہے کہ صبح ہونے میں کتنی دیر ہے ؟ اللہ ان دونوں کی محبت قائم رکھے فیروزہ بیگم ہاتھ اٹھا کر کہتیں ۔
فیروزہ بیگم اور نجمہ خاتون بھی دونوں بچیوں کو کھیلتا دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں اور ان کے دل سے ڈھیروں دعا ئیں نکلتیں- لیکن ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ فیروزہ بیگم کے گھر کچھ مہمان آ ئے وہ لوگ فیروزہ بیگم کے قریبی رشتہ دار تھے جو کافی عرصے بعد ملنے آ ئے تھے
ملازمین مہمانوں کا سا مان اٹھا کر کمروں میں رکھ رہے تھے اور نجمہ خاتون کھانے پینے کی ا شیاء ٹیبل پر رکھنے لگیں فیروزہ بیگم ایک طرف صوفے پر بیٹھی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھیں مہمان عورت نے ان سے پو چھا فیروز با جی ہماری کرن کہاں ہے اب تو وہ بڑی ہو گئی ہوگی ہم نے اسے تب دیکھا تھا جب وہ ننھی منی سی تھی اب تو وہ با تیں بھی کرنے لگی ہو گی ۔۔؟ باتیں فیروزہ بیگم ہنسنے لگیں۔۔ اتنی باتیں کر تی ہے کہ آپ لوگ ہنستے ہنستے تھک جا ئیں گے مگر اس کی زبان نہیں رکے گی۔
———جاری ہے