آج کالج سے کسی کام سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک لڑکی اپنی بہن اور ماں کوموٹرسائیکل پربٹھا کر کالج لے کر آئی تھی بہت خوشی ہوئی کہ ہماری خواتین بھی اب مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔ میں دیہات نما شہر میں رہتا ہوں جہاں ابھی تک لوگ لڑکی کا اس طرح موٹرسائیکل چلانا پسند نہیں کرتے لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس بہن نے کم ازکم اپنے خاندان میں یہ قدم تو اٹھایا جس سے باقی خواتین کو بھی حوصلہ ملے گا۔ چند دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو خواتین کے لیے چند نوکریاں ہی مناسب سمجھی جاتی تھیں پر اب وقت بدل رہا ہے اب زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین موجود ہیں اور ملک وقوم کی خدمت کررہی ہیں وہ ڈاکٹر ،پولیس ،فوج،ڈرائیور ، پائلٹ آفیسر اور سیاستدان ہیں ۔ آبادی کے تناسب سے خواتین کل آبادی کا پچاس فیصد ہیں اس لیے ہر شعبہ میں ان کا کوٹہ بھی پچاس فیصد ہونا چاہیے۔ پچھلے دنوں صدارت سے سبکدوش ہونے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مدت کے آخری دن ملالہ بل پر دستخط کیے جس میں پچاس فیصد سکالرشپ خواتین کو ملے گا جن میں پاکستان کی خواتین بھی شامل ہوں گی ملالہ پاکستان کا مثبت اور روشن چہرہ بن کر ابھری ہے اور پاکستان کی پہلی لڑکی ہے جسے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ہے ۔ملالہ دنیا میں جہاں بھی جاتی ہے تو لوگ کھڑے ہوکر ملالہ کا استقبال کرتے ہیں جو ہمارے ملک کی عزت میں اضافے کا باعث ہے ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عملی طور پر کام کررہی ہے اور ملالہ کی وجہ سے ہمارے ملک میں خواتین کا حوصلہ بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتیں ہیں۔ ٹونی موریسن نے امریکی خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا تو اروندھتی رائے انڈیا کی خواتین کے لیے کام کررہی ہیں۔ پاکستانی خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان میں عملی سیاسی جدوجہد کی تو محترمہ بینظیر بھٹو کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل ہے۔محترمہ عاصمہ جہانگیر نے کمزور طبقات کے لیے عملی جدوجہد کی اور اب محترمہ دیپ سعدیہ ،محترمہ مریم نواز ،آصفہ بھٹو اور ملالہ یوسفزئی جیسی بہادر خواتین میدان عمل میں ہیں ۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار کملا ہیرس امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوچکی ہیں اور نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم ساری دنیا کے لیے مثال بن چکی ہیں۔ اگر انسان کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں تو کھیتی باڑی سے لے کر خاندان تک کا آغاز بھی خواتین نے ہی کیا اور کائنات کی خوبصورتی میں خواتین کا حصہ مردوں سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اگر انسانی نفسیات کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ رحم دل،ایماندا،فرض شناس اور محنتی ہیں اس لیے خواتین کو بھی اب ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ملالہ یوسفزئی نے جس طرح بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی پھر عالمی فورم پر فنڈ قائم کیا جس کی وجہ سے خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بڑھ گئے ہیں اور ہم امید کرسکتے ہیں کہ اب ملالہ کا پاکستان بھی بدل رہا ہے لیکن اس میں مردوں کا ساتھ بہت ضروری ہے ۔مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ماں،بہن،بیٹی اور بیوی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنی پہچان ایک اچھی قوم کی بنا سکیں اور یہ مردوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ملالہ کا پاکستان اس دن حقیقت میں بدل جائے گا جب آدھی رات کو بھی خواتین گھر سے باہر محفوظ ہوں گی
عبدالرحمن شاہ