ضروری نہیں کہ کچھ غلط کرنے سے ہی دکھ ملیں ۔ اکثر اوقات حد سے زیادہ اچھا ہونے کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ زندگی جب دیتی ہے تواحسان نہیں کرتی اور جب لیتی ہے تولحاظ نہیں کرتی۔ دنیا میں کچھ ایسے مرد بھی ہیں جو عورت کو دیکھ کراپنی نگاہیں جھکا لیتے ہیں۔ تمام مرد لٹیرے نہیں ہوتے کچھ عزتوں کے محافظ بھی ہوا کرتے ہیں۔سچی محبت کرنے والے کبھی بھی بددعائیں نہیں دیا کرتے کیونکہ جہاں محبت کا بسیرا ہوپھر وہاں نفرت اور عداوت کا کیا کام؟
عورت کے قانون کے مطابق اگر تمہیں اس سے سچی محبت ہے تو اس زمین کی باقی ساری عورتوں سے تمہیں لازمی طور پرنفرت ہونی چاہیے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا درد کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا مجھے کیا پتہ مجھے تو لوگ مفت میں دیتے ہیں۔ جو انسان تنہائی کو پسند کرنے لگ جائے تو سمجھ لو کہ وہ لوگوں کی حقیقت کو بہت قریب سےجان چکا ہے۔
ہم قبرستانون میں احتیاط سے چلتے ہیں کہ کسی قبر پر پاؤں نہ آجائے اور زند گی کی دوڑ میں زندہ انسانوں کو قدموں تلے روندتے ہی چلے جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں حیا آنکھوں میں ہونی چاہیے ۔ لیکن میں کہتی ہوں حیا کردار میں ہونی چاہیے ۔ آنکھیں کبھی بھٹک بھی جائیں تو مضبوط کردار آنکھوں پر قابو پالیتاہے۔ کسی کو اپنے جذبوں کا رازدار بنانے سے پہلے سوچ لیں۔ کہ جب رازسرحدوں کو پار کر کے دوسرے سماعتوں کے شریک بن جائیں تو اکثر اپنی حرمت کھو دیا کرتے ہیں۔
کون جانے سننے والے کا ظرف اتنا بلند ہو بھی یا نہیں کہ وہ آپ کے جذ بوں کی قیمت کو جان سکے ۔ تعلقات کو توجہ چاہیے ہوتی ہے۔ ورنہ جذبے بڑی خاموشی سے سسکتے سسکتے مرجایا کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے پودے پانی نہ ملنے پر سوکھ جاتے ہیں۔ ہمارے لیے کتنا آسان ہے رشتوں کو اپنے اندر کی کڑواہٹ کا شکار بنا کر،یا اپنے مزاج ،وقت اورحالات و واقعات کو جواز بنا کرہم اپنے ہر تلخ طرز عمل پردوسروں سے ہی قربانی مانگیں۔
جبکہ ضروری کام ہم پھر بھول جاتے ہیں۔کہ رویوں میں تبدیلی لانا ضروری ہوتی ہے۔ ورنہ دوسرے کب تک دلوں میں گنجائش نکالیں۔ زندگی تجربات کا نام ہے ۔ کچھ تجربات خود کرنے پڑتے ہیں اور کچھ ہمیں دنیاسکھادیتی ہے۔ دوبارہ گرم کی گئی چائے اور سمجھوتا کیا ہوا رشتہ ، دونوں میں پہلے جیسا ذائقہ نہیں رہتا۔ ایک بات اور ذہن نشین کرلیں کہ انسان کا پیٹ اور غرور اگر حد سے بڑھ جائیں تو اپنوں کو گلے لگا نا ناممکن ہوجاتا ہے۔
کچھ لوگوں کو ان کی غلطیوں کی معافی تومل سکتی ہے۔مگر وہ مقام نہیں جو وہ ہماری زندگی میں کھو چکے ہوتے ہیں۔ اگر اللہ نے وہ لے لیا جسے کھونے کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ تو یقیناً وہ کچھ ایسا بھی دے گا جسے پانے کا آپ نے شاید کبھی سوچابھی نہ ہوگا۔ جب رویوں کی بدصورتی محسو س ہونے لگے تو اپنے آپ کو کچھ وقت کے لیے خاموش کر لیں اور تنہائی اختیار کریں۔ کیونکہ جب آپ کسی کےلیے غیر اہم ہورہے ہوتے ہیں۔ تب وہاں چیخ و پکار معاملے کو اورزیادہ بگاڑتی ہے کچھ وقت کے بعد آپ اپنی اہمیت کا رویہ محسوس کریں گے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے بات میری