تیل کے کنوؤں پر کھدائی کے آلات کو سپورٹ کرنے والے لکڑی کے پہلے سٹرکچر کوڈیرک کہا گیا۔ اس کا لفظی مطلب گیلوز ہے جو پھانسی دینے کے لیے استعمال ہو نے والا آلہ تھا۔ سترہویں صدی کے ایک انگریز جلاد ڈیرک کی نسبت سے گیلوز کو بھی ڈیرک کہا جاننے لگا-
گیلوز یا سولی کی طرح آئل ڈیرک میں لکڑی کے موٹے موٹے بھالے استعمال ہوتے تھے جوڈرلنگ کے آلات کو سہارا دیتے۔ آئل ڈیرک کی ضرورت اس وقت پیدا ہوئی جب زمین میں تیل کی موجودگی اور اس کی افادیت کا پتہ لگا لیا گیا۔ اگر چہ قدیم لوگوں کو بھی تیل کی جلنے کی خصوصیات کا علم تھا لیکن ڈیرک کی تیاری سے پہلے تیل صرف انہی مقامات سے نکالا جاتا تھا جہاں وہ خود ہی قدرتی طور پر سطح تک آ جاتا ۔تیل کئی سو سال تک لالٹینوں میں بطور ایندھن استعمال ہوتا آیا ہے۔ درحقیقت چینی لوگ چوتھی صدی عیسوی سے ہی تیل کا استعمال جانتے تھے لیکن 1850 ء کی دہائی میں بھی اسے نکالنے کا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا جا سکا تھا
آخر کار ایڈورڈ ڈریک نے حل پیش کیا.1859 ء میں اس نے ایک ڈیرک اور سٹیم انجن کی طاقت سے چلنے والی ڈرل (ڈرل۔برما ) بنائی اور پنسلوانیا میں ایک مقام پر مٹی کا تجربہ شروع کر دیا- آگے بڑھنے کا عمل بہت سست تھا اورڈیرک کو سرمایہ فراہم کرنے والے افراد کا صبر جواب دے گیا۔ انہوں نے ایک خط لکھ کر اسے ساری تحقیق ترک کر دینے کا کہا۔ لیکن ان دنوں ڈاک کا نظام سست تھا لہذٰا ڈریک نے کام جاری رکھا
ایک موقع پر اس نے 69 فٹ گہرائی تک ڈرلنگ کرلی اور ان کا کام ختم ہی کرنے والا تھا کہ ڈرل ایک زیرِ زمین دراڑ میں میں گر گئی۔ اگلے روز اس کا ایک مزدور ڈرل کو چیک کرنے گیا ۔ اس نےسوراخ میں ہی رہ جانے والے پائپ کے اندر سے نیچے دیکھا۔ پائپ کے بالائی سرے پر تیل تھا۔ ڈریک نے تیل نکال لیا تھا ۔ ایک نئی صنعت نے جنم لیا۔ ڈریک کی دریافت کے چند سال بعد امریکہ کی آئل انڈ سٹری تیزی سے ترقی کر رہی تھی ۔ ہرطرف لکڑی کے آئل ڈیرک نظر آنے لگے۔ اس دور سے لے کر بیسویں صدی کی ابتدا تک کچھ کنوؤں میں ڈرلنگ دستی برمے کے ذریعہ ہی کی جارہی تھی لیکن آئل ڈ یرک اسی وقت استعمال کیا جا تاجب وزنی ڈرل سوراخ میں نیچے گر پڑتی۔ ڈرلنگ کا عمل اس وقت تک جاری رہتا جب تک تیل نہ مل جاتا۔ کچھ سال بعد ڈرلنگ کے نئے نئے طریقے سامنے آنے لگے۔ طاقتور لکڑی کے ڈیرک آلات کو سہارا دیتے اور سوراخ کو گہرائی تک لی جانے کے قابل بناتے۔ زمین سے تیل کے باہر نکلنے کا پریشر جتنا زیادہ ہوتا تیل کا ذخیرہ بھی اتنا ہی وسیع ہوتا۔ 1910 میں تو ڈرلنگ کے نتیجے میں تیل کا ایک زبردست فوارہ چھوٹ نکلا۔ اس کے نتیجے میں 18 ماہ سے زائد عرصہ میں 90لاکھ بیرل تیل بہہ گیا۔ بیسویں صدی میں دھات کے آئل ڈیرک بنائے جانے لگے اور اس کا بجلی سے چلنے والابازو آہستہ آہستہ اوپر نیچے حرکت کرتارہتا۔ اس طریقہ سے آئل کو زمین سے باہر پمپ کرنا ممکن ہو گیا
آئل ڈیرک کی قسم چاہے کوئی بھی ہو لیکن اصول وہی ہے زمین کی تہ میں موجود تیل کوریفائن کرنے کے لیے تیز اور موثر ترین طریقے سے سطح تک لانا ۔ انسانوں نے تیل حاصل کرنےمیں زبردست مہارت اور کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف امریکہ میں ہی تیل کی صنعت کی 80 ہزار کمپنیاں ہیں جن میں تین لاکھ سے زائد مزدور کام کرتے ہیں۔ امریکہ کی 52 میں سے تیس ریاستوں میں تیل کے ذخائر دریافت کیے گئے۔
آئل ڈیرک کے نتیجے میں جنم لینے والی تیل کی صنعت ہمارے دور میں بے انتہا اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ 1990ء میں خلیج کی جنگ اور 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کا بڑا اور بنیادی مقصد تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہی تھا۔ مستقبل میں تیل کی وجہ سے مزید جنگوں کا خطرہ ہے ۔ لیکن بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور کرۂ ارض کے تیزی سے گرم ہونے کا عمل سائنسدانوں کو تیل کا کوئی ایسا متبادل تلاش کرنے پر بھی مجبور کر رہا ہے جوفضا کو آلودہ نہ کرے اور ساری انسانی نسل بہتر آب و ہوا میں زندہ رہ سکے ۔لیکن تیل کا دوراتنی جلدی ختم ہونے والانہیں ۔