آہ عمر، حساس لڑکا، ہر وقت ناول میں مگن۔۔۔۔ اک دن وہ کھڑکی کے پاس اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا ۔اندھیری رات تھی اور ہلکی ہلکی بارش کی رم جھم ۔۔۔ ایک ہاتھ میں چائے کی تو دوسرے ہاتھ میں ناول۔ اس کشمکش میں اسے لگا کہ باہر گھاس پر کوئی چل رہا ہے ۔ اسے عجیب سی سنسناہٹ کا احساس ہوا۔
اس کی توجہ ناول سے پوری طرح سے ہٹ چکی تھی کہ وہ بھول چکا تھا کہ ناول میں کیا منظر چل رہا تھا ۔ سب سے بڑا مسئلہ تو اس کی بڑے سے گھر میں تنہائی تھی ۔اچانک سے باہر لان میں گملا ٹوٹنے کی آواز آئی ۔ اس نے خوف سے آنکھیں بند کر لیا بارش کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی کہ ایک دم سے آسمان پر بجلی چمکی، اؤلے برس پڑے اور یکایک پورے گھر کی روشنی چلی گئی ۔ وہ ہوشیار ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ ہے جو اس کے علاوہ اس کے گھر میں موجود ہے۔ وہ بجلی کے جانے کی وجہ سے ڈرا، ایک دم سے ہربراتا ہوا اٹھا اور فون ڈھونڈنے لگا مگر یہ کیا فون ندارد۔ فون کہیں بھی نہ تھا ۔ ڈر کے مارے اس کے چہرے سے پسینے چھٹکنے لگے۔ طوفانی بارش، بجلی کا چمکنا، لان میں ٹوٹا گلدان، گھر کی بتی غائب اور اس نے ان سب چیزوں کو سر پر سوار کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ڈر کے مارے بے حوش ہو گیا ۔ اس کے والدین بھی کسی فنکشن میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے ۔
جب وہ اگلی صبح گھر کو لوٹے تو اپنے پتر کو زمین پر گرا ہوا پایا۔ خیر جب اسے ہوش آئ تو اس نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ ذندہ سلامت ہے ۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ مگر اسے پھر بھی تجسس تھا کہ کل رات جو کچھ ہوا وہ اصل میں کیا تھا۔ اچانک اس کی نظر ساتھ پڑے ناول پر پڑی جو وہ کل رات پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے ناول کا وہ صفحہ کھولا جہاں سے پرھنا اس نے چھوڑا تھا تو وہ حیران رہ گیا کہ اس کے ساتھ کل جو کچھ بھی ہوا وہ سب تو ناول میں لکھا ہوا تھا ۔ ہر چیز اس ناول کا حصہ تھی جو اس نے حقیقت میں تصور کر لیا تھا۔ اسے اپنے آپ پر رہ رہ کر افسوس بھی ہو رہا تھا اور اسے اپنے کمزور دل پر ہنسی بھی آ رہی تھی ۔ اور بیوقوفی کے عالم میں خود کو طنزاً سر پر ہاتھ چھڑکتے ہوئے بولا ۔۔۔ آہ عمر، بیوقوف—
تجسس اور دلکش ????????????