Skip to content
  • by

ستم عشق

کیا انسان جب اس دنیا میں آیا تب بھی اتنا ہی مغرور تھا تب بھی وہ اکڑ کر چلنا چاہتا تھا اور اس قدر تکبر والے لفظوں کا استعمال کرنا چاہتا ہے اور آمریت کو ترجیح دینا آگیا تھا کیا صرف تب اس کے پاس طاقت کی کمی ہوتی ہے کیا وہ پہلے سانس کے ساتھ سیکھ جاتا ہے

اس کے یہ الفاظ میرے کلیجے کو چھلنی چھلنی کر رہے تھے اتنے معصوم سے چہرے کے پیچھے اس قدر درد اور تکلیف تھی میں اپنا درد جیسے بھول ہی گئی مجھے اپنی نواب سکندر سے ہونے والی بے عزتی جیسے یاد ہی نہ رہی ہو .میں ایک اور غوروفکر میں لگ گئی میری بیٹی پہلے تو ایسی نہیں تھی جب اس کا باپ زندہ تھا ااس کے چہرے سے ہنسی نہیں جاتی تھی مجھے معلوم ہی نہیں ہوا کے کب میری ہانیہ بچپن سے سیدھا بڑھاپے کی طرف آگئی میرا دل چارہا تھا کے میں اس قدر ذوروقطار سے روئو مگر میں ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ ہانیہ اس سے اور زیادہ پریشان ہوتی میں اپنی سرخ آنکھوں کو چھاپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی

وہ جھٹ سے بولی امی جان آپ کل سے کام پر نہیں جائیں گی ان امیروں کو کیا لگتا ہے ہم ان کے ٹکڑوں پر پل رہے ہے اسے کیا معلوم نہیں اسے بھی وہی دہ رہا ہے جس نے مجھے تو کیا پتھر میں موجود کیڑے کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے میں اب نہیں جائو گی سکول میں کسی کے ہاں کام کر لوں گی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف نواب سکندر نے گھر کے ماحول کو اپنے شور سے ایسے کیا ہوا تھا جیسے انڈیا پاکستان کا ورلڈکپ میں فائنل چل رہا ہو اور آخری گیند پر پانچ رنز کی ضرورت ہو شاہد آفریدی چھا لگا دے مگر شور کی آواز اسی قدر تھی مگر ادھر ادھر کے حلات میں فرق تھا ادھر خوشی کا شور تھا ادھر بےعزتی کا جو گھر کی عام سی نوکرانی نے انھیں یہ بول کر کی ہے کہ صاحب ابھی اندر نہ جائیں ابھی پوچا لگایا ہے فرش گیلا ہے آپ گر جائیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *